سرخ بچھیا
سُرخ رنگ کی بچھیا (عبرانی: פָרָ֨ה אֲדֻמָּ֜ה؛ پرا اَدوما)، جس کو سرخ گائے بھی کہا جاتا ہے، گنتی باب 19، 1 تا 10 کے مطابق خدا نے موسیٰ و ہارون کو ہدایت کی کہ ایک بے داغ اور بے عیب سرخ بچھیا کو (جس پر کبھی جُوا نہ رکھا گیا ہو) لشکر گاہ کے باہر ذبح کیا جائے۔ سرخ رنگ خون کی علامت ہے اور کفارہ خون سے ہوتا ہے۔ اس کی راکھ کو کسی پاک جگہ رکھنا تھا تاکہ ناپاکی دور کرنے کے لیے پانی میں گھول کر استعمال کیا جائے، مثلاً لاش کے چھونے کے بعد طہارت کے لیے۔[1]
توریت
[ترمیم]توریت میں سرخ بچھیا کی قربانی سے متعلق احکامات کتابِ گنتی میں ۱۹ویں نمبر پر موجود ہیں۔ بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰؑ کو یہوواہ نے ایسی سرخ بچھیا تلاش کرنے کا حکم دیا جس پر کسی قسم کے داغ نہ ہوں، دھبوں سے پاک ہو، کبھی جوا نہ رکھا گیا ہو، کبھی دوہا نہ گیا ہو، کبھی حاملہ نہ ہوئی ہو اور اسے پاکیزگی کی رسم کے لیے قربانی کیا جائے۔ سرخ بچھیا کو پھر ذبح کر کے لشکر گاہ کے باہر جلایا گیا۔ سدر کی لکڑی، ایزو کی جڑی بوٹی، سرخ رنگ میں رنگا کپڑا بھی اس آگ میں ڈالے گئے اور راکھ کو چشمے کے پانی میں گھول کر رکھا گیا۔
کسی انسان کی طہارت کے لیے ایزو کی شاخ سے مندرجہ بالا راکھ ملے پانی کو اس بندے پر چھڑکا جاتا ہے۔ طہارت کا عمل شروع ہونے کے تیسرے اور ساتویں دن ایسا کیا جاتا ہے۔ جو کاہن یہ رسم ادا کرتا ہے، وہ خود ناپاک ہو جاتا ہے اور خود کو اور اپنے لباس کو چشمے کے پانی سے دھوتا ہے۔ پانی کے چھڑکاؤ کے روز شام تک کاہن ناپاک رہے گا۔
مشناہ
[ترمیم]رومی بادشاہ ہیڈریان (دور حکومت 117-138 عیسوی) کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد سے یہودی علما نے مختلف اجتہادات کیے۔ یہودیوں نے شریعت موسوی کے متعلق ہونے والے ان اجتہادات کو ایک جگہ جمع کر کے ایک فقہی مجموعہ مشناہ مرتب کیا۔ یہودیوں کا خیال یہ تھا کہ موسٰی نے توریت تحریری اور زبانی طور پر بنی اسرائیل کو دی۔ ان زبانی ارشادات کو تحریر کر کے مشنا کی شکل دے دی گئی۔ یہ مشناہ موسٰی اور بعد کے انبیا کی احادیث اور یہودی علما کے اجتہادات کا مجموعہ ہے۔اس کتاب میں سرخ بچھیا کی قربانی اور اسے جلانے سے متعلق ہدایات ہیں۔ اس میں پہلے سے کوئی گمارا موجود نہیں مگر تالمود میں کئی دوسرے گمارا میں اس عمل کے بارے بات کی گئی ہے۔
قانون کی تفصیل
[ترمیم]مشناہ کے پارہ میں درج ہے کہ اگر سرخ بچھیا کے بدن پر دو کالے بال بھی موجود ہوں تو قربانی شمار نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ متذکرہ بالا شرائط بھی لازمی ہیں۔ کئی اور شرائط بھی عائد کی گئی ہیں جیسا کہ فطری پیدائش ہو، جراحت سے ہوئی پیدائش ناقص شمار ہوگی۔ پانی ’زندہ‘ ہو یعنی چشمے کا پانی ہو۔ مِقواہ یعنی شرعی غسل کی نسبت سرخ بچھیا کی قربانی میں یہ شرط سخت تر ہے کہ شرعی غسل کی خاطر بارش کا پانی برتن میں جمع کر کے اس سے غسل کیا جا سکتا ہے مگر ایسا پانی سرخ بچھیا کی قربانی کے عمل میں استعمال نہیں ہو سکتا۔
مشنا میں درج ہے کہ یروشلم کے ہیکل کے وقت اس رسم کا پانی سلوام کے تالاب سے آتا تھا۔ یہ رسم کافی طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس رسم کے شرکا کا کبھی بھی کسی لاش یا مردے سے تعلق نہ رہا ہو اور نہ ہی کسی ناپاک چیز سے۔ اس عمل میں استعمال ہونے والے سبھی برتن پتھر وغیرہ جیسی چیزوں سے بنائے جائیں تاکہ وہ ناپاک اثرات کو منتقل نہ کریں۔ پانی لانے کے لیے بچے مخصوص کیے جاتے تھے جو پیدائش سے الگ رکھے جاتے تاکہ وہ کبھی کسی لاش کو نہ چھوئیں۔
یروشلم میں ایسے صحن بنائے جاتے جو ناتراشیدہ چٹانوں پر استوار ہوتے اور ان کے نیچے گڑھے کھود کو تسلی کی جاتی کہ یہاں کبھی کوئی قبر نہ تھی۔ حاملہ خواتین کو یہاں لا کر رکھا جاتا تاکہ وہ اپنے بچے یہاں پیدا کر کے ان کی پرورش کریں۔ ان بچوں کو بیلوں کی پشت پر بٹھا کر پانی لانے بھیجا جاتا۔ بچے یہ پانی ہاتھوں میں موجود پیالوں میں لے کر آتے۔
مسجد الاقصٰی سے جبلِ زیتون یا کوہ طور تک باقاعدہ راستہ بنایا گیا تھا تاکہ سرخ بچھیا اور پروہت وغیرہ کسی قبر کو نہ چھوئیں اور براہ راست منزل تک پہنچیں۔
مشنا کے مطابق قربانی اور جلانے کا عمل کوہ طور پر ہوتا تھا۔ رسمی طور پر پاکیزہ کاہن بچھیا کو ذبح کرتا اور اس کے خون کو ہیکل کی سمت 7 مرتبہ چھڑکتا۔ پھر بچھیا کی لاش کو الاؤ پر جلا کر راکھ کیا جاتا اور اس دوران سرخ رنگ میں رنگی اون، حسوپ (چھوٹا، خوشبودار پودا) اور سدر کی لکڑی کو بھی ساتھ جلایا جاتا۔ کوہِ طور پر بچھیا کی قربانی اور جلائے جانے کے مقام کی نشاندہی ماہر آثارِ قدیمہ یوناتن ایڈلر نے حال ہی میں کی ہے۔
بچھیا کا رنگ
[ترمیم]توریت میں بچھیا کا رنگ ’ادوما‘ کہا گیا ہے جو سرخ بنتا ہے۔ سادیہ گاؤں نے اس لفظ کو عربی میں صفرا سے مشابہہ قرار دیا ہے جو انگریزی میں زرد یا پیلے رنگ کو کہتے ہیں۔ قرآن میں بھی حضرت موسیٰ کے حوالے سے زرد بچھیا کا تذکرہ ہے (سورہ البقرہ ۲:۶۹) اس تضاد پر یوسف قفیہ نے اپنے عبرانی ترجمے اور تشریح میں سادیہ کی تحقیق کے بارے لکھا ہے کہ انجیل میں سرخ رنگ کا تذکرہ ہے جو بچھیا کا عام رنگ ہوتا ہے۔ اس کو عربی میں زرد یا پیلا کہا جاتا ہے۔ اس کے خیال میں انجیل میں درج بچھیا کا رنگ سرخ ہی درج ہے اور اس میں کسی دوسرے رنگ کے دھبے یا ملاوٹ نہ ہوں۔
یہودی روایات
[ترمیم]ہلاخاہ میں درج شرائط پر پورا اترنے والی سرخ بچھیا حیاتاتی طور پر ایک عجوبہ شمار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس کا رنگ مکمل طور پر بھورا سرخ ہو (بزرگان نے اس بارے مختلف امتحانات تجویز کیے ہیں) اور اس کے تمام بال بالکل سیدھے ہوں (تاکہ یقین ہو سکے کہ اس پر کبھی جوا نہیں لادا گیا)۔ یہودی تاریخ میں حضرت موسیٰ سے لے کر دوسرے ہیکل کی تباہی تک ایسی ۹ بچھیائیں قربان کی گئی ہیں (حضرت موسیٰ کی تاریخ کا سال 1391 ق م درج ہے اور دوسرا ہیکل 70 عیسوی میں تباہ ہوا)۔
سرخ بچھیا کا انتہائی نایاب ہونا اور رسم کی تفصیلات نے سرخ بچھیا کو یہودی روایات میں الگ مقام دے دیا ہے۔ اسے ایسا تضاد قرار دیا گیا ہے جس کی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔ چونکہ ہیکل کی تعمیر کی بنیادی شرط ہی سرخ بچھیا کی راکھ ملے پانی سے ہونے والی پاکیزگی ہے، اس لیے دورِ جدید میں یہودی افراد تیسرے ہیکل کی تعمیر کی خاطر ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس بارے بہت سی بچھیائوں کو رد کیا گیا ہے اور ایسی کئی بچھیائیں دریافت بھی ہوئی ہیں۔ چوتھی صدی عیسوی تک آخری قربانی سے پیدا ہونے والی راکھ پوری طرح استعمال ہو گئی تھی۔
قرآن
[ترمیم]قرآن میں شوخ زرد رنگ کی گائے یا بچھیا کا تذکرہ ہے جیسے وہ زعفران رنگت کی ہو۔ سرخ گائے یا سرخ بچھیا کا کوئی تذکرہ قرآن میں نہیں ملتا۔
اس بارے قرآن کی دوسری اور سب سے طویل سورت البقرہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اس بارے درج ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ ’خدا نے بچھیا کی قربانی مانگی ہے‘۔ اہلِ قوم نے کہا، ’آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں؟‘ موسیٰ نے جواب دیا، ’میں ایسی حماقت سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں‘۔
بنی اسرائیل نے پھر پوچھا، ’خدا سے پوچھیں کہ کس قسم کی بچھیا قربان کی جائے‘۔ موسیٰ نے جواب دیا، ’خدا نے کہا ہے کہ بچھیا نہ تو بہت کم عمر ہو اور نہ ہی بوڑھی۔ سو اب اس حکم پر عمل کرو‘۔ بنی اسرائیل نے پھر پوچھا، ’خدا سے پوچھیں کہ اس کا رنگ کیا ہو‘۔ موسیٰ نے جواب دیا، ’خدا کا حکم ہے کہ یہ شوخ زرد رنگ کی بچھیا ہو، جو دیکھنے میں خوشنما لگے‘۔ بنی اسرائیل نے پھر کہا، ’خدا سے پوچھیں کہ کون سی گائے ہو؟ ہمیں تو سب گائیں ایک جیسی لگتی ہیں۔ ہماری رہنمائی ہو جائے تو ہم درست بچھیا کی قربانی کریں گے‘۔ موسیٰ نے کہا، ’ایسی بچھیا کہ جس نے کبھی ہل چلایا ہو نہ کبھی کھیتوں کی آبپاشی کا کام کیا ہو، کامل اور خامیوں سے پاک‘۔ بنی اسرائیل نے کہا، ’اب ہمیں سچ مل گیا ہے‘۔ پھر بھی انہوں نے انتہائی بے دلی سے بچھیا قربان کی اور اس کی راکھ بنائی۔
ڈاکٹر مصطفیٰ خطاب، قرآن، البقرہ
ابنِ کثیر نے ابن عباس اور عبیدہ ابن الحریث کے حوالے سے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے مشکوک سوالات نے ان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اگر وہ خدا کا پہلا حکم مان کر کوئی بھی بچھیا ذبح کر دیتے تو قربانی قبول ہو جاتی اور ان کی ذمہ داری پوری ہو جاتی۔ مگر انہوں نے سوال در سوال کر کے اس سادہ سے کام کو انتہائی دشوار بنا دیا۔
انجیل
[ترمیم]برناباس نے لکھا ہے کہ سرخ بچھیا سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں۔ عہد نامہ جدید میں نہ صرف سرخ بچھیا کو حضرت عیسیٰ ظاہر کیا گیا بلکہ ان کے مبینہ مصلوب ہونے اور مبینہ وفات کے مقام کے بارے بھی بات کی ہے۔
دورِ جدید کی سرخ بچھیائیں
[ترمیم]ہیکلی ادارے کا کام یروشلم میں تیسرے ہیکل کی تعمیر ہے اور اس نے مشنا ہدایات کے مطابق ایسی دو بچھیائیں تلاش کیں۔ پہلی بچھیا 1997 جبکہ دوسری 2002 میں ملی جن کے بارے ادارے نے پہلے پہل کہا کہ یہ ہر قسم کے داغ سے پاک ہیں۔ بعد ازاں انہیں ناقص پایا گیا اور ان کی قربانی کا خیال چھوڑ دیا گیا۔ ادارہ اب جدید ٹیکنالوجی سے ایسی سرخ بچھیا کی پیدائش کے بارے رقم جمع کر رہا ہے جو جینیاتی اعتبار سے سرخ اینگس نسل سے متعلق ہو۔ ستمبر 2018 میں ادارے نے اعلان کیا کہ ایسی ایک بچھیا پیدا ہوئی ہے مگر اس بارے مزید تحقیق آگے چل کر ہوگی۔ ستمبر 2022 میں امریکہ سے ایسی 5 بچھیائیں درآمد کی گئیں جن کو اسرائیل میں افزائش نسل کے لیے الگ جگہ رکھا گیا ہے۔ ربیوں نے انہیں قربانی اور جلائے جانے کے لیے موزوں اور بے عیب قرار دیا۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ گنتی 13–19:11