افضل بن صلاح الدین
افضل بن صلاح الدین | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 1169ء قاہرہ |
||||||
وفات | سنہ 1225ء (55–56 سال) سميساط |
||||||
شہریت | ایوبی خاندان | ||||||
والد | صلاح الدین ایوبی | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | ایوبی خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
امیر دمشق | |||||||
برسر عہدہ 4 مارچ 1193 – 1196 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | عسکری قائد ، حاکم | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | عین جوزہ کی لڑائی ، ارسوف کی لڑائی ، تیسری صلیبی جنگ | ||||||
درستی - ترمیم |
افضل بن صلاح الدین (Al-Afdal ibn Salah ad-Din) (عربی: الأفضل بن صلاح الدين) صلاح الدین ایوبی کے سات بیٹوں میں سے ایک تھا۔ وہ اپنے والد کے بعد دمشق کا دوسرا امیر بنا۔
637ء میں مسلم افواج کی یروشلم کی فتح کے وقت سوفرونیئس نے شرط رکھی کہ کہ شہر کو صرف مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حوالے کیا جائے گا۔ چنانچہ خلیفہ وقت نے یروشلم کا سفر کیا۔ حضرت عمر نے سوفرونیئس کے ساتھ شہر کا دورہ کیا۔ کلیسائے مقبرہ مقدس کے دورہ کے دوران نماز کا وقت آ گیا اور سوفرونیئس نے حضرت عمر کو کلیسا میں نماز پڑھنے کی دعوت دی لیکن حضرت عمر نے کلیسا میں نماز پڑھنے کی بجائے باہر آ کر نماز پڑھی۔ جس کی وجہ یہ بیان کی کہ مستقبل میں مسلمان اسے عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کلیسا کو مسجد کے لیے استعمال نہ کریں۔ خلیفہ کی دانشمندی اور دوراندیشی کو دیکھتے ہوئے کلیسا کی چابیاں حضرت عمر کو پش کی گئیں۔ اس پیشکش کو انکار نہ کرنے کے باعث چابیاں مدینہ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کو دے دی گئیں اور انھیں کلیسا کو کھولنے اور بند کرنے کا حکم دیا، آج تک بھی کلیسا کی چابیاں اسی مسلمان خاندان کے پاس ہیں۔
1193ء میں اس واقعہ کی یاد میں صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الافضل بن صلاح الدین نے میں ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا نام مسجد عمر ہے۔ بعد ازاں عثمانی سلطان عبد المجید اول نے اپنے دور میں اس کی تزئین و آرائش بھی کی۔