ابن عنین
ابن عنین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 9 اکتوبر 1154ء دمشق |
وفات | 4 جنوری 1233ء (79 سال) دمشق ، ایوبی خاندان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
درستی - ترمیم |
ابن عنین – ابوالمحاسن شرف الدین محمد بن نصر (پیدائش: 19 اکتوبر 1154ء – وفات: 4 جنوری 1233ء) بلاد الشام سے تعلق رکھنے والا ایک عربی شاعر تھا جو نامور مسلم سلطان صلاح الدین ایوبی کے عہد میں عربی ادب کے ممتاز ترین شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ابن عُنَین اپنی ہجوگوئی کے باعث عربی ادب کے ہجوگو شعرا میں بھی شمار ہوتا ہے جس کا عہدبارہویں صدی عیسوی اور تیرہویں صدی عیسوی کے وسطی سالوں تک محیط ہے۔
سوانح
[ترمیم]نام و نسب
[ترمیم]ابن عُنَین کا نام محمد بن نصر تھا جبکہ لقب ابوالمحاسن اور خطاب شرف الدین تھا۔ نسب یوں ہے: محمد بن نصر بن علی بن محمد بن غالب الانصاری۔
پیدائش
[ترمیم]ابن عنین کی پیدائش 9 شعبان 549ھ مطابق 19 اکتوبر 1154ء کو دمشق میں ہوئی۔
تعلیم
[ترمیم]ابن عنین نے دمشق کے ممتاز اساتذہ سے رسمی تعلیم حاصل کی ۔
شاعری
[ترمیم]ابن عنین نے حصولِ تعلیم کے بعد مختلف لوگوں کے خلاف دلچسپ ہجویہ قصائد لکھنے شروع کردیے۔ اُس کی ہجو نگاری سے سلطان صلاح الدین ایوبی بھی محفوظ نہ رہ سکا جس نے اُس وقت شہر دمشق پر قبضہ کر لیا تھا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہجویہ قصائد اور ہجونگاری کے سبب ابن عُنین کو دمشق چھوڑنا پرا اور وہ تجارتی کاروبار کے تعلق سے عراق، آذربائیجان، خراسان، ماوراء النہر اور ہندوستان تک جانا پڑا۔ پھر واپسی پر وہ یمن چلا گیا جہاں اُس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی طغتگین کے ہمراہ کچھ وقت گزارا۔ بعد ازاں ابن عنین مصر چلا گیا اور وہاں سے593ھ مطابق 1197ء سے قبل وطن کی یاد آنے پر مجبوراً اُس نے سلطان ملک العادل کی خدمت میں منظوم درخواست لکھ کر دمشق واپس جانے کی اجازت طلب کی ۔ آخرکار اجازت مل جانے پر وہ دمشق کی جامع اموی کی زیارت کے سلسلے میں 597ھ مطابق 1210ء میں دمشق پہنچا۔ اُس وقت ملک العادل کا بیٹا الملک المعظم عیسیٰ ، والیٔ دمشق تھا۔ اُس نے ابن عنین کی خوب آؤ بھگت کی اور اُسے اپنا وزیر اور منظور نظر بنا لیا۔[1][2]
تصانیف
[ترمیم]تذکرہ نگاروں کے مطابق ابن عنین نے ان درید کی کتاب جمہرۃ اللغۃ کی تلخیص بھی کی تھی لیکن اب یہ تلخیص ناپید ہے اور کہیں بھی اِس کا کوئی نسخہ موجود نہیں۔علاوہ ازیں التاريخ العزيزي في سيرة الملك العزيز جس کا موضوع سلطان الملک العزیز کی سوانح اور اُس کے عہد کے کارہائے نمایاں تھا اور یہ کتاب بھی اب معدوم ہے۔[3]
شاعری
[ترمیم]ابن عنین کی شہرت کا دارومدار اُس کی شاعری پر ہے۔ اُس نے بڑے آدمیوں، قاضیوں، فقہا اور واعظین کو بھی ہنسی مذاق، تمسخر اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے یہاں تک کہ خود اُسے زندقہ سے متہم ہونا پڑا۔اُس کی ہجو اپنی ذات، اپنے باپ، بعض اکابر حتیٰ کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بھی نہایت تندوتیز تھی۔ اُس کے مدحیہ قصائد بہت خوب ہیں جبکہ ہجویات منطقی قسم کی ہیں۔ وطن کی یاد اور اُس سے محبت بعض مشہور قصائد سے نمایاں ہوتی ہے جن کا موضوع دمشق اور اُس کے مضافات ہیں، اِس لیے کہ دمشق کے علاوہ کوئی اور شہر اُس کی نظر میں نہیں جچتا تھا۔ اُس نے اپنی نظموں میں پہیلیوں، تاریخی واقعات اور شخصیات پر بھی خامہ فرائی کی ہے۔[4]
دیوان ابن عنین
[ترمیم]دراصل ابن عنین اپنے اشعار کو کتابی صورت میں جمع کرنے کا حامی نہ تھا۔اِسی لیے اُس کے اشعار جابجاء لوگوں کے پاس بکھری ہوئی شاعری کی طرح موجود رہے تاہم اُس کے ہم وطن نے اُن اشعار میں سے بعض کا مجموعہ تیار کرنے دیوان کی شکل دے دی۔ یہ دیوان 1946ء میں خلیل مردم نے دمشق سے شائع کیا۔[5]
وفات
[ترمیم]ابن عنین کی وفات 20 ربیع الاول 630ھ مطابق 4 جنوری 1233ء کو دمشق میں ہوئی۔