چالیس چراغ عشق کے (ناول)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چالیس چراغ عشق کے (ناول)
(انگریزی میں: The Forty Rules of Love ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف الف شفق  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 2009  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

چالیس چراغ عشق کے ترکی، انگریزی، اردو اور عربی میں شائع ایک مقبول ناول کا عنوان ہے۔ یہ ناول ترکی کی مشہور ناول نگار ایلف شفق کا سب سے مشہور ناول ہے۔ ایلف شفق کے اس مشہور ناول کا اردو ترجمہ ’’چالیس چراغ عشق کے ‘‘ نام سے ہما انور نے کیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ جلال الدین رومی اور ان کے پیر و مرشد شمس تبریز کے ارد گرد گھومتا ہے۔ یہ ناول ساڑھے سات لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا اور ترکی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔[1]

’فورٹی رولز آف لو‘(Forty rules of love) ترکی اور انگریزی کی مشہور ناول نگار ایلف شفق کی ایک بہترین تخلیق ہے جس میں انھوں نے مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز کی دوستی اور تصوف کو بیان کیا ہے۔

یہ چالیس اصول دراصل شمس تبریزی کے اقوال ہیں سارے کے سارے اصول ان دونوں ہستیوں کے باہمی مکالمے پر مشتمل نہیں ہیں۔۔۔ناول نگار نے اقوال کو ناول کے بعض دوسرے کرداروں کے ساتھ بھی شمس تبریز کی ہونے والی گفتگو میں پرویا ہے۔

کردار[ترمیم]

کہانی[ترمیم]

اس ناول کا موضوع مشرق و مغرب اور ماضی و حال کے مابین محبت اور روحانی و دنیاوی محبت ہے جس کو جلال الدین رومی اور ان کی پیر و مرشد شمس الدین تبریزی کے قصے کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

ناول کی کہانی حقیقت اور تخیل کا امتزاج ہے اور معروف صوفی شاعر جلال الدین رومی اور درویش شمس تبریز کے گرد گھومتی ہے۔ ’’چالیس چراغ عشق کے ‘‘ دو مختلف زمانوں میں دو ایسی محبتوں کا بیان ہے، جن کی بنیاد تصوف تھی۔ ناول کا مرکزی کردار امریکی ریاست میساچوسٹس میں مقیم ایک گھریلو خاتون ایلا ہے، جس کی زندگی کی ڈگر ایک صوفی درویش سے رابطے پر بدل جاتی ہے۔ ایلف شفق نے انتہا پسندی اور عدم برداشت سے بھری اس دنیا میں مولانا روم اور شمس تبریز کی صورت محبت کی آفاقیت اور انسانیت سے محبت کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ اپنے روحانی استاد اور رفیق کی یاد میں، مولانا روم نے اپنے شاہکار شعری دیوان کو’’ دیوانِ شمس تبریز‘‘ کا نام دیا۔ ان کی لازوال صوفی شاعری، مثنوی مولوی معنوی کو ’’ہست قرآں درزبانِ پہلوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایلف شفق کے ناول دی فورٹی رولز آف لو کے ہما انور کے کیے گئے اردو ترجمہ چالیس چراغ عشق کے کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 2017 میں بہترین ترجمہ پر محمد حسن عسکری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ناول جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا۔ [2]

عشق کے چالیس نرالے اصول[ترمیم]

یہ چالیس اصول دراصل شمس تبریزی کے اقوال ہیں سارے کے سارے اصول ان دونوں ہستیوں کے باہمی مکالمے پر مشتمل نہیں ہیں۔۔۔ناول نگار نے اقوال کو ناول کے بعض دوسرے کرداروں کے ساتھ بھی شمس تبریز کی ہونے والی گفتگو میں پرویا ہے: 1- ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں، وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت کے بارے میں ہمارے گمان کا ایک عکس ہوتا ہے۔اگر خدا کے ذکر سے ذہن میں محض الزام اور خوف ہی ابھرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف اور الزام تراشی ہمارے اپنے سینے کی گھٹن میں پنپ رہی ہے۔ اور اگر خدا ہمیں محبت اور شفقت سے چھلکتا ہوا دکھائی دے، تو یقیناّ ہم بھی محبت اور شفقت سے چھلک رہے ہیں۔ - 2- سچائی کا راستہ دراصل دل کا راستہ ہے دماغ کا نہیں۔ اپنے دل کو اپنا اولین مرشد بناؤ، عقل کو نہیں۔ اپنے نفس کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے دل کی مدد لو کیونکہ تمھاری روح پر ہی خدا کی معرفت کا نزول ہوتا ہے۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و -دیں، بتکدہِ تصورات - 3- قرآن پڑھنے والا ہر شخص، قرآن کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے۔ قرآن کی فہم کے چار درجات ہیں۔ پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کیے ہوئے ہے۔ دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے۔ تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے۔ اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان ان کے بیان پر قادر نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں۔ علما و فقہا جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں، یہ پہلے درجے پر ہیں۔ دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے، تیسرا درجہ اولیاء کا ہے۔ چوتھا درجہ صرف انبیا مرسلین اور ان کے ربانی وارثین کا ہے۔ پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے۔ خدا بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں۔ اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے - 4- تم کائنات کی ہر شے اور ہرشخص میں خدا کی نشانیاں دیکھ سکتے ہو کیونکہ خدا صرف کسی مسجد، مندر یا کسی گرجے تک محدود نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی تمھاری تسلی نہ ہو تو خدا کو کسی عاشقِ صادق کے دل میں ڈھونڈھو - 5- عقل اور دل، دو مختلف چیزیں ہیں۔ عقل لوگوں کو کسی نہ کسی بندھن میں جکڑتی ہے اور کسی چیز کو داؤ پر نہیں لگاتی، لیکن دل ہر بندھن سے آزاد ہوکر اپنا آپ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ عقل ہمیشہ محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ دیکھو کسی کیفیت کا زیادہ اثر مت لینا۔ لیکن دل کہتا ہے کہ مت گھبراؤ، ہمت کرو اور ڈوب جاؤ کیفیت میں۔ عقل آسانی سے اپنا آپ فراموش نہیں کرتی جبکہ عشق تو بکھرجانے اور فنا ہوجانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ اور خزانے بھی تو ویرانوں میں ملبے تلے ملتے ہیں۔ ایک شکستہ دل میں ہی تو خزانہ مدفون ہوتا ہے - 6- دنیا کے زیادہ تر مسائل الفاظ اور زبان کی کوتاہیوں اور غلط معانی اخذ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ کبھی بھی الفاظ کی ظاہری سطح تک خود کو محدود مت کرو۔ جب محبت اور عشق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو الفاظ بیان اور زبان و اظہار اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ جو کسی لفظ سے بیان نہ ہو سکے، اس کو صرف خاموشی سے ہی سمجھا جا سکتا ہے - 7- تنہائی اور خلوت ، دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب ہم تنہا اور اکیلے ہوتے ہیں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ہم سیدھے رستے پر ہیں۔ لیکن خلوت یہی ہے کہ آدمی تنہا ہوتے ہوئے بھی تنہا نہ ہو۔ بہتر ہے کہ ہماری تنہائی کسی ایسے شخص کے دم قدم سے آباد ہو جو ہمارے لیے ایک بہترین آئینے کی حیثیت رکھتا ہو۔ یاد رکھو کہ صرف کسی دوسرے انسان کے دل میں ہی تم اپنا درست عکس دیکھ سکتے ہو اور اور تمھاری شخصیت میں خدا کے جس مخصوص جلوے کا ظہور ہورہا ہے، وہ صرف کسی دوسرے انسان کے آئینہِ قلب میں تمھیں دکھائی دے گا - 8-زندگی میں کچھ بھی ہوجائے، زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ لگنے لگے، مایوس کبھی مت ہونا۔ یقین رکھو کہ جب ہر دروازہ بند ہوجائے تب بھی خداوندِ کریم اپنے بندے کے لیے کوئی نہ کوئی نئی راہ ضرور کھول دیتا ہے۔ ہر حال میں شُکر کرو۔ جب سب کچھ اچھا جارہا ہو، اس وقت شکر کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک صوفی نہ صرف ان باتوں پر شکر گزار ہوتا ہے جن میں اس کے ساتھ عطا اور بخشش کا معاملہ گذرے، بلکہ ان تمام باتوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے جن سے اسے محروم رکھا گیا۔ عطا ہو یا منع، ہر حال میں شُکر - 9- صبر اس بات کانام نہیں ہے کہ انسان عضوِ معطل ہوکر بے بسی کے ہاتھوں برداشت کے عمل سے گذرتا رہے۔ بلکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اتنا دور اندیش اور وسیع نگاہ کا حامل ہو کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے رب پر بھروسا رکھے۔ صبر کیا ہے؟ صبر یہ ہے کہ جب تم کانٹے کو دیکھو تو تمھیں پھول بھی دکھائی دے۔ جب رات کے گُھپ اندھیرے پر نظر پڑے تو اس میں صبحِ صادق کا اجالا بھی دکھائی دے۔ بے صبری یہ ہے کہ انسان اتنا کوتاہ بین اور کم نظر ہو کہ معاملے کے انجام پر نظر ڈالنے سے قاصر رہ جائے۔ عاشقانِ الٰہی صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلی کے باریک چاند کو ماہِ کامل میں تبدیل ہونے کے لیے کچھ وقت ضرور گذارنا پڑتا ہے - 10-مشرق، مغرب، شمال ، جنوب۔۔۔ان سب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تمھارے سفر کی سمت کوئی بھی ہو، بس یہ دھیان ضرور رہے کہ ہر سفر، ذات کا داخلی سفر ضرور بنے۔ اگر تم اپنی ذات کے اندرون میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا باطنی سفر کرو تو تمھارے ساتھ یہ پوری کائنات اور جو کچھ اس سے ماوراء ہے، وہ بھی شریکِ سفر ہوجاتے ہیں - 11-جس طرح ایک ماں کو بچے کی پیدائش کے لیے درد و کرب کے مرحلے سے گذرنا پڑتا ہے، اسی طرح ایک نئی شخصیت کو جنم دینے کے لیے تکالیف سے ضرور اٹھانی پڑتی ہیں۔ جس طرح ایک دن کو اپنی روشنی پوری شدت کے ساتھ بکھیرنے کے لیے، شدیدگرمی اور حدت برداشت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح محبت بھی دکھ اور درد کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی - 12- محبت کی تلاش ہمیں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ راہِ عشق میں ایسا کوئی مسافر نہیں گذرا جسے اس راہ نے کچھ نہ کچھ پختگی نہ عطا کی ہو۔ جس لمحے تم محبت کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہو، تمھارا ظاہر اور باطن تبدیلی کے عمل سے گذرنا شروع ہوجاتا ہے - 13- آسمان پر شائد اتنے ستارے نہ ہوں جتنے دنیا میں جھوٹے اور ناقص شیوخ پائے جاتے ہیں۔ تم کبھی بھی کسی سچے مرشد کو کسی ایسے مرشد سے مت ملانا جو نفس کا پجاری ہو اور اپنی ذات کا اسیر ہو۔ ایک سچا مرشد کبھی بھی تمھیں اپنی ذات کا اسیر بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے نفس کے لیے تم سے تابعداری اور تعریف و تو صیف کا تقاضا کرے گا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تمھیں تمھاری اصل اور حقیقی شخصیت سے متارف کروائے گا۔ سچے اور کامل مرشد تو کسی شیشے کی مانند شفا ف ہوتے ہیں تاکہ خدا کا نور ان میں سے کامل طور پر چِھن کر تم تک پہنچ سکے - 14- زندگی میں جو بھی تبدیلی تمھارے راستے میں آئے، اس کے استقبال کے لیے تیار رہو، اس کی مزاحمت مت کرو بلکہ زندگی کو اس بات کا موقع دو کہ تم میں سے گذر کر اپنا راستہ بناسکے۔ اس بات کی فکر مت کرو کہ زندگی میں نشیب و فراز آ رہے ہیں۔ تمھیں کیا پتہ کہ آنے والی تبدیلی تمھارے حق میں بہتر ہے یا موجودہ حالت؟ - 15- ہر انسان ایک تشنہءِ تکمیل فن پارہ ہے۔جس کی تکمیل کے لیے خدا ہر انسان کے ساتھ داخلی اور خارجی طور پر مصروفِ کار ہے ۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی سطح پر معاملہ کرتا ہے کیونکہ انسانیت ایک بیحد لطیف اور نفیس مصوری کا شہکار ہے جس پر ثبت کیا جانے والا ہر ایک نقطہ پوری تصویر کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے - 16- ایک بلند و برتر ذات اور ہر طرح کے نقص سے پاک خدا سے محبت کرنا بظاہر تو آسان سی بات معلوم ہوتی ہے۔، لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ ہے کہ انسان اپنے ابنائے جنس سے محبت کرے جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو کہ انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم اللہ کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہو سکتے کہ اللہ سے حقیقی طور پر محبت کرسکیں اور اس کو جان پائیں - 17- اصل ناپاکی تو اندر کی ناپاکی ہے۔ باقی سب تو آسانی سے دُھل جاتا ہے۔ گرد و غبار کی بس ایک ہی قسم ہے جو پاکیزہ پانی سے صاف نہیں ہوپاتی اور وہ ہے نفرت اور تعصب کے دھبے، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا سے اور روزے رکھنے سے اپنے بدن کا تزکیہ تو حاصل کرسکتے ہو، لیکن قلب کا تزکیہ صرف محبت سے ہی ہوگا۔ - 18- پوری کی پوری کائنات ایک انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمھارے ارد گرد جو کچھ تمھیں دکھائی دیتا ہے، تمام چیزیں خواہ تمھیں پسند ہوں یا ناپسن، تمام لوگ خواہ تم ان کے لیے رغبت رمحسوس کرتے ہو یا کراہت، یہ سب کے سب تمھارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے۔ چنانچہ، شیطان کو باہر مت دیکھو، بلکہ اپنے اندر تلاش کرو۔ شیطان کو ئی ایسی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہوتی ہے ، بلکہ تمھارے اندر سے ابھرنے والی ایک معمولی سی آواز کا نام ہے۔ اگر تم پوری محنت اور دیانت سے کبھی اپنی ذات کے روشن اور تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تم پر ایک عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو جان لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو بھی جان لیتا ہے - 19- اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ اپنے برتاؤ کو اور رویے کو تبدیل کر دیں، تو اس کے لیے پہلے تمھیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے اور پوری طرح محبت کرنا نہیں سیکھتے، بہت مشکل ہے کہ تمھیں محبت نصیب ہو۔ اورجب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اُس کانٹے کے لیے بھی شکر گزار رہو جو تمھارے راستے میں پھینکا جائے۔ کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم پر عنقریب پھول بھی نچھاور ہوں گے - 20-اس بات پر پریشان مت ہو کہ راستہ کہاں لے کر جائے گا، بلکہ اپنی توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہی تمھاری زمہ داری ہے اور یہی سب سے مشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا، تو پھر اس کے بعد ہر شے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خود بخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو، بلکہ خود ایک لہر بن جاؤ جس کا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے - 21- اُس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں۔ کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا تو کہ سب لوگ ایک جیسے ہوجائیں، تو وہ ان کو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے - 22-جب اس کا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اس کے لیے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اس کے لیے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔ صوفی لوگوں کو ان کے حلئے اور ان کی وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب ایک صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے اور ایک تیسری آنکھ سے(جو اس کے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔ - 23-زندگی تو ایک ادھار کی مانند ناپائیدار ہے اور اصل حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہوتے ہیں یا بے قدری سے انھیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہا پسندی تمھارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں - 24- پروردگار کی سلطنت میں انسان کو بہت خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا ، " اور میں نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا"۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اس کا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمھارے اعمال اس کے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اس کے ساتھ جئیں۔ - 25- جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہءِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگرے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بد تر کوئی دوزخ ہو سکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور برا کام سرزد ہو گیا ہے۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمھیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں۔ اور کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہو سکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے ساتھ قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمھیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔ - 26-کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھ اس کی برائی مت کرو خواہ ایک بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل آتے ہیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ ایک لامحدود وسعت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی اورکسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔ - 27-یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تم پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کے لیے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمھارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اس کے کہ تم اس کے لیے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اس کے لیے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہو گئے۔ - 28- ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے ، ایک سراب ہے۔ دنیا ایک خطِ مستقیم کی شکل مین وقت کے دھارے میں سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہءِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہءِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ - 29- تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمھاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے اور اس کے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمھارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہو سکتا ہے کہ تمھارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے، لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو اس کا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔ - 30- سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائی جائے اور ہر سمت سے اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا۔ اورکوئی اس کا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ "غیر " ہو بھی کیسے سکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟ - 31- اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمھیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی۔ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کے لیے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لیے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں، ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں، نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ تمام انسانیت اس میں سما سکے اور اس کے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔ - 32- کوئی امام، کوئی پادری، کوئی ربی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی تمھارے اور تمھارے رب کے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔ حتیٰ کہ تمھارا ایمان اور تمھارا روحانی مرشد بھی نہیں ۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو، لیکن ان کو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمھارے لیے سود مند نہیں ۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمھاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو اپنا مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو، لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔ - 33- اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن اسے یہیں چھوڑنا پڑجاتا ہے، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم ایک برتن کی طرح ہیں۔ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں، لیکن اس کا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اس کے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا ، بلکہ یہی خالی پن کا شعور ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔ - 34- سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے۔ بلکہ یہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا میں ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ - 35- اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانی اور ہمواریت ہمیں آگے لے کر نہیں جاتی، بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لے کر جاتا ہے۔ اور دنیامین جتنے بھی متضاد امور ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ اور ایک کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان ایک تدریجی سفر ہے جس کے لیے اس کے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جاپہنچے۔ - 36- دنیا عمل اور اس کے رد عمل کے اصول پر قائم ہے۔ نیکی کا ایک قطرہ یا برائی کا ایک ذرہ بھی اپنا رد عمل یا نتیجہ پیدا کیے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکا دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ ۔ اگر کوئی تمھارے لیے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی خیر الماکرین ہے اور سب سے اچھامنصوبہ ساز ہے۔ ایک پتا بھی اس کے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی کے ساتھ اور پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہت خوبصورت طریقے سے کرتا ہے۔ - 37- خدا بہت باریک بین اور بڑا ہی کاریگر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پزیر ہوتی ہے۔، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے۔ اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناء کے، سبھی کے لیے بالکل ٹھیک اور درست طور پر کام کرتی ہے۔ ہر ایک کے لیے محبت اور موت کا ایک لمحہ مقرر ہے۔ - 38- کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ" کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کے لیے تیار ہوں؟"۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گذرے ہوئے دن کے مساوی گذرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے۔ اور نیا جنم لینے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔موت سے پہلے مرجانا۔ - 39- جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن اس کا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہوتا ہے، اس کی جگہ لینے کے لیے ایک نیا شخص پیدا کر دیا جاتا ہے۔ اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ - 40- محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔۔۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، نہ ہی کوئی مخصوص تعریف (Definition) ۔ یہ تو ایک سادہ اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات بھی ہے اور آتش کی روح بھی ہے۔ جب آتش آب سے محبت کرتی ہے، تو کائنات ایک مختلف روپ اور نئے انداز میں ظہور پزیر ہوجاتی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]