2019ء کی حیدر آباد کی اجتماعی آبرو ریزی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دِشا (تبدیل شدہ نام)
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1992ء
وفات 27 نومبر، 2019ء
شاد نگر، حیدرآباد
شہریت بھارتی
قومیت بھارتی
شوہر غیر شادی شدہ
پیشہ سلوتری (ویٹرینری ڈاکٹر)

دِشا (نام بدل دیا گیا ہے) ایک 27 سالہ لڑکی تھی جو ایک سلوتری (ویٹرینری ڈاکٹر) تھی۔ وہ شاد نگر، حیدرآباد کے قریب جانولورو گاؤں کے ایک جانوروں کے اسپتال میں کام کرتی تھی۔ اس کا 27 نومبر، 2019ء کو بہیمانہ انداز میں اجتماعی آبرو ریزی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کا ذکر بھارت کے سبھی ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کیا گیا اور اسے 2012ء دہلی میں اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے ہی کی طرح ایک شرم ناک کڑی کے طور پیش کیا گیا۔[1]

ابتدائی زندگی[ترمیم]

دشا کی پیدائش 1992ء میں ہوئی تھی۔ اس کا تعلق ایک ہندو ریڈی خاندان سے تھا۔ اس کے والد سری دھر ریڈی ایک سرکاری ملازم بتائے گئے ہیں۔ وہ غیر شادی شدہ تھی اور اس کی ایک بہن بھی قتل کے وقت بہ قید حیات بتائی گئی۔ وہ کولورو گاؤ، شاد نگر، حیدرآباد میں ایک جانوروں کے اسپتال بہ طور ڈاکٹر بر سر خدمت تھی۔[1]

واقعہ[ترمیم]

27 نومبر کو اسپتال میں اپنی خدمت مکمل کر کے دشا گھر لوٹ رہی تھی۔ اس کی گاڑی کے پہیوں سے ہوا خارج کر دی گئی تھی۔ چار نامعلوم لوگ اس کی مدد کے لیے آگے آئے۔ ان لوگوں نے مدد کے بہانے رات کے اندھیرے میں دشا کی آبرو ریزی کی اور بعد مٹی کا تیل ڈال کر اس کو ہلاک کر دیا۔ 30 نومبر کو دشا کی آدھی جلی ہوئی لاش پولیس کو شاد نگر سے 30 کیو میٹر پر ملی۔[1] پولیس نے ملزموں کو تلاش کے بعد ڈھونڈ نکالا جن کی پہچان محمد پاشا، جولی شیوا، چینا کیساوولو اور نوین کمار کے طور پر کی گئی جو ٹرک چلانے کے پیشے سے جڑے تھے۔ [2]

رد عمل[ترمیم]

اس واقعے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج شروع ہوا اور لوگوں نے شدید غم اور غصے کا اظہار کیا تھا۔[3] ریاستی وزیر اعلیٰ کے چندرا شیکھر راؤ نے تیز رفتار مقدمے کا اعلان کیا۔[4] راجیہ سبھا میں سابق اداکارہ اور رکن پارلیمان جیا بچن نے خاطیوں کے بر سر عام ہجومی قتل کا دفاع کیا۔[5]

مڈ بھیڑ میں ہلاک[ترمیم]

جمعہ 6 دسمبر، 2019ء کو رات ساڑھے تین اور چھ بجے کے بیچ حیدرآباد پولیس ان چار خاطیوں کو جنسی زیادتی کے مقام پر لے گئی۔ پولیس کے بیان کے مطابق وہ جرم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان میں اور خاطیوں میں مڈبھیڑ ہو گئی جس وہ سبھی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے پر کوشوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک ماورائے عدالت ہلاکتوں کا واقعہ ہے اور اس وجہ سے یہ فکر کا لمحہ ہے۔[6]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]