دیوندر ستیارتھی
دیوندر ستیارتھی | |
---|---|
![]() |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 مئی 1908[1] سانجرور |
تاریخ وفات | 12 فروری 2003 (95 سال)[1] |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف، افسانہ نگار |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی[1]، پنجابی |
اعزازات | |
درستی - ترمیم ![]() |
دیویندر ستیارتھی 28 مئی 1908 کو بھدوڑ، ضلع سنگرور، پنجاب میں پیدا ہوئے اور 95 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ لوک گیتوں کو جمع کرنے کی خدمت جیسی انہوں نے انجام دی ، بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کی ادبی اور تہذیبی ورثے میں اس خدمت میں کوئی اور ان کی ثانی نہیں۔ انہوں نے سنیاسی کا روپ دھار کر پاکستان ، ہندوستان ، نیپال ، سری لنکا ، برما ، بنگلہ دیش کا سفر کیا ، دس سال کے اس سفر میں وہ لاہور بھی کچھ عرصہ ٹھہرے رہے۔ لوک گیتوں پر ان کے مضامین مشہور رسالوں میں چھپتے رہے جن میں "ماڈرن ریویو" اور "ایشیا" بھی شامل ہیں۔ دیوندر ستیارتھی نے اردو میں 106 کے قریب افسانے لکھے جسے ناقدین نے پسندیدگی کا درجہ بخشا۔ تخلیقی سطح پر دیوندر ستیارتھی نے اپنے افسانوں میں افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کی مختلف خوبیوں کو یکجا کرکے افسانوں کو ایک نئی جہت مہیا کی جس پر ان کی گرفت بھی ہوئی مگر تنقید کے باوجود وہ اپنے نئے موقف پر قائم رہے۔
ستیارتھی کے معاصر افسانہ نگار[ترمیم]
دیوندر ستیارتھی شہرہ آفاق افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے معاصر تھے۔ ان کے موضوعات منٹو کے موضوعات سے ملتے جلتے تھے مگر ان کا اسلوب منٹو سے بالکل مختلف ہے اور ان دونوں کے افسانوں میں موضوعات کی یکسانی کے سوا دوسری مماثلت مشکل سے ہی ملتی ہے۔ دیوندر ستیارتھی کے ہاں طنز و تمسخر کی بجائے ہمدردی اور درد کو برتنے کا احساس نظر آتا ہے۔ ان کے ایک اور ہمعصر افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی اردو افسانے کا بڑا نام ہیں۔ دیوندر ستیارتھی کے ابتدائی افسانوں پر پریم چند کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر وہ اس اثر سے جلد باہر آ گئے اور اپنا منفرد اور ممتاز اسلوب قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ریختہ کی معروف ویب سائٹ پر ان کے مضامین پر ایک کتاب اور متعدد افسانے موجود ہیں [2]۔ بلراج مین را سے بھی انہوں نے اثر قبول کیا اور ان کا اسلوب بلراج سے کافی قریب دکھائی دیتا ہے۔ عبدالسمیع نے اپنی کتاب "دیوندر ستیارتھی : شخصیت اور آثار نگری نگری پھرا مسافر" میں لکھتے ہیں
"موضوع اور بیانیہ کا جتنا تنوع ستیارتھی کے یہاں ہے وہ کسی ایک افسانہ نگار کے شاید ہی ملے [3]۔ "
تصانیف[ترمیم]
ستیارتھی چار زبانوں میں لکھا کرتے تھے ، اردو میں ان کی صرف چار کتابیں ہیں۔ افسانوں کے دو مجموعے
- نئے دیوتا
- بنسری بجتی رہی
لوک گیتوں پر مضامین کی دو کتابیں
- میں ہوں خانہ بدوش
- گائے جا ہندوستان
دیوندر ستیارتھی کی تمام زبانوں میں تصنیفات کی تعداد لگ بھگ پچاس ہے۔ ان کی تخلیقات میں ناول، افسانے ، مضامین ، خاکے، خودنوشت، یادیں، سفرنامے اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ اردو کی طرح ہندی میں بھی ان کی تصانیف کی تعداد چار ہے۔ پنجابی زبان میں
- لوک گیتوں کا مجموعہ "گدھا" ( 1936 )
- دیا بلے ساری رات
- دھرتی کی آوازیں
- کنگ پوش
- دیوتا ڈگ پیا
ناول[ترمیم]
- کٹھ پتلی
- برہم پتر
- کتھا کہو اروشی
- گھوڑا پادشاہ
- سوئی بازار
اعزازات[ترمیم]
1976 میں ہندوستان سرکار نے انہیں "پدم شری" سے نوازا۔پنجاب حکومت نے 1977 میں انہیں "شریشٹھ ہندی لیکھک" کا اعزاز ملا۔
حوالہ جات[ترمیم]
- ^ ا ب پ http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13171388h — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ ریختہ پر دیوندر ستیارتھی کی کتب
- ↑ دیوندر ستیارتھی : شخصیت اور آثار نگری نگری پھرا مسافر، عبدالسمیع، ص 11
- 1908ء کی پیدائشیں
- 28 مئی کی پیدائشیں
- 2003ء کی وفیات
- 12 فروری کی وفیات
- ادب اور تعلیم کے شعبے میں پدم شری وصول کنندگان
- 20ویں صدی کے بھارت کے مضمون نگار
- بیسویں صدی کے بھارتی افسانہ نگار
- بیسویں صدی کے بھارتی مرد مصنفین
- بیسویں صدی کے ہندوستانی ناول نگار
- بھارتی مرد افسانہ نگار
- بھارتی مرد مضمون نگار
- بھارتی مرد ناول نگار
- پنجابی شخصیات
- پنجاب، بھارت کے مصنفین
- سنگرور کی شخصیات
- بھارتی مصنفین کے نامکمل مضامین