ضیاء فتح آبادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ضیاء فتح آبادی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 9 فروری 1913ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کپور تھلہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 اگست 1986ء (73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فنکارانہ زندگی
مادر علمی فورمن کرسچین کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ضیاء فتح آبادی (پیدائش: 9 فروری 1913ء وفات: 19 اگست 1986ء) اردو شاعر تھے۔

تعارف[ترمیم]

ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ ان کے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ ضیاء نے اپنی ابتدائی تعلیم جےپور راجستھان کے مہاراجا ہائیاسکول میں حاصل کی اور اس کے بعد 1931 سے لے کر 1935 تک لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہوئے بی اے (آنرز) (فارسی) اور ایم اے (انگریزی) کی اسناد حاصل کیں اسی دوران میں ان کی ملاقات کرشن چندر، ساغر نظامی، جوش ملیح آبادی، میراجی اور ساحر ہوشیارپوری سے ہوئی۔ ان احباب میں آپس میں ایک ایسا رشتہ قایم ہوا جو تمام عمر بخوبی نبھایا گیا۔ انہی دنوں ان کے کالج میں میرا نام کی ایک بنگالی لڑکی بھی پڑھتی تھی کہتے ہیں کہ اس کے حسن کا بہت چرچا تھا۔ اسی کے نام پر ضیاء کے دوست محمد ثناء اللہ ڈار "ساحری" نے اپنا تخلص میراجی رکھا تھا۔ اسی میرا نے ضیاء پر بھی اپنا اثر چھوڑا۔

ضیاء کی اردو شاعری کا سفر ان کی والدہ کی نگرانی میں مولوی اصغر علی حیاء جے پوری کی مدد سے 1925 میں شروع ہو گیا تھا اور انکا نام 1929 میں ہی ابھرنے لگا تھا۔ ان کو ضیاء تخلص غلام قادر امرتسری نے عطا کیا تھا۔ 1930 میں ضیاء سیماب اکبرآبادی کے شاگرد ہو گئے تھے

ضیاء کا اولین مجموعہ کلام" طلوع " کے نام سے ساغر نظامی نے 1933 میں میرٹھ شہر سے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد ان کے مزید مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ضیاء نے افسانے بھی لکھے اور تنقیدی مضامین بھی۔ ضیاء کے نشری کارناموں میں سیماب اکبرآبادی پر لکھے گئے " ذکرِ سیماب " اور " سیماب بنام ضیاء" اہم ہیں 1951 میں ضیاء نے سیماب نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی شروع کیا تھا جو ان کی ملازمت کی بندشوں نے سال بھر ہی چلنے دیا اور پھر بند کر دینا پڑا تھا۔ ضیاء نے ریزرو بینک آف انڈیا میں 1936 سے کام کرنا شروع کیا تھا جہاں سے 1971 میں ریٹائر ہونے کے بعد دہلی میں رہنے لگے تھے۔

ضیاء فتح آبادی کا انتقال 19 اگست 1986 کو ایک طویل علالت سہنے کے بعد دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں ہوا۔ آپ نے 73برس کی عمر پائی۔ ان کے پرانے دوست ساحر ہوشیارپوری نے مندرجہ ذیل قطعہ اس موقع پر کہا تھا۔

جو کر سکو نہ بیاں تم بہ صورتِ الفاظ فسانۂ غمِ ہستی بہ چشمِ نم کہہ لو
زبان و فکر و تخیّل جو ساتھ دے نہ سکے تو "دل" کو ساتھ ملا کر "غمِ ضیاء سہہ لو"

کلام کی خصوصیات[ترمیم]

ضیاء کی شاعری کے بارے میں شارب ردولوی نے کہا ہے - ضیاء نے زبان کی سادگی کو اپنی شاعری کا زیور بنایا، اپنے جذبات و تصّور اور تجربات کو پراسر انداز میں الفاظ کا جامع بخشا اور زرینہ سانی کا کہنا ہے - ضیاء کی شاعری میں وہ تمام رحجانات اور میلانات جو ملک میں جاری اور ساری رہے پائے جاتے ہیں ان کی نظموں میں جدید لہریں کروٹ بدلتی ہیں مگر روایت کے احترام کے ساتھ ان کے کلام میں بغاوت کی چنگاریاں ہیں مگر تخریبی روش سے ہٹ کر اور جدّت اور تازگی لیے ہوئے خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں - ضیاء نے اپنی شاعری کے ذریعے اچھی قدروں کی اشاعت کی ہے، اس میں اظہار قوت بھی ہے اور لطافت بھی، ان کے یہاں بیان شوق کی بیباکی کے ساتھ انسانیت کی حنابندی کا نرم نرم احساس بھی ہے، ان کے یہاں جذبات کی گھنگرج نہیں ہے نفاست اور نزاکت ہے اسی لیے ان کے لب و لہجے میں دل آسائی اور مٹھاس ہے اور ان کی شاعری میں پرکاری اور سرشاری ہے اور جوش ملیح آبادی نے ضیاء کی شاعری کے بارے میں یوں لکھا - ان کی شاعری میں سنجیدگی ہے، ان کے طرز بیاں میں رس اور گھلاوٹ پائی جاتی ہے یہ عام شعرا کی مانند، ردیف اور قافیے کے حدود میں رہ کر روایتی شاعری سے دامن بچاتے اور عروس ے شعر کو اپنے تخیُول کے زیوروں سے سجاتے ہیں اپنی کتاب " ضیاء فتح آبادی - شخص اور شاعر" میں مالک رام نے لکھا ہے کہ میراجی کو ضیاء کی آزاد نظمیں اور غزلیں بہت پسند تھیں اور ضیاء کی پابند نظموں کوپڑھ کر ماہرالقادری کے ذہن میں چکبست کی یاد تازہ ہو گئی تھی ساغر نظامی نے ضیاء کو ایک عندلیب خوش نوا جانا جس کا دل اچھوتے نغموں کی ایک لازوال دنیا ہے اور جس کی خاموشی ایک عظیم گویائی کا مقدمہ معلوم ہوتی ہے ابر احسنی کے مطابق - ضیاء معمولی شاعر نہیں ہیں وہ ہر بات بلندی سے کہتے ہیں ان کی زبان شستہ و پاکیزہ اور خیالات لطیف ہیں دل میں جذبہ ہمدردی انساں بپایاں ہے اور ایسا ہی شاعر ملک و قوم کے لیے باعثِ فخر ہوا کرتا ہے۔

ضیاء کے کلام میں لفظوں کی ترتیب، ترکیبوں کی چستی، بیان کی روانی وغیرہ پرلطف ہے غالباً ان کی شاعری کی ابتدا نظم نگاری سے ہوئی تھی انکا رجحان نیچرل شاعری کی طرف رہا ان کی نظموں سے ایک رچا ہوا ذوق آشکار ہے اور انھوں نے اپنے گیتوں کی طرح نظموں میں بھی نرم نرم ہندوستانی لفظیات سے کام لیا آپ کا یہ ماننا تھا کہ عظمت کے لیے مصنف کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے دیکھنا یہ چاہیے کہ شاعر کیا کہنا چاھتا ہے اور کیسے کہنا چاھتا ہے اگر وہ اس میں قامیاب ہو جاے تو وہ بڑھا شاعر ہے ضیاء نظریاتی شاعری کے قایل نہیں تھے اور جمالیاتی کیف کو ضروری سمجھتے تھے آپ کا کہنا تھا کہ آپ بھی آوروں کی طرح حسین چہروں سے مسرور ہوتے رہے کہ آپ کا رومانی تخیّل کا پیکر آپ کے ساتھ کالج میں پڑھنے والی میرا تھی ضیاء نے غزل، نظم ،قطعہ اور رباعی کے علاوہ گیت اور سوننٹ بھی لکھے جو مقبول عام ہوئے

نمونہ کلام[ترمیم]

ازل میں جب ہوئی تقسیم عالم فانی بطور خاص ملا سوز جاوداں مجھکو
وہ ہنر آدمی کی فطرت ہے جو ہنر عیب سے بری ہی نہیں
طے کر چکا ہوں منزلیں آغاز شوق کی اب انتظار ہے نہ شب انتظار ہے
مدّت ہوئی چاہا تھا تجھے مجھ سے ابھی تک لیتا ہے زمانہ اسی تقصیر کے بدلے
راز بقا سمجھ نہ سکا جب بقید زیست فردا کی اک امید پے انساں فنا ہوا
اسنے بھلا دیا تجھے، تھی یہ بھی مصلحت لیکن تو اس کو بھول گیا یہ برا ہوا
تو نے کہا تھا زندگی صرف فریب ہوش ہے مجھکو جہان زیست پر آگیا اعتبار دیکھ
طاقت انتظار تھی کہ نہ تھی جرّت انتظار کی ہوتی
پھیر لی تو نے نگاہ التفات میری ساری مشکلیں آساں ہوئیں
ہم زمیں والوں کی جو پہلے پہل آسماں پرنظرگئی ہوگی
جسم پا کے اٹھتے ہیں کاینات میں نغمے
کاش دل کو مرے ملی ہوتی تجھ کو پانے کی یہ لگن تنہا
کسے احساس تھا اسیری کا بند کھڈکی اگر نہیں کھلتی

تصانیف (شاعری)[ترمیم]

  • طلوع
  • نور مشرق
  • نئی صبح
  • ضیاء کے سو شیر
  • گرد راہ
  • حسن غزل
  • دھوپ اور چاندنی
  • رنگ و نور
  • سوچ کا سفر
  • نرم گرم ہوائیں
  • میری تصویر

بیرونی روابط[ترمیم]