مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ بن واقد بن عبد اللہ بن عمر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن واقد بن عبد اللہ بن عمر
معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
رہائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت امویہ
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
والد واقد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار جده عبد اللہ بن عمر بن خطاب
عملی زندگی
طبقہ من التابعين
نسب القرشئ، العدوي، العُمَري
ابن حجر کی رائے مقبول
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد عبد اللہ بن عمر ، عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ، عائشہ بنت ابی بکر
نمایاں شاگرد ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ، عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ، ولید بن مسلم ، ابن شہاب زہری
پیشہ محدث
شعبۂ عمل روایت حدیث

عبد اللہ بن واقد بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب قرشی عدوی عمری مدنی ، آپ تابعی ، اور حدیث نبوی کے راویوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کی وفات سنہ 119ھ میں ہوئی جب کہ محمد بن سعد بغدادی کہتے ہیں: ان کی وفات ہشام بن عبد الملک کے دور خلافت میں 117ھ میں ہوئی۔

شیوخ

[ترمیم]

انہوں نے روایت کیا:

  • اپنے چچا عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر،
  • ان کے دادا عبد اللہ بن عمر بن خطاب،
  • ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا

تلامذہ

[ترمیم]

اپنی سند سے روایت کرتے ہیں:

  • ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع،
  • اسامہ بن زید لیثی،
  • سعد بن ابراہیم زہری،
  • عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم،
  • عمر بن محمد بن زید بن عبد اللہ بن عمر عمری،
  • فضیل بن غزوان ضبی،
  • محمد بن جعفر بن زبیر،
  • محمد بن مسلم بن شہاب زہری،
  • ولید بن مسلم عنبری بصری، اور
  • یزید بن محمد قرشی۔ [1]

جراح اور تعدیل

[ترمیم]

مالک بن انس نے کہا: میں نے عبد اللہ بن واقد کو دیکھا کہ ان کا ذکر ثقہ افراد کی کتاب میں ہے، اور ان سے مسلم بن حجاج ، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا ثقہ ہے ۔ ابن حجر عسقلانی نے کہا مقبول ہے ۔ تقریب التہذیب کے مصنفین نے کہا صدوق ، حسن الحدیث ہے ۔[2][3]

وفات

[ترمیم]

آپ نے 119ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. جمال الدين المزي (1980)، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، تحقيق: بشار عواد معروف (ط. 1)، بيروت: مؤسسة الرسالة، ج. 16، ص. 257،
  2. سیر اعلام النبلاء ، حافظ ذہبی
  3. تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ، جلال الدین مزی