ورجینیا وولف
ورجینیا وولف | |
---|---|
(انگریزی میں: Virginia Woolf) | |
![]() |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Adeline Virginia Stephen)[1] |
پیدائش | 25 جنوری 1882ء [2][3][4] ہائیڈ پارک گیٹ [5]، لندن [6] |
وفات | 28 مارچ 1941ء (59 سال)[7][6][3][4] لویس [5] |
طرز وفات | خود کشی [5] |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
شریک حیات | لیونارڈ وولف (10 اگست 1912–28 مارچ 1941)[9][5][10] |
ساتھی | ویٹا سیک وِل - ویسٹ [11] |
والد | لیسلی اسٹیفن [5][10] |
والدہ | جولیا سٹیفن [5][10] |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
مادر علمی | کنگز کالج لندن [5] |
پیشہ | ناول نگار [1]، مضمون نگار ، آپ بیتی نگار ، افسانہ نگار [1]، روزنامچہ نگار ، ادبی نقاد [1]، ناشر [5]، [[:مصنف|مصنفہ]] [5][3]، حقوق نسوان کی کارکن ، مصنفہ [12] |
مادری زبان | انگریزی |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [13][14] |
شعبۂ عمل | مضمون |
کارہائے نمایاں | خود کا ایک کمرہ |
مؤثر شخصیات | جارج ایلیٹ ، ڈینیل ڈیفو [15]، والٹر اسکاٹ [15]، ایملی برونٹی [15] |
تحریک | بلومزبری گروپ |
دستخط | |
![]() |
|
![]() |
IMDB پر صفحہ |
درستی - ترمیم ![]() |
ورجینیا وولف لندن میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد Leslie Stephen ایک ادیب تھے۔ گھر میں خوش حالی تھی اور وَرجینیا اور اُنکے بہن بھائیوں نے کسی اسکول جانے کی بجائے گھر پر ہی تعلیم حاصل کی، جس کے لیے قابل اساتذہ باقاعدہ گھر آیا کرتے تھے۔ وہ 13 برس کی تھیں کہ اُن کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ پہلی مرتبہ ایک بڑے نفسیاتی بحران سے دوچار ہوئیں۔ اُس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنیں اور یہ واقعہ عمر بھر کے ایک روگ کی شکل اختیار کر گیا۔
ادبی زندگی کا آغاز
[ترمیم]تاہم یہ مایوسیاں اُن کی زندگی کا صرف ایک رُخ ہیں۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ شروع میں وہ جریدے ٹائمز کے لیے باقاعدگی کے ساتھ مضامین لکھتی رہیں، اُن کا گھر اُس وقت کے اہم ادیبوں کے مل بیٹھنے کے ایک مرکز کی شکل اختیار کر گیا اور اِن ادبی مباحث میں اُس دَور کی سیاست، ادب اور فنون پر بھرپور طریقے سے اظہارِ خیال کیا جاتا تھا۔ اِن محفلوں میں وَرجینیا خود کو ایک زندہ دِل شخصیت کے طور پر پیش کرتی تھیں لیکن اندر سے وہ دُکھی تھیں۔
شادی
[ترمیم]1913ء میں معروف ادبی نقاد Leonard Woolf کے ساتھ شادی کے چند ہی مہینے بعد انھوں نے خودکشی کی پہلی کوشش کی۔ تاہم ادب تخلیق کرنے کے سلسلے میں اُن کی رفتار بدستور تیز رہی۔
ناول نگاری
[ترمیم]1912ء ہی میں اُن کا پہلا ناول The Voyage Out شائع ہو چکا تھا۔ اِس کے بعد کے برسوں میں اُن کے کئی ناول شائع ہوئے، جن میں انسان کے شعوری تانے بانے کو بیان کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔
اگرچہ اُن کے ناول آج بھی اہم ادبی تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں لیکن اُن کی اصل وجہِ شہرت اُن کے بعد کے دَور کے مضامین ہیں۔ 1929ء میں اُن کا مضمون شائع ہوا تھا، A Room of One's Own۔ اِس میں انھوں نے ادب تخلیق کرنے والی خواتین کے خراب حالات کی طرف متوجہ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ سال میں پانچ سو پاؤنڈ ادا کیے جائیں اور رہنے کے لیے ایک الگ کمرہ دیا جائے تو خواتین کو بھی ویسی ہی کامیابی مل سکتی ہے، جیسے کہ مرد ادیبوں کو۔ تاہم ادب کے میدان میں اُن کی کامیابیاں اُن کی خراب نفسیاتی حالت کو بہتر نہ بنا سکیں۔
حقوق نسواں
[ترمیم]اس کے علاوہ وہ خاص طور پر مغربی دُنیا میں حقوقِ نِسواں کی تحریک کی بانی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ اُن کی یہ پہچان اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ کبھی کبھی اُن کا ایک بے مثل ادیبہ ہونا پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
انتقال
[ترمیم]اُن پر بار بار مایوسی کے دَورے پڑتے تھے، انھیں آوازیں سنائی دیتی تھیں اور وہ کئی کئی روز تک کام نہیں کر سکتی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں 1940ء میں جرمن جنگی طیاروں نے اُن کے لندن کے گھر کو تباہ کر دیا۔ 28 مارچ سن 1941ء کو انھوں نے ایک ندی میں چھلانگ لگا دی اور ڈوب کر اپنی مایوسیوں سے ہمیشہ کے لیے نَجات پا گئیں۔ مغربی دُنیا میں وہ غالباً پہلی ادیبہ ہیں، جس نے خواتین پر زور دیا کہ وہ محض مرد ادیبوں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنے الگ تخلیقی راستے تلاش کریں۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب عنوان : The Feminist Companion to Literature in English — صفحہ: 1185
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Virginia-Woolf — بنام: Virginia Woolf — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب پ abART person ID: https://cs.isabart.org/person/38315 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ^ ا ب عنوان : A Historical Dictionary of British Women — ناشر: روٹلیج — اشاعت دوم — ISBN 978-1-85743-228-2 — abART person ID: https://cs.isabart.org/person/38315
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس — اوکسفرڈ بائیوگرافی انڈیکس نمبر: https://www.oxforddnb.com/view/article/37018 — اخذ شدہ بتاریخ: 28 مارچ 2020
- ^ ا ب اثر پرسن آئی ڈی: https://www.digitalarchivioricordi.com/it/people/display/12869 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 دسمبر 2020
- ↑ عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Вулф Вирджиния
- ↑ ELMCIP ID: https://elmcip.net/node/13836
- ↑ پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p20485.htm#i204846 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 اگست 2020
- ^ ا ب پ ت عنوان : Kindred Britain — اوکسفرڈ بائیوگرافی انڈیکس نمبر: https://www.oxforddnb.com/view/article/37018
- ↑ https://www.literaryladiesguide.com/literary-musings/beyond-the-legend-virginia-woolf-and-vita-sackville-wests-love-affair-friendship/
- ↑ خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — تاریخ اشاعت: 11 نومبر 2013 — یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500330927 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 مئی 2021
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11929398t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/5273187
- ↑ مصنف: ورجینیا وولف
Life
[ترمیم]ابتدائی زندگی
[ترمیم]ورجینیا وولف کا اصل نام ایڈی لائن ورجینیا اسٹیفن تھا اور وہ 25 جنوری 1882 کو ساؤتھ کینسنگٹن، لندن میں پیدا ہوئیں۔[1] ان کی والدہ جولیا (جن کا پیدائشی نام جیکسن تھا) اور والد سر لیسلی اسٹیفن تھے۔ ان کے والد ایک ممتاز ادیب، مؤرخ، مضمون نگار، سوانح نگار اور کوہ پیما تھے، جبکہ والدہ ایک معروف سماجی کارکن اور رفاہی شخصیت تھیں۔ [1][2] ورجینیا وولف کے ننھایلی رشتہ داروں میں قابل ذکر شخصیات شامل تھیں، جیسے جولیا مارگریٹ کیمرون، جو اپنی فنکارانہ فوٹوگرافی کے لیے مشہور تھیں اور لیڈی ہنری سمرسیٹ، جو خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہیں۔ [2] ورجینیا کا نام ان کی خالہ ایڈی لائن کے نام پر رکھا گیا تھا، مگر خالہ کے انتقال کے باعث وہ اپنا پہلا نام (ایڈی لائن) استعمال نہیں کرتی تھیں۔ [3]
ورجینیا کے دونوں والدین کی سابقہ شادیوں سے بچے تھے۔ جولیا کی پہلی شادی بیرسٹر ہربرٹ ڈک ورتھ سے ہوئی، جس سے تین بچے پیدا ہوئے: جارج سٹیلا اور جیرالڈ [2] لیسلی کی پہلی شادی، ولیم میکپیس ٹھاکرے کی بیٹی منی ٹھاکرے سے ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک بیٹی، لورا پیدا ہوئی۔ [1] لیسلی اور جولیا اسٹیفن کے چار بچے تھے: ونیسا تھوبی ورجینیا اور ایڈرین [1]
ورجینیا نے کم عمری ہی میں تحریر سے رغبت کا اظہار کیا۔ پانچ برس کی عمر تک وہ خطوط لکھنے لگی تھیں اور کتابوں سے اُن کی دلچسپی نے اُن کے والد کے ساتھ ایک خاص ذہنی ربط پیدا کیا۔ [1] دس برس کی عمر سے انھوں نے ایک تصویری خاندانی اخبار’’ہائیڈ پارک گیٹ نیوز‘‘ کا اجرا کیا، جس میں اسٹیفن خاندان کی روزمرہ زندگی اور واقعات کو قلم بند کیا جاتا تھا۔ یہ اخبار مقبول عام جریدے ’’ٹٹ بٹس ــکی طرز پر ترتیب دیا گیا تھا۔ ورجینیا نے’’ہائیڈ پارک گیٹ نیوز‘‘کو 1895 تک جاری رکھا۔ [4][5] [6] ء1897 میں انھوں نے اپنی پہلی ڈائری لکھنی شروع کی، جسے وہ اگلے بارہ برسوں تک باقاعدگی سے لکھتی رہیں۔ [7][8]
ٹالینڈ ہاؤس
[ترمیم]1882 کے موسم بہار میں، لیسلی نے سینٹ ایوس، کارن وال میں ایک بڑا سفید مکان کرایہ پر لیا۔ [9][1] ورجینیا کی ابتدائی زندگی کے تیرہ برسوں میں، خاندان ہر سال گرمیوں کے تین مہینے وہیں گزارتا رہا۔[10] اگرچہ اس گھر میں سہولتیں محدود تھیں، لیکن اس کی سب سے بڑی کشش پورتھ منسٹر بے کا منظر تھا، جہاں سے گودریوی لائٹ ہاؤس نظر آتا تھا۔[1] ٹالینڈ ہاؤس میں گزارے گئے وہ خوشگوار موسمِ گرما کے ایام بعد میں وولف کے ناولوں — جیکبز روم، ٹو دی لائٹ ہاؤس اور دی ویوز پر گہرے اثرات ڈالے۔ [11]
ٹالینڈ ہاؤس اور خاندان کے گھر دونوں میں، خاندان نے ادبی اور فنّی اشخاص کے ساتھ میل جول بڑھایا۔ یہاں بارہا تشریف لانے والے مہمانوں میں میں ہنری جیمز جارج میریڈتھ اور جیمز رسل لویل جیسی ادبی شخصیات شامل تھیں۔ [حوالہ درکار] 1894 کے بعد خاندان اس مقام پر واپس نہیں آیا؛ گھر کے سامنے ایک ہوٹل تعمیر ہو گیا جو سمندر کے منظر کے سامنے رکاوٹ بن گیا اور اگلے سال مئی میں جولیا اسٹیفن کا انتقال ہو گیا۔" [12]
جنسی زیادتی
[ترمیم]1939 کے مضمون "اے اسکیچ آف دی پاسٹ" میں ورجینیا وولف نے پہلی بار انکشاف کیا کہ انھیں بچپن میں جیرالڈ ڈک ورتھ کے ہاتھوں جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہی تجربہ اُن کی بعد کی زندگی میں ذہنی صحت کے مسائل کا ایک سبب بنا۔ [13] یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ جب جارج ڈک ورتھ اسٹیفن بہنوں کی نوجوانی کے زمانے میں ان کا نگران تھا، تو اُس دوران بھی اُس کے رویّے میں جنسی نوعیت کی نامناسب باتیں شامل تھیں۔ [14]
نوعمری
[ترمیم]
اپنی والدہ کی وفات کو ورجینیا نے بعد میں اپنی زندگی کا پہلا "ذہنی بحران" قرار دیا — اس واقعے کے بعد کئی مہینوں تک وہ بے حد مضطرب اور بے چین رہیں اور اگلے دو برسوں تک بمشکل ہی کچھ لکھ سکیں۔ [15]
اس موقع پر اسٹیلا ڈک ورتھ نے گھر میں والدہ کا کردار نبھایا [1] انھوں نے اپریل 1897ءمیں شادی کے بعد رخصت لی، لیکن اسٹیفن خاندان سے قریبی تعلق برقرار رکھا، یہاں تک کہ وہ ان کے قریب ہی ایک گھر میں منتقل ہو گئی تاکہ خاندان کی دیکھ بھال جاری رکھ سکے۔ تاہم، وہ اپنے ہنی مون کے دوران بیمار پڑ گئیں اور اسی سال جولائی انتقال کر گئیں۔ [16][17] اسٹیلا کی وفات کے بعد، جارج ڈک ورتھ نے خاندان کے ربراہ کا کردار نبھایا اور ونیسا اور ورجینیا کو سماجی تقریبات میں متعارف کروانے کی کوشش کی۔[18] لیکن یہ تجربہ دونوں بہنوں کے لیے اجنبی اور بے معنی رہا۔ ورجینیا نے بعد میں ان سماجی توقعات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا۔
"اُس زمانے کا معاشرہ ایک مکمل، مطمئن اور بے رحم مشین ایسا تھااور ایک لڑکی کااُس کے پنجوں سے بچ نکلنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ کوئی اور خواہش — جیسے مصوری کرنا یا لکھنا — سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا تھا۔" [19]
ورجینیا کے لیے لکھنا ہمیشہ بنیادی ترجیح رہا۔ انھوں نے ء1897 کے آغاز میں ایک نئی ڈائری لکھنا شروع کی اور نوٹ بُکس میں ادبی خاکے اور خیالاتی ٹکڑوں کا انبار لگا دیا۔ [20][21]
فروری 1904 میں لیسلی اسٹیفن کا انتقال ہو گیا، جس کی وجہ سے ورجینیا کو ذہنی عدم استحکام کا ایک اور دور کا سامنا کرنا پڑا، جو اپریل سے ستمبر تک جاری رہا۔ اس دوران اسے شدید نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے کم از کم ایک خودکشی کی کوشش کی۔ [22] وولف نے بعد میں ء1897 اور ء1904 کے درمیان کے عرصے کو "سات ناخوش برس" کے طور پر بیان کیا۔ [23]
تعلیم
[ترمیم]جیسا کہ اس وقت عام تھا، ورجینیا کی والدہ اپنی بیٹیوں کی رسمی تعلیم پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ [4] اس کی بجائے، ورجینیا کو اُس کے والدین نے ٹکڑوں میں، مختلف مواقع پر، گھریلو انداز میں تعلیم دی۔ انھیں پیانو سیکھنے کی باقاعدہ تربیت بھی دی گئی۔ [24] ورجینیا کو اپنے والد کی وسیع و عریض لائبریری تک مکمل رسائی حاصل تھی، جس کے ذریعے وہ کلاسیکی ادب کے اہم متون سے روشناس ہوئیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا مطالعہ اپنے کیمبرج کے ہم عصروں کی نسبت کہیں زیادہ گہرا اور متنوع تھا۔ انھوں نے بعد میں ایک یادداشت میں لکھا:
آج بھی شاید کچھ والدین اس بات پر شک کریں کہ کسی پندرہ سالہ لڑکی کو ایک بڑی اور بالکل غیر ترمیم شدہ لائبریری تک آزادانہ رسائی دینا دانائی ہے یا نہیں۔ لیکن میرے والد نے یہ اجازت دی۔ کچھ حقائق ایسے تھے جن کا وہ بہت مختصراً اور نہایت جھجکتے ہوئے ذکر کرتے۔
پھر بھی انھوں نے کہا: ‘جو چاہو پڑھو۔’ اور اُن کی تمام کتابیں... بغیر مانگے دستیاب تھیں۔[25]
1897ءسے ورجینیا نے کلاسیکی یونانی اور لاطینی زبانوں میں نجی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ ان کے اساتذہ میں سے ایک کلارا پیٹر تھی، جنھوں نے اُن کی کلاسیکی تعلیم میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ دوسری معلمہ، جینیٹ کیس بعد میں اُن کی قریبی دوست بن گئیں اور انھیں خواتین کے حقِ رائے دہی کی تحریک حق رائے دہی کی تحریک سے متعارف کرایا۔ [26] ورجینیا نے کنگز کالج لیڈیز ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرز میں بھی شرکت کی۔ [27]
اگرچہ ورجینیا کیمبرج یونیورسٹی میں داخل نہ ہو سکیں، مگر اُن کے بھائی تھوبی کے تجربات نے اُن پر گہرا اثر ڈالا۔ جب تھوبی 1899 میں ٹرینٹی کالج میں داخل ہوا تو وہ ایک ذہین نوجوانوں کے فکری حلقے کا حصہ بن گیا،جن میں کلائیو بیل لٹن سٹریچی لیونارڈ وولف (جن سے ورجینیا بعد میں شادی کرے گی) اور سیکسن سڈنی ٹرنر شامل تھے۔ اس نے 1900 میں ٹرنٹی مئی بال میں اپنی بہنوں کو اس دائرے سے متعارف کرایا۔ [28] اس حلقے نے ایک پڑھنے والا گروپ تشکیل دیا جسے انھوں نے مڈنائٹ سوسائٹی کا نام دیا، جس میں اسٹیفن بہنوں کو بعد میں مدعو کیا جائے گا۔
بلومز بری (1904-1912)
[ترمیم]گورڈن اسکوائر
[ترمیم]
اپنے والد کی وفات کے بعد، ونیسا اور ایڈرین اسٹیفن نے ساؤتھ کنزنگٹن میں واقع خاندانی گھر بیچنے اور ایک نسبتاً کم خرچ علاقے، بلومزبری منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ڈک ورتھ بھائی نئے گھر میں اسٹیفن خاندان کے ساتھ شامل نہ ہوئے؛ جیرالڈ نے شامل ہونے سے انکار کر دیا، جبکہ جارج نے شادی کر لی اور تیاریوں کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ علاحدہ رہائش اختیار کر لی۔ [29] ورجینیا نے ابتدائی طور پر خزاں کا مختصر عرصہ ہی وہاں گزارا کیونکہ اُس کی صحت کے پیشِ نظر اُسے کیمبرج اور یارکشائر بھیج دیا گیا۔ بالآخر دسمبر 1904 میں وہ مستقل طور پر بلومزبری میں سکونت پزیر ہو گئیں۔ [30]
مارچ 1905 سے، اسٹیفن خاندان نے اپنے گھر میں تھوبی کے دانشور دوستوں کے ساتھ باقاعدہ محفلوں کا آغاز کیا۔ ان محفلوں کو "جمعرات کی شامیں" کہا جاتا تھا، جن کا مقصد ٹرینٹی کالج کے علمی ماحول کو گھریلو سطح پر زندہ کرنا تھا۔ [31] یہی حلقہ آگے چل کر ادیبوں اور فنکاروں کے اُس فکری گروہ کی بنیاد بنا جو بعد ازاں "بلومزبری گروپ" کے نام سے جانا گیا۔[28] بعد میں، اس میں جان مینارڈ کینز، ڈنکن گرانٹ، ای۔ ایم۔ فارسٹر، راجر فرائی اور ڈیوڈ گارنیٹ شامل ہوں گے۔یہ حلقہ جلد ہی "ڈریڈناٹ دھوکا دہی" (Dreadnought Hoax) کی وجہ سے بدنام بھی ہوا، جس میں انھوں نے شاہی ابیسی نیائی (Abyssinian) وفد کا روپ دھارا۔[a][33] اس واقعے میں، ورجینیا نے "پرنس مینڈیکس" کا کردار ادا کیا تھا۔[34][35]
اسی عرصے کے دوران، ورجینیا نے مورلے کالج میں رضاکارانہ بنیادوں پر شام کی کلاسوں کو پڑھانا شروع کیا اور یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ اگلے دو برسوں تک جاری رہا۔ یہ تجربہ بعد میں ان کے ناول "مسز ڈالووے" میں طبقاتی تقسیم اور تعلیم جیسے موضوعات کی صورت میں جھلکتا ہے۔ [36] انھوں نے کتابوں پر تبصروں کے ذریعے کچھ آمدنی بھی حاصل کی، جن میں بعض مضامین چرچ پیپر " دی گارڈین" اور "نیشنل ریویو" میں شائع ہوئے۔ انھوں نے اپنے والد کی ادبی شہرت سے فائدہ اٹھا کر یہ تحریری کمیشن حاصل کیے۔[37]
ونیسا نے ان کے شیڈیول میں ایک اور سرگرمی کا اضافہ کیا، جسے "فرائیڈے کلب" کا نام دیا گیا۔ یہ محفل خالصتاً فنونِ لطیفہ پر گفتگو کے لیے مخصوص تھی۔ [38] اس مجلس نے کچھ نئے افراد کو ان کے فکری حلقے میں شامل ہونے کی راہ دی، جن میں ہنری لیمب، گوین ڈارون اور کیتھرین لیئرڈ شامل تھے [38]کیتھرین بعد ازاں ورجینیا کی نہایت قریبی دوست بنیں۔ ان نئے اراکین کے ذریعے بلومزبری گروپ کا رابطہ کیمبرج کے نسبتاً کم عمر مفکرین کے ایک اور گروہ سے ہوا، جنہیں ورجینیا نے "نیو پگنز" (Neo-Pagans) کا نام دیا۔یہ "فرائیڈے کلب" غالباً 1912 یا 1913 تک جاری رہا۔[38]
1906 کے موسم خزاں میں، بہن بھائیوں نے وائلٹ ڈکنسن کے ساتھ یونان اور ترکی کا سفر کیا۔ [39] سفر کے دوران وائلٹ اور تھوبی دونوں کو ٹائیفائیڈ بخار ہوا، جس کی وجہ سے اسی سال 20 نومبر کو تھوبی کی موت ہو گئی۔ [40] تھوبی کی موت کے دو دن بعد، ونیسا نے کلائیو بیل سے شادی کی سابقہ تجویز قبول کرلی۔ [41] ایک جوڑے کی حیثیت سے، اواں گارد آرٹ میں ان کی دلچسپی کا ورجینیا کی بطور مصنف مزید ترقی پر اہم اثر پڑے گا۔ [42]
فٹزروئے اسکوائر اور برنزوک اسکوائر
[ترمیم]
ونیسا کی شادی کے بعد، ورجینیا اور ایڈرین فٹزروئے اسکوائر میں منتقل ہو گئے، جو اب بھی گورڈن اسکوائر کے بہت قریب ہے۔ [43][44] یہ نیا مکان اس سے پہلے مشہور ڈراما نگار جارج برنارڈ شا کا گھر تھا اور یہ علاقہ پچھلی صدی سے فنکاروں کا مرکز چلا آ رہا تھا۔[43] ورجینیا کو ونیسا کی شادی سے حاصل شدہ دولت پر ایک قسم کی خفگی تھی؛ چونکہ ورجینیا اور ایڈرین نسبتاً سادہ اور محدود وسائل میں زندگی گزار رہے تھے، لہٰذا یہ فرق اُن کے لیے باعثِ کش مکش تھا۔ [45]
بہن بھائیوں نے اپنے نئے گھر میں جمعرات کلب دوبارہ شروع کیا۔ [46] اسی عرصے میں، بلومزبری گروپ نے بتدریج ترقی پسند خیالات کو مزید شدت سے اپنانا شروع کیا، جن میں جنس اور شناخت جیسے موضوعات پر کھلے مباحثے شامل تھے۔تاہم، ورجینیا بظاہر ان نظریات کو عملی طور پر اپنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں؛
ان کی جنسی خواہشات کا واحد اظہار اُن کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ [47][48] اسی زمانے میں انھوں نے اپنے پہلے ناول "میلیمبروزیا" پر کام شروع کیا، جو آگے چل کر "دی وایاژ آؤٹ" (1915) کے نام سے شائع ہوا۔ [49][44]
نومبر 1911 میں ورجینیا اور ایڈرین برنزوک اسکوائر کے ایک بڑے گھر میں منتقل ہو گئے اور جان مینارڈ کینز، ڈنکن گرانٹ اور لیونارڈ وولف کو وہاں قیام کرنے کی دعوت دی۔ [50][51] ورجینیا نے اسے ایک نئے موقع کے طور پر دیکھا: "ہم ہر قسم کے تجربات کرنے جا رہے ہیں،" اس نے اوٹولین موریل کو بتایا۔ [52]
ایشام ہاؤس (1911-1919)
[ترمیم]
بلومزبری دور کے آخری برسوں میں، ورجینیا اکثر اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ سفر پر جاتی رہیں۔ ان کے یہ سفر ڈورسیٹ، کارنوال سے ہوتے ہوئے دور دراز مقامات جیسے پیرس، اٹلی اور بیرئیوتھ تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان سفرات کا مقصد لندن میں مسلسل قیام سے پیدا ہونے والی ذہنی تھکن سے اُن کی حفاظت تھا۔ [53]یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا ورجینیا کو لندن کے قریب کسی پُرسکون دیہی گوشے کی ضرورت ہے، تاکہ اُن کی نازک ذہنی صحت کو سہارا دیا جا سکے۔ [54] 1910 کی سردیوں میں، وہ اور ایڈرین لیوسمیں کچھ عرصہ ٹھہرے اور آس پاس کے علاقے ساسیکس کا جائزہ لینا شروع کیا۔[53] جلد ہی ورجینیا کو قریبی قصبے فَرل میں ایک مناسب جائداد مل گئی، جس کا نام انھوں نے "لٹل ٹالینڈ ہاؤس" رکھا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اس خطے سے تعلق برقرار رکھا اور عمر بھر ساسیکس اور لندن کے درمیان قیام کرتی رہیں۔[b][56]
ستمبر 1911 میں، ورجینیا اور لیونارڈ وولف کو اسی علاقے میں "ایشم ہاؤس" نامی ایک مکان ملا، جس پر ورجینیا اور ونیسا نے مشترکہ لیز حاصل کی۔ [c][58] یہ مکان درختوں سے گھری ایک سڑک کے اختتام پر واقع تھا اور اپنی طرزِ تعمیر میں ریجنسی-گوتھک انداز کا حامل تھا، چپٹا، ہلکے رنگ کا، پُرسکون، زردی مائل رنگت لیے ہوئے۔ یہ گھر سنسان مقام پر تھا، جہاں نہ بجلی تھی نہ پانی اور کہا جاتا ہے کہ یہ مکان آسیب زدہ بھی تھا۔ [59][60]جنوری 1912 میں دونوں بہنوں نے اس گھر میں دو استقبالی تقریبات منعقد کیں۔[58]
ایشام میں رہتے ہوئے، 1916ءمیں لیونارڈ اور ورجینیا کو تقریبا چار میل دور ایک فارم ہاؤس ملا جو ان کے خیال میں اس کی بہن کے لیے مثالی ہوگا۔ آخر کار ونیسا نے اس کا معائنہ کرنے کے لیے دورہ کیا اور اسی سال اکتوبر میں قبضہ کر لیا اور اسے اپنے خاندان کے لیے موسم گرما کے گھر کے طور پر قائم کیا۔ چارلسٹن فارم ہاؤس بلومسبری گروپ کے لیے موسم گرما میں اجتماع کی جگہ بننا تھا۔ [61] [صفحہ درکار][page needed]
شادی اور جنگ (1912-1920)
[ترمیم]
لیونارڈ وولف کیمبرج کی ٹرِنٹی کالج میں تھوبی اسٹیفن کے دوستوں میں سے ایک تھے اور 1899 سے 1904 کے درمیان مے وِیک کے دوران تھوبی کے کمرے میں آمد و رفت کے دوران ان کی ملاقات اسٹیفن بہنوں سے ہوئی۔ انھوں نے بعد میں یاد کرتے ہوئے لکھا: "سفید لباسوں، بڑے ہیٹوں اور ہاتھوں میں چھتریوں کے ساتھ وہ جب آتی تھیں، تو ان کی خوبصورتی واقعی سانس روک دیتی تھی۔" [62] 1904 میں لیونارڈ سرکاری ملازمت کے لیے برطانیہ چھوڑ کرسیلون (موجودہ سری لنکا )چلے گئے، لیکن 1911 میں وہ ایک سال کی رخصت پر واپس آئے— کیونکہ لٹن اسٹریچی کے خطوط، جن میں ورجینیا کے حسن کے چرچے تھے، انھیں واپس کھینچ لائے۔ [63][64][65]واپسی کے بعد لیونارڈ اور ورجینیا نے مختلف سماجی تقریبات میں ایک ساتھ شرکت کی اور اسی سال دسمبر میں لیونارڈ، برنزوِک اسکوائر میں کرایہ دار کے طور پر رہائش پزیر ہو گئے۔
لیونارڈ نے 11 جنوری 1912 کو ورجینیا کو شادی کی تجویز پیش کی۔ [66] شروع میں اس نے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا، لیکن دونوں نے محبت کا اظہار جاری رکھا۔ لیونارڈ نے سیلون واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا اور اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ 29 مئی کو ورجینیا نے لیونارڈ سے اپنی محبت کا اعلان کیا اور انھوں نے 10 اگست کو سینٹ پینکراس ٹاؤن ہال میں شادی کی۔[67] اس جوڑے نے فرانس، اسپین اور اٹلی کے جنوب کا سفر کرنے سے پہلے اپنا ہنی مون سب سے پہلے اشام اور کوانٹاک ہلز میں گزارا۔ واپس آنے پر، وہ کلفورڈز ان میں منتقل ہو گئے اور اپنا وقت لندن اور ایشام کے درمیان بانٹنا شروع کر دیا۔[68][69] اگرچہ ورجینیا بچے پیدا کرنا چاہتی تھی، لیکن لیونارڈ نے انکار کر دیا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ورجینیا ماں بننے کے لیے ذہنی طور پر اتنی مضبوط نہیں تھی اور اسے خدشہ تھا کہ بچے پیدا کرنے سے اس کی ذہنی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ [70]
ورجینیا نے اپنی شادی سے قبل اپنے پہلے ناول The Voyage Out کا ماقبل آخری مسودہ مکمل کر لیا تھا، مگر دسمبر ء1912 سے مارچ 1913ءکے درمیان انھوں نے اس میں وسیع پیمانے پر ترامیم کیں۔یہ کتاب بعد ازاں ان کے سوتیلے بھائی جیرالڈ ڈک ورتھ کے اشاعتی ادارے نے قبول کر لی، لیکن مسودے کو نظرِ ثانی کے لیے پڑھنا اور اس میں اصلاح کرنا ورجینیا کے لیے ایک شدید جذباتی اذیت بن گیا۔ [71] یہ تناؤ آئندہ دو برسوں میں متعدد ذہنی بحرانوں کا پیش خیمہ بنا۔ بالآخر 9 ستمبر 1913ء کو ورجینیا نے خودکشی کی کوشش کی، جب انھوں نے نیند کی گولیاںویرونل کی زیادہ مقدار لے لی— تاہم سرجن جیفری کینز کی بروقت مدد سے ان کی جان بچا لی گئی۔[72] ورجینیا کی شدید علالت کے باعث ڈک ورتھ کو ناول کی اشاعت موخر کرنی پڑی اور بالآخر 26 مارچ 1915ء کو The Voyage Out شائع ہوا۔ [73]
1914ءکے خزاں میں، ورجینیا اور لیونارڈ وولف رچمنڈ گرین کے ایک مکان میں منتقل ہو گئے۔[74]مارچ 1915ءکے آخر میں وہ "ہوگارتھ ہاؤس" منتقل ہوئے، جس کے نام پر انھوں نے 1917ءمیں اپنا اشاعتی ادارہ "ہوگارتھ پریس" قائم کیا۔[75] لندن کے مضافات میں منتقل ہونے کا فیصلہ ورجینیا کی صحت کے پیشِ نظر کیا گیا۔[76] ورجینیا کے بہت سے دوست جنگ کے خلاف تھے اور ورجینیا خود بھی جنگ کی مخالفت میں پُرامن نظریے اور سنسرشپ کے خلاف مؤقف رکھتی تھیں۔[77]1916ءمیں لیونارڈ وولف کو طبی بنیادوں پر جبری فوجی بھرتی سے استثنا مل گیا۔[78] اسی سال، راجر فرائی کی سفارش پر، وولف میاں بیوی نے دو خادمائیں ملازم رکھیں: لوٹی ہوپ، جو پہلے بھی بلومزبری گروپ کے بعض ارکان کے ساتھ کام کر چکی تھیں اورنیلی باکسال، جو بعد ازاں 1934 تک ان کے ساتھ مقیم رہیں۔ [79]
وولف میاں بیوی نے جنگِ عظیم اول کے کچھ سال ایشام ہاؤس میں گزارے، لیکن مالک مکان نے 1919ءمیں انھیں وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا۔ [80]مایوسی کے عالم میں انھوں نے لیوس کے علاقے میں واقع "راؤنڈ ہاؤس" خرید لیا۔ لیکن ابھی اسے خریدا ہی تھا کہ روڈمیلکے نزدیک واقع "منک ہاؤس" نیلامی میں آ گیا—یہ لکڑی سے بنا ہوا پرانا مکان تھا، جس کے کمروں کی چھتوں میں صدیوں پرانے بلوط کے شہتیروں کا استعمال کیا گیا تھا اور اور اندازہ تھا کہ اس کی تعمیر پندرھویں یا سولہویں صدی کی ہے۔[81] میاں بیوی نے فوراً "راؤنڈ ہاؤس" بیچ دیا اور سات سو پاؤنڈ میں "منک ہاؤس" خرید لیا۔ [82] اگرچہ اس میں بھی پانی کی سہولت موجود نہ تھی،لیکن اس کے ساتھ ایک ایکڑ پر پھیلا ہوا باغ تھا اور مکان کی کھڑکیوں سے دریائے اوز کے پار "ساؤتھ ڈاؤنز" کی پہاڑیوں کا دلفریب منظر دکھائی دیتا تھا۔ لیونارڈ وولف کے مطابق یہ منظر بعینہٖ وہی تھا جیسا کہچوسرکے زمانے میں ہوتا ہوگا۔[83] وولف خاندان نے "منک ہاؤس" کو ورجینیا کی زندگی کے اختتام تک برقرار رکھا۔ لندن میں ان کا گھر جب بمباری میں تباہ ہوا تو وہ مستقل طور پر یہیں آ بسے۔ یہی وہ مکان تھا جہاں ورجینیا نے 1941ءکے اوائل میں اپنا آخری ناول Between the Acts مکمل کیا اور کچھ ہی عرصے بعد اپنے آخری ذہنی بحران کے دوران، 28 مارچ کو قریبی دریائے اوز میں کود کر خودکشی کر لی۔[78]
مزید کام (1920-1940)
[ترمیم]میموائر کلب
[ترمیم]
1920 میں جنگ کے بعد "بلومزبری گروپ" کو نئے سرے سے منظم کیا گیااور اس کا نام " میموائر کلب " رکھا گیا۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ حلقہ ذاتی تحریر (خودنوشت) پر مرکوز تھا، جس کا انداز پروستکے شاہکار <i>اےلا ریچرچ</i>سے متاثر تھا اور یہ روایت بیسویں صدی کی کئی مؤثر کتابوں کا محرک بنی۔یہ گروپ، جو جنگ کے دوران بکھر گیا تھا، میری (مولی) مکارتھی نے دوبارہ مجتمع کیا، جنھوں نے ان دوستوں کو "بلومزبریز" کا لقب دیا اور ان کی ملاقاتوں کو "کیمبرج اپاسلز" کے اصولوں پر استوار کیا— یہ ایک اعلیٰ تعلیمی مباحثاتی سوسائٹی تھی، جس کے کچھ ارکان اس گروپ کا بھی حصہ رہے تھے۔ان اصولوں میں صاف گوئی اور فکری دیانت پر زور دیا گیا۔کل 125 خودنوشتوں میں سے، ورجینیا نے تین تحریریں پیش کیں، جو ان کی وفات کے بعد 1976 میں مجموعے Moments of Being میں شائع ہوئیں۔ان کے عنوانات یہ تھے:
- 22 Hyde Park Gate (1921)
- Old Bloomsbury (1922)
- Am I a Snob? (1936)[84] [صفحہ درکار][page needed]
ویٹا ساک ول-ویسٹ
[ترمیم]14 دسمبر 1922 کو وولف نے مصنف اور باغبان ویٹا ساک ویل ویسٹ سے ملاقات کی، جو ہیرالڈ نکولسن کی بیوی تھی۔[85][78] یہ دور دونوں مصنفین کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہونا تھا، وولف نے تین ناول، ٹو دی لائٹ ہاؤس (1927) اورلینڈو (1928) اور دی ویوز (1931) کے ساتھ ساتھ متعدد مضامین بھی تیار کیے، جن میں "مسٹر بینیٹ اینڈ مسز براؤن" (1924) اور "اے لیٹر ٹو اے ینگ پویٹ" (1932) شامل ہیں۔ [86] 1941 میں وولف کی موت تک دونوں خواتین دوست رہیں۔
ورجینیا وولف بھی اپنے زندہ بچ جانے والے بہن بھائیوں، ایڈرین اور ونیسا کے قریب رہی۔ [87]
مزید ناول اور نان فکشن
[ترمیم]سن 1924 سے 1940 کے درمیانی عرصے میں، وولف میاں بیوی دوبارہ بلومزبری واپس آ گئے، جہاں انھوں نے 52 ٹیویسٹاک اسکوائر میں دس سالہ کرایہ پر ایک مکان حاصل کیا۔[78]اسی مکان کے تہ خانے میں انھوں نے ہوگارٹ پریس کا انتظام سنبھالا اور ورجینیا نے وہیں اپنا ذاتی لکھنے کا کمرہ بھی قائم کیا۔یہی وہ جگہ تھی جہاں ورجینیا وولف کی کئی اہم تحریریں تخلیق ہوئیں اور ان کا تخلیقی اور اشاعتی کام ایک دوسرے سے جُڑ گیا۔[88]
سن 1925 میں، ورجینیا وولف کا ناول "مسز ڈیلوے" مئی کے مہینے میں شائع ہوا، لیکن اگست میں چارلسٹن میں قیام کے دوران اُن کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئیں۔1927 میں اُن کا اگلا ناول "ٹو دی لائٹ ہاؤس" منظرِ عام پر آیا اور اگلے ہی برس یعنی 1928 میں، انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں "خواتین اور ادب" کے موضوع پر لیکچر دیا جبکہ اکتوبر میں ان کا مشہور زمانہ ناول "اورلینڈو" شائع ہوا۔
یہ دور وولف کی فکری اور ادبی سرگرمیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔
کیمبرج میں دیے گئے ورجینیا وولف کے دونوں لیکچر بعد ازاں 1929 میں ان کے شہرۂ آفاق مضمون "اے روم آف ونز اون" (اپنا ذاتی کمرہ) کی بنیاد بنے۔ [78] ورجینیا نے زندگی میں صرف ایک ڈراما لکھا، جس کا نام تھا "فریش واٹر"— یہ ان کی نانیجولیا مارگریٹ کیمرون کی زندگی پر مبنی تھا اور اسے 1935ءمیں ان کی بہن کے اسٹوڈیو فٹزروئے اسٹریٹمیں پیش کیا گیا۔ 1936ءمیں ان کا ناول "دی ایئرز" شائع ہوا، جس کی ابتدائی صورت ایک لیکچر تھی جو انھوں نے 1931 میں "نیشنل سوسائٹی فار وویمنز سروس" کو دیا تھا۔ اس لیکچر کا ترمیم شدہ ورژن بعد میں "پروفیشنز فار وویمن" کے عنوان سے شائع ہوا۔[89] "دی ایئرز" کی تکمیل کے بعد ورجینیا کی طبیعت ایک بار پھر بگڑ گئی اور وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئیں۔[78]
لندن میں وولفس کی آخری رہائش گاہ 37 میکلنبرگ اسکوائر (1939-1940) تھی، جو ستمبر 1940ءدی بلٹز کے دوران تباہ ہو گئی تھی۔ ایک ماہ بعد ٹاوسٹاک اسکوائر پر ان کا سابقہ گھر بھی تباہ ہو گیا۔ اس کے بعدانہوں نے ساسیکس والے گھر میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرلی[90]
موت
[ترمیم]
ااپنا آخری ناول "بِیٹوین دی ایکٹس" (جو بعد از مرگ1941ءمیں شائع ہوا، ) کا مسودہ مکمل کرنے کے بعد، ورجینیا وولف ایک گہری ذہنی دُکھ اور افسردگی کا شکار ہو گئیں، جو ان کے سابقہ تجربات سے مشابہ تھی۔دوسری جنگ عظیم کا آغاز، لندن میں ان کے گھر کادی بلٹز کے دوران تباہ ہو جانا اور ان کے مرحوم دوست راجر فرائی کی سوانح عمری کو ملنے والے سرد استقبال نے ان کی ذہنی حالت کو مزید خراب کر دیا، یہاں تک کہ وہ کام کرنے کے قابل نہ رہ سکیں۔ [91]جب لینارڈ وولف نے ہوم گارڈ میں شمولیت اختیار کی، تو ورجینیا نے اس کی سخت مخالفت کی۔ وہ اپنے امن پسند نظریات پر قائم رہیں اور اپنے شوہر پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ "ہوم گارڈ کا بے وقوفانہ یونیفارم" پہنے ہوئے ہیں۔[92]
دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد، وولف کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ وہ موت کی جنون میں مبتلا تھیں، جو وقت کے ساتھ بڑھتا ہی گیا [93] 28 مارچ 1941 کو وولف نے اپنی جیب میں ایک بڑا پتھر رکھنے کے بعد، اپنے گھر کے قریب تیزی سے بہنے والے دریائے اووس میں خود کو ڈوب دیا۔ [94] اس کی لاش 18 اپریل تک تلاش نہیں کی جاسکی۔ [95] اس کے شوہر نے اس کی باقیات کو منک ہاؤس کے باغ میں دیودار کے ایک درخت تلے دفن کیا، جو ان کا گھر روڈمیل سسیکس میں ہے۔ [96]
اپنے شوہر کو لکھے ہوئے خودکشی نوٹ میں، اس نے لکھا:
پیارے،
میں یقین سے کہتی ہوں کہ میری عقل پھر سے ماؤف ہو رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم پھر سے ان خوفناک لمحات سے نہیں گذر سکتے۔ اور اس بار میں صحت یاب نہیں ہو پاؤں گی۔ میں آوازیں سننے لگی ہوں اور میرا دھیان منتشر ہو چکا ہے۔ اس لیے میں وہی کر رہی ہوں جو مجھے بہترین عمل لگتا ہے۔ تم نے مجھے زندگی کی سب سے عظیم خوشی عطا کی ہے۔ تم ہر طرح سے وہ سب کچھ رہے جو کوئی ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس بھیانک مرض کے آنے تک ہم دونوں سے زیادہ خوش حال کوئی جوڑا نہ تھا۔ اب میں اس مرض سے مزید مقابلہ نہیں کر سکتی۔ میں جانتی ہوں کہ میں تمھاری زندگی برباد کر رہی ہوں کہ میرے بغیر تم اپنا کام بہتر کر سکو گے۔ اور تم ضرور کرو گے، یہ میں جانتی ہوں۔ دیکھو، میں یہ خط بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پا رہی۔ میں پڑھ نہیں سکتی۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میری زندگی کی ساری خوشیاں تمھاری بدولت ہیں۔ تم نے میرے ساتھ بے پناہ صبر کیا اور ناقابلِ یقین حد تک اچھے رہے۔ میں یہ بات سب کو بتانا چاہتی ہوں—یہ سب کو معلوم ہے۔ اگر کوئی مجھے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ میرے پاس سب کچھ ختم ہو چکا ہے، سوائے تمھاری نیکی کے یقین کے۔ میں تمھاری زندگی کو مزید خراب نہیں کر سکتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم دونوں سے زیادہ خوش حال کوئی جوڑا نہ تھا۔
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Gordon 2004
- ^ ا ب پ Garnett 2004
- ↑ Harris 2011، صفحہ 12-13
- ^ ا ب Harris 2011، صفحہ 18
- ↑ Lowe 2005، صفحہ vii
- ↑ Lowe 2005، صفحہ ix
- ↑ Woolf 1990، صفحہ 134، 1 January 1898
- ↑ Woolf 1990
- ↑ Eagle اور Carnell 1981، صفحہ 232
- ↑ Harris 2011، صفحہ 19-20
- ↑ Wright 2011، صفحہ 22
- ↑ Harris 2011، صفحہ 21-22
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 123-124
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 151-156
- ↑ Harris 2011، صفحہ 25
- ↑ Harris 2011، صفحہ 28
- ↑ Bell 1972، صفحہ 191، Chronology
- ↑ Harris 2011، صفحہ 29
- ↑ Woolf 1940، صفحہ 157
- ↑ Bell 1972، صفحہ 190، Chronology
- ↑ Harris 2011، صفحہ 35
- ↑ Harris 2011، صفحہ 36
- ↑ Harris 2011، صفحہ 32
- ↑ Harris 2011، صفحہ 18-19
- ↑ Woolf 1932a، صفحہ 72
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 141,275-276
- ↑ Harris 2011، صفحہ 33
- ^ ا ب Todd 1999، صفحہ 12
- ↑ Bell 1972، صفحہ 94-96
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 199-201
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 204,206
- ↑ Wade 2015
- ^ ا ب Lee 1997a، صفحہ 259
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 278-283
- ↑ Sybil Oldfield (1989)۔ "The Elegaic Artist: Virginia Woolf (1882-1941)"۔ Women against the Iron Fist. Alternatives to Militarism 1900-1989.۔ Oxford: Basil Blackwell۔ ص 96–130۔ ISBN:0-631-14879-5
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 218-220
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 211
- ^ ا ب پ Lee 1997a، صفحہ 216
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 223
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 225-226
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 210,226
- ↑ Briggs 2006a، صفحہ 69–70
- ^ ا ب Lee 1997a، صفحہ 233
- ^ ا ب Bell 1972، صفحہ 196
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 233-235
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 235
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 238-241
- ↑ Bell 1972، صفحہ 170
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 232,274
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 267,300
- ↑ Bell 1972، صفحہ 180
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 288
- ^ ا ب Lee 1997a، صفحہ 236
- ↑ Bell 1972، صفحہ 166
- ↑ Wilkinson 2001
- ↑ Bell 1972، صفحہ 166–167,227-252
- ↑ Woolf 1964، صفحہ 56
- ^ ا ب Lee 1997a، صفحہ 311
- ↑ Eagle اور Carnell 1981، صفحہ 9-10
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 311-312
- ↑ Bell 1972، Vol II: 1915–1918
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 204-205
- ↑ Wright 2011، صفحہ 40
- ↑ Harris 2011، صفحہ 47
- ↑ Wright 2011، صفحہ 50
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 300-301
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 301-304
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 317-318
- ↑ Harris 2011، صفحہ 49
- ↑ Haynes 2019b
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 321-322
- ↑ Harris 2011، صفحہ 52,54
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 322
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 325
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 346-347, 358
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 346
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 339-341,345
- ^ ا ب پ ت ٹ ث Todd 1999، صفحہ 13
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 349-350
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 346,416
- ↑ Woolf 1964، صفحہ 61
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 67
- ↑ Eagle اور Carnell 1981، صفحہ 228
- ↑ Rosenbaum اور Haule 2014
- ↑ Bell 1972، صفحہ 235، Vol. II
- ↑ Hussey 2006
- ↑ Briggs 2006a، صفحہ 13
- ↑ Garnett 2011، صفحہ 52–54
- ↑ Woolf 1977، صفحہ xxvii–xliv
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 728-730,733
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 725,739
- ↑ Gordon 1984، صفحہ 269
- ↑ Gordon 1984، صفحہ 279
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 747-748
- ↑ Lee 1997a، صفحہ 752
- ↑ Wilson 2016، صفحہ 825
- 1882ء کی پیدائشیں
- 25 جنوری کی پیدائشیں
- لندن میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 1941ء کی وفیات
- 28 مارچ کی وفیات
- ورجینیا وولف
- انگریز آپ بیتی نگار
- انگریز انسان دوست
- انگریز خواتین ناول نگار
- انگریز روزنامچہ نگار
- انگریز شخصیات
- انگریز ملحدین
- انگریز یاداشت نگار
- انیسویں صدی کی انگریز خواتین
- انیسویں صدی کی خواتین
- انیسویں صدی کے انگریز مصنفین
- برطانوی آپ بیتی نگار
- برطانوی اشتراکیت پسند
- برطانوی انسان دوست
- برطانوی خواتین مضمون نگار
- برطانوی خواتین ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- برطانوی مضمون نگار
- برطانوی ملحدین
- برطانوی یاداشت نگار
- بیسویں صدی کی انگریز خواتین
- بیسویں صدی کی برطانوی مصنفات
- بیسویں صدی کی مصنفات
- بیسویں صدی کے انگریز ناول نگار
- بیسویں صدی کے برطانوی مصنفین
- بیسویں صدی کے برطانوی ناول نگار
- بیسویں صدی کے مضمون نگار
- ثقافتی ناقدین
- خودکشی کرنے والی خواتین
- خودکشی کرنے والے مصنف
- خودکشیاں بذریعہ غرق آب
- کنگز کالج لندن کے فضلا
- لندن کے مصنفین
- مخالفین قوم پرستی
- مذاہب کے نقاد
- مسیحیت کے نقاد
- معاشرتی ناقدین
- نسائيت پسند ملحدین
- یہودیت کے نقاد
- بیسویں صدی کی انگریز مصنفات
- بیسویں صدی کے انگریز مصنفین
- برطانوی حامی حقوق نسواں
- انگریز حامی حقوق نسواں
- انیسویں صدی کی انگریز شخصیات
- دوجنسی خواتین
- انیسویں صدی کی ایل جی بی ٹی کیو شخصیات
- بیسویں صدی کی ایل جی بی ٹی کیو شخصیات
- 1941ء میں خودکشی
- خواتین روزنامچہ نگار
- برطانوی خواتین یاداشت نگار
- انگریز نسائیت پسند مصنفین
- انگریز ایل جی بی ٹی مصنفین
- بیسویں صدی کی برطانوی ایل جی بی ٹی کیوشخصیات
- انیسویں صدی کی انگریز ایل جی بی ٹی شخصیات
- انیسویں صدی کی انگریز مصنفات
- انیسویں صدی کے ملحدین
- بیسویں صدی کی انگریز ایل جی بی ٹی کیو شخصیات
- بیسویں صدی کے ملحدین
- بیسویں صدی کے مترجمین
- انگریز مضمون نگار
- انگریز افسانچہ نگار
- انگریز مترجمین
- ادبی نظریہ ساز
- ادبی کردار
- برطانوی خواتین روزنامچہ نگار
- بیسویں صدی کے برطانوی ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- بیسویں صدی کے سوانح نگار
- انیسویں صدی کے روزنامچہ نویس
- بیسویں صدی کے روزنامچہ نویس
- برطانوی ادبی نقاد
- ایل جی بی ٹی کیو ناول نگار
- خواتین ناول نگار
- عہد وکٹوریہ کی خواتین
- بیسویں صدی کے افسانہ نگار
- دو جنسی مصنفین
- نسائیت پسند مصنفین
- مکتوبات
- انشائیے
- ناول
- روزنامچے
- فعالیت پسند برائے حقوق نسواں
- برطانوی متاثرین جرم
- انگریز ڈراما نگار اور ڈراما نویس
- ایل جی بی ٹی کیونسائيت پسند
- مملکت متحدہ میں خودکشیاں
- بیسویں صدی کا ادب
- انگریزی ادب
- برطانوی ادب
- انیسویں صدی کے انگریز روزنامچہ نگار
- بیسویں صدی کے انگریز روزنامچہ نگار
- برطانوی مذاہب کے نقاد
- مملکت متحدہ میں ذہنی صحت کی تاریخ
- برطانوی ایل جی بی ٹی کیو ناول نگار
- خواتین
- قلمی نام