ممتاز (پاکستانی اداکارہ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ممتاز (انگریزی: Mumtaz) کا تعلق پاکستان سے ہیں وہ 1952ء میں پیدا ہوئی پاکستانی پنجابی فلموں میں ایک سپر سٹار فلم ہیروئن ہے۔ 70ء کی دَہائی میں پاکستان کی فلمی صنعت میں بڑے اچھے فنکار سامنے آئے تھے۔ بابرہ شریف، غلام محی الدین، شاہد، ندیم، روزینہ، سنگیتا اور ان کی بہن اداکارہ کویتا کے علاوہ اور بھی کئی فنکار تھے جو اس دہائی میں اس صنعت میں شامل ہوئے تھے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

اسی دہائی میں ایک لڑکی جس کا نام رفعت تھا وہ بھی فلموں میں آئی، مگر رفعت کے نام سے نہیں بلکہ ممتاز کے نام سے جلوہ گر ہوئی۔ چند سالوں میں ہی ممتاز پاکستان کی سپرہٹ اداکارائوں میں شامل ہوگئیں، شکل و صورت کے لحاظ سے کافی خوبصورت تھیں، اس پر ان کا ڈانس کرنے کا انداز بھی بڑا غضب کا تھا، جس نے انھیں پاکستان کی سپر اسٹار ہیروئن بنا دیا۔ اداکارہ ممتاز فلموں میں آنے سے قبل کراچی کے مختلف فنکشنز میں ڈانس کے حوالے سے کافی مقبول تھیں۔ اداکارہ ممتاز 1972ء میں فلموں میں داخل ہوئیں۔ ان کی پہلی فلم ڈائریکٹر نذرالسلام نے احساس کے نام سے بنائی، اس فلم کی کہانی ابراہیم جلیس نے لکھی تھی اور اس فلم کے پروڈیوسر الیاس رشیدی تھے۔ اس فلم میں شبنم، ندیم، محمد قوی خان، لہری اور طالش وغیرہ نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں ممتاز نے ایک چھوٹا سا رول پلے کیا تھا، جس میں وہ اداکارہ شبنم کی سہیلی ہوتی ہیں اور ایک سالگرہ کی تقریب میں شبنم ایک گانا گاتی ہیں "ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے، جب ہم نہیں ہوں گے" اس گانے پر ممتاز رقص کرتی ہیں، یہ فلم اعجاز درانی کی طرف سے رونی پروڈکشن کی جانب سے 22 دسمبر 1972ء کو پیش کی گئی۔ اداکار شاہد اور رانی کی فلم امراؤ جان ادا میں ممتاز نے پھر ایک چھوٹا موٹا سا رول پلے کیا تھا۔ اداکارہ ممتاز نے اسی دوران ایک پنجابی فلم بنارسی ٹھگ میں میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے اس گانے پر عمدہ رقص کا مظاہرہ کیا تھا، جس کے بول ہیں اَنکھ لڑی بَدو بَدی، موقع ملے کدی کدی یہ گانا ممتاز پر ایک شراب خانے میں فلمایا گیا تھا۔ یہ گانا بے انتہا سپرہٹ ہوا تھا اور فلم بھی سپرہٹ ہو گئی، اس فلم نے ممتاز کو بھی سپرہٹ بنا دیا۔ یہ فلم 28 اکتوبر 1973ء کو ریلیز ہوئی۔ یہ گانا اتنا ہٹ ہوا تھا کہ اس کے بول پر ایک فلم 1976ء میں بنائی گئی تھی اور اس فلم کا نام تھا اَنکھ لڑی بدو بدی تھا۔ فلم بنارسی ٹھگ کے بعد ممتاز کی ایک سوشل فلم سیدھا راستہ تھی، جس میں نغمہ، یوسف خان اور سلطان راہی تھے، یہ فلم ڈائمنڈ جوبلی ہو گئی اور ممتاز پورے پاکستان میں شائقین فلم کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔

پہلی فلم[ترمیم]

اداکارہ ممتاز کی پہلی لیڈ رول فلم انتظار تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایس سلیمان تھے، موسیقی نثار بزمی نے بنائی تھی اور کہانی علی سفیان آفاقی نے لکھی تھی۔ اس فلم میں ممتاز کے ساتھ شبنم، ندیم، بابرہ شریف (جن کی یہ پہلی فلم تھی) اور محمد قوی تھے۔ اس فلم کی ہیروئن تو شبنم تھیں، مگر اس فلم کی پوری کہانی ممتازکے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم میں ممتاز کو ایک بہت ماڈرن لڑکی کے رُوپ میں دکھایا گیا تھا، اس فلم میں قوی ان کے بھائی ہوتے ہیں جو ان سے زیادہ ماڈرن ہوتے ہیں۔ فلم انتظار میں ندیم کی بہن بابرہ شریف ہوتی ہیں، جن کی شادی قوی سے ہو جاتی ہے اور ممتاز بابرہ کی نند ہیں۔ ندیم اداکارہ شبنم کو پسند کرتے ہیں اور ممتاز ندیم پر فدا ہوتی ہیں، وہ ندیم کو اس حد تک مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ ان سے شادی کرلیتے ہیں، کیونکہ انھیں اپنی بہن کا سہاگ بچانا ہوتا ہے۔ مگر یہ شادی کامیاب نہیں ہوتی، کیونکہ ممتاز مغربی ماحول کی دوشیزہ ہوتی ہیں، رات بھر کلب میں رہتی ہیں اور ان کے دوست وغیرہ بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ندیم ایک مشرقی ماحول میں رہنے والے شخص ہوتے ہیں، وہ ممتاز کو بار بار ان حرکتوں سے منع کرتے ہیں اور ایک دن بات یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ ممتاز انھیں گاڑی میں بٹھا کر اتنی خطرناک ڈرائیونگ کرتی ہیں جس سے ان کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ ممتاز تو موقع پر ہی مر جاتی ہیں اور ندیم کے ساتھ ان کا ایک بچہ بھی ہوتا ہے، یہ دونوں بچ جاتے ہیں۔ فلم انتظار 9 اگست 1974ء کو ریلیز ہوئی۔ یہ فلم کراچی میں ہی سلور جوبلی ہو گئی، اس فلم کی نمائش کے صرف دو ہفتے بعد ہی ممتاز کی فلم شکار ریلیز ہوئی، جس میں یہ فل ہیروئن آئیں۔

اس فلم کے ڈائریکٹر ایس اے حافظ تھے، موسیقی اے حمید کی تھی۔ اس فلم میں ممتاز نے ایک گونگی لڑکی کا کردار بہت عمدگی سے کیا تھا، اس فلم میں اداکار شاہد ہیرو تھے، جن کو ایک وحشی جنگلی انسان کے رُوپ میں دکھایا گیا تھا۔ آدھی فلم ان کے جنگلی کردار پر تھی، جس میں یہ ایک برفانی علاقے میں رہتے ہیں، وہیں ان کی ملاقات ایک گونگی لڑکی اداکارہ ممتاز سے ہو جاتی ہے، وہ انھیں دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، ممتاز خوفزدہ ہو کر ان سے دُور دُور رہتی ہیں، مگر دل ہی دل میں وہ ان سے محبت بھی کرتی ہیں۔ شاہد ان کو دیکھ کر بار بار ایک ہی جملہ کہتے ہیں کڑی اچھی لگتی ہے کئی بار تو وہ انھیں گود میں اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ فلم شکار 23 اگست 1974ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر حافظ نے ایک گانا جو کٹھ پتلی کے رُوپ میں ہوتا ہے، مگر اس گانے کو خیالوں میں ممتاز اور شاہد پر بہت عمدہ فلمایا تھا۔ اس گانے پر ممتاز نے بہت عمدہ رقص پیش کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کٹھ پتلی کے رُوپ میں ویسے ہی اداکاری کی تھی جو اِس دور میں ہوا کرتی تھی۔ اس گانے کو دیکھ کر بہت سے شائقین فلم عش عش کر اُٹھے تھے۔ اس گانے کے بول تھے دل لے کے مُکر گیا ہائے، سجن بے ایمان نکالا، ربّا ہائے ہائے فلم شکار ممتاز کو عروج پر لے جانے والی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کی نمائش کے بعد ممتاز پاکستان کی فلم انڈسٹری پر چھا گئیں اور ان کی بے شمار فلمیں ریلیز ہونے لگیں۔

عمدہ فلمی ریکارڈ[ترمیم]

اداکارہ ممتاز اپنے ڈانس کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی بہت اچھی کرتی تھیں اور صورت تو ویسے بھی کافی پرکشش تھی، رنگ گورا تھا اسی وجہ سے وہ شائقین فلم کی فیورٹ اداکارہ بن کر سامنے آئی تھیں۔ ان کی فلم دُشمن جو 1974ء ہی کے آخر میں ریلیز ہوئی تھی، وہ بھی گولڈن جوبلی ہو گئی، اس فلم کے ڈائریکٹر پرویز ملک تھے، جن کا نام ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس فلم میں ممتاز نے وحید مراد اور محمد علی کے ساتھ عمدہ لیڈ رول پلے کیا تھا۔ یہ فلم کراچی کے نشاط سینما میں 4 مہینے تک ہاؤس فل گئی اور یہیں پر فلم تلاش گولڈن جوبلی ہو گئی، اس فلم میں ممتاز پر فلمایا گیا، یہ گانا جو مہناز بیگم کی آواز میں تھا، بڑا مقبول ہوا تھا۔ جس کے بول ہیں جانے والے نے یہ بھی نہ سوچا، ہم اکیلے کدھر جائیں گے۔ صرف یہی گیت نہیں ممتاز پر فلمائے جانے والے بے شمار گانے بڑے ہٹ ہوئے تھے اور ان کی بہت سی فلمیں صرف کراچی میں ہی ہٹ ہوئی تھیں۔ ان میں ڈائریکٹر منور رشید کی فلم پیار کا موسم ڈائریکٹر اقبال اختر کی فلم محبت زندگی ہے انہی ڈائریکٹر کی ایک اور فلم جب جب پھول کھلیں میں ممتاز نے وحید مراد، محمد علی اور ندیم کے ساتھ بہت اچھی اداکاری کی تھی۔ یہ فلم بھی گولڈن جوبلی ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر نذر السلام کی فلم اَمبر نے پلاٹینیم جوبلی کی۔ اس فلم میں ممتاز نے کمال کی اداکاری کی تھی جو دیکھنے والوں کو مدّتوں یاد رہی۔ اداکارہ ممتاز نے بہت ہی مختصر وقت میں بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور وہ لاکھوں شائقین فلم کی پسندیدہ اداکارہ بن کر سامنے آئی تھیں۔ ممتاز کی بے شمار فلموں میں سینما ہالوں کے اندر ان کے دلفریب رقص پر سیٹیاں بجتی تھیں، کبھی ان کی اداکاری پر شائقین جھوم جھوم جاتے تھے۔ ممتاز کی ایک فلم کے سین میں ممتاز اداکار ندیم سے کہتی ہیں کہ مجھ سے شادی کرو گے؟ اس پر سینما ہال میں بیٹھے بہت سے لوگوں کی زوردار آواز آتی تھی، ہاں کروں گا ان دنوں انڈیا میں بھی ایک ممتاز (اداکارہ) نامی ہیروئن وہاں زوروں پر تھی، ادھر پاکستان میں بھی ایک ممتاز نامی لڑکی عروج پر اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کی فلم بنارسی ٹھگ ریلیز ہوئی تھی، اس فلم میں صرف ایک ہی گانا پکچرائز کیا گیا تھا، مگر اسی گانے کے بول پر ڈائریکٹر شفیع اختر نے پوری فلم اَنکھ لڑی بدو بدی بنائی، جو ہٹ ہوئی تھی، اس فلم میں ممتاز کے ساتھ وحید مراد ہیرو تھے۔ ممتاز کی چند ہٹ فلمیں یہ ہیں، اپنے ہوئے پرائے، پرستش، جیو اور جینے دو، شریف بدمعاش، اَن داتا کے علاوہ اور بھی بہت سی فلمیں شامل ہیں۔ ممتاز کی ایک فلم روشنی تھی، جس کے فلمساز اور ہدایتکار محمد قوی تھے۔ اس فلم کی کہانی اقبال رضوی نے لکھی تھی اور موسیقی کمال احمد کی تھی، اس فلم میں ممتاز نے ندیم کے ساتھ بہت عمدہ اداکاری کی تھی اور اس فلم کے کئی گانے بھی سپرہٹ ہوئے تھے، ان میں یہ گانا "کچھ بولو نا بولو نا، اس دل کے آنگن میں آنا ہے تم کو" مہناز کی آواز میں یہ گانا ممتاز پر ہی فلمایا گیا تھا، جو بڑا ہٹ ہوا تھا۔ اسی فلم کا دُوسرا گانا جو گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں تھا، اسے بھی ممتاز پر فلمایا گیا تھا۔ اس گانے کے بول ہیں ’’سنا ہے گھنگھرو باندھ کے پیار ملتا ہے۔

بہترین اداکارہ کا ایوارڈ[ترمیم]

ممتاز نے تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کیا اور کئی فلموں میں انھیں بیسٹ اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی ملا۔ ان میں فلم جادو، فلم حیدر علی، فلم نظام ڈاکو، فلم سرتے جاوے اور فلم دھی رانی شامل ہیں، جس پر انھیں بیسٹ اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا۔ صرف چند سالوں میں اتنی مقبولیت پاکستان میں چند ہی خوش نصیب اداکاروں کے حصے میں آئی ہے۔ ممتاز کی فلم کوشش نے کراچی میں 56 ہفتے چل کر کامیاب گولڈن جوبلی کی تھی، اسی فلم میں ان پر فلمایا ناہید اختر کی آواز میں یہ گیت بھی بڑا ہٹ ہوا تھا بجلی بھری ہے میرے اَنگ اَنگ میں، جو مجھ کو چُھولے گا وہ جل جائے گا اداکارہ ممتاز نے اُردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور بہت شہرت حاصل کی۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں پندرہ سولہ سال فلمی اسکرین پر راج کرنے والی یہ فنکارہ بڑی آب و تاب سے چمکتی رہیں۔ انھوں نے پاکستان کے ہر چوٹی کے اداکار کے ساتھ ہیروئن کا رول ادا کیا۔ ان میں شاہد، ندیم، محمد علی، لالہ سدھیر، وحید مراد، غلام محی الدین، یوسف خان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیرو ہیں جن کے ساتھ یہ کامیاب رہیں۔ ان میں پنجابی فلموں کے ایکشن ہیرو سلطان راہی کے ساتھ یہ ایک اُردو فلم میں ہیروئن آئیں، اس فلم کا نام جاسوس تھا۔ اس فلم میں سلطان راہی پہلی بار اُردو فلم میں ایکشن ہیرو آئے تھے۔ اداکارہ ممتاز نے پاکستان میں بے شمار لوگوں کو اپنا مداح بنایا، بے انتہا عزت و شہرت حاصل کی، ان کی چند فلمیں یہ ہیں گنگوا، ریمانڈ، 2 راستے، جینے کی سزا، یہاں سے وہاں تک، دو نشان، مسٹر افلاطون، راجا صاحب، جرم اور قانون، سمندر پار، پکار، ایک جان ہیں ہم، شرمیلی، شیشے کا گھر، قسم خون دی، جبرو، اپنے ہوئے پرائے، ہار گیا انسان، گڈی، شرارت، سوہنی مہینوال، زنجیر، ضدی، میرے اپنے، بے اولاد، جانی دشمن، کفر و اسلام کے علاوہ اور بھی بہت سی فلمیں ہیں۔ ممتاز نے تقریباً 88 کے قریب پنجابی فلموں میں کام کیا اور 47 کے قریب ان کی اُردو میں فلمیں ہیں۔ ان کی ایک فلم سندھی زبان میں بھی بنی تھی، اس فلم کا نام فیصلو ضمیر جو بھی شامل ہے۔

آخری فلم[ترمیم]

ان کی آخری فلم خوف و اسلام تھی، جو 1990ء میں ریلیز ہوئی۔اس وقت اداکارہ ممتاز کینیڈا میں مقیم ہیں اور پاکستان آتی رہتی ہیں

بیرونی روابط[ترمیم]