مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2019ء
مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2019ء | |
---|---|
نفاذ بذریعہ | بھارتی پارلیمان |
صورت حال: نافذ |
مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2019ء (انگریزی: The Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Bill, 2019) کے نام مودی حکومت نے عدالت عظمی کے اگست، 2017ء کے فیصلے کے بعد فوری طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کیا ہے،[1] جسے 28 دسمبر 2017ء کو لوک سبھا میں منظوری مل گئی[2]
اس قانون کے تحت طلاق ثلاثہ (طلاق بدعت) -خواہ زبانی، تحریری، برقی مثلاﹰ ای میل، ایس ایم ایس، فوری پیام کاری یا کسی شکل میں ہو- غیر قانونی اور غیر موثر ہوگی اور طلاق دینے والے فرد کو تین سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔[3]
آر جے ڈی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، بی جے ڈی، آے آئی اے ڈی ایم کے اور اے آئی ایم ایل کے اراکین پارلیمان نے یہ کہہ کر اس بل کی مخالفت کی کہ یہ قانون فطرتاً آمرانہ ہے اور غلط تجویز ہے جبکہ لوک سبھا میں کانگریس نے اس بل کی حمایت کی۔[4][5] لوک سبھا میں 19 ترامیم بھی پیش کی گئی تھیں جو مسترد کر دی گئیں۔
پس منظر
مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2018ء بھارتی پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اور اس کا مقصد ظلاق ثلاثہ پر پابندی لگا کر بھارت کی مسلم خواتین کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ [6] لوک سبھا میں یہ بل 2018ء [7] اور 2019ء[8] میں پاس ہو گیا مگر راجیہ سبھا میں پاس منظور نہیں ہو سکا۔[9] 2017ء میں عدالت عظمیٰ نے ظلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا جگدیش سنگھ کھیہر نے پارلیمان کو مسلم سماج شادی و طلاق کو قانون کے دائرہ میں لانے کے بل کو پاس کرنے کی تجویز دی۔[10]
28 دسمبر 2017ء کو عدالت عظمی کے فیصلہ اور اور طلاق کے متعدد واقعات [11] کا حوالہ دیتے ہوئےمودی حکومت نے مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل، 2017ء متعارف کرایا۔[12] اس بل کی رو سے طلاق ثلاثہ چاہے تحریریہو ، تقریری ہو یا الیکٹرانک ہو، غیر قانونی قرار دی جائے گی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شوہر کو تین سال کی قید کی تجویز بھی میں بل میں رکھی گئی۔[12] لوک سبھا میں یہ بل منظور ہوا مگر راجیہ سبھا میں پاس نہ ہو سکا۔[13][14]
19 دسمبر 2018ء کو ملک میں طلاق کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے بھارت میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ طلاق ثلاثہ کسی بھی صورت میں ہو واقع ہی نہیں ہوگی۔[15] پارلیمان قانون کی رو سے اگر کوئی بل کسی بھی ایوان میں چھ ماہ تک منظور نہیں ہو سکا تو اسے منسوخ مانا جاتا ہے۔ دونوں ایوانوں میں اگر کوئی نا منظور ہوا تب بھی وہ منسوخ قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا حکومت کی جانب سے وزیر قانون، بھارت روی شنکر پرساد نے ایوان میں نیا بل [16]متعارف کیا۔
نکات
بل میں مندرجہ ذیل نکات ہیں:[17][16]
- طلاق ثلاثہ کسی بھی صورت میں ہو (صوتی، تحریری یا الیکٹرانک) غیر قانونی ہو گی اور واقع نہیں ہوگی۔
- طلاق ثلاثہ قابل دست قانون قرار دیا جائے اورباعث تین برس قید اور جرمانہ ہوگی۔ جرمانہ کی رقم سنوائی کے بعد مجسٹریٹ طے کویں گے۔
- بیوی یا اس کے رشتہ دار کی جانب سے کیا گیا مقدمہ ہی قابل اعتبار ہوگا۔
- مجرم کو بیل نہیں ملے گی البتہ مجسٹریٹ بیل دے سکتا ہے۔ مجسٹریٹ بیل اسی وقت دے دکتا ہے جب بیوی کی بات سننے کے بعد وہ مطمئن ہوجائے کہ مجرم کا باہر رہنا بلا مقصد نہیں ہے۔
- بیوی کو نفقہ ملتا رہے گا۔ نفقہ کی رقم مجسٹریٹ طے کرے گا۔
- بیوی شیر خوار بچوں کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
مزید دیکھیے
- مسلم خواتین (طلاق کے حقوق کا تحفظ) قانون 1986ء
- بھارت میں طلاق ثلاثہ
- ہندو قانون شادی 1955ء
- مسیحی عائلی قانون
حوالہ جات
- ↑ "'100 cases of instant triple talaq in the country since the SC judgement'"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2018
- ↑ "Lok Sabha passes triple talaq bill"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2018
- ↑ "Triple Talaq Bill Passed In Lok Sabha"۔ Republic TV۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 دسمبر 2017
- ↑ "Congress' backing of triple talaq bill indicates it's gradually withdrawing from Muslim appeasement politics"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2018
- ↑ "Congress backs triple talaq bill, Khurshid strikes discordant note"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2018
- ↑ "Instant triple talaq to be a crime now as Union Cabinet approves Ordinance"۔ The Indian Express (بزبان انگریزی)۔ 2018-09-19۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2019
- ↑ "Lok Sabha debates bill 'criminalising' instant triple talaq: Who said what – Times of India"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2019
- ↑ "Cabinet approves re-promulgation of triple talaq ordinance"۔ The Economic Times۔ 2019-01-10۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2019
- ↑ Shaswati Das,Priyanka Mittal (2019-02-14)۔ "Citizenship and triple talaq Bills lapse as budget session comes to an end"۔ Mint (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2019
- ↑ "Supreme court bars triple talaq"۔ The Times of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2019
- ↑ "'100 cases of instant triple talaq in the country since the SC judgement'"
- ^ ا ب "'Government introduces triple talaq bill in lok sabha"
- ↑ "'Landmark "Triple Talaq" Bill Clears Lok Sabha, In Rajya Sabha Next.'"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2019
- ↑ "'No Triple Talaq Bill As Parliament's Winter Session Ends'"۔ NDTV۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2019
- ↑ "Instant triple talaq ordinance"۔ Indian Express۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2019
- ^ ا ب "THE MUSLIM WOMEN (PROTECTION OF RIGHTS ON MARRIAGE)BILL, 2018" (PDF)۔ Lok Sabha India Website۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2018
- ↑ "2018 Bill Provisions"۔ PRS India Website۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جنوری 2019