مفتی محمد امین
محمد امین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 مارچ 1926ء لاہور |
وفات | 3 جنوری 2018ء (92 سال) فیصل آباد |
شہریت | پاکستانی |
مذہب | اسلام |
مکتب فکر | اہلسنت والجماعت (بریلوی – حنفی) |
اولاد | سعید احمد اسعد، علامہ محمد کریم سلطانی، مولانا حبیب امجد، سجادہ نشین علامہ محمد مسعود احمد حسان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ رضویہ مظہر الاسلام شرقپور شریف |
استاذ | غلام رسول رضوی |
پیشہ | عالم ، مفتی |
متاثر | الشاہ امام احمد نورانی صدیقی، پیر علاؤ الدین صدیقی، |
درستی - ترمیم |
مفتی محمد امین نقشبندی مجددی قادری 1342ھ، شعبان المعظم یکم مارچ 1921ء، سوموار کے دن لاہور کے نواحی علاقے نوازش آباد میں پیدا ہوئے اور پیاسوں کے خوابیدہ بخت جاگ اٹھے۔
نام و نسب
[ترمیم]آپ کا پیدائشی نام محمد امین بن الحاج غلام محمد بن میاں غلام محی الدین تجویز کیا گیا۔
والدین
[ترمیم]آپ کے والد گرامی کا نام الحاج غلام محمد تھا۔جو زمینداری کے ساتھ ساتھ نوازش آباد کے نواحی مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔آپ کی والدہ محمد بی بی کی حیاتِ مبارکہ کابیشترحصہ قرآن مجید پڑھتے، پڑھاتے گزرا۔آپ ایک پاک طینت، بلند ہمت و بلند کردار خاتون تھیں۔
آپ کے ادارے
[ترمیم]مفتی محمد امین پاکستان کے ایک سنی عالم دین تھے۔ جن کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ مفتی محمد امین کی وجہ شہرت ان کی کتاب آب کوثر اور البرھان ہیں، اس کے علاوہ انھوں نے ایک تعلیمی ادارہ جامعہ امینیہ رضویہ قائم کیا۔ انھوں نے کثیر تعداد میں کتب تحریر کیں اور بہت سے علما ان کے جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ انھوں نے ان گنت مساجد کے ساتھ ساتھ جامعہ امینیہ رضویہ محمد پورہ، جامعہ امینیہ رضویہ شیخ کالونی، جامعہ نورالامین، لیاقت ٹاؤن، جامعہ زاھدیہ، رحمانیہ ٹاؤن، ادارہ تبلیغ الاسلام، کھرڑیانوالہ کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کے نام سے ایک دعوتی پلیٹ فارم قائم کیا۔
ابتدائیی تعلیم
[ترمیم]خواجہ فقیہ العصر نے ابتدائیی تعلیم گھر پہ حاصل کی۔ اسکول کی تعلیم’’ پکی حویلی ‘‘ نامی گاؤں میں ماسٹر عبد الرشید سے حاصل کی۔ پھر شرقپور شریف مدرسہ میں درس نظامی کے اسباق شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی سے شروع کیے۔ یہاں سات سالہ کورس فقط تین سال میں مکمل کیا اور دورہ حدیث شریف کے لیے 1367 ھ بمطابق اگست 1948ء کو لائلپور، موجودہ فیصل آباد میں حضرت قبلہ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ یہاں اتنی محبت ملی کہ یہیں کے ہو رہے۔ جامعہ رضویہ میں ہی افتاء نویسی کا آغاز کیا اور مفتی کا ٹائٹل پایا۔اسی دوران جامع مسجد گلزارِ مدینہ محمد پورہ شریف میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے لگے۔
ازدواج
[ترمیم]آپ 5 فروری 1953ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کی زوجہ انتہائی متقی، با وفا اور نیک خصلت تھیں۔ قبلہ فقیہ العصر کی ہمرا ہی میں گھرداخل ہوئیں اور سب سے پہلے کلام یہ تھا:’’مجھے نماز قائم کرنی ہے‘‘۔
بیعت
[ترمیم]خواجہ فقیہ العصر کی بیعت اولیٰ للہ شریف، حضرت رابعہ خواجہ مقبول الرسول للہی قادری، بیعت ثانیہ حضرت قبلہ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد چشتی جبکہ بیعت ثالثہ کوٹلی شریف، خواجہ عالم، خواجہ محمد صادق صدیقی نقشبندی مجددی کے دست ِ حق پرست پر ہوئی۔محدث اعظم پاکستان نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔ البتہ آپ سنگیوں کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت کرتے اور اسی سلسلہ شریف کے اسباق کی تلقین فرماتے۔
حجِ بیت اللہ
[ترمیم]آپ نے تین مرتبہ 1955ء، 1972ءاور1975ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ 1955ء میں آپ نے پہلا حج والدین کریمین کی معیت میں کیا۔
سیرت و کردار
[ترمیم]آپ علم و عمل کا حسین امتزاج تھے۔آپ صاحب تقوی و ورع، مخلص و باوفا اور انتہا درجے کے بااخلاق تھے۔ آپ کی مجلس ہر قسم کے طمع، تصنع اور غیبت سے پاک ہوتی۔ حضرت تبلیغِ دین کے لیے وعظ و نصیحت سے زیادہ کردار و عمل کو موثر خیال کرتے۔سنگیوں کی دلجوئی اور حاجت برآری میں پیش پیش رہتے۔ آپ نمود و نمائش اور ذاتی تشہیر کو سخت ناپسند رکھتے۔ ایک سنگی نے بر سرِ مجلس تعریفیں کیں تو فرمانے لگے: یاد رکھنا ! سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشاد مبارک کامفہوم ہے جو منہ پر تعریف(دنیاوی غرض سے) کرے اس کے منہ میں مٹی ڈال دو ! آپ علما سے بے حد محبت فرماتے۔ آپ کے قائم کردہ ادارے سے ان گنت حفاظ اور علما فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ عقائد کی پختگی پر بہت زور دیتے۔صحیح العقیدہ سادات کو آنکھوں پر بٹھاتے۔ آپ خامشی کو پسند کرتے مگر خلافِ شرع کام برداشت نہ کرتے۔ ٹخنوں سے نیچے پائنچے دیکھ کر جلال کا اظہار کرتے کہ تمھیں سنت کا پاس نہیں ؟ ہم نے آپ کو کسی مجلس میں ننگے سر نہ دیکھا۔ انتہائ علالت کے باوجود نماز تکبیر اولی کے ساتھ ادا فرماتے۔ سفر حرمین کے لیے رات کا انتخاب کیا جاتا تاکہ نماز با جماعت ادا ہو سکے۔ فقیہ العصر مصنفِ آبِ کوثر المعروف درود شریف والی سرکار خواجہ مفتی محمد امین نقشبندی مجددی قادری فیصل آبادی کے ایک مرید خانیوال سے جن کا نام عبد السلام احمد حیدر ہے وہ جب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ امینیہ میں داخل ہونے کے لیے فیصل آباد آئے تو انھوں نے اپنی روداد بیان کی کہ فقیر کئییییی برس سے خانقاہوں میں مرشد کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن انھیں کوئی نہ ملا جو ان کی طریقت روحانیت کی پیاس کو بھجا سکے لیکن فقیر تک کتاب آبِ کوثر کسی احباب کی طرف سے پہنچی اور اس کا مطالعہ کیا اور دل کی کیفیت بدل گئی اور بن دیکھے فقیہ العصر خواجہ مفتی محمد امین نقشبندی کے ہاتھوں پر بیعت کرلی اور کہا کہ جن کی تحریر میں اتنا اثر ہے تو ان سے تعلق جوڑنے میں کتنا اثر ہوگا جزاک اللّٰہ۔۔۔
وصال باکمال
[ترمیم]قبلہ نے طویل علالت کے بعد 3 جنوری 2018ء بمطابق 15 ربیع الثانی 1439ھ بروز بدھ بعد نمازِ فجر لاہور کے ڈاکٹرز ہسپتال میں نفی اثبات کا ورد کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا اور مصنف ِآبِ کو ثر والبرھان، صاحبِ کوثر سے جامِ کوثر پینے وطن اصلی کی جانب عازم ہوئے۔حضرت فقیہ العصر کا جنازہ، راضیۃً مرضیۃً کی صداؤں میں فیصل آباد کے مشہورِ زمانہ دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں ادا کیا گیا۔آپ کا جنازہ پاکستان کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔محتاط انداز ے کے مطابق تقریباً 50 ہزار لوگ تو جنازے سے آگے تھے۔ جنازہ پڑھانے کی سعادت آپ کے فرزند ارجمند شیخ القرآن محمد سعید احمد اسعد حفظہ اللہ کے حصے میں آئی۔
تدفین
[ترمیم]حضرت خواجہ فقیہ العصر کے جسدِحسن وعشق کو محمد پورہ شریف، فیصل آبادمیں مسجد گلزار مدینہ سے متصل ایک ذاتی مکان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہاں آپ کا مزارِ پرانوار مرجع خلائق اور آنکھ والوں کے لیے لہلہاتا چمنستان ہے۔