"نادر علی شاہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
تصحیح لفظ و اضافہ حوالہ
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2
سطر 21: سطر 21:
نادر علی شاہ، [[عبد القادر جیلانی|عبدالقادر گیلانی]] کے دو پوتوں کے مزارات کے گدی نشین بھی تھے۔ محمود ابن [[تاج الدین عبد الرزاق|عبدالرزاق گیلانی]] اور احمد بن [[تاج الدین عبد الرزاق|عبدالرزاق گیلانی]] کے مزارات [[سیہون شریف|سیہون]] شہر کے مغرب میں واقع ہیں، جنہیں "پیر پوتا مزار" یا "درگاہ معصوم پاک" بھی کہا جاتا ہے۔<ref name=":1" /> لوگوں کی ایک بڑی تعداد سالانہ اجتماع یا [[عرس]] میں شرکت کرتی ہے، جو ہر سال 10 [[ربیع الثانی]] کو ان کی یاد میں منعقد ہوتا ہے۔<ref name=":1" /><ref name=":022" />
نادر علی شاہ، [[عبد القادر جیلانی|عبدالقادر گیلانی]] کے دو پوتوں کے مزارات کے گدی نشین بھی تھے۔ محمود ابن [[تاج الدین عبد الرزاق|عبدالرزاق گیلانی]] اور احمد بن [[تاج الدین عبد الرزاق|عبدالرزاق گیلانی]] کے مزارات [[سیہون شریف|سیہون]] شہر کے مغرب میں واقع ہیں، جنہیں "پیر پوتا مزار" یا "درگاہ معصوم پاک" بھی کہا جاتا ہے۔<ref name=":1" /> لوگوں کی ایک بڑی تعداد سالانہ اجتماع یا [[عرس]] میں شرکت کرتی ہے، جو ہر سال 10 [[ربیع الثانی]] کو ان کی یاد میں منعقد ہوتا ہے۔<ref name=":1" /><ref name=":022" />


نادر علی شاہ کراچی میں واقع آٹھویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار کے گدی نشین بھی تھے۔<ref name=":19" /><ref name=":20" /> [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار کی تعمیر، توسیع اور تزئین و آرائش، بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، ان کے ہاتھوں انجام پائی۔<ref name=":5" /><ref name=":19" /><ref name=":20" /><ref name=":21" /> انہوں نے ہی مزار کا مشہور سبز اور سفید دھاری دار گنبد تعمیر کروایا (جو میلوں دور سے نظر آتا تھا اور کراچی شہر کی پہچان بن گیا تھا)۔ ان کی دیگر تعمیرات میں مزار کی مرکزی عمارت، برامدہ، دالان، جامع [[مسجد]]، لنگر خانہ، [[قوالی]] ہال، مہمان خانہ اور پہاڑی چوٹی پر واقع مزار تک جانے والی طویل سیڑھیاں شامل ہیں۔<ref name=":9" /><ref name=":5" /><ref name=":20" /><ref>{{Cite web|url=https://www.mangobaaz.com/karachiites-are-celebrating-that-kyarr-was-turned-away-thanks-to-abdullah-shah-ghazi|title=کراچیائیٹس آر سیلیبریٹنگ دیٹ کیار واز ٹرنڈ اوے بائے دی پاور آف عبد اللہ شاہ غازی|date=30 اکتوبر 2019|website=منگو باز|last=امر|first=سرمد}}</ref><ref>{{Cite web|url=https://www.nytimes.com/2016/06/16/opinion/the-saint-and-the-skyscraper.html|title=ڈی سینٹ اینڈ ڈی اسکائی اسکریپر|date=15 جون 2016|website=ڈی نیو یارک ٹائمز|last=حنیف|first=محمد}}</ref> کراچی میں [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار اور [[سیہون شریف]] میں سید نادر علی شاہ کے صوفی سلسلہ کے درمیان عقیدت کا رشتہ قدیم ہے۔<ref name=":9" /><ref>{{Cite book|title=پاکستان ہینڈبک|url=https://archive.org/details/pakistanhandbook0000shaw|last=شا|first=ایزوبل|publisher=مون پبلیکیشنز|year=1990|isbn=0918373565|location=پاکستان|pages=[https://archive.org/details/pakistanhandbook0000shaw/page/59 59]}}</ref><ref>{{Cite web|url=https://daanish.pk/24783/?amp=1|title=بیٹنگ ٹائم: ابنِ قاسمؒ کا گریبان|date=جون 1, 2018|last=صحرائی|first=لالہ}}</ref>
نادر علی شاہ کراچی میں واقع آٹھویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار کے گدی نشین بھی تھے۔<ref name=":19" /><ref name=":20" /> [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار کی تعمیر، توسیع اور تزئین و آرائش، بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، ان کے ہاتھوں انجام پائی۔<ref name=":5" /><ref name=":19" /><ref name=":20" /><ref name=":21" /> انہوں نے ہی مزار کا مشہور سبز اور سفید دھاری دار گنبد تعمیر کروایا (جو میلوں دور سے نظر آتا تھا اور کراچی شہر کی پہچان بن گیا تھا)۔ ان کی دیگر تعمیرات میں مزار کی مرکزی عمارت، برامدہ، دالان، جامع [[مسجد]]، لنگر خانہ، [[قوالی]] ہال، مہمان خانہ اور پہاڑی چوٹی پر واقع مزار تک جانے والی طویل سیڑھیاں شامل ہیں۔<ref name=":9" /><ref name=":5" /><ref name=":20" /><ref>{{Cite web|url=https://www.mangobaaz.com/karachiites-are-celebrating-that-kyarr-was-turned-away-thanks-to-abdullah-shah-ghazi|title=کراچیائیٹس آر سیلیبریٹنگ دیٹ کیار واز ٹرنڈ اوے بائے دی پاور آف عبد اللہ شاہ غازی|date=30 اکتوبر 2019|website=منگو باز|last=امر|first=سرمد}}</ref><ref>{{Cite web|url=https://www.nytimes.com/2016/06/16/opinion/the-saint-and-the-skyscraper.html|title=ڈی سینٹ اینڈ ڈی اسکائی اسکریپر|date=15 جون 2016|website=ڈی نیو یارک ٹائمز|last=حنیف|first=محمد}}</ref> کراچی میں [[عبد اللہ شاہ غازی|عبداللہ شاہ غازی]] کے مزار اور [[سیہون شریف]] میں سید نادر علی شاہ کے صوفی سلسلہ کے درمیان عقیدت کا رشتہ قدیم ہے۔<ref name=":9" /><ref>{{Cite book|title=پاکستان ہینڈبک|url=https://archive.org/details/pakistanhandbook0000shaw|last=شا|first=ایزوبل|publisher=مون پبلیکیشنز|year=1990|isbn=0918373565|location=پاکستان|pages=[https://archive.org/details/pakistanhandbook0000shaw/page/59 59]}}</ref><ref>{{Cite web|url=https://daanish.pk/24783/?amp=1|title=بیٹنگ ٹائم: ابنِ قاسمؒ کا گریبان|date=جون 1, 2018|last=صحرائی|first=لالہ|access-date=2022-08-21|archive-date=2022-08-21|archive-url=https://web.archive.org/web/20220821092957/https://daanish.pk/24783/?amp=1|url-status=dead}}</ref>


== خانقاہ ==
== خانقاہ ==

نسخہ بمطابق 22:46، 25 اکتوبر 2022ء

سید نادر علی شاہ
سیہون شریف میں سید نادر علی شاہ کا مزار
لقبمرشد
دیگر ناممرشد نادر علی شاہ
ذاتی
پیدائش1897
گندف, ضلع صوابی (موجودہ پاکستان)
وفات8 اکتوبر 1974
مذہباسلام
والدین
  • سید غلام شاہ (والد)
بنیادی دلچسپیتصوف, زہد, عشق اِلٰہی, خدمت خلق, حکمت
دیگر ناممرشد نادر علی شاہ
مرتبہ
مقامسیہون شریف
دوربیسویں صدی عیسوی
پیشرومرشد دیدار علی شاہ
جانشینمرشد عارف علی شاہ

سید نادر علی شاہ، المعروف مرشد نادر علی شاہ، بیسویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا، برگزیدہ ولی اللہ، مسلمان مبلغ اور خدمت خلق کے شعبے کی اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع مقام گندف میں پیدا ہوئے اور آخر کار سیہون شریف، سندھ میں آباد ہوئے۔ وہ سیہون شریف میں مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے روحانی جانشین تھے۔[1][2][3] نادر علی شاہ تصوف، عرفان اور تبلیغ کے حوالے سے قلندری سلسلۂ طریقت کے مقبول ترین بزرگوں میں سے ایک تھے۔[4] علاوہ ازیں انہوں نے خدمت خلق، انسانی فلاح و بہبود اور پسماندہ افراد کی سماجی ترقی کو نہ صرف اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کی تعلیمات کا ایک اہم جزو قرار دیا، بلکہ عملی طور اس شعبہ میں انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ [5][6] وہ سیہون شریف میں واقع صوفی خانقاہ، المعروف "کافی سخی سرور" اور "پیر پوتا مزار" کے علاوہ کراچی میں واقع مشہور بزرگ سید عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ کے گدی نشین بھی تھے۔[3][7][8]

ابتدائی زندگی

وہ سنہ 1897 عیسوی میں موضع گندف، ضلع صوابی میں ایک پشتون سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید غلام شاہ سے حاصل کی۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔

تلاش مرشد

جوانی میں قدم رکھتے ہی، وہ اپنی والدہ کو قائل کر کے مرشد (روحانی استاد) کی تلاش میں عازم سفر ہوئے۔ انہوں نے برسوں تک متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا، جس کے دوران انہوں نے لاہور، سرہند شریف، دہلی، آگرہ، اجمیر، اور کوئٹہ میں متعدد بزرگان دین کے ساتھ وقت گزارا، متعدد روحانی و علمی مراکز سے مستفیض ہوئے اور بالآخر سیہون شریف میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سیہون شریف جانے سے قبل، کوئٹہ میں قیام کے دوران انہیں لال شہباز قلندر کئی بار خواب میں نظر آئے اور انہیں ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد ان کے پاس سیہون شریف پہنچ جائیں۔

سیہون شریف پہنچنے پر آخر کار درگاہ لعل شہباز قلندر کے قریب واقع صوفی خانقاہ میں ان کی ملاقات ان ان شخصیت سے ہوئی، جن کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے اور جو بعد ازاں ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے۔ وہ تھے ان کے مرشد دیدار علی شاہ، جو اس وقت سیہون شریف میں واقع صوفی خانقاہ، المعروف "کافی سخی سرور" میں قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا تھے۔[9] کہا جاتا ہے کہ ان کو بھی خواب میں پہلے سے بشارت ہو چکی تھی، چنانچہ انہوں نے پہلے ہی روز نادر علی شاہ کو اپنے حلقۂ ارادت میں لے لیا اور بعد ازاں انہوں نے نادر علی شاہ کی تربیت کر کے ان کو اپنا جانشین بھی مقرر کر دیا۔ چنانچہ سنہ 1931 عیسوی میں مرشد دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد انہوں نے یہ روحانی منصب سنبھالا۔[9]

تزکیۂ نفس

انہوں نے انتہائی پرہیزگارانہ زندگی بسر کی اور اپنا زیادہ تر وقت یاد اِلٰہی، عبادت و ریاضت اور مراقبہ میں صرف کیا۔ انہوں نے اوائل عمری میں ہی ٹھوس غذا ترک کر دی تھی۔ سنہ 1946 عیسوی میں، ہندوستان کی مذہبی شخصیت مہر بابا ان سے ملاقات کے لیے سیہون شریف گئے۔ انہوں نے نادر علی شاہ کو "ایک برگزیدہ ولی" قرار دیا۔ نادر علی شاہ دو سال تک ایک کھائی میں کھڑے ہو کر عبادت کرتے رہے۔[2][4] وہ صرف مائع غذا لیتے تھے۔[1][10] وہ فقیرانہ لباس اور قلندری ٹوپی (ایک قسم کی کانوں تک لمبی سوتی ٹوپی) پہنتے۔[1] نادر علی شاہ نے مسلسل پچاس برس روزے رکھے۔ ان تمام برسوں کے دوران دن میں روزہ اور رات میں عبادت ان کا معمول تھا۔ وہ روزانہ رات کو کئی کئی گھنٹے بارگاہ اِلٰہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگا کرتے۔[11]

بطور روحانی پیشوا

سید نادر علی شاہ، لعل شہباز قلندر سے منسوب اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا، مرشد دیدار علی شاہ کے ممتاز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ دیدار علی شاہ سیہون شریف میں "کافی سخی سرور" نامی صوفی خانقاہ کے گدی نشین تھے۔ 1931 میں دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد، نادر علی شاہ اس صوفی سلسلے کے مرشد (روحانی پیشوا) بن گئے۔[7][9] وہ 1974 میں اپنی وفات تک 43 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ ان کی زندگی کو اخلاقی، روحانی اور عملی طور پر بنی نوع انسان کی بھلائی سے سرشار خیال کیا جاتا ہے۔ ایک مرشد کے طور پر، انہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی زندگیوں میں اصلاح کی طرف راغب کیا، جن میں سے بہت سے لوگ عشق اِلٰہی اور خدمت خلق میں درجۂ کمال تک پہنچے۔[12] اپنے پیشروؤں کی طرح، مرشد نادر علی شاہ کو "اخوت و بھائی چارے کا حکمران" کہا جاتا ہے۔[13] سنہ 1974 عیسوی میں ان کی وفات کے بعد مرشد عارف علی شاہ ان کے جانشین بنے۔[7][9][14] ادب کے نوبل انعام یافتہ برطانوی مصنف وی ایس نائپال نے سنہ 1979 عیسوی میں براعظم ایشیا کے تحقیقی سفر کے دوران، سیہون شریف میں نادر علی شاہ کے صوفی مرکز کا دورہ کیا اور ان کے پیروکاروں کو "دوستانہ، خوش مزاج لوگوں کا گروہ" قرار دیا، "جن کی آنکھوں میں چمک تھی اور جن کو یہ یقین تھا کہ وہ اللہ اور غریبوں کی خدمت پر مامور ہیں"۔[12] بقول ان کے انہوں نے "قربانی اور خدمت کی زندگی" کا انتخاب کیا تھا۔[15] ان کے بہت سے پیروکاروں کو روحانی عروج حاصل ہوا۔[5]

نادر علی شاہ، عبدالقادر گیلانی کے دو پوتوں کے مزارات کے گدی نشین بھی تھے۔ محمود ابن عبدالرزاق گیلانی اور احمد بن عبدالرزاق گیلانی کے مزارات سیہون شہر کے مغرب میں واقع ہیں، جنہیں "پیر پوتا مزار" یا "درگاہ معصوم پاک" بھی کہا جاتا ہے۔[9] لوگوں کی ایک بڑی تعداد سالانہ اجتماع یا عرس میں شرکت کرتی ہے، جو ہر سال 10 ربیع الثانی کو ان کی یاد میں منعقد ہوتا ہے۔[9][16]

نادر علی شاہ کراچی میں واقع آٹھویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے گدی نشین بھی تھے۔[7][8] عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی تعمیر، توسیع اور تزئین و آرائش، بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، ان کے ہاتھوں انجام پائی۔[5][7][8][17] انہوں نے ہی مزار کا مشہور سبز اور سفید دھاری دار گنبد تعمیر کروایا (جو میلوں دور سے نظر آتا تھا اور کراچی شہر کی پہچان بن گیا تھا)۔ ان کی دیگر تعمیرات میں مزار کی مرکزی عمارت، برامدہ، دالان، جامع مسجد، لنگر خانہ، قوالی ہال، مہمان خانہ اور پہاڑی چوٹی پر واقع مزار تک جانے والی طویل سیڑھیاں شامل ہیں۔[3][5][8][18][19] کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار اور سیہون شریف میں سید نادر علی شاہ کے صوفی سلسلہ کے درمیان عقیدت کا رشتہ قدیم ہے۔[3][20][21]

خانقاہ

محل وقوع

سیہون شریف میں قلندر کے مزار سے تھوڑی ہی دوری پر واقع قلندری سلسلۂ طریقت کا قدیم تربیتی ادارہ اور اس سلسلے سے وابستہ جلالی درویشوں کا ٹھکانہ ہے، جسے عرف عام میں "کافی" کہا جاتا ہے۔

وجہ تسمیہ

"کافی" سے مراد ایک خانقاہ یا قلندری سلسلے کے درویشوں کے لیے تربیت اور قیام کی جگہ کے ہیں۔ اس خانقاہ کو "مرشد نادر علی شاہ کی کافی" اور "کافی سخی سرور" بھی کہا جاتا ہے۔[5]

تاریخ

سیہون شریف میں جلالی درویش، لعل شہباز قلندر کے زمانے سے آباد ہیں۔[5] کافی کے سرپرست اعلٰی کو مرشد کہا جاتا ہے، جبکہ ان کے پیروکاروں کو ملنگ (درویش) اور سوالی (سائل) کہا جاتا ہے۔[5][14][22] مرشد کا روحانی سلسلہ لعل شہباز قلندر تک جا پہنچتا ہے۔[1] ملنگ اپنے مرشد کے فرمانبردار، بہت منظم اور اپنے مقصد کے لیے وقف ہوتے ہیں۔[14] سنہ 1980 عیسوی کی دہائی میں ان کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ تھی جن میں سے کچھ عبداللہ شاہ غازی اور دیگر مزارات پر بھی مامور تھے۔[5] ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش حال لوگ بھی تھے، جنہوں نے "قربانی اور خدمت کی زندگی" کا انتخاب کیا تھا۔[15] دنیا بھر میں لاکھوں پیروکار اس صوفی سلسلے سے وابستہ خیال کیے جاتے ہیں۔[11]

قلندری سلسلے کے گذشتہ دس مرشدوں کے مزارات احاطے کے اندر ہیں۔ انہیں ان کی دینی، روحانی اور فلاحی خدمات کی وجہ سے نہایت عزت و احترام دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہ "اخوت و بھائی چارے کے حکمران" کہلاتے ہیں۔[13] مرشد نادر علی شاہ کا انتقال 1974 میں، ستتر برس کی عمر میں ہوا۔ وفات سے قبل انہوں نے اپنے ممتاز ترین شاگرد، عارف علی شاہ کو اپنا جانشین مقررکیا، جو ایک سند یافتہ ڈاکٹر بھی تھے۔ چنانچہ مرشد نادر علی شاہ کی وفات کے بعد، انہوں نے یہ منصب سنبھالا۔[5] ان کا انتقال 2022 میں، اناسی برس کی عمر میں ہوا۔

تعلیمات

قلندری طریقہ، عشق اِلٰہی، نفس کے ساتھ جدوجہد، قلب کی تطہیر اور روح کی پاکیزگی تجویز کرتا ہے۔ تصوف کے اس سلسلے میں عبادت اور ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے ذریعے سے رضائے الٰہی کا حصول کیا جاتا ہے۔[5]

خدمات

یہ خانقاہ ایک روحانی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، جہاں قلندر کے عقیدت مندوں کی روحانی تعلیم و تربیت گزشتہ سات سو برس سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ صدیوں سے، کافی کو لعل شہباز قلندر کے مقدس مزار کی دیکھ بھال کا اعزاز حاصل رہا، جس میں مزار کی اعلٰی درجے کی مرمت بھی شامل تھی۔[1][4][14][22] اسے سیہون شریف آنے والے زائرین کو مفت کھانا اور پانی فراہم کرنے کی سعادت بھی حاصل رہی۔[5][23]

سنہ 1931 عیسوی میں مرشد دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد، ان کے روحانی جانشین، مرشد نادر علی شاہ نے "کافی" کا انتظام سنبھالا، اور ساتھ ہی ساتھ لعل شہباز قلندر کے مزار کی دیکھ بھال اور زائرین کو کھانے پینے کی فراہمی کا استحقاق اور حق بھی حاصل کیا۔[9] وہ تینتالیس برس تک اس باوقار منصب پر فائز رہے۔ وہ اپنی دانشمندی، سادگی، صبر، شفقت، سخاوت اور مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔[5][11] انہوں نے اپنی پوری زندگی بھوک کے خاتمے کے لیے کام کیا اور عوام الناس کے لیے "مفت کھانے اور پینے کے پانی کا انتظام" شروع کیا۔ انہوں نے یہ فلاحی کام سیہون شہر سے اس کے مضافات کی تمام غریب آبادی اور پھر کراچی اور دیگر شہروں تک پھیلایا۔ بعد ازاں ان کے جانشین مرشد عارف علی شاہ نے اس فلاحی کام کو آگے بڑھایا۔ یہ فلاحی ادارہ، مسلسل کئی دہائیوں سے، روزانہ ہزاروں افراد کو دن میں تین بار غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرتا ہے۔[23][24] بیان کیا جاتا ہے کہ، عرصۂ دراز سے، اس خانقاہ سے وابستہ درویشوں کے روزمرہ کے کاموں میں، عبادت اور رات بھر ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ وہ محنت اور مشقت بھی چلی آ رہی ہے، جس سے انہوں نے اس "کافی" کا انتظام سنبھالا ہوا ہے اور زائرین اور بستی و مضافات کی غریب آبادی کے لیے کھانے اور پینے کے صاف پانی کا انتظام جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک قابل ذکر ادیب اور دانشور علی احمد بروہی کے مطابق یہ خدمت سال بھر جاری رہتی ہے۔ ان کے بقول بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں، سیہون کی جان لیوا گرمی میں روزانہ تیس من (1200 کلوگرام) آٹا گوندھنا اور کثیر تعداد میں لوگوں کو روٹی کھلانا اتنا مشکل کام تھا کہ اسے کرنے کی ہمت صرف قلندر کے پرجوش اور عقیدت مند ملنگوں میں ہی ہو سکتی تھی۔ اس زمانے میں پانی کی فراہمی کوئی آسان کام نہیں تھا، کیونکہ اس میں، سیہون شریف جیسے دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک کے مرکز سے چند میل دور دریائے سندھ سے پانی نکال کر چمڑے کے بڑے مشکوں میں بھرنا، بیلوں پر لاد کر واپس پیدل سفر کر کے اسے لعل شہباز قلندر کے مقدس مزار اور خانقاہ میں چمڑے کے حوضوں اور مٹی کے برتنوں میں خالی کرنا شامل تھا۔[5] سید نادر علی شاہ نے مسافروں کے لیے ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کروایا۔ لوگوں کی طرف سے ان کو انتہائی عزت اور احترام دیا گیا۔[14][24]

اس صوفی مرکز کا ایک گوشہ، بارہویں صدی کے صوفی بزرگ سلطان سخی سرور کے نام سے منسوب ہے، جنہوں نے یہاں چلہ کشی کی تھی اور بارگاہِ الٰہی میں ایک ابدی لنگر (عوام الناس کو مفت کھانا کھلانے کی سہولت) کے لیے التجا کی تھی، جو منظور ہوئی۔ ایک دفعہ مرشد نادر علی شاہ کی توجہ گیہوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کی طرف مبذول کرائی گئی، جو کہ پچاس روپے فی من سے اوپر چلی گئی تھی اور ان کو اس سال گندم کی جلد خریداری کا مشورہ دیا گیا۔ مرشد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ "یہ لنگر اللہ کی رضا کے لیے ہے، اس کے لیے اسباب بھی وہی مہیا کرے گا، یقین رکھو کہ انشاء اللہ یہ خدمت تا قیامت جاری رہے گی، چاہے گندم کے ایک دانے کی قیمت پچاس روپے تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے"۔[5]

تعلیمات اور اثرات

اسلام کے قلندریہ سلسلۂ طریقت کے مرشد ہونے کے ناطے، سید نادر علی شاہ نے اللہ سے وابستگی، تزکیۂ نفس، حصول علم، توکل، صبر، پاکیزگی، انکساری، اخوت، عفو و درگزر اور انسانیت کی خدمت پر زور دیا۔ انہوں نے لوگوں کی روحانی، جذباتی اور جسمانی نشوونما میں مدد کرنے کا درس دیا۔ ان کی تعلیمات نے دنیا بھر میں لاتعداد لوگوں کو متاثر کیا۔[5][11]

خدمت خلق

مرشد نادر علی شاہ نے متعدد فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ انہوں نے معاشرے کے تمام پسماندہ طبقات کو معیاری خوراک، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، پناہ گاہ، پینے کے صاف پانی اور نکاسی تک مفت رسائی کا خیال پیش کیا، تاکہ ان کی روحانی، سماجی اور معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تلقین کی، تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دن میں تین وقت غذائیت سے بھرپور کھانے کی ضمانت، نہ صرف بچوں اور نوجوانوں کی صحت و نشوونما کو یقینی بنائے گی، بلکہ ان کو اطمینان سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرنے میں معاون ہوگی اور انہیں ایک بہتر، روشن مستقبل کی امید دلائے گی۔ اسی طرح صحت بخش خوراک کی ضمانت سے مزدوروں، کسانوں اور دیگر کم سے درمیانی آمدنی والے خاندانوں کو معاشی تحفظ فراہم ہو گا، نتیجتاً وہ اپنے وسائل صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات پر صرف کر سکیں گے، اس طرح ان کی ذہنی، روحانی، جسمانی، سماجی اور جذباتی صحت و نشوونما بہتر ہوگی اور ایک پر امن فلاحی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ سنہ 1930 عیسوی کی دہائی میں، انہوں نے بھوک اور غذائی قلت کے خاتمے کے لیے ایک رضاکارانہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔[5] اس مقصد کے لیے انہوں نے سیہون شریف میں زائرین کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے لنگر خانہ (مفت کھانے کا انتظام) شروع کیا۔ غذائی قلت اور بھوک مٹانے کی جدوجہد کے علاوہ، اس انتظام کا مقصد، خوراک تک رسائی میں صنفی، سماجی و اقتصادی عدم مساوات کا خاتمہ کرنا بھی تھا۔ ان کے جانشین مرشد عارف علی شاہ نے نے ان کے جاری کردہ فلاحی کاموں کو اور ترقی دی۔ یہ فلاحی ادارہ، کئی دہائیوں سے، روزانہ ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو تین وقت مفت معیاری کھانا اور پینے کا صاف ٹھنڈا پانی فراہم کرتا آ رہا ہے۔[6][23][24][25]

اس ادارے کے تحت، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر بھی لنگر یا مفت کھانے کی خدمت کا نظام کئی دہائیوں سے جاری ہے۔[3][5]

بطور طبیب

نادر علی شاہ جڑی بوٹیوں کے ایک ماہر طبیب تھے۔ دور دراز سے لوگ ان سے علاج کے لیے آتے۔

شجرۂ طریقت

کسی بھی بڑے صوفی سلسلے کی طرح، قلندری سلسلہ بھی روحانی علم کی منتقلی کے لیے، ایک غیر منقطع روحانی لڑی کے ذریعے، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے۔

چنانچہ نادر علی شاہ کا روحانی سلسلۂ نسب حسب ذیل ہے:

  1. مرشد نادر علی شاہ (متوفی 1974)
  2. مرشد دیدار علی شاہ (متوفی 1931) [9]
  3. مرشد شمشیر علی شاہ (متوفی 1926)
  4. مرشد قطب علی شاہ (متوفی 1914)
  5. مرشد محبوب علی شاہ (متوفی 1900)
  6. مرشد خاکی شاہ (متوفی 1869)
  7. مرشد امان علی شاہ (متوفی 1853)
  8. مرشد دربار علی شاہ (متوفی 1841)
  9. مرشد روشن علی شاہ (متوفی 1826)

یہ قلندری سلسلۂ طریقت بلا تعطل حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واسطے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔

وفات اور تدفین

نادر علی شاہ 8 اکتوبر 1974 (21 رمضان المبارک 1394ھ) بروز منگل کو علی صبح 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[26] ان کی نماز جنازہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ادا کی گئی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ قاضی محمد مراد نے پڑھائی۔ انہیں سیہون شریف میں اپنے مرشد دیدار علی شاہ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔[9]

میراث

1974 میں مرشد نادر علی شاہ کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے، مرشد عارف علی شاہ ان کے جانشین بنے۔ [5][9] 2022 میں مرشد عارف علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے، ان کے جانشین بنے۔

انہوں نے پاکستان اور دنیا بھر میں اپنے لاکھوں پیروکار چھوڑے، جو عشق اِلٰہی اور خدمت خلق کے لیے جانے جاتے ہیں۔[11]

سید نادر علی شاہ کا فلاحی مرکز، سیہون شریف میں واقع ہے۔[24][27] یہ مرکز کئی دہائیوں سے، ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو روزانہ تین وقت مفت کھانا فراہم کرتا آ رہا ہے اور عملی طور پر شہر کی تمام غریب آبادی کے ساتھ ساتھ مسافروں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔[24][25][28][29][30][31] درجنوں ملنگ (عقیدت مند) باقاعدگی سے کھانا تیار کرنے اور تقسیم کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔[5] نادر علی شاہ کے عقیدت مندوں کے زیر انتظام سیہون شریف میں متعدد مقامات پر پر روزانہ ہزاروں افراد کو صاف اور ٹھنڈا پانی مفت مہیا کرنے کے مستقل انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔[9]

اس کے علاوہ یہ مرکز مسافروں کو مفت رہائش بھی فراہم کرتا ہے۔[24][25][28]

شاعری اور نثر میں

پاکستان کے نامور شاعروں نے مختلف ادوار میں مرشد نادر علی شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور اردو ، سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پشتو جیسی قومی اور علاقائی زبانوں میں بے شمار قصیدے اور منقبتیں لکھ کر اور کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ نور جہاں، شوکت علی، احمد خان اور خیال محمد ان گلوکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی قوالیوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

EMI پاکستان نے ان کی چالیسویں برسی کے موقع پر ان کی یاد میں "قوالی حضرت سید نادر علی شاہ" کے نام سے قوالیوں پر مبنی البم جاری کیا۔[32]

درگاہ

مرشد نادر علی شاہ کا مزار، ان کی خانقاہ میں واقع ہے، جو لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے جنوب مشرق میں ہے۔ یہ معروف سفید اور سبز گنبد، سیرامک ٹائلوں سے بنا ہے۔[33] نصف کرہ دار گنبد مربع عمارت پر قائم ہے، جس کے کونے چار میناروں سے مزین ہیں، جو موزیک سیرامک ٹائل ورک سے بنے ہیں۔ مزار کی دیواریں بھی باہر سے اسی موزیک ٹائل ورک سے آراستہ ہیں، جو اوپر سے نیچے تک سفید، سرخ، سبز، پیلے، نیلے اور سیاہ سرامک ٹائلوں کی افقی قطاریں بنا کر خالصتاً مسرت و شادمانی کا احساس دلاتی ہیں۔[13] اندرونی حصے میں نازک شیشے کا کام فلک بوس چھت اور گنبد کو مزین کرتا ہے۔ دیواروں کو اندر سے فیروزی سیرامک ٹائلوں اور نازک شیشے کے کام سے سجایا گیا ہے۔ شمالی دیوار پر شیشے کے کام میں قرآنی آیات کندہ ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ روزانہ درگاہ پر حاضری دیتے ہیں اور سید نادر علی شاہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ولیم ڈونکن (2001)۔ دی وے فیئررز: مہر بابا ود دی گاڈ انٹاکسیکیٹڈ۔ میرٹل بیچ، جنوبی کیرولائنا: شیریئر فاؤنڈیشن۔ ISBN 1-880619-24-5 
  2. ^ ا ب بال ناتو (1977)۔ گلمپسز آف دی گاڈ مین، مہر بابا، والیم 1 (1943-1948)۔ والنٹ کریک، کیلیفورنیا: صوفی ازم ری اوریئنٹڈ۔ صفحہ: 163۔ ISBN 091582812X 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ پیٹر مین (1956)۔ سینٹس آف سندھ۔ لندن: جان مرے۔ ISBN 978-0719509056 
  4. ^ ا ب پ بھاؤ کلچوری (1997)۔ مہر پرابھو: 1945-1952۔ صفحہ: 3131 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س ش علی احمد بروہی (1984)۔ ڄام ڄاموٽ ۽ ڄامڙا۔ کراچی: سندھ سلامت کتاب گھر۔ صفحہ: 77–80 
  6. ^ ا ب "سیہون شریف میں لاک ڈاؤن کے دوران راشن نہ ملنے پر شہری پریشان ہوگئے"۔ ایم ایم نیوز اردو۔ 30 مارچ، 2020 
  7. ^ ا ب پ ت ٹ "غازی بابا رح کے مزار کی تعمیر نو قلندری بزرگوں نے کی تھی"۔ روزنامہ امت۔ 29 ستمبر 2016۔ 26 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2022 
  8. ^ ا ب پ ت "1290 سال پرانا مزار عبداللہ اللہ شاہ غازی رح"۔ روزنامہ ایکسپریس۔ 4 اگست 2019 
  9. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د
  10. "میٹنگز اینڈ درشنز"۔ www.lordmeher.org 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ وی ایس نائپال (2001)۔ امنگ دی بیلیورز: این اسلامک جرنی۔ لندن: پیکاڈور۔ صفحہ: 174۔ ISBN 978-0-330-52282-3 
  12. ^ ا ب پ وی ایس نائپال (2001)۔ امنگ دی بیلیورز: این اسلامک جرنی۔ لندن: پیکاڈور۔ صفحہ: 176۔ ISBN 978-0-330-52282-3 
  13. ^ ا ب پ وی ایس نائپال (2001)۔ امنگ دی بیلیورز: این اسلامک جرنی۔ لندن: پیکاڈور۔ صفحہ: 170۔ ISBN 978-0-330-52282-3 
  14. ^ ا ب پ ت ٹ مسعود علی خان (2003)۔ انسائیکلوپیڈیا آف صوفی ازم۔ بھارت: انمول پبلیکیشنز۔ صفحہ: 268۔ ISBN 9788126113118 
  15. ^ ا ب وی ایس نائپال (2001)۔ امنگ دی بیلیورز: این اسلامک جرنی۔ لندن: پیکاڈور۔ صفحہ: 171۔ ISBN 978-0-330-52282-3 
  16. سرمد امر (30 اکتوبر 2019)۔ "کراچیائیٹس آر سیلیبریٹنگ دیٹ کیار واز ٹرنڈ اوے بائے دی پاور آف عبد اللہ شاہ غازی"۔ منگو باز 
  17. محمد حنیف (15 جون 2016)۔ "ڈی سینٹ اینڈ ڈی اسکائی اسکریپر"۔ ڈی نیو یارک ٹائمز 
  18. ایزوبل شا (1990)۔ پاکستان ہینڈبک۔ پاکستان: مون پبلیکیشنز۔ صفحہ: 59۔ ISBN 0918373565 
  19. لالہ صحرائی (جون 1, 2018)۔ "بیٹنگ ٹائم: ابنِ قاسمؒ کا گریبان"۔ 21 اگست 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2022 
  20. ^ ا ب انعام محمد (1978)۔ حضرت لعل شہباز قلندر آف سیہون شریف۔ کراچی: رائل بک کمپنی۔ صفحہ: 48 
  21. ^ ا ب پ قربان علی خشک (1 ستمبر 2007)۔ "کال آف قلندر"۔ روزنامہ ڈان 
  22. ^ ا ب پ ت ٹ ث ایزوبل شا (1990)۔ پاکستان ہینڈبک۔ پاکستان: مون پبلیکیشنز۔ صفحہ: 93۔ ISBN 0918373565 
  23. ^ ا ب پ امیر حمزہ (27 دسمبر 2004)۔ "سیہون شریف"۔ تھنگز ایشیئن 
  24. الولی، والیم 4۔ حیدر آباد، سندھ: شعبہ نشر و اشاعت شاہ ولی اللہ اکیڈمی۔ 1975۔ صفحہ: 16 
  25. "قلندر عرس سیلیبریشنز گیٹ انڈر وے"۔ روزنامہ ڈان۔ 18 جون 2014 
  26. ^ ا ب "سیہون شریف"۔ ٹریول اینڈ کلچر سروسز 
  27. "لاک ڈاؤن کا نواں روز"۔ روزنامہ جنگ۔ 1 اپریل 2020 
  28. "سيوھڻ ۾ مفت ماني ڏيندڙ ڪافي بند، بي پهچ ماڻهو ڳڀي لاءِ پريشان"۔ روزنامہ پہینجی اخبار۔ 26 اپریل 2020 
  29. حفیظ تنیو (2 اپریل 2020)۔ "لعل شہباز قلندرز عرس کینسلڈ ڈیو ٹو آؤٹ بریک"۔ ایکسپریس ٹریبیون 
  30. "قوالی حضرت سید نادر علی شاہ"۔ ایمازون