ناصر ادیب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ناصر ادیب
معلومات شخصیت
پیدائش 6 مارچ 1947ء (77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرگودھا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد غلام حسین
والدہ خدیجہ بیگم
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف ،  منظر نویس   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ناصر ادیب (انگریزی: Nasir Adeeb) پاکستانی فلمی صنعت کے شاعر، فلمی کہانی نویس اور نغمہ نگار، فلم ساز، مصنف اور ہدایت کار تھے۔ نامور فلمی رائٹر نے 70ء کی دہائی کے آخر میں فلم ”وحشی جٹ“ جیسی بلاک بسٹر فلم لکھ کر اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اسی فلم کا سیکوئل ”مولا جٹ“ لکھی جسے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دوسرے ممالک میں پزیرائی ملی۔ ناصر ادیب اب تک 374 فلمیں لکھ چکے ہیں۔ جو ایک باقاعدہ ریکارڈ ہے۔ پہلی ملازمت ریڈیو اختیار کرنے والے اس رائٹر نے پہلا ڈراما لکھا تو 3 ہزار روپے معاوضہ ملا۔ تو اچھا لگا پھر سوچا یہ کام ٹھیک ہے۔

ناصر ادیب نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر فلمی رائٹر بننے کا خیال آیا۔ 6 برس تک اسٹوڈیوز کے چکر لگائے۔ ان دنوں حزیں قادری صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ وہ فلم انڈسٹری کے بڑے رائٹر ہیں۔ اسی دوران مجھے ایک فلم لکھنے کا موقع ملا جس کا نام تھا ”وحشی جٹ“ اس فلم کے ہیرو سلطان راہی تھے۔ فلم نے اچھا بزنس کیا۔ پھر فلم ”مولا جٹ“ لکھی جو 1979ء کو ضیاء الحق کے دور میں ریلیز ہوئی تھی۔ جس کے مکالمے آج بھی بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ یہ فلم دراصل ”وحشی جٹ“ کا حصہ تھی اور ”مولا جٹ“ کے بعد ”جٹ اِن لندن“ لکھی جو ”مولا جٹ“ ہی کا حصہ تھی۔ تینوں فلمیں کامیاب ہوئیں لیکن جو شہرت ”مولا جٹ“ کے حصہ میں آئی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس فلم کو ہمسایہ ملک بھارت نے اپنی بہت سی فلموں میں کاپی کیا۔ ناصر ادیب نے بتایا کہ کاپی کبھی نہیں کی اور گنی چنی ہی بھارتی فلمیں دیکھی ہیں۔ میری فلم ”مولا جٹ“ دیکھ لیں، آپ کو کہیں بھی بھارتی فلم ”شعلے“ کا گمان نہیں گذرے گا۔ میری لکھی فلم”چن وریام“ اور ”شیر خان“ بھی کامیاب فلمیں ہیں، ان کے موضوع ”مولا جٹ“ سے مختلف، مکالمے بھی مختلف تھے۔

ناصر ادیب نے کہا کہ مولا جٹ کردار نہیں ایک حقیقت تھی جو مقام ”مولا جٹ“ کو ملا وہ ہندوستان میں ”شعلے“ اور”مغل اعظم“ کو بھی نہیں مل سکا۔ ہرطبقہ کے افراد نے اس فلم کو دیکھا۔ چاہے وہ سرکاری ہو یا بیوپاری۔ ناصر ادیب نے کہا کہ نئی فلم مولاجٹ گنڈاسے کے بغیر نہیں جچے گی۔ مصطفٰی قریشی کے نئے ڈائیلاگ پر محنت کی ہے۔ لوگ حیران ہو جائیںگے۔ نئی فلم کی تو یقیناً یہ فلم پنجابی فلموں کے نئے دور کی نوید ہوگی۔

مسلسل 40 سال سے لکھنے والے ناصر ادیب دعویٰ کرتے ہیںکہ رائٹر بشیر نیاز نے عام فلم رائٹرز سے حقیقتاً زیادہ فلمیں لکھی ہیں لیکن ان کی لکھی فلموں کی تعداد میری لکھی فلموں کے مقابلہ میں آدھی بھی نہیں۔ یعنی ان کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب ہے جبکہ میری لکھی فلموں کی تعداد 374 ہے اور یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔

دھوم فلمی دنیا میں[ترمیم]

لولی وڈ، بالی وڈ اور ہالی وڈ سمیت پوری دنیا میںکسی فلم رائٹر نے آج تک اتنی فلمیں نہیں لکھیں۔ ایک اور بات میری لکھی زیادہ تر فلمیں باکس آفس میں ریکارڈ بزنس کر گئیں۔ اپنا تمام بائیو ڈیٹا، فلموں کی تعداد اور تفصیل گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی انتظامیہ کو بھیجا ہوا ہے۔ ان کا اپنا طریقۂ کار ہے، جب وہ اپنی چھان بین مکمل کر لیں گے، تب میرا نام بھی اس کتاب میں شامل ہوجائے گا۔ ناصر ادیب کہتے ہیں کہ بھارتی فلمسازوں نے مجھ سے فلمیں لکھوائی ہیں، جن میں فلم ”گھائل“ اور فلم ”گھاتک“ تھی۔ آج بھی فلمیں لکھنے کی آفرز آتی رہتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سرکاری ایوارڈ دینے کا ایک نظام موجود ہے لیکن پرائڈ آف پر فارمنس حقداروں کو ملنا چاہیے۔ یہ ایوارڈ سفارش سے نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی کسی کا احسان لوں گا۔

تمغائے حسن کارکردگی[ترمیم]

23 مارچ 2019ء کو ناصر ادیب کو تمغائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "'Maula Jutt' creator Nasir Adeeb honoured with Pride of Performance"۔ The Express Tribune۔ 25 مارچ، 2019