تابش دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تابش دہلوی
پیدائشمسعود الحسن
9 نومبر 1913(1913-11-09)

دہلی، متحدہ ہندوستان
وفات23 ستمبر 2004(2004-09-23)

کراچی، پاکستان
قلمی نامتابش
پیشہشاعر، براڈ کاسٹر
زباناردو
قومیتپاکستان کا پرچمپاکستان
اصنافشاعری
اہم اعزازاتتمغۂ امتیاز
اولادایک بیٹا اور چار بیٹیاں

مسعود الحسن تابش دہلوی دبستان دہلی کے آخری چراغ، اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، دانشور اور براڈکاسٹر تھے۔ تابش دہلوی اپنے مخصوص لب و لہجے کے باعث معروف ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

پیدائش و تعلیم[ترمیم]

تابش دہلوی نے 9 نومبر 1913ء کو دہلی کے علمی گھرانے میں جنم لیا۔[1] ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد حیدرآباد دکن سے ثانوی تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی آئے اور 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

ملازمت[ترمیم]

1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔ تابش کا آڈیشن پطرس بخاری نے لیا اور انھیں پروگرام اناؤنسر کے لیے منتخب کیا جس کے کچھ عرصے بعد انھوں نے خبریں بھی پڑھنا شروع کیں۔ ریڈیو کے لیے 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کے تاریخی اعلان کی خبر تابش صاحب ہی نے ترتیب دی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد 17 ستمبر 1947ء کو ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور اپنی زندگی ریڈیو پاکستان کے لیے وقف کر دی ۔[2]

ادبی خدمات[ترمیم]

تابش دہلوی نے پہلا شعر تیرہ برس کی عمر میں کہا تھا جب کہ ان کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ساقی میں شائع ہوئی۔ 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ شاعری میں انھوں نے فانی بدایونی سے اصلاح لی۔ تابش بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ غزل کی صنف کے علاوہ تابش دہلوی نے نعت، مرثیہ، ہائیکو، آزاد نظم، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔

تخلیقات[ترمیم]

تابش دہلوی کے مندرجہ ذیل 6 شعری مجموعے اور 1 نثری مجموعہ شائع ہو چکے ہیں۔

  1. دیدہ بازدید (مضامین)
  2. نمروز ( 1963ء ) شاعری
  3. چراغِ سحر ( 1982ء ) شاعری
  4. غبارِ انجم ( 1984ء ) شاعری
  5. تقدیس ( 1984ء ) شاعری
  6. ماہِ شکستہ ( 1993ء ) شاعری
  7. دھوپ چھاؤں ( 1996ء ) شاعری

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

ربط کیا جسم وجاں سے اٹھتا ہے پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے
آگ پہلے ہمِیں نے سُلگائی اب دُھواں ہر مکاں سے اٹھتاہے
دل بھی سینے میں اب نہیں تابشؔ درد پھر یہ کہاں اٹھتا ہے

غزل

مرے دل کے بست و کشاد میں یہ نمود کیسی نمو کی ہے کبھی ایک دجلہ ہے خون کا کبھی ایک بوند لہو کی ہے
کبھی چاک خوں سے چپک گیا کبھی خار خار پرو لیا مرے بخیہ گر نہ ہوں معترض کہ یہ شکل بھی تو رفو کی ہے
نہ بہار ان کی بہار ہے نہ وہ آشیاں کے نہ وہ باغ کےجنہیں ذکر قیدوقفس کا ہے جنہیں فکر طوق و گلُو کی ہے
یہی راہگزر ہے بہار کی، یہی راستہ ہے بہار کا یہ چمن سے تابدرِ قفس جو لکیر میرے لہو کی ہے
نہ جنوں نہ شورِ جنوں رہا ترے وحشیوں کو ہوا ہے کیا یہ فضائے دہر تو منتظر فقط ایک نعرہءہُو کی ہے
ہمیں عمر بھر بھی نہ مل سکی کبھی اک گھڑی بھی سکون کی دلِ زخم زخم میں چارہ گر کوئی اک جگہ بھی رفو کی ہے؟
تری چشمِ مست نے ساقیا وہ نظامِ کیف بدل دیا مگر آج بھی سرِ میکدہ، وہی رسم جام و سبُو کی ہے
میں ہزار سوختہ جاں سہی، مرے لب پہ لاکھ فغاں سہی ابھی ناامیدِ عشق نہ ہو ابھی دل میں بوند لہو کی ہے
ابھی رند ہے ابھی پارسا تجھے تابش آج ہوا ہے کیا کبھی جستجو مےوجام کی کبھی فکر آب و وضو کی ہے

اعزازات[ترمیم]

1998ء میں حکومت پاکستان نے تابش دہلوی کی علمی خدمات کے صلے میں انھیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔

وفات[ترمیم]

23 ستمبر 2004ء کو ملک کے نامور شاعر تابش دہلوی 90 سال کی عمر میں کراچی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں تدفین ہوئی۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]