بچوں کی صلیبی جنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بچوں کی صلیبی جنگ

بچوں کی صلیبی جنگ (انگریزی: Children's Crusade) یورپی مسیحیوں کی ایک ناکام مقبول صلیبی جنگ تھی جو 1212ء میں ارض مقدسہ کو مسلمان سے آزاد کروانے کے لیے کی گئی۔ صلیبی جنگ کے بائیں علاقے شمالی فرانس کی قیادت اسٹیون جبکہ جرمنی کی حصے کی قیادت نکولس کر رہا تھا۔

داستانیں[ترمیم]

روایتی داستان[ترمیم]

بچوں کی صلیبی جنگ کی کہانی کے کئی متغیرات ہیں تاہم بنیادی موضوع تقریباً یکساں ہے۔ [1] ایک لڑکا فرانس یا جرمنی میں بھی تبلیغ شروع کرتا ہے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ یسوع اس کے پاس آئے اور اسے صلیبی جنگ کی قیادت کرنے کی ہدایت کی تاکہ مسلمانوں کو پرامن طریقے سے مسیحی بنایا جا سکے۔ پیغمبرانہ نشانیوں اور معجزات کے ایک سلسلہ کے ذریعے اس نے 30،000 مقلدین بچوں کی ایک فوج تیار کر لی۔ وہ اپنے پیروکاروں کو جنوب میں بحیرہ روم کی طرف لے گیا۔ اسے اس بات پر یقین تھا کہ سمندر ان کی آمد پر دو حصوں میں تقسیم ہو کر انھیں راستہ بنا دے گا جہاں سے وہ اور اس کے ساتھی یروشلم پیدل جا سکیں گے۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ وہاں پر بچوں کو دو تاجروں کو فروخت کر دیا گیا (ہیو اور ولیم) جو بظاہر رضاکارانہ طور پر بچوں کو جہازوں پر مفت ان کے مقام پر پہنچانے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔ بچوں کو تونس لے جایا گیا جہاں انھیں فروخت کر دیا گیا۔ کچھ بچے جہاز پر دم توڑ گئے جبکہ کچھ ساردینیا کے نزریک طوفان کی وجہ سے غرقاب جہازوں پر مر گئے اور کچھ زندہ کنارے پر پہنچ سکے۔ گروہ کے اکثر بچے اور بچیاں ان میں شامل بالغ افراد کی زیادتی اور بد فعلی کا شکار بھی ہوئے۔

جدید نقطہ نظر[ترمیم]

حالیہ محققین کے مطابق یہ جرمنی اور فرانس میں 1212ء میں لوگوں کی دو الگ تحریکیں (تمام عمروں کی) تھیں۔ تاہم ان میں مماثلت کی وجہ سے لوگوں نے ان کو ملا کر کہانیاں بنا لیں۔[1] [2]

جرمنی میں کولون کا نکولس[ترمیم]

پہلی تحریک میںنکولس جو رائنستان، جرمنی [3] میں ایک چرواہا تھا نے 1212ء کے ابتدائی موسم بہار میں الپس میں ایک گروپ کی قیادت کرنے کی کوشش کی۔ نکولس نے کہا کہ سمندر ان کے لیے خشک ہو جائے گا اور اس کے پیروکاروں کو ارض مقدسہ پر جانے دے گا۔ ارض مقدس پر قابض مسلم شامیوں سے لڑے بغیر مسلم مملکت کو شکست ہو گی اور وہاں کے شہری خود کاتھولک کلیسیا میں شامل ہو جائیں گے۔ [3] اس کے شاگردوں نے جرمنی میں "صلیبی جنگ" کے لیے لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور کولون میں بڑے پیمانے پر لوگ جمع ہو گئے۔ دو گروہوں میں تقسیم یہ فوج سوئٹزرلینڈ کے مختلف راستوں سے آگے بڑھتی رہی۔ سفر میں ہر تین میں سے دو افراد لقمہ اجل بنے جب کہ بہت سے افراد اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ [3] اگست کے اواخر میں تقریباً 7،047 افراد جینوا پہنچے۔ وہ فوری طور پر بندرگاہ پہنچے مگر سمندر کو دو لخت ہو کر انھیں راستہ نہ دینے پر انھیں سخت مایوسی ہوئی۔ کچھ لوگوں نے نیکولس کو انھیں دھوکا دینے کا الزام لگایا، جب کہ کچھ لوگ جو ابھی بھی نیکولس کی بات پر یقین رکھتے تھے خدا کے معجزے کا انتظار کرتے رہے۔ جینوا کے حکام نے ان لوگوں کے جذبے سے متاثر ہو کر ان لوگوں کو شہریت کی پیشکش کی۔ زیادہ تر افراد نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا۔ [3] نکولس نے اس بات انکار کیا کہ اسے شکست ہوئی اور وہ پیسا چلا گیا۔ راستے میں اس کے تحریک دم توڑتی رہی۔ وہ اور اس کے چند وفادار پیروکار پاپائی ریاستوں تک پہنچے اور پوپ انوسنٹ سوم سے ملے۔ بطریق اعظم کی نصیحت پر ماندہ افراد میں سے زیادہ تر واپس جرمنی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ تاہم نکولس الپس میں اپنی دوسری کوشش کے لیے زندہ نہیں رہا، جب کہ گھر پر نکولس کے والد کو متاثرہ بچوں کے خاندانوں کے دباو پر گرفتار کیا گیا اور پھانسی دی گئی۔ [3]

کچھ لوگ جو اب بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے انکونا اور بریندیزی بھی پہنچے مگر کوئی بھی ارض مقدس پر نہیں پہنچ سکا۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Russell, Oswald, "Children's Crusade", Dictionary of the Middle Ages, 1989
  2. P Raedts (1977)۔ "The Children's Crusade of 1213"۔ Journal of Medieval History۔ 3: 279–323۔ doi:10.1016/0304-4181(77)90026-4 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث Bridge, Antony. The Crusades. London: Granada Publishing, 1980. آئی ایس بی این 0-531-09872-9

کتابیات[ترمیم]