سعودی عرب میں سزائے موت، 2 جنوری 2016ء
سعودی عرب نے ہفتہ (2 جنوری 2016ء) کو 47 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کا اعلان کیا تھا جن میں سعودی حکومت کے ایک اہم نقاد اہل تشیع مذہبی شخصیت بھی شامل تھے۔ سعودی وزارت داخلہ کی طرف سے مجرموں کی فہرست جاری کی گئی جس کے مطابق ان میں 45 سعودی شہری جب کہ ایک کا تعلق چاڈ اور ایک کا مصر سے بتایا گیا ہے۔ ان مجرموں میں زیادہ تر وہ افراد بھی شامل تھے جو 2003ء سے 2006ء کے دوران القاعدہ کی طرف سے مختلف حملوں کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
سزا یافتہ افراد
[ترمیم]نمر باقر النمر
[ترمیم]نمر باقر النمر ملک کے مشرقی علاقوں (الشرقيہ) اور بحرین میں اثر رسوخ رکھتے تھے۔بحرین میں 2011ء میں بڑے پیمانے پر سعودی شاہی خاندان اور سعودی حکومت مخالف مظاہرے کیے گئے تھے جنہیں کچلنے کے لیے سعودی عرب نے بحرین میں اپنی فوجیں بھی بھیجیں تھیں۔2012ء میں اپنی گرفتاری سے نمر نے کہا تھا کہ لوگ ایسی حکمران نہیں چاہتے جو قتل کریں اور مظاہرین کے خلاف نا انصافی سے پیش آئیں۔ ان سے مقدمے کی سماعت کے دوران پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ خاندان آل سعود کی حکمرانی سے انکاری ہے۔ مزید موصوف نے خود پر لگائے گئے دیگر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے نہ تو تشدد پر اکسایا اور نہ کبھی ہتھیار لے کر چلے۔ ایران کی جانب سے شدید رد عمل آیا کہ اگر نمرکو پھانسی دی گئی تو "سعودی عرب کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔"
سعودی عرب میں سزائے موت پر عملدرآمد مجرم کا سرقلم کر کے کیا جاتا ہے اور ان سزاؤں پر نظر رکھنے والے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گذشتہ سال 157 مجرموں کی ایسی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا جو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ تعداد تھی۔ نمر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد سے سعودی مشرقی علاقوں میں بے امنی کی صورت حال رہی۔
رد عمل
[ترمیم]ممالک کا رد عمل
[ترمیم]ایران :2 جنوری 2016ء بروز ہفتہ ممتاز سعودی شیعہ عالم نمر باقر النمر کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کے بھی کئی شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔ تہران میں ہونے والے مظاہرے میں مشتعل مظاہرین نے سعودی عرب کے سفارتخانے کی عمارت کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی تھی اور عمارت میں موجود فرنیچر کو توڑ دیا ہے۔