الایمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

الایمان : مدینہ منورہ کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام الایمان بھی ہے جس کے معنی ہیں امن کی جگہ(امن دینے والی جگہ) اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کو سراہتے ہوئے فرمایا

  • وَالَّذِينَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
  • اور ان لوگوں کے لیے بھی جو مہاجرین سے پہلے ہجرت کے گھر مدینہ میں مقیم اور ایمان میں مستقل رہے اور جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں۔ اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش اور خلش نہیں پاتے اور ان کو اپنے آپ سے مقدم رکھتے ہیں خواہ وہ خود ضرورت مند ہوں اور جو شخص نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں

انصار کی ان خصوصیات پرور گھر کی دائمی علامت قرار دیتے ہوئے مدینہ منورہ کو یہ نام دیا گیا [1]
ابن ابی شیبہ والبخاری وابن مردویہ نے حضرت عمر سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے حقوق کو پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے ان انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے دار الہجرت میں مقیم رہے اور ایمان میں ثابت قدم رہے کہ وہ ان کی نیکیوں اور اعمال خیر کو قبول کرے اور ان کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کرے۔[2]

  • ابن زبالہ کی سند کے مطابق عثمان بن عبد الرحمن اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہا دونوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مدینہ طیبہ کا نام ” دار“ اور ”ایمان“ رکھا ہے۔
  • علامہ بیضاوی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں” کہتے ہیں اللہ تعالی نے مدینہ کا نام ”ایمان“ رکھا کیونکہ ایمان یہیں سے پھیلا اور آخر کار یہیں آ جائے گا۔"
  • احمد دینوری نے اپنی کتاب "المجالسہ میں انس بن مالک سے ایک طویل قصہ لکھا ہے کہ: "فرشتہ ایمان نے کہا کہ میں مدینہ میں ٹھہروں گا اس پر فرشتہ حیاء نے کہا کہ میں بھی تمھارے ساتھ رہوں گا۔"
  • چنانچہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایمان اور حیاء حقیقتاً رسول اللہﷺ ہی کے شہر میں موجود ہیں اور پھر عنقریب ایک حدیث میں آ رہا ہے کہ:ایمان جلد ہی سمٹ کر مدینہ کی طرف آ جائے گا جیسے سانپ اپنے سوراخ میں واپس چلا جاتا ہے۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مدینہ منورہ، صفحہ 25 محمد مسعود عبدہ، مشربہ علم و حکمت (دارالشکر) لاہور
  2. تفسیر الدر المنثور جلال الدین سیوطی
  3. وفاء الوفا باخبار دار المصطفے، جلد 1،صفحہ 52،علامہ نور الدین علی بن احمد السمہودی، ادارہ پیغام القرآن اردو بازار لاہور