علی شیر نوائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظام الدین علی شیر نوائی

معلومات شخصیت
پیدائش 9 فروری 1441ء
ہرات، تیموری سلطنت، موجودہ افغانستان
وفات 3 جنوری 1501ء (عمر 59 سال)
ہرات، تیموری سلطنت، موجودہ افغانستان
قومیت فارسی
عرفیت نوائی، فانی
عملی زندگی
پیشہ شاعر، ادیب، ماہر لسانیات، سیاست دان، مصور، صوفی
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  چغتائی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ ،  شاعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تصوف ،  اہل سنت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

نظام الدین امیر علی‌شیر نوائی (9 فروری 1441ء – 3 جنوری 1501ء ) شاعر، دانش ور اور تیموری عہد کے سیاستدان تھے۔

زندگی[ترمیم]

امیر علی شیر نوائی  کا اصل نام علی‌شیر بن غیاث الدین کیچکنہ بخشی یا کیچکینہ بهادر اور لقب «نظام‌الدین» تھا۔ آپ ایران میں تیموری عہد کے اہم سیاستدان تھے۔

آپ نیک صفت انسان، دانش ور اور شاعر تھے۔ آپ کے زیادہ تر اشعار فارسی و ترکی جغتایی زبانوں میں ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو«ذوللسانین» کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ترکی اشعار میں «نوائی» اور فارسی اشعار میں  «فانی» تخلص کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے پشتو و عربی زبانوں میں بھی ان کی مصنفات کا ذکر بھی کیا ہے مگر اس کی کوئی مستند دلیل نہیں۔ ۔[1]

آپ 844ھ میں ہرات میں پیدا ہوئے- ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی جو تیموری دربار کے امیر تھے۔ مزید تعلیم کے لیےسمرقند کا رخ کیا۔ علی‌شیر بچپن میں سلطان حسین میرزا کے ہم درس و ہم‌مدرسہ تھے۔ نوائی نے علم کے حصول کے لیے سخت حالات میں خراسان اور دوسرے شہروں کی بھی سیاحت کی۔  تعلیم سے فراغت کے بعد سلطان حسین میرزا کے پاس آئے۔ سلطان نے ان کی عزت وتکریم کی اور انھیں اعلیٰ مناصب عطا کیے۔ امیر علی‌شیر  نے 906ھ میں ہرات میں وفات پائی۔[2]

مذہب[ترمیم]

بعض مؤرخین نوائی کو شیعہ اور کچھ سنی المذہب بتاتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک وہ ایک صوفی تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک وسیع المشرب اور روادار انسان تھے۔[1]

نمونہ اشعار فارسی[ترمیم]

اگر بہ میکدہ ام یک شب انجمن باشدچراغ انجمن آن بہ کہ یار من باشد
چہ میل باغ کنم با وجود قد و رخشکہ صد فراغتم از سرو و یاسمن باشد
ز زلف پرشکنش صید دل چہ سان برہکہ صد کمند بلا زیر هر شکن باشد
ز روضہ دیر مغان آرزو کنم در حشرغریب را دل محزون سوی وطن باشد
کجاست می کہ بشوید ز لوح خاطر پاکگرت ز محنت دوران میں دو صید سخن باشد
اگر بہ دشت فنا خاک رہ شود فانیبہ باد سوی تو میل آمدن باشد

آثار وتصانیف[ترمیم]

آپ کی مشہور تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. اربعین منظوم۔ بہ ترکی
  2. تاریخ انبیا و حکما، بہ ترکی
  3. تاریخ ملوک عجم، بہ ترکی
  4. خمسهٔ نوائی، بہ ترکی۔ یہ خمسهٔ نظامی و خمسہ امیرخسرو دہلوی کی تتبع میں لکھی گئی۔ یہ دراصل ترکی چغتائی زبان میں پانچ مثنویاں ہیں۔ جن کے نام ہیں: حیرةالابرار، لیلی و مجنون، فرهاد و شیرین، سبعهٔ سیارہ، سد اسکندری یا اسکندرنامہ۔
  5. خمسةالمتحیرین، بہ ترکی۔ یہ رسالہ شرح حال عبد الرحمان جامی ہے۔[3]
  6. دیوان ترکی خزائن المعالی؛ اس میں  چار دیوان شامل ہیں جن کے نام ہیں: غرائب‌الصغر (یا غرائب‌النوائب)، نوادرالشباب، بدایع الواسط، و فوائدالکبر۔ یہ بالترتیب بچپن،جوانی ،سن کمال اور سالخوردگی کی عمر کی ہیں۔[4]
  7. دیوان اشعار فارسی (دیوان فانی)۔[5]
  8. سراج‌المسلمین۔ بہ ترکی
  9. مثنوی لسان‌الطیر۔ بہ ترکی۔ شیخ عطار کی فارسی منطق الطیر کے تتبع میں لکھی گئی۔[1]
  10. مجالس النفائس۔ بہ ترکی۔ اس کتاب میں اس زمانے کے شعرا و بزرگان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔۔[5]
  11. محاکمةاللغتین، ترکی و فارسی زبانوں کا موازنہ ہے۔[نیازمند منبع]
  12. محبوب‌القلوب۔ بہ ترکی۔[1]
  13. رسالہ مفردات (در فن معما)۔ بہ فارسی۔[5]
  14. منشآت ترکی
  15. نسائم المحبة۔ بہ ترکی۔ ترجمہ نفحات الانس جامی۔
  16. نظم‌الجواهر۔ بہ ترکی۔[5]
  17. حالات پهلوان محمد ابوسعید۔ بہ ترکی
  18. حالات سید حسن اردشیر۔ بہ ترکی
  19. مناجات۔ بہ ترکی
  20. میزان الاوزان۔ بہ ترکی۔[نیازمند منبع]
  21. رسالہ تیرانداختن۔ بہ ترکی[1]
  22. رسالہ وقفیہ۔ بہ ترکی
  23. زبدہ التواریخ۔ امیر علی‌شیر دست کم در دو کتاب خویش یعنی محاکمہ اللغتین[نیازمند منبع] و غرائب الصغر از این اثر خویش یاد کردہ است۔ با وجود این، از این کتاب امروزہ هیچگونہ اثری در دست نیست۔ درضمن امیر علی‌شیر هیچ اشاره‌ای بدین مهم نداشتہ است کہ زبدہ التواریخ بہ چہ زبانی نگاشتہ شدہ بود۔[1]
صفحه‌ای از دیوان امیر علیشیر در کتابخانہ سلیمان قانونی

پانویس [ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث نعمتی لیمایی، امیر۔
  2. خواندمیر، غیاث الدین بن ہمام الدین، مکارم الاخلاق: شرح احوال امیر علی‌شیر نوائی، مقدمہ و تصحیح و تعلیق محمداکبر عشیق، تهران: میراث مکتوب، 1378 ص162۔
  3. نوایی، امیرعلیشیر، خمسہ المتحیرین، ترجمہ محمد نخجوانی، بہ کوشش مهدی فرهانی منفرد، تهران: فرهنگستان زبان و ادب فارسی، ضمیمہ شمارہ 12نامہ فرهنگستان، خرداد1381
  4. بررسی زندگی سیاسی و واکاوی کارنامہ علمی، فرهنگی، اجتماعی و اقتصادی امیر علی‌شیر نوایی، تهران: وزارت امور خارجہ و مشهد: دانشگاہ فردوسی، 1393، ص184۔
  5. ^ ا ب پ ت نوایی، امیرعلیشیر۔

حوالہ جات[ترمیم]

  • نعمتی لیمایی، امیر۔ بررسی زندگی سیاسی و واکاوی کارنامہ علمی، فرهنگی، اجتماعی و اقتصادی امیر علیشیر نوایی، تهران: وزارت امور خارجہ و مشهد: دانشگاہ فردوسی، 1393
  • نوایی، امیرعلیشیر۔ رسالہ مفردات (در فن معما)، با مقدمہ، تصحیح، توضیح و تحشیہ امیر نعمتی لیمایی و مهدی قاسم‌نیا، تهران: مشکوہ دانش، 1394
  • نوایی، امیرعلیشیر، خمسہ المتحیرین، ترجمہ محمد نخجوانی، بہ کوشش مهدی فرهانی منفرد، تهران: فرهنگستان زبان و ادب فارسی، ضمیمہ شمارہ 12نامہ فرهنگستان، خرداد1381
  • نوایی، امیرعلیشیر۔ تذکرہ مجالس النفائس، بہ سعی و اهتمام علی اصغر حکمت، تهران: کتابخانہ منوچهری، 1363
  • نوایی، امیرعلیشیر۔ دیوان امیرعلیشیر نوایی، بہ اهتمام رکن الدین همایونفرخ، تهران: اساطیر، 1375،
  • نوایی، امیرعلیشیر۔ نظم الجواهر، گردآوری و ترجمہ و ترجمہ بهمن اکبری و سیومہ غنی آوا، تهران: الهدی، 1387
  • شگفتہ، صغری بانو۔ شرح احوال و آثار فارسی امیرعلیشیر نوایی متخلص بہ فانی، تهران: الهدی، 1387
  • واحدی جوزجانی، محمدیعقوب۔ امیرعلیشیر نوایی (فانی)، کابل: انجمن تاریخ، 1346
  • فرهانی منفرد، مهدی۔ پیوند سیاست و فرهنگ در عصر زوال تیموریان و ظهور صفویان، تهران: انجمن آثار و مفاخر فرهنگی، 1381
  • خواندمیر، غیاث الدین بن ہمام الدین، مکارم الاخلاق: شرح احوال امیرعلیشیر نوایی، مقدمہ و تصحیح و تعلیق محمداکبر عشیق، تهران: میراث مکتوب، 1378