مندرجات کا رخ کریں

تقوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔۔ خدا کو تقوی پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ ترجمہ: خدا کے حضور میں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یہ قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ تقوی دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگان دین کا وصف اولین تقوی رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوص کرنا تقوی کو فروغ دیتا ہے۔

تقوی کردار کا ایک ایسا وصف ہے اگر یہ حاصل ہو جائے تو تمام تر زندگی درست ہو جائے گی۔ تقوی گناہوں سے بچنے کا نام ہے مثلا نظر کو غلط دیکھنے سے بچانا ، کانوں کو غلط باتیں سننے سے بچانا وغیرہ تقوی کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے کہ خود کو گناہوں پر وعید سے اگاہ کیا جائے بار بار ان احادیث کو سنا یا پڑھا جائے جن میں مختلف گناہوں پر وعیدیں موجود ہوں۔

تین باتیں خصوصاً ذہن نشین کی جائیں ۔ 1. اللّٰہ ساتھ ہے۔ 2. اللّٰہ دیکھ رہا ہے۔ 3. اللّٰہ سن رہا ہے۔

قرآنی حوالہ

[ترمیم]

قرآن کریم میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر حکم آتا ہے۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی نہیں بچ سکتا جیسے

(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ

اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو!(پ3،البقرۃ:278)

(2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا

اور اس دن سے ڈرو جس دن کو ئی نفس کسی نفس کی طر ف سے نہ بدلا دے گا ۔(پ1،البقرۃ:48)

اور اگر تقویٰ کے ساتھ آگ یا گناہ کا ذکر ہو تو وہاں تقویٰ سے بچنا مراد ہوگا جیسے

(3)فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ

اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔(پ1،البقرۃ:24)

اگر تقوی کے بعد کسی چیز کا ذکر نہ ہو نہ رب تعالیٰ کا نہ دو زخ کا تو وہاں دونوں معنی یعنی ڈرنا اور بچنا درست ہیں جیسے

(4) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿2﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ

ہدایت ہے ان پر ہیز گار وں کے لیے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3)

(5) فَاصْبِرْ ؕۛ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿٪49﴾

پس صبر کرو بیشک انجام پر ہیز گاروں کے لیے ہے ۔(پ12،ھود:49)

قرآن کی اصطلاح میں تقوی کی دو قسمیں ہیں تقویٰ بدن اور تقویٰ دل تقویٰ بدن کا مدار اطا عت خدا اور رسول پر ہے۔ فرماتا ہے :

  1. فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿35﴾

تو جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ان پر نہ خو ف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے ۔(پ8،الاعراف:35)

  1. الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ63﴾

ولی اللہ وہ ہیں جوایمان لائے اور پ رہی زگار ی کرتے تھے ۔(پ11،یونس:63)

  1. اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلۡ لَّکُمْ فُرْقَانًا

اگر اللہ کی اطاعت کر و گے تو تمھارے لیے فرق بتا دے گا۔ (پ9،الانفال:29)

دلی تقوی کا دار ومدار اس پر ہے کہ اللہ کے پیارو ں بلکہ جس چیز کو ان سے نسبت ہوجاوے اس کی تعظیم و ادب دل سے کر ے۔ تبرکات کا بے ادب دلی پ رہی ز گار نہیں ہو سکتا۔ فرماتا ہے :

  1. وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿32﴾

جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دل کی پ رہی ز گا ری سے ہے ۔(پ17،الحج:32)

  1. وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ

اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتری ہے ۔(پ17،الحج:30)

یہ بھی قرآن کریم ہی سے پوچھو کہ شعا ئر اللہ یعنی اللہ کی نشانیا ں کیا چیز ہیں۔ فرماتا ہے :# اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ

صفا اور مروہ پہاڑ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کو ئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ اس پر گناہ نہیں کہ ان پہاڑوں کا طواف کرے ۔(پ2،البقرۃ:158)

صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں سات بار چڑھیں او راتریں۔ اس اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑ شعائر اللہ بن گئے اور تا قیامت حاجیوں پرا س پاک بی بی کی نقل اتارنے میں ان پر چڑھنا اور اتر ناسات بار لازم ہو گیا۔ بزرگو ں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز شعائر اللہ بن جاتی ہے۔ فرماتا ہے :# وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًی ؕ

تم لوگ مقام ابراہیم کو جاء نماز بناؤ ۔(پ1،البقرۃ:125)

مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کی وہ بھی حضرت خلیل علیہ السلام کی برکت سے شعائر اللہ بن گیااوراس کی تعظیم ایسی لازم ہو گئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہو گئے کہ سجدہ میں سر اس پتھر کے سامنے جھکے۔ جب بزرگو ں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقام ابراہیم شعائر اللہ بن گئے اور قابل تعظیم ہو گئے تو قبو ر انبیا واولیاء جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں یقینا شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے۔ رب تعالیٰ فرما تاہے :

  1. فَقَالُوا ابْنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنْیَانًا ؕ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿21﴾

پس لوگ بولے کہ ان اصحاب کہف پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انھیں خوب جانتا ہے اور وہ بولے جواس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ضرور ان پر مسجد بنائیں گے ۔(پ15،الکھف:21)

اصحاب کہف کے غار پر جو ان کا آرام گاہ ہے گذشتہ مسلمانوں نے مسجد بنائی اور رب نے ان کے کام پر ناراضی کا اظہار نہ کیا پتا لگا کہ وہ جگہ شعا ئر اللہ بن گئی جس کی تعظیم ضروری ہو گئی۔

  1. وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیۡہَا خَیۡرٌ

اور قربانی کے جانور(ہدی)ہم نے تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے تمھارے لیے ان میں خیر ہے ۔(پ17،الحج:36)

جو جانور قربانی کے لیے یا کعبہ معظمہ کے لیے نامزد ہو جائے وہ شعائر اللہ ہے اس کا احترام چاہیے جیسے قرآن کا جزدان اور کعبہ کا غلاف اور زمزم کاپانی اورمکہ شریف کی زمین۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کو رب یا رب کے پیاروں سے نسبت ہے ان سب کی تعظیم ضروری ہے۔ فرماتا ہے :

  1. لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿1﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ۙ﴿2﴾

میں اس شہر مکہ معظمہ کی قسم فرماتا ہوں حالانکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو۔(پ30،البلد:1۔2)

  1. وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿1﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿2﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ﴿3﴾

قسم ہے انجیر کی اور زیتو ن کی اورطور سینا پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر مکہ شریف کی۔(پ30،التین:1۔3)

  1. وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ

اوربیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے گھسو اور کہو معافی دے، ہم بخش دیں گے۔(پ1،البقرۃ:58)

طور سینا پہاڑ اور مکہ معظمہ اس لیے عظمت والے بن گئے کہ طو ر کو کلیم اللہ سے اور مکہ معظمہ کو حبیب اللہ علیہماالسلام سے نسبت ہو گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارو ں کی چیزیں شعائر اللہ ہیں جیسے قرآن شریف، خانہ کعبہ، صفا مروہ پہاڑ ،مکہ معظمہ ،بیت المقدس، طورسینا،مقابر اولیاء اللہ وانبیاء کرام، آب زمزم وغیرہ اورشعائر اللہ کی تعظیم و تو قیر قرآنی فتوے سے دلی تقویٰ ہے جو کوئی نمازی رو زہ دار تو ہو مگر اس کے دل میں تبرکات کی تعظیم نہ ہو وہ دلی پر ہیز گا ر نہیں۔ ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہو اکہ جہاں کہیں قرآن کریم میں تقویٰ کا ذکر ہے وہاں یہ تقویٰ دلی یعنی متبر ک چیزوں کی تعظیم ضرورمراد ہے۔ یہ آیات کریمہ تقویٰ کی تمام آیات کی تفسیر ہیں۔ جہاں تقوی کا ذکر ہو وہاں یہ قید ضروری ہے۔ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿3﴾

بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ کے نزدیک پست کرتے ہیں یہ وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پ رہی ز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔(پ26،الحجرات:3)

معلوم ہو اکہ مجلس میں حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا احترام تقویٰ ہے۔ کیونکہ یہ بھی شعائر اللہ ہے اور شعائر اللہ کی حرمت دلی تقویٰ ہے۔ ایمان جڑ ہے اورتقوی اس کی شاخیں،پھل وہی کھاسکتا ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے۔ اسی طر ح بخشش کے پھل اسی کو نصیب ہوں گے جوایمان اور تقویٰ دونوں کا حامل ہو۔

تقویٰ اور روزہ

[ترمیم]

روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خدا کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ اسی اخلاقی برتری کو ہم تقویٰ کہتے ہیں۔