مندرجات کا رخ کریں

محمد اسحاق سندیلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد اسحاق سندیلوی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد اسحاق حسین
پیدائش 2 فروری 1913ء
بمقام ،ضلع لکھنؤ، برطانوی ہند (موجودہ ضلع لکھنؤ، اتر پردیش، ہندوستان)
وفات 23 اکتوبر 1995ء
بمقام کراچی
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت امام اہلسنت حضرت مولانا محمد اسحاق صدیقی
مذہب اسلام
رشتے دار شمشاد حسین فاکر ،عبد الحق تمنا(برادران)
عملی زندگی
مادر علمی مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ ،ندوۃ العلماء لکھنؤ، منبع الطب کالج لکھنؤ
پیشہ سابق شیخ الحدیث و مہتمم ندوۃ العلماء،سابق نگران شعبہ دعوت والارشادبنوری ٹاؤن کراچی،تحقیق، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہلبیت، تصانیف: اظہار حقیقت‌بجواب خلافت وملوکیت،اسلام کا سیاسی نظام،مسلۂ ختم نبوت علم وعقل کی روشنی میں وغیرہم
باب ادب

محمد اسحاق صدیقی سندیلوی پاکستانی سنی عالم دین،مدرس،شیخ الحدیث،مبلغ،مورخ،محقق اور مصنف تھے۔ آپ کا تعلق شیخ صدیقی برادری سے تھا۔ شمشادحسین فاکر اور عبدالحق تمنا آپ کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ نے دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ آپ کے رشحاتِ قلم میں اسلام کا سیاسی نظام،اظہار حقیقت اور مسلۂ ختم نبوت علم وعقل کی روشنی میں مشہور ہیں۔

نام

[ترمیم]

آپ کا اصل نام محمد اسحاق حسین تھا۔ سلسلہ نسب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے اس لیے ان کو صدیقی کہا جاتا ہے۔

ولادت

[ترمیم]

12فروری 1913ء بروز چہارشنبہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔[1]

وطن

[ترمیم]

آپ کا تعلق لکھنؤ کے قریب واقع ایک قصبے سندیلہ ضلع ہردوئی سے تھا ۔ بعد میں کراچی مکین ہوئے۔

تحصیل علوم

[ترمیم]

ابتدائی تعلیم کے سلسلہ میں ندوۃ العلماء میں دو سال پڑھا۔ اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل کے لیے آپ نے مدرسہ الفرقانیہ (لکھنؤ) میں داخلہ لیا اور وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ قراءت اور مولوی فاضل کے امتحانات دیے اور پھر منبع الطب کالج لکھنؤ سے علم طب حاصل کیا۔ دو سال تقریباً آپ نے کانپور میں طبابت بھی کی۔

ندوۃ العلماء میں تدریس

[ترمیم]

1943ء میں سید سلیمان ندوی کی دعوت پر آپ ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے تدریسی خدمات سر انجام انجام دیں۔ اور پھر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر آپ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث اور مہتم بھی رہے۔

بیعت

[ترمیم]

آپ نے اشرف علی تھانوی کے دست پر بیعت کی۔ ان کے ایماء پر عیسی الہ آبادی، پھر عبد الرحمن کامل پوری اور پھر وصی اللہ الہ آبادی سے تعلق قائم کیا ۔ اشرف علی تھانوی کے دو خلفاء وصی اللہ الہ آبادی اور عبدالحئی عارفی سے مجاز بھی ہوئے۔

جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن آمد

[ترمیم]

1971ء میں محمد یوسف بنوری کی دعوت پر آپ پاکستان تشریف لے آئے اور آتے ہی محمد یوسف بنوری نے شعبہ تخصص فی الدعوة والارشاد (جس میں درس نظامی سے فارغ شدہ علما کو جو امتیازی نمبرات میں پاس ہوئے ہوں داخلہ دیا جاتا تھا اور اس شعبہ میں طلبہ کو مذاہب باطلہ سے متعارف کرایا جاتا تھا اور ان کی تردید اور دعوت و تبلیغ کے لیے ان کو تیار کیا جاتا تھا) کا نگران بنادیا۔ جس سے اس شعبہ کو چار چاند لگ گئے اور اس شعبہ میں دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ترقی ہوئی۔

تبحر و انکسار

[ترمیم]

ندوۃ العلماء میں آپ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔جب پاکستان کے لیے دستوری خاکہ تیار ہونا تھا ،تب آپ نے سیدسلیمان ندوی کے حکم پر "اسلام کا سیاسی نظام" کتاب تصنیف کی۔ سیدیوسف بنوری کے حکم پر آپ بنوری ٹاؤن تشریف لائے جہاں تحقیقی سرگرمیوں کو مزید فروغ ملا۔محمد اسحاق صدیقی کی تعلیم و تربیت عبد الشکور لکھنوی کے مدرسہ میں ہوئی اس لیے صحابہ کرام کی محبت و عظمت ان کے روح و قلب میں موجود تھی پھر ان کی عمر کا قیمتی وقت بھی لکھنؤ کے اس ماحول میں گذرا تھا کہ آپ نے مدح صحابہ میں لوگوں کی چیرہ دستیوں اور تحریک مدح صحابہ کی جولانیوں کو بچشم خود دیکھا تھا اس لیے دشمنان صحابہ کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔حد درجہ آپ میں انکسار و مسکنت تھی۔عبادات کا بہت ہی زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ نماز ایسے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے کہ دیکھنے والے کو رشک آجاتا۔ اس سلسلے کی اہم چیز یہ ہے کہ ان کی ذاتی ڈائری میں (جس کو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں تحریر کیا) لکھا ہے کہ "میری زندگی میں میرے چند احباب اور چند علما نے میرا دل بہت دکھایا لیکن میں اللہ کے حضور شکایت کے یہ کانٹے لے کر نہیں جانا چاہتا میں ان سب کو صدق دل سے معاف کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی انھیں معاف کر دے"[2]

تصانیف

[ترمیم]

آپ نے متعد دقیمتی کتابیں تصنیف فرما ئیں۔ مثلاً

  • اسلام کا سیاسی نظام
  • اظہار حقیقت بجواب خلافت و ملوکیت( اس میں ابو الاعلیٰ مودودی کی متنازع کتاب خلافت و ملوکیت کا جواب دیا گیا ہے)
  • تجدید سبائیت
  • حجاج بن یوسف حقائق کے آئینے میں (ماخوذ از اظہار حقیقت جلدسوم)
  • آخری نبی
  • مسلہ ختم نبوت علم وعقل کی روشنی میں
  • تصویر علم وعقل کی روشنی میں
  • دینی نفسیات
  • تنوير العينين في تفسير المسعودتين
  • ایمان و ایمانیات
  • نور حیات
  • گرداب بلا اور غفلت ناخدا (مضامین از بینات)
  • علامہ بنوری کی حمیت دینی(ماخوذ از بینات)
  • Behind the curtain exposing shiaism

اس کے علاوہ متعدد تحقیقی مضامین و مقالات کئی رسائل میں چھپتے رہے ہیں۔ خاص کر کے آپ کے مضامین رسالہ بینات کی زینت بنتے رہے۔

سفر آخرت

[ترمیم]

1984ء سےآپ اپنے چھوٹے بھائی عبد الحق تمنا کے ساتھ گلشن اقبال رہائش پزیر تھے۔ انتقال سے ایک روز قبل منجھلے بھائی شمشاد حسین فاکر کے پاس تشریف لےگئے، وہیں 27 جمادی الاولی 1416ھ بمطابق23 اکتوبر 1995ء شب کو تقریباً دو بجے اس دار الفانی سے دار الباقی کی طرف کوچ فرمایا۔

نماز جنازہ

[ترمیم]

جنازے کی نماز علامہ سید محمد یوسف بنوری کے بڑے داماد اور مجلس علمی کے مالک محمد طاسین نے پڑھائی۔

تدفین

[ترمیم]

آپ کی تدفین فیڈرل بی ایریا میں غریب آباد (یسین آباد کراچی) سے ملحقہ قبرستان میں ہوئی۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. اللہ وسایا۔ چمنستان ختم نبوت کے گلہاۓ رنگا رنگ ،جلد دوم،صفحہ 624۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت 
  2. محمد حسین صدیقی۔ تذکرہ مشاہیر علماء کراچی،صفحہ 159۔ مکتبہ حسان کراچی 
  3. محمد حسین صدیقی۔ تذکرہ مشاہیر علماء کراچی،صفحہ 161۔ مکتبہ حسان کراچی