موسمی تبدیلیوں کے خطرات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

موسمی تبدیلیوں کے خطرات ان ممکنہ خطرات کو کہا جاتا ہے جو موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مختلف حالتوں، آفات اور صورتوں سے لاحق ہو سکتے ہیں۔

عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس، آئی پی سی سی اور ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن متفق ہیں کہ موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔

عام نقصانات[ترمیم]

دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق دنیا میں 26 ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050ء تک 500 سے 600 ملین لوگ مزیدہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید دیگر خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔

چار بڑے خطرے[ترمیم]

طبی جریدے سائنس کے مطابق

  • موسمی تبدیلی،
  • بعض جانوروں کی نسلوں کی معدومیت،
  • زمین کے استعمال میں تبدیلی اور
  • نامیاتی کھادوں کے باعث پید اہونے والی آلودگی

جیسے چار عوامل سے انسانیت خطرے کے زون میں داخل ہو چکی ہے۔

عالمی انسانی وجوہات[ترمیم]

سائنس دان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدا ر کا فضا میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلہ، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔ کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70 فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔

دیگر یہ کہ عوام بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں

  • جنگلات کی بے دریغ کٹائی،
  • جنگلات کے رقبہ میں آگ،
  • بلند و بالا عمارتیں،
  • برھتی ہوئی آبادی،
  • گاڑیوں کی بہتات
  • وغیرہ

شامل ہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں زیر بحث آ چکے ہیں،

عالمی برادری ان خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے آج یعنی 17اپریل 2016ء کو مل بیٹھ کر امن و سیکورٹی پر ماحول کی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔

اس اجلاس میں 55 ممالک کے ماہرین، سفارتکارا ور سیاست دان بیٹھیں گے اور حتمی نتائج اخذ کر کے آمدہ خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ۔

ماہرین کے مطابق 1920ء سے عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں 1.9ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں برف پگھلنے سے ڈیم بھر رہے ہیں، نئی جھیلیں بن رہی ہیں اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی آئی پی سی سی کے مطابق بڑے پیمانے پر پانی ضائع ہو رہا ہے۔

برصغیر کو لاحق خطرات[ترمیم]

برطانیہ کے نجی ادارے ویرسک میل کرافٹ ورسک میل کرافٹ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کے متعدد شہر موسمی تبدیلی کے باعث خطرہ میں ہیں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 1.4ارب انسانوں کو سیلاب، زلزلہ کا سامنا ہے، قدرتی آفات سے اپنے بچاؤ کی صلاحیت کی کمی کے باعث پاکستان کی 70 فیصد بھارت کی 82 فیصداور بنگلہ دیش کی 100 فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستان[ترمیم]

پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثراث چند برسوں سے واضح ہونے کے باوجود اس حساس اور سنگین مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں، اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ ویب آف سائنس کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ کی روانی کے ضامن بھی ہیں۔

پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے سربراہ آصف انعام کی تحقیق کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے زیر آب آ چکے ہیں جبکہ 2050ء تک سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین پانی میں ڈوب چکے ہوں گے۔

ماہرین ماحولیات متعدد مرتبہ اس خدشہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ کے باعث 2060ء تک دو کروڑ سے زائد آباد ی کا شہر کراچی زیر آب آ سکتا ہے، سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ زیر زمین پانی میں کمی خشک سالی، سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ متعد د گھرانے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

مستقبل میں موسمی تبدیلیوں کی ہولناکی سے لاکھوں خاندان ایسے ہی خطرات سے دوچار ہوں گے۔ صنعتی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز چین اور بھارت کے درمیاں میں واقع ہونے کے باعث پاکستان گوناگوں ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں، پانی کے بحرا ن میں مبتلا اس ملک کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریاؤں، ندی، نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آباد ی 2050ء تک تین سو ملین سے تجاوز کرچکی ہو گی۔ اس بڑھتے ہوئے ملک کو لاحق موسمی خطرات کا اندازہ چینی گیٹ وے، پاسو کی طرح پگھلتے گلیشئرز سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں 20 برس قبل برف تھی آج بہت سے حصے خالی ہیں۔

ماہرین 2015ء میں پاکستان کی سینٹ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو آگاہ کر چکے ہیں کہ آمدہ عشروں میں پاکستان کے شمال اور جنوب میں درجہ حرارت میں تین تا پانچ ڈگری اضافہ ممکن ہے جس کے نتیجے میں بھیانک تباہی ہو سکتی ہے۔ مگر اس ملک کی حکومت بظاہر ماہرین کے انتباہ کو خاطر میں نہیں لائی ہے۔ غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی، لینڈ سلائیڈنگ، زلزلے، زیر زمین پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک کمی، پگھلتے ہوئے گلیشئرز، موسمی تبدیلیوں کی واضح علامات ہیں مگر دنیا جس مسئلہ کو دہشت گردی سے بڑا قرار دے چکی ہے، اس پر پاکستان میں بات ہی نہیں ہو رہی جو اس ملک کا قومی المیہ ہے۔

مآخذ[ترمیم]

ڈاؤن نیوز میں ابرار حیدر کے مقالہ سے اقتباس