مولانا عبد الغنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا عبد الغنی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1940ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 2011ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم حقانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ عبد الحق   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت علامہ عبد الغنی رحمة اللہ علیہ نے 1940 سنہ بمطابق 1358 ہجری میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولے، ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگ حاجی میر عالم صاحب سے حاصل کیا، مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک کے مختلف مدارس وجامعات کا رُخ کیا اور بہت سے جید وممتاز علما کرام سے استفادہ کیا، اپنے علمی سلسلہ کے آخری مرحلہ طے کرنے کے لیے ملک کے معروف تعلیمی ادارہ جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پشاور میں استاذ العلماء حضرت مولانا عبد الحق نور اللہ مرقدہ کے تلمُذ کا شرف حاصل کیا۔

علامہ شہید کا علمی سلسلہ[ترمیم]

اور دورہ حدیث کے سالانہ امتحان میں ممتاز نمبروں کیساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی۔

فراغت کی بعد درس وتدریس کو اپنا مشغلہ بنایا، اپنے دور کے جامع الاوصاف اور جید علما کرام میں آپ کا شمار ہونے لگا اللہ تعالی نے بے مثال حافظہ او بہتری خداد  صلاحیتوں سے نوازا تھا ؛ خصوصاً حدیث وفقہ تو آپ کا طرہ امتیاز تھا جس کا مُنہ بولتا ثبوت آپ کی کثرت اور دور دراز علاقوں تک عوام وخواص کا مرجع او معاشرہ میں انتہائی مشہور اور مقبول ہونا تھا۔

اس کے علاوہ آپ کو متعدد علوم وفنون پر دسترس حاصل تھا، اسی خاطر علامہ شہید جیسی عظیم صفت سے موسوم ہونے لگا احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت کہ اور ان کیساتھ مہارت اَوج سے مِل رہا تھا۔

احادیث کے پڑھانے کے لیے جب مسند حدیث پر تشریف فرماتے تو اس وقت تک کتاب پر نظر نہیں ڈالتا جب تک گھنٹوں اور مسلسل تحقیق سینکڑوں تلامذہ اور عُشاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی مؤثرانہ اور فصیحانہ انداز  میں پیش نہ کرتا۔

علامہ شہید ؒ کے بارے ہم علما کے یہ نظر ایک مُسلم حقیقت ہے کہ ہم عصروں کے درمیان کچھ نہ کچھ تعصُب وخودبینی ہوا کرتا ہے ؛ لیکن حضرت علامہ شہید وہ شخص تھا کہ اس حقیقت کا تصور آپ کے بارے وجود میں آنے سے قاصر تھا۔

علامہ شہید دوسروں کی نظر میں[ترمیم]

موجودہ دور میں عالم اسلامی سطح پر یگانہ دہر حضرت مولانا محمّد تقی عُثمانی صاحب اور ملک کی مشاہیر علما کرام اور شیوخ آپ کے بارے میں بہت عظیم شخصیت نے سمجھا۔

اور دیگر شیوخ عظام کے طرف سے آپ کو جبل العِلم اور دیگرالفقیہ الاکبر اور دیگر شیخ خُراسان سے اور دیگر دوسری عُمدہ القاب سے نوازا کیا تھا۔

علامہ کا حلیہ مبارکہ[ترمیم]

حضرت علامہ حسین پلکوں، حسین آنکھوں اور کشادہ پیشانی نے آپ کو امتیازی جلا بخشی تھی، چاندی جیسی داڑھی، سُنہری چہرہ، درمیانہ قد نے بے مثال بنایا تھا۔

فصیحانہ اور عام فہم کلام کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیا تھا۔

کانوں تک پہنچی والی زلفوں سے سُنت نبوی  ؐکا یاد دلا تھا، چلنے کا عجب انداز اپنایا جو سو فیصد تکبر وخودبینی سے خالی ہوا کرتا، کسی کو متوجہ ہوتا تو صرف سر پھیرنے کی بجائے ہمہ تن متوجہ ہوتا جس کی وجہ سے کسی کو آپ کو برابر نظر کرنے کی صلاحیت نہ ہوتا۔

سفید پگڑی کو ہمیشہ لباس کا حصہ بناتا، کسی سے ملنے کے وقت چہرے پر مسکراھٹ کانمودار کر کے دِل جوئی کا اظہار کرتا رہا۔

علامہ شہید کا علمی خدمات[ترمیم]

جامعہ اکوڑہ خٹک پشاور میں مولانا عبد الحق حقانی صاحب کے ہاں سند فراغت کے بعد علمی میدان کا شہسوار بنا اور اللہ تعالی نے مسائل حل کرنے میں عجیب ملکہ اور شرح صدر سے مالا مال کر کے، اسلاف کا یادگار چھوڑا۔

ایک مرتبہ آپ سے کسی مسئلہ کے بارے دریافت کیا گیا، مسئلہ یہ تھا کہ ایک آدمی نے آپنے بیوی سے یوں کہا اگر تم نے وضوء کیا تو تجھے طلاق مسئلہ حل کرنے کے لیے اور طلاق نہ ہونے کے لیے حضرت علامہ صاحب نے ایک عجیب اور حیران کن تدبیر سو جھی وہ یہ ہے کہ عورت کو بُلا لی اور اپنے حضور میں اس سے وضوء کرانے کا کہا اور اس عورت نے وضوء بنایا تو آپ نے کہا کہ وضوء ہوگئ ؛ لیکن طلاق واقع نہ ہو گی کیونکہ  یہ ایک ایسا وضوء ہے جو شرعی طریقہ کے مطابق نہیں اور شوہر نے عورت سے کامل اور شرعی وضوء کا کہا تھا، تو آپ نے اس جیسی پیچدہ مسائل حل کر قوم کاراہنمائی کرتا رہا۔

اپنے قوم وعلاقے والوں کی صحیح راہ نمائی کے خاطر آپ نے ایک فقہی مجلس کا انعقاد فرمایا جس میں خطے کے جید علما آپ کے سربراہی میں درپیش پیچدہ مسائل کا حل نکالتا۔

حضرت علامہؒ کے بعد کیا رہ گیا ؟[ترمیم]

حضرت علامہ صاحب کا مشن اور علمی خدمات آپ کے زندگی تک محدود نہ رہا، بلکہ ایسے با استعداد تلامذہ چھوڑ کرگئے جو ہر ایک آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے درپے شب و روز ایک کر کے محنت جاری رکھا ہے۔

خصوصاً آپ کا فرزند حضرت مولانا محمّد یوسف آپ کے تمام تحریکات کے لیے محرک بنا اور آپ کے دورہ حدیث نبیؐ کے تمام اسباق کو سی ڈی میں جمع کر فائدہ برائے علما کے لیے شائع کردی اور آپ کے درسی تقاریر کو ترتیب دیکر چار جلدوں میں بخاری شریف کا شرح تیار کرنے کی عزم کیا، یہ (شرح صحیح البخاری للعلامہ عبد الغنی) کے نام سے موسوم ہوگا اور آپ کے جاری خدمات میں سے عظیم خِدمت کُوہ کوژک کی دامن میں شرعی علوم سے آباد ایک دینی ادارہ بھی ہے جس میں ایک عظیم جامع مسجد آپ ہی کے حیات میں تعمیر ہوا اور اس ادارہ میں بیک وقت گوناگون خدمات وفنون سے شائقین مستفید ہورہے ہیں، ظاہری ومعنوی لحاظ سے ایک آباد اور خطے میں بے مثال اور لوگوں کا مرجع ادارہ ہے۔

علامہ صاحب ؒ کے تلامذہ[ترمیم]

آپ کے بے شمار تلامذہ آپ کے معتبر شخصیت کا واضح دلیل ہے، چھ ہزار کے لگ بھگ تو وہ قابل ذکر تلامذہ ہے جنھوں نے براہ راست آپ سے حدیث سُن کر سند فراغت حاصل کیا آپ کے برکت سے آپ کے اِن تلامذہ کا شمار بہت کم ہے جن سے کوئی دینی کام لیا گیا ہو یہ آپ کے فیوضات اور برکات کا کامیاب نتیجہ ہے۔

علامہ صاحب ؒ کے شہادت[ترمیم]

حضرت علامہ صاحبؒ 2011 ع بمطابق 1433 ھ بروز بدھ بوقت صبح نو بجے گھر سے اپنے علمی ٹھکانے (ادارے) کے طرف جانے کے دوران باوضوءہا تھ میں بخاری شریف ایک ٹریفک حادثہ میں جان جان آفرین کو سپر دکیا جام شہادت نوش فرماتے ہوئے ہی، اندرون وبیرون ملک میں آپ کے شہادت کا خبر پھیل گیا، مدارس وجامعات میں شروع اسباق رُک گئے، اکثر علما، طلبہ اور دیندار عوام آپ کے جنازہ میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے، آپ کے نماز جنازہ میں لاکھوں تعداد میں لوگوں نے شرکت کر کے آپ کو سپرد خاک کیا اور نماز جنازہ شیخ حافظ محمّد یوسف صاحب نے پڑھائی۔[1]

اللّہُمّ بعفوک اجعل الجَنَّة مثواہُ آمین .

علامہ صاحب کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی ہے اس کے PDF مندرجہ ذیل میں ڈانلوڈ کریں ![2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "wikipedia.org"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "pdf" (PDF) [مردہ ربط]