برہمن شاہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مقامی بادشاہوں کے جس سلسلے نے آخر تک عربوں یا مسلمانوں کی مزاحمت کی، وہ برہمن شاہی یا ہندو شاہی یا رایان کابل کا خاندان تھا۔ جنہیں مسلمان مورخین رتبیل، زنبیل اور زنتبیل لکھا ہے۔

تازہ ترین تحقیقات کے مطابق یہ دراصل زندہ پیل، یعنی فارسی کا ژندہ پیل بمعنی فیل زیاں تھا۔ فردوسی بہ تن ژندہ پیل و بہ جاں جبرئیل دوسری صورتیں اس کی تصحفیف ہیں۔ [1]

عبد الحئی حبیبی کا کہنا ہے، یہ نام مختلف املا میں رتبال، رسل، رتسل، زنبیل، رن بیل وغیرہ 3ھ سو دوصدی تک عرب مورخین کابلشاہ اور سجستان کے بادشاہ کو لکھتے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا، بلکہ خانوادہ کا موروثی لقب تھا۔ ویلبون اور راوڑتی اس کو رتن (رتنہ پالہ یا رنہ پالہ) سمجھتے ہیں۔ دوسرے لکھنے والوں نے کسی ایک قرات پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے یہ نام راون زبل یا رای زبل ہوں کہ اس کے معنی رائے یا رانائے زابل کے ہوں گے۔ میری نظر میں اس کلمہ کا صیح املا رتپیل ہے جس کی تفصیل اور سند میں نے اپنی کتاب ’لویکان‘ میں دی ہے۔ [2]

حکمران اور دار الحکومت[ترمیم]

البیرونی انھیں بلند کردار کے حکمران بتاتا ہے۔ اس کے ہاں حسب ذیل نام ملتے ہیں، سامند (سامنتہ دیو)، کمالو (کمرہ؟)، بھیم (بھیمہ دیو)، جے پال (جیہ پالہ)، آنند پال (آنندہ پالہ)، تروجن پال (ترلوچن پالہ) کے علاوہ چار حکمرانوں کے ناموں کا پتہ مشرقی افغانستان اور پنجاب سے دستیاب شدہ سکوں سے پتہ چلا ہے۔ یعنی سہالہ پتی، پدمہ، خورودیکہ اور نکہ دیو۔ راج ترنگی کا مولف اس خاندان کی تایخ پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ بھیم دیو کشمیر کی رانی ودّا کا دادا تھا۔ یہ خاندان وردر اسلام سے 421ھ / 1030 ء تک موجود رہا جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارالحکومت گردیز اور کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) منتقل ہو گیا۔[3][1]

نسل[ترمیم]

اس خاندان کو شاہی یا ترکی شاہی بھی کہا جاتا ہے۔ شاہی ایک ایسا لقب ہے جسے تمام جاٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ کلمہ کا تعلق وسط ایشیا سے ہے لیکن البیرونی نے لکھا ہے کہ کلار نامی برہمن وزیر نے تخت پر قبضہ کرکے ہندو شاہی خاندان کی بنیاد ڈالی۔ دوسری طرف ترنگنی راج کا مصنف کلہانا جو خود بھی برہمن تھا، وہ گندھارا کے ان حکمرانوں کو واضح طور پر کشتری کہتا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہے کہ بارہویں صدی عیسویں میں کشمیر سے باہر بھی ان کی اولاد شاہی راج پتر کہلاتی تھی۔ لہذا یہاں البیرونی غلط ہے۔ یہ خاندان برہمن نہیں تھے بلکہ جاٹ تھے۔ [4]

عربوں کے حملے[ترمیم]

اسلامی لشکر کے ساتھ رتنبل کا پہلا ٹکراؤ 24ھ / 644ء میں ارغنداب میں ہوا جس میں رتنبل مارا گیا، البلاذری نے ہیاطلہ کے نام سے اس کی مملکت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہرات تک پھیلی ہوئی تھی۔[5]

25ھ /35ھ کے درمیان سیستان کے حاکم عبد اللہ بن عامر شدید جنگ کے بعد کابل فتح کر لیا۔ لیکن جب عربوں کا لشکر واپس ہوا تو مزید پانچ سال کے لیے مقامی حکمران آ گئے۔ پانچ سال کے بعد عبد اللہ بن عامر نے کابل دوبارہ مسخر کیا، مگر مقامی حکمران بدستور حکمران رہے۔

44ھ / 664ء میں سیستان کے حکمران عبد الرحمٰن بن سمرۃ نے شورش کچلنے کے لیے بست کیش (مقامات ہلمند)، زمند داور اور رخج کی طرف پیش قدمی کی اور زابل وادی ترنک سے ہوتا ہوا پہلے غزنہ پھر کابل پہنچ گیا اور منجیقوں کی مدد سے کابل فتح کر لیا۔ اسی سال ابن مسرق کے حکم سے مہلب بن ابی صفرہ ایک لشکر لے کر پشاور کی طرف بڑھے اور کابل شاہ کو شکست دی، جس کے ساتھ سات ’ژندپیل‘ تھے اور ہر ژندپیل کے ساتھ چار ہزار سوار تھے۔ اس کے بعد مہلب نے دریائے سندھ کو غبور کیا اور لاہور ملتان سے ہوتا ہوا قندابیل کو فتح کرتا ہوابہت سا مال غنیمت لے کر واپس ہوئے۔

59ھ / 679ء میں کابل کے نئے حکمران عباد بن زیاد نے کابل کے قریب ایک ہندی لشکر پر فتح پائی۔ 62ھ / 281ء میں افغانستان کے باشندوں نے شاہ کابل کی سرکردگی میں بغاوت کی۔ سیستان کے نئے امیر یزید بن زیاد اور ابو عبیدہ بن زیاد نے کابل پر حملہ کر دیا، جہاں شدید مزاحمت کی گی اور بہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ ابو عبیدہ کو قید کر لیا گیا اس لیے دمشق سے طلحہ الطالحات کو تنظیم نو کے لیے بھیجا گیا۔

مردان بن الحکم کے عہد خلافت میں عبد لعزیز بن عبد للہ عامر کو سیستان کا نیا حاکم بنایا گیا۔ اس نے 46ھ / 386ء میں وہاں پہنچ کر طلحہ کے لشکر کو مجتمع کیا اور باغی افغانوں کی سرکوبی کے لیے بست اور کابل کا رخ کیا اور رتنبل نے شکست دی۔ ٌٌٌ73ھ / 692ء میں عبد اللہ بن امیۃ کو حجاج نے سیستان بھیجا۔ اس نے بست پر حملہ کر کے زنتبل کو بھاری تاوان ادا کرنے پر مجبور کیا۔ 75ھ / 694ء میں عبد اللہ کو معزول ہوا تو انتظام بگڑ گیا۔ 78ھ / 697ء میں عبد اللہ بن بکرۃ (عبید بن بکرۃ) بامیان کے راستے کابل پر حملہ آور ہوا، لیکن زنتبل کو سات لاکھ درہم دے صلح پر مجبور ہونا پڑا۔ 79ھ / 698ء میں عبد اللہ بست میں فوت ہو گیا، تو اس کا بیٹا بوہر دعتہ زنتبل سے سات لاکھ درھم چھین کر سیستان آ گیا۔

82ھ /701ء میں حجاج کے حکم سے عبد الرحمٰن بن اشعت نے سیستان کے خارجی سردار ہمام بن عدی کو شکست دی۔ پھر اس نے بست پر حملہ کر کے زتنبل پر حملہ کر کے جنگ کی اور بہت سا مال غنیمت حاصل کیا اور سیستان زابل و کابل پورا اقتدار حاصل کرنے کے بعد حجاج سے مقابلے کی ٹھانی، لیکن ہزمیت اٹھا کر زرنج لوٹ آیا۔ حجاج کی ہدایت پر شمالی خراسان کے حاکم مہلب نے مفضل کو بھاری لشکر دے کر عبد الرحمٰن کی سر کوبی کے لیے بھیجا۔ بست کی جانب پچھے ہٹ گیا، لیکن مفضل نے تعاقب کیا اور بست اور رخج کے درمیان عبد الرحمٰن نے شکست کھا کر زنتبل کے پاس پناہ لی اور جب زنتبیل نے دائمی دوستی کے اور لگان کی معافی کے وعدے پر، اسے اور اس کے رفیق ابو نصر کو حجاج کے ایلچی کے حوالے کرنا چاہا، تو دونوں نے چھت سے کود کر جان دے دی۔ یہ تمام واقعات 84۔ 85ھ / 704ء میں پیش آئے۔

86ھ / 705ء میں قتیبہ بن سلمہ سیستان کا حاکم مقرر ہوا۔ جس کے قائم مقام اشعت بن عمرو نے 88ھ / 706ء میں بمقام بست میں زنتبل سے جنگ کی، پھر عتبہ کے بھائی عمرو نے زنتبیل سے آٹھ لاکھ درہم لے کر صلح کرلی۔ لیکن 94ھ / 713ء میں عتبہ خراسان سے واپس ہوا تو زنتبیل نے دس لاکھ سالانہ درہم سالانہ خراج منظور کر لیا۔ 89ھ / 709ء میں تیزک بن با عیسیٰ نے عربوں کے خلاف بغاوت کی تو دوسروں کی طرح کابل شاہ سے بھی امداد کا وعدہ لیا گیا، اس لڑائی میں تیزک بن باعیسیٰ نے شکست کھائی۔

کامیاب دفاع[ترمیم]

109ھ / 727ء میں محمد جحش نے سیستان سے نکل کر زنتیبل سخت لڑائیاں کیں۔ اس دوران عربوں میں باہم جھگڑے پیدا ہو گئے۔ چنانچہ سلطنت بنی امیہ کے زوال تک سیستان خانہ جنگی کا مرکز بنا رہا۔ اگرچہ اس دوران اسلامی لشکر سمندر کے راستہ ہندوستان پہنچ کر سندھ و ملتان فتح کر چکا تھا (96ھ /714ء)۔ اس طرح افغانستان کے عقب میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ تاہم افغانستان میں مقامی باشندے آخر تک مقابلہ کرتے رہے۔

151ھ / 738ء میں معن بن زاہدۃ نے حاکم سیستان نے زبتبیل سے جنگ کی اور اس کے داماد مارند ماوید کو گرفتار کرکے بغداد بھیج دیا۔ لیکن اہل سیستان نے معن بن زاہدۃ کو ہلاک کر دیا۔ 129ھ / 775ء میں تمیم بن سعید نے سیستان کا حاکم مقرر ہونے کے بعد بست اور رخج کی طرف لشکر کشی کی، پھر کابل شاہی زنتیبل سے جنگ کر کے اس کے بھائی کو گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا۔ اس کے بعد عثمان بن عادۃ ولی سیستان سے لڑائی ہوئی۔ یزید بن حر حاکم سیستان نے 871ھ / 497ء میں کابل و زابل پر حملہ کر دیا۔ 151ھ / 738ء میں سیستان کا نیا حاکم عیسیٰ کابل تک بڑھ گیا۔ 991ھ / 418ء تک عباسیوں کی حکمت برائے نام رہی، ورنہ حقیقت میں اقتدار آل طاہر کے قبضہ میں آچکا تھا۔ طاہریوں کا اثر و رسوخ مغربی و شمالی افغانستان تک محدود تھا۔ جب کہ جنوبی و مشرقی افغانستان پر کابل شاہی بدستور حکمران تھے۔

افغانستان سے پسپائی[ترمیم]

بنی امیہ اور بنو عباس کے دور میں سیستان خوارج کا مرکز رہا۔ صفاریوں کا یہاں (247ھ تا 393ھ) زور رہا۔ اس کے ایک رکن یعقوب نے اپنے بھائی عمرو کے ہمراہ صالح بن نصر حاکم سیستان کے دربار میں رسائی حاصل کرلی۔ اس نے خوارج کو شکست دے کر اہل سیستان سے بیعت لے لی۔ صالح نے کابل شاہی سے مدد چاہی تو یعقوب نے اسے بھی شکست دے کر موت کے گھاٹ اتاردیا اور بست و کابل پر قبضہ کر لیا۔ 258ھ / 871ء تک اس نے رخج، بلخ، بامیان، زمینداور، والشبان، تگین آباد، قندھار، غزنہ اور کابل فتح کر چکا تھا۔ بقول ابن خلکان کے وہ 259ھ / 876ء سے 263ھ / 876ء تک اس اطراف و کناف (مثلاََ ملتان، رخج، طبیس،زابلستان، سندھ اور مکران کے بادشاہوں کو مطیع کر لیا۔ وہ پہلا حکمران تھا، جس نے دریائے آمو سے سیستان اور بادغیس، مرو اور ہرات سے کابل، گردیز اور زابلستان تک پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ [1]

غزنویوں سے ٹکڑائو[ترمیم]

977ء؁ میں سبکتگین غزنہ کا حکمران بنا۔ اس کی ریاست کی مشرقی حدود ہندوستان کی ریاست سے ملتی تھی، جو وادی لمغان سے چناب تک پھیلی ہوئی تھی۔ آخری براہمن شاہی راجا کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اس نے لاہور کے راجا جے پال کو اپنی سلطنت کا وارث مقرر کیا جو ایک طاقت ور حکمران ثابت ہوا اس کا تعلق گجروں کے شاہی قبیلے کھٹانہ سے تھا۔

سلطان محمود غزنوی 991ء؁ میں غزنی کا حکمران بنا۔ اس نے اپنے باپ کے عہد میں جے پال کے خلاف لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی کا پہلا حملہ کوئی باقیدہ حملہ نہیں تھا۔ اس کے بعض افسروں نے چند سرحدی قلعے اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کی، جس میں وہ کامیاب رہے۔ جے پال نے کثیر جوج کے ساتھ جس میں بارہ ہزار سوار تیس ہزار پیادے تین سواروں کے ساتھ غزنی کا رخ کیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اس سے مقابلہ کیا اور جے پال کثیر فوج کے باوجود مسلم فوج کے جانبازوں کے مقابلے میں نہیں ٹہر سکے۔ سلطان محمود نے ہندو شاہی حکمرانوں کے دار الحکومت وہنڈ کو تاراج کیا اور جے پال کو اس کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ جے پال نے ایک کثیر رقم اور پچاس ہاتھی دینے کا وعدہ کرکے صلح کر لی۔ جے پال کو غزنویوں کے مقابلے میں ایسی شکستیں ہوئیں تھیں کہ وہ شرم کے مارے زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے لڑکے آنند پال کو جانشین مقرر کر کے خود کو چتا میں جلالیا۔

1005ء؁ میں جب محمود غزنوی نے ملتان کے قرمطی حکمران ابوالفتح داؤد کے خلاف خلاف فوج کشی کے لیے وے ہنڈ کا راستہ اخٹیار کیا۔ آنند پال محمود غزنوی کا باج گزار ہونے کے باوجود اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی، تو محمود غزنوی نے اسے پشاور کے قریب شکست فاش دی۔ واپسی پر اس نے جے پال کے نواسے سکہہ پال کے سپرد مقتوحہ علاقہ کی حکومت کی، جس نے اسلام قبول کر لیا تھا، اسے اکثر مورخوں نے اسے نواسہ شاہ لکھا ہے۔ سکہہ پال نے یہ دیکھ کر کہ محمود غزنوی دوسرے ملکوں سے جنگ میں مصروف ہے، اسلام ترک کر کے اپنا قدیم مذہب دوبارہ اختیار کر لیا اور سلطان کے خلاف بغاوت کردی۔ محمود غزنیوی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنی مہم کو فوری طور پر ختم کر کے برصغیرکی جانب روانہ ہو گیا۔ سکہہ پال کو لڑائی میں شکست ہوئی اور وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا۔ لیکن محمود کے سپاہی اس کو گرفتار کر کے لائے۔ محمود غزنوی نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس سے تاوان جنگ لے کر اسے ایک قلعے میں محصور کر دیا۔

سکہہ پال کی بغاوت ختم کرنے کے بعد اس نے ضروری سمجھا کہ آنند پال کو سزا دے، کیوں کہ ملتان کی مہم کے دوران جب وہ پنجاب سے گذرنا چاہتا تھا تو، آنند پال معمولی مزاحمت کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ اب آنند پال اگرچہ کوئی حقیقی طاقت نہیں رہی تھی، لیکن وہ سرحد پر فتنہ کا واحد اور اہم سبب تھا۔ لہذا محمود نے اس کو سزا دینا ضروری سمجھا۔ آنند پال کو بھی اندازاہ ہو گیا تھا کہ محمود غزنوی اس کے خلاف اقدام کرے گا۔ لہذا اس نے بھی تیاری کی اور ہندوراجاؤں کو متحدہ کر کے ایک زبر دست فوج ترتیب دینے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہا۔ وہ اس مرتبہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ اس کے ساتھ اجین، گوالیار، کالنجر، قنوج، دہلی اور اجمیر کے راجاؤں سے گتھ جوڑ کر کے ایک متحدہ محاذ بنا لیا۔ ایشوری پرشاد کے مطابق نسل، مذہب اور حب الوطنی قوتیں ہندو تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے متحد ہوگئیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آنند پال کے متحدہ محاذ میں تیس ہزار کی تعداد میں ہندو کھوکر قبیلہ کے جوان شامل ہو گئے تھے۔ لیکن سپاہ یہ بڑی تعداد خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن میدان جنگ میں جوہر دکھانے کے لیے نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وے ہنڈ کے قریب میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا تو ہندو فوج بھاگ نکلی اور بے شمار مال غنیمت محمود غزنوی کے ہاتھ آیا۔ باوجود شکست کھانے کے آنند پال باز ہمت نہیں ہارا تھا۔ اب اس کا دار الحکومت نندانا تھا۔ [6]

خاتمہ[ترمیم]

آنند پا ل کی مخالفت کا امکان ختم نہیں ہوا تھا، چنانچہ محمود غزنوی نے 1009ء؁ تا 1010ء؁ میں اس پر حملہ کر دیا۔ آنند پال نے مجبور ہو کر سر خم تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ہر سال غزنہ کو خراج ادا کرتا رہے گا، اس کے علاوہ محمود غزنوی کی فوج کو ایک دستہ بھی مہیا کرے گا۔

آنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال حکمران بنا۔ اس کا روئیہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ لہذا سلطان کو اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری تھی۔ ترلوچن پال کو جب پتہ چلا کہ سلطان اس کے خلاف جنگ کا ارادہ کر رہا ہے تو اپنی جگہ بھیم پال کے سپرد نندانا کا قلعہ کر کے خود کشمیر چلا گیا۔ سلطان نے ایک مختصر سی لڑائی میں بھیم پال کو شکست دے کر نندانا کے قلعہ کو فتح کر لیا اور ترلوچن کی تلاش میں کشمیر روانہ ہوا اور اس کو شکست دے دی مگر وہ ہاتھ نہیں آیا۔[7]

دور حکومت[ترمیم]

یوں برہمن (ہندو) شاہی خاندان نے ساڑھے تین سو سال حکومت کرنے کے بعد اس کاسورج ڈوب گیا۔ اس خاندان کی بنیاد کاپسیا میں پڑی تھی اور جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دار الحکومت گردیز اور کابل، کابل سے اوہنڈ (ویہنڈ) (جسے ترنگی راج میں ادھے پانڈے کہا گیا ہے) پھر نندانا (جہلم کے قریب) منتقل ہو گیا، جہاں یہ اختتام پزیر ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ)
  2. (عبد الحئی حبیبی تقلمات طبقات ناصری۔ جلد دوم، 421)
  3. (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 225)
  4. (بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ۔ 278 تا279)
  5. (البلازی۔ 572)
  6. (انوار ہاشمی، تاریخ پاک و ہند۔ 42، 43)
  7. (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 247 تا 258)