سیماب اکبرآبادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سیماب اکبرآبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 5 جون 1882ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 جنوری 1951ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

سیماب اکبر آبادی (پیدائش: 5 جون 1880— وفات: 31 جنوری 1951ء) اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر تھے۔

سوانح[ترمیم]

ان کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ سیماب آگرہ، اتر پردیش کے محلے نائی منڈی،کنکوگلی، املی والے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، محمّد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌ الدین سرحدی اور رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ اسکول گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ اسکول سے میٹرک کیا۔ 1897 میں 17 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔

ملازمت اور شادی[ترمیم]

1898 میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900 میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ 1921 میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصرِ ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

تصانیف اور ادبی خدمات[ترمیم]

قصرِ ادب ادارے سے ماہنامہ پیمانہ جاری کیا۔ پھر بیک وقت ماہنامہ ثریا، ماہنامہ شاعر، ہفت روزہ تاج، ماہنامہ کنول، سہ روزہ ایشیا شائع کیا۔ ساغر نظامی جو سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے وہ بھی قصر ادب سے وابستہ رہے۔ ان کی لکھی کتابوں کی تعداد 284 ہے جس میں 22 شعری مَجمُوعے ہیں جن میں "وحی منظوم" بھی شامل ہے جس کی اشاعت کی کوشش 1949 میں ان کو پاکستان لے گئی جہاں کراچی شہر میں 1951 میں انکا انتقال ہوا۔

مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ[ترمیم]

مولوی فیروز الدین کی فرمائش پر مثنوی مولانا روم کا منظوم اردو ترجمہ شروع کیا جس کے لیے وہ لاہور منتقل ہوئے اور اپنا ادارہ قصرادب بھی لاہور ہی لے آئے۔ مثنوی مولانا روم کو فارسی سے اسی بحر میں اردو میں منظوم ترانے کام شروع کیا اور اس کا نام الہام منظوم رکھا تقریبا 45 ہزار افراد 6 جلدوں میں ترتیب پائے۔ مولوی فیروز الدین کے بقول انھوں نے مثنوی روم کا منظوم اردو ترجمہ امیر مینائی سمیت کئی نامور شاعروں کے سپرد کرنا چاہا مگر یہ مشکل کام ان میں سے کسی کے بس کا نہ تھا۔

کرشن گیتا[ترمیم]

ہندووں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے کچھ حصوں کا منظوم ترجمہ کرشن کیتا کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔

وحی منظوم[ترمیم]

انیس سو چوالیس کے شروع میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ "وحی منظوم" کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981 کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ وحی منظوم کتاب سرفہرست تھی۔

سیرت نبوی پر کتاب[ترمیم]

انیس سو پچاس میں شیخ عنایت اللہ کی درخواست پر سیرت نبی پر مختصر اور انتہائی جامع کتاب ڈیڑھ ماہ کے مختصر عرصے میں جدید اسلوب اور دلنشین پیرائے میں لکھ کر پیش کردی۔

شاعری[ترمیم]

1892 سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور 1898 میں مرزا خان داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے تھے۔ 1923 میں قصر الادب کی بنیاد رکھی اور پہلے"پیمانہ" اور بعد میں 1929 میں "تاج" اور 1930 میں "شاعر" شائع کرنا شروع کیے۔ پیمانہ 1932 میں بند ہو گیا تھا۔

سیماب کا پہلا مجموعہِ کلام "نیستاں" 1923 میں چھپا تھا۔ 1936 میں دیوان کلیم عجم شائع ہوا اور اسی سال نظموں کا مجموعہ کار امروز منظر عام پر آیا۔

شاگرد[ترمیم]

سیماب کے تقریباً ڈھائی ہزار شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری، ساغر نظامی، ضیاء فتح آبادی، بسمل سیدی، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کو "تاج الشعرا"، "ناخدائے سخن" بھی کہا گیا۔ داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی سیماب کو جانشینِ داغ کہا کرتے تھے۔

نمونہ کلام[ترمیم]

خامشی بھی ناز سے خالی نہیں تم نہ بولو ہم پکارے جائیں گے
تم مرے پاس رہو پاسِ ملاقات رہے نہ کہو بات کسی سے تو مری بات رہے
وہ خود لیے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں بےہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
مہینے اس خوابیدہ عالم کو بنایا کام کا گرمیءِ محفل نتیجہ ہے مرے پیغام کا
صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے
سیماب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
نہ تھا وہ بھید کہ دنیا مجھے سمجھ سکتی میں خود بھی اپنے سمجھنے میں کامیاب نہ تھا
میخانۂِ سخن کا گدائے قدیم ہوں ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
میں اس دنیا میں اے سیماب اک رازِ حقیقت تھا سمجھنے کی طرح اہلِ جہاں مجھ کو کہاں سمجھے
دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاونگا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

مزید دیکھیے[ترمیم]

" داستان چند " از راز چاندپوری
" سیماب اور دبستان سیماب " از افتیخار احمد فخر
" سیماب کی نظمیہ شاعری " از زرینہ سانی
" ذکر سیماب " از ضیاء فتح آبادی