مندرجات کا رخ کریں

جے این یو پر حملہ،2020ء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(2020 جے این یو حملہ سے رجوع مکرر)
جے این یو پر حملہ،2020ء
مقامجواہر لعل نہرو یونیورسٹی تعديل على ويكي بيانات
تاریخ5 جنوری 2020ء (2020ء-01-05)
Between 7–10 PM (IST)
ہلاکتیںNone
زخمی39[1]
متاثرینجے این یو کے طلبہ اور اساتذہ
مرتکبینMembers of اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد[2]
حملہ آور50–70
تحقیقongoing
مجرم0
جے این یو پر حملہ،2020ء is located in دہلی
جے این یو پر حملہ،2020ء
دہلی میں جے این یو کا جائے وقوع

5 جنوری 2020ء کو 50 نقاب پوش غنڈے اپنے ہاتھوں میں لاٹھی، سرئیے اور تیزاب لیے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کیمپس میں گھس آتے ہیں اور فیس کی زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے اساتذہ اور طلبہ پر حملہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔[1][5] 39 سے زائد لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔ کئی طلبہ کو شدید طور پر زخمی ہوئے۔[6] ان غنڈوں نے بیچ بچاو کرنے والے اساتذہ اور پروفیسروں کو بھی نہیں بخشا یہاں تک کہ مریضون کو لے جانے والی ایمبولینس پر بھی لاٹھیاں برسائیں۔ چشم دیدوں کا کہنا ہے کہ کیمپس کے اندر اور باہر موجود تھی مگر انھوں نے نا تو زخمی طلبہ کی مدد کی اور نہ ہی غنڈوں کو روکنے کی کوشش کی۔[6][5][7] شر پسندوں نے گہوارہ امن و تعلیم میں تین گھنٹے دہشت و بربریت کا کھیل کھیلا، ہاسٹل کے کمروں میں گھس کر لوگوں کو مارا پیٹا اور بہت آسانی سے کیمپس سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ لوگ پولس کے سامنے سے جا رہے ہیں مگر نہ تو انھیں روکا گیا اور نہ ہی گرفتار کیا گیا۔[6][5][7] کل 36 زخمی تھے جنہیں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، نئی دہلی (ایمس) میں داخل کیا گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر انھیں چھٹی دے دی گئی۔[8]

چشم دید گواہوں، زخمی طلبہ، بایا بازو تنظیموں اور حزب مخالف پارٹیوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طلبہ کی یونین اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد کو تمام تر واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اے بی وی پی ہندو قوم پرست کی یونین ہے اور انھوں نے ابتدا میں تو کسی بھی طرح کی شمولیت اسے انکار کیا۔[5][9][10][11][6] لیکن 6 جنوری 2020ء کو اے بی وی پی کے رکن انامیکا سونکر نے ایک ٹی وی چینل پر اقرار کیا کہ ویڈیو میں دکھائے جانے والے غنڈوں میں سے دو اے بی وی پی کے رکن ہیں۔[12][13] دوسری جانب پولس کا کہنا ہے کہ حملہ آور غنڈوں میں 3 کی شناخت کرلی گئی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے مگر تا حال کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔[14] 15 جنوری 2020ء کو پولس نے ویڈیو میں نقاب پوش خاتون کی شناخت ایک اے بی وی پی کے رکن کے طور پر کر لی ہے۔[2] پولس نے ان خاتون اور دو مردوں کر نوٹس جاری کر دیا ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ تینوں نے اپنے فون بند کرلئے ہیں اور ان تک فی الحال پہنچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[2] 15 جنوری تک پولس نے کوئی گرفتاری نہیں کی۔

پس منظر

[ترمیم]

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی میں واقع ہے اور یہ بھارت کی بہترین ہونیورسٹیوں میں سے ہے۔ یہاں کے طالبعلموں میں ہمیشہ احتجاجی رنگ رہا ہے۔ یہ کے طلبہ اور اساتذہ اکثر قومی سطح کے مسائل پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی حالات پر ان کی نظر رہتی ہے۔ یہ یونیوسرٹی ملک کی سب سے پر امن یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔ جے این یو ہمیشہ طلبا فعالیت پسندی میں پیش پیش رہی ہے۔ یہاں فعالیت پسندی کی اپنی تاریخ ہے۔[11] دسمبر 2019ء سے ہی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے میں شریک رہی ہے۔[15][16] اس سے قبل 12 نومبر کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ہوسٹل فیس میں اضافہ کا اعلان کیا تھا اور اگر ایسا ہوا تو جے این یو بھارت کی سب سے مہنگی یونیورسٹی بن جائے گی۔[17] فیس میں اضافہ کے خلاف 28 اکتوبر سے یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کر رہے تھے۔[18][19][20][21] احتجاج کے دوران میں طلبہ نے فائنل سیمیٹر امتحانات کا بائیکاٹ کیا۔ احتجاج کا نتیجہ رہا ہے انتظامیہ نے اپنے فیصلہ میں کچھ نرمی برتتے ہوئے ان طلبہ کو سہولت دی جن کا خاندان شرح غربت کے نیچے اندگی گزار رہے ہیں اور جنہیں کوئی وظیفہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ طلبہ اس فیصلہ سے خوش نہیں ہوئے اور انتظامیہ پر دباو ڈالنے کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھا۔[22][23][24][25] اضافی فیس کے ساتھ نئے سمیسٹر کا آغاز 1 جنوری سے ہونا تھا۔

1 تا 4 جنوری کے درمیان میں کے واقعات

[ترمیم]

5 جنوری 2020ء کو جے این یو انتظامیہ نے جے این یو ایس یو کی سربراہ آئیشی گھوش اور 19 دیگر افراد پر دو ایف آئی آر درج کرائی۔[26] پہلی ایف آئی آر جے این یو کے سیکیورٹی گارڈز پر حملہ کرنے کے لیے اور سرور روم میں توڑ پھوڑ کرنے کے لیے کی گئی۔[27][28] دوسری ایف آئی آر 1 جنوری کو ہوئے واقعات پر کی گئی۔[26]

5 جنوری

[ترمیم]

ایک پروفیسر کی خبر کے مطابق تقریباً 50 اساتذہ اور 200 طلبہ ہاسٹل کی اضافی فیس کے خلاف کچھ گفتگو کر رہے تھے اور عین اسی وقت نقاب پوشوں کا حملہ ہو گیا۔[11] یہ حملہ اضافی فیس کے خلاف آواز اٹھانے پر ہوا تھا تاکہ اس کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرے۔ جے این یو کا احتجاج اضافی فیس کے ساتھ ساتھ شہریت ترمیم قانون کے خلاف بھی تھا اور [[جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولس کے حملہ [29] کے بعد جے این یو کے طلبہ نے بھی پولس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔[11]

حملہ

[ترمیم]

5 جنوری شام 7 بجے یونیورسٹی کیمپس میں ایک درجن نقاب پوش غنڈے بشمول 2 لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے، ہتھوڑے، تیزاب اور اینٹ لے کر دندتاے ہوئے گھس آئے اور احتجاج کر رہے طلبہ اور اساتذہ کر حملہ کر دیا جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ان غنڈوں نے ہاسٹل کا رخ کیا اور جو چیز سامنے آئی اسے توڑتے پھوڑتے گئے۔ کمروں کے دروازے توڑ کر گھس گئے، کتابوں، الماریوں، لیپ ٹاپ وغیرہ کو تباہ کیا اور دہشت کا یہ سلسلہ 3 گھنٹوں تک جاری رہا۔ وہ لوگ ایک ہاسٹل کے بعد دوسرے ہاسٹل میں گھستے رہے اور بربریت کا کھیل کھیلتے رہے۔[30] وہ طلبہ کو نیکسلائٹ اور قوم مخالف کہ کر مار رہے تھے۔[5][9] دہشت گردی کی علامے بن چکا نعرہ جے شری رام کو وہ زور زور سے پکار رہے تھے اور پورے یونیورسٹی میں خوف و دہشت کا ماحول تھا جہاں اس نعرے کے ساتھ ساتھ خوف و ہراس کی چیخ سنائی دے رہی تھی۔[9]

چشم دیدوں کا کہنا ہے کہ غنڈوں نے کھڑکیاں توڑ دیں اور طبی سہولیات پر حملہ آور ہوئے۔[9] اس پورے معاملہ میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو نریندر مودی کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ نویندر مودی کے خلاف آواز اٹھانا گویا ہندو مذہب کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ماضی میں بھی کئی بار ظلم و تشدد کے واقعات ہو چکے ہیں۔ کچھ طالبعلموں نے حملہ سے بچنے کے لیے خود کو کمروں میں مقفل کر لیا۔[9]

سب سے زیادہ تشدد سابرمتی ہاسٹل میں کیا گیا جس میں تقریباً 400 طلبہ قیام پزیر ہیں۔ دو طلبہ نے حملہ کے خوف سے پہلی منزل سے چھلانگ لگادی جس سے ان کا پیر ٹوٹ گیا۔[30] ہاسٹل کو بری طرح سے تباہ کر دیا گیا۔ کرسیاں اور ٹیبل توڑ دیے گئے اور جو ملا اس کو زخمی کر دیا۔ حملہ آور ان زخمیوں کے طبی فراہم کرنے سے بھی روک رہے تھے۔[30] حملہ میں کل 39 طلبہ اور اساتذہ زخمی ہوئے۔[1][31][30]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ
  2. ^ ا ب پ
  3. Sidhant Mamtany (6 جنوری 2020)۔ "'Mob attacked women inside JNU campus with acid'"۔ indiatvnews.com (بزبان انگریزی)۔ 7 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2020 
  4. "JNU Violence Live Updates: JNU V-C says attack originated from attempt to stop student registration"۔ India Today۔ 6 جنوری 2020۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ "Masked Mob Attacks JNU; Around 40 Including Students, Teachers Injured"۔ NDTV.com۔ 5 جنوری 2020۔ 5 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2020 
  6. ^ ا ب پ ت
  7. ^ ا ب "Live updates – Masked goons strike terror in JNU"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ 5 جنوری 2020۔ 5 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2020 
  8. ^ ا ب پ ت ٹ Kai Schultz، Suhasini Raj (5 جنوری 2020)۔ "Masked Men Attack Students in Rampage at University in New Delhi"۔ The New York Times۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  9. Amrit Dhillon (6 جنوری 2020)۔ "Students protest across India after attack at top Delhi university"۔ The Guardian۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  10. ^ ا ب پ ت "Indian students rally after campus attack"۔ BBC۔ 6 جنوری 2020۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  11. JNU Violence: Masked, Armed ABVP Members Identified آرکائیو شدہ 8 جنوری 2020 بذریعہ وے بیک مشین، The Wire, 7 جنوری 2020. "On جنوری 6, amid animated arguments on a primetime show of the English news channel Times Now, Akhil Bhartiya Vidyarthi Parishad or ABVP’s Delhi joint secretary Anima Sonkar admitted to her organisation’s role in the violence unleashed on the students and faculty members of the Jawaharlal Nehru University (JNU) campus in Delhi on جنوری 5."
  12. "Complete picture to unmask ASSAILANTS; Who's behind JNU rampage?"۔ ٹائمز ناؤ۔ 6 جنوری 2020 
  13. "Anti-CAA protest: Students from universities across Delhi, activists and citizens join مارچ"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ New Delhi۔ 24 دسمبر 2019۔ 28 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  14. "Don't make CAA protest only about Jamia, AMU, JNU: JNUSU president"۔ Business Standard India۔ 17 دسمبر 2019۔ 25 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  15. "Post fee hike, JNU to be India's most expensive central university: Students to shell out Rs 62k per year for single room"۔ Firstpost۔ 17 نومبر 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  16. "JNU protests: What is the hostel fee hike that students are protesting?"۔ The Indian Express (بزبان انگریزی)۔ 2020-01-06۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  17. JNU: Indian university rolls back hostel fee hike after protests آرکائیو شدہ 14 نومبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین، BBC News, 13 نومبر 2019.
  18. JNU: Protesters bring top India university to its knees آرکائیو شدہ 27 نومبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین، BBC News, 22 نومبر 2019.
  19. As India's JNU protests fee hike, poor students fear for future آرکائیو شدہ 18 دسمبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین، Al Jazeera, 20 نومبر 2019.
  20. "JNU cuts hostel fee hike partially for some BPL students"۔ Rediff (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2020 
  21. Fee Hike Protests: JNU Inches Towards Institution-Wide Final Semester Exam Boycott آرکائیو شدہ 4 دسمبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین، The Wire, 3 دسمبر 2019.
  22. Kaniat Sarfarz (29 دسمبر 2019)۔ "JNU protest 2019: After exam boycott, uncertainty over next semester registration"۔ The Hindustan Times۔ 8 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2020 
  23. "Attack in JNU campus: 'Students wanting registration beaten up by those opposing it'"۔ The Hindu۔ 6 جنوری 2020۔ 10 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2020 
  24. ^ ا ب "As JNU Student Leader Was Bleeding, 2 Cases Against Her Within 4 Minutes"۔ NDTV.com۔ 7 جنوری 2020۔ 7 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2020 
  25. Swati Bhasin (7 جنوری 2020)۔ "JNU Violence Live Updates: "Occupy Gateway" Protest In Mumbai Called Off"۔ NDTV۔ 7 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2020 
  26. Saurabh Trivedi (7 جنوری 2020)۔ "FIR against JNUSU president Aishe Ghosh, 19 others for attacking security guards"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ 7 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2020 
  27. en:Citizenship Amendment Act protests#Jamia Millia Islamia
  28. ^ ا ب پ ت "2 JNU Students Jumped From 1st Floor To Escape Mob, Suffered Fractures"۔ NDTV.com۔ 6 جنوری 2020۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020 
  29. "Goons in masks block ambulance at JNU"۔ telegraphindia.com (بزبان انگریزی)۔ 6 جنوری 2020۔ 6 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2020