لوک سبھا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
لوک سبھا
سولہویں لوک سبھا
نشان بھارت
قسم
قسم
مدت
5 سال
قیادت
خالی، کیونکہ حزب اختلاف جماعتوں کے پاس 10 فیصد سے زیادہ نشستیں ہیں۔
از 26 مئی 2014
ساخت
نشستیں545 (543 + 2 نامزد)
Lok Sabha
سیاسی گروہ
حکومت ہند (333)

قومی جمہوری اتحاد (بھارت) (333)

Opposition (201)
متحدہ ترقی پسند اتحاد (90)

Others (111)

Vacant (10)

  •   Vacant (10)
انتخابات
First past the post
پچھلے انتخابات
7 اپریل – 12 مئی 2014ء
اگلے انتخابات
اپریل – مئی 2019
نعرہ
धर्मचक्रपरिवर्तनाय
مقام ملاقات
view of Sansad Bhavan, seat of the Parliament of India
لوک سبھا چیمبر، سنسد بھون،
سنسد مارگ، نئی دہلی، بھارت – 110 001
ویب سائٹ
loksabha.nic.in

لوک سبھا بھارتی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے جبکہ بھارتی پارلیمان کا ایوان بالا راجیہ سبھا کہلاتا ہے۔ لوک سبھا آزاد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بھارتی شہریوں کی جانب سے براہ راست انتخابات کے ذریعہ منتخب کردہ اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق ایوان میں ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 552 ہو سکتی ہے، جن میں سے 530 رکن مختلف ریاستوں اور 20 اراکین مرکزی وفاقی ریاستوں کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ ایوان میں ناکافی نمائندگی کی صورت میں بھارت کا صدر اگر چاہے تو دو نمائندوں کو لوک سبھا کے لیے نامزد کر سکتا ہے۔

ارکان کا انتخاب ریاستوں کے درمیان میں اس طرح کیا جاتا ہے کہ ہر ریاست کو نامزد نشستوں کی تعداد اور ریاست کی آبادی کے درمیان میں ایک عملی تناسب ہو اور یہ تمام ریاستوں پر لاگو ہوتا ہے۔ حالانکہ موجودہ پارلیمان میں ریاستوں کی آبادی کے مطابق تقسیم شدہ نشستوں کی تعداد کے مطابق شمالی بھارت کی نمائندگی جنوبی بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جہاں جنوب کی چار ریاستوں تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور کیرلا کے لیے جن کی مشترکہ آبادی ملک کی کل آبادی کا صرف 21 فیصد ہے، لوک سبھا کی 129 نشستیں مختص کی گئی ہیں جب کہ سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش اور بہار جن کی مشترکہ آبادی ملک کی کل آبادی کا 25.1 فیصد ہے کے حصے میں صرف 120 نشستیں ہی آتی ہیں۔ فی الحال صدر اور عوامی بھارتی برادری کے دو نامزد اراکین کو ملا کر ایوان میں اراکین کی تعداد 545 ہے۔

تاریخ[ترمیم]

1858ء تا 1947ء برصغیر کے برطانوی ہند کے صوبے کا زیادہ تر حصہ برطانوی راج کے زیر حکومت تھا۔[1] اس دوران میں برصغیر میں برطانوی پارلیمان اس علاقہ میں احکام جاری کرتا تھا۔ سکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا اور کونسل آف انڈیا برطانوی پارلیمان کی مدد کرتے تھے۔ گورنر جنرل ہند اگزیکیوٹو کونسل آف انڈیا کو بھی بنایا گیا جس میں برطانوی حکومت کے بڑے افسران تھے۔ قانون مجالس ہند، 1861ء کے ذریعے غیر سرکاری افسران اور مجلس عاملہ پر مشتمل ایک مققنہ کا انعقاد کیا گیا۔قانون مجالس ہند، 1892ء نے برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے کے تمام صوبہ جات میں عاملہ کا انعقاد کیا گیا اور مجلس عاملہ کے اختیارات میں اضافہ بھی کیا گیا۔حالانکہ اس ایکٹ کے ذریعے برطانوی حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی بڑھی لیکن ان کے اختیارات اب بھی بہت محدود تھے اور الیکٹروریٹ بھی بہت مختصر تھا۔ بعد ازاں منٹو مارلے اصلاحات 1909ء اور حکومت ہند ایکٹ، 1919ء نے ہندوستانیوں کی نمائندگی میں مزید اضافہ کیا۔ حکومت ہند ایکٹ، 1935ء صوبہ کی خود مختاری کو متعارف کرایا اور ہندوستان میں فیڈرل ڈھانچہ کا تصور پیش کیا۔[2] 18 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمان نے قانون آزادی ہند، 1947ء پاس کیا جس کے تحت نوابی ریاستوں کو چھوڑ کر برطانوی ہند کو آزاد ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت اور پاکستان اور ان دونوں کو اپنے اپنے نئے دستور کے بنانے تک تاج برطانیہ کے تحت دو ڈومینین بنایا گیا۔ مجلس مقننہ بھی دونوں ملکوں کے لیے دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور دونوں میں اختیارات تقسیم ہو گئے۔ 26 نومبر 1949ء کو آئین ہند کو تسلیم کر لیا گیا اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کر دیا گیا اور اس طرح بھارت ایک آزاد، جمہوری اور جمہوریت والا ملک بن گیا۔ آئین میں وہ بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں جن پت حکومت ہند کا نیا ڈھانچہ کھڑا ہے اور یہ آئین ان نیوابی ریاستوں پر بھی منطبق ہوتا ہے جو پاکستان میں شامل نہیں ہوئیں۔ آئین ہند کے باب 5-یونین کی دفعہ 79 کے تحت بھارتی پارلیمان صدر بھارت اور دو ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) پر مشتمل ہے۔ لوک سبھا کو دار العوام اور راجیہ سبھا کو کہا جاتا ہے[3] آزاد بھارت میں پہلا عام انتخابات 25 اکتوبر 1951ء تا 21 فروری 1952ء منعقد ہوئے اور پہلی لوک سبھا 17 اپریل 1952ء کو بنی۔

لوک سبھا کے اجلاس
اجلاس تاریخ انعقاد
پہلا 13 مئی 1952ء
دوسرا اپریل1957ء
تیسرا اپریل1962ء
چوتھا مارچ 1967ء
پانچواں مارچ 1971ء
چھٹا مارچ 1977ء
ساتواں جنوری 1980ء
آٹھواں دسمبر 1984ء
نواں دسمبر 1989ء
دسواں جون 1991ء
گیارھواں مئی 1996ء
بارھواں مارچ 1998ء
تیرھواں اکتوبر 1999ء
چودھواں مئی 2004ء
پندرھواں مئی 2009ء
سولہواں (موجودہ) مئی 2014ء

اہلیت[ترمیم]

آئین ہند کے حصہ 5-یونین کی دفعہ 84 [4] لوک سبھا کے رکن بننے کی کچھ اہلیت کے مندرجہ ذیل اصول وضع کرتا ہے؛

  1. بھارت کا شہری ہو اور بھارتی الیکشن کمیشن کو آئین ہند کے تیسرے فہرست بند میں موجود نمونہ کے مطابق اقرار صالح کرے اور حلف لے۔
  2. امیدوار کی عمر 25 سال سے کم نہ ہو۔
  3. وہ تمام اہلیتیں رکھتا ہو جو بھارتی پارلیمان کے بنائے ہوئے کسی قانون کے ذریعے اس کے تحت مقرر کی جائیں۔
  4. وہ مجرم نہ اور نہ اس پر کسی جرم کا الزام ہو وگرنہ قانونا امیدوار نا اہل قرار دیا جائے گا۔
  5. امیدوار ملک کے کسی بھی انتخابی حلقہ میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہو، یعنی، اس کا نام کسی ووٹر لسٹ میں ضرور ہو۔

مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر لوک سبھا کی نششت خالی ہو جاتی ہے؛

  1. اگر صاحب نششت اسپیکر کو تحریری استعفی سونپ دے۔
  2. اگر صاحب نشست ایوان کی کارروائی کے بعد لگاتار 60 دنوں تک غیر حاضر ہو۔
  3. آئین یا پارلیمان کے کسی قانون میں مذکور کسی وجوہات کی بنیاد صاحب نشست نا اہل ثابت ہو۔
  4. اگر صاحب نشست اینٹی ڈفیسکشن لا کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔

لوک سبھا کا انتخابی نظام[ترمیم]

لوک سبھا کے ارکان براہ راست عام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔لوک سبھا کے انتخابات کے لیے تمام صوبہ جات کو انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں آئین ہند میں مندرجہ ذیل دفعات ہیں؛

  1. تمام صوبہ جات میں عوام کے مقابلے نشستوں کی تعداد اس تناسب سے رکھی گئی ہے کہ ہر ایک صوبہ میں یہ تناسب یکساں رہے۔ البتہ یہ دفعہ ان صوبہ جات میں نافذ نہیں ہے جہاں کی آبادی 60 لاکھ سے کم ہو۔
  2. تمام صوبہ جات کو علاقائی حلقوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ لوک سبھا کے حلقوں میں عوام کی تعداد اور وہاں دی گئی نشست کا تناسب اس صوبہ میں برابر رہے۔

نوٹ:

اختیارات[ترمیم]

لوک کے اپنے اختیارات ہیں جو اسے راجیہ سبھا کے طاقتور بناتے ہیِ

  • موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لوک سبھا میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ اکثریت ووٹ سے پاس ہوجائے تو وزیر اعظم اور کابینہ بھارت کو فوری طور پر استعف دینا پڑتا ہے۔راجیہ سبھا کو ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔واضح ہو کہ آئین ہند نے مجلس عاملہ کو لوک سبھا کو جوابدہ قرار دیا ہے نہ کہ راجیہ سبھا کو اور اسی لیے راجیہ سبھا کو مجلس عاملہ پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
  • منی بل صرف لوک سبھا میں ہی پیش کیا جا سکتا ہے اور یہاں سے پاس ہونے کے بعد راجیہ سبھا میں بھیجا جاتا ہے۔راجیہ سبھا میں منی بل کو 14 دنوں تک رکھا جا سکتا ہے۔ اگر راجیہ سبھا اس پر کوئی فیصلہ نہ لے اور اس کی کسی سفارش کو لوک سبھا نہ مانے تو بل کو پاس مانا جاتا ہے۔ بھارت کا بجٹ بھی لوک سبھا میں ہی پیش کیا جاتا ہے۔
  • غیر مالی بل (عام بل) کو کسی بھی ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اس میں پاس ہونے کے بعد دوسرے ایوان میں بھیجا جاتا ہے جہاں اسے 6 ماہ تک روکے رکھنے کی اجازت ہے۔ اگر 6 ماہ کے اندر اس پر کوئی فیصلہ نہ ہو یا دوسرے ایوان کی سفارشات کو ایوان اول نہ مانے تو بل بغیر فیصلہ کیے باقی رہتا ہے۔ پھر لوک سبھا اسپیکر کی صدارت میںن دونوں ایوانوں کے ایک مشترک اجلاس میں اس بل کو تناسبی اکثریت سے پاس کیا جاتا ہے۔حالانکہ آئین نے اس معاملہ میں دونوں ایوانوں کو برابر اختیارات دیے ہیں مگر چونکہ لاک سبھا کے ارکان کی تعداد زیادہ لہذا اس کے فیصلے ہی زیادہ مانے جاتے ہٰیں۔

آئین ہند میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کے اختیارات برابر ہیں۔ترمیم کے بل کو پاس ہونے کے لیے دونوں ایوانوں کے کل ارکان میں موجودہ ارکان کے دوتہائی ووٹ سے پاس کی اجاسکتا ہے۔

  • صدر بھارت کی معزولی کے لیے دونوں ایوانوں کے اختیارات مساوی ہیں۔ دونوں میں بل کو پیش کیا جا سکتا ہے اور دو تہائی اکثریت سے پاس کیا جا سکتا ہے۔
  • عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے ججوں کی معزولی کے لیے بل کو پیش کرنے اور دو تہائی اکثریت سے پاس کرنے میں بھی دونوں ایوانوں کے اختیارات برابر ہیں۔ بل منظور ہونے کے بعد صدر بھارت ان کو معزول کر سکتا ہے۔
  • قومی ہنگامی حالات کے بل پیش کرنے اور دو تہائی اکثریت سے پاس کرنے میں بھی دونوں ایوانوں کے اختیارات برابر ہیں۔آئینی ہنگامی حالات کے بل کو تناسبی اکثریت سے پاس کیا جاتا ہے۔
  • اگر قومی ہنگامی حالات (نیشنل ایمر جنسی) کی صورت میں لوک سبھا تحلیل کر دی جائے تو راجیہ ہی مکمل پارلیمان کا کردار ادا کرتی ہے۔راجیہ سبھا کو تحلیل نہیں کیاجاسکتا ہے۔ صدر بھارت کو اختیار ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں لوک سبھا لوک سبھا کی میعاد کو ایک سال کے لیے بڑھا سکتا ہے۔اور اگر ایمرجنسی ختم ہوجائے تو 6 ماہ کے لیے میعاد کو بڑھا سکتا ہے۔

لوک سبھا تمام امور میں راجیہ سبھا سے زیادہ اختیارات کی حامل ہے۔چونکہ لوک سبھا کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے لہذا ان تمام امور میں جن میں آئین نے دونوں ایوانوں کو برابر کے اختیارات دیے ہیں، لوک سبھا زیادہ طاقتور دکھائی دیتی ہے۔یہ امر تمام پارلیمانی جمہوری میں یکساں ہے کہ ایوان زیریں ایوان بالا سے زیادہ اختیارات کی حامل ہوتی ہے۔

کارروائی[ترمیم]

داخلی کارروائیاں[ترمیم]

لوک سبھا کی کارروائی، اس کے امور اور ہدایات لوسک سبھا اسپیکر کے ذریعے انجام پاتے ہیں جو کارروائی کے دوران میں وقتا فوقتا بدلتے رہتے ہیں۔لوک سبھا میں دن میں پیش آنے والے تمام امور پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں اور طباعت شدہ نسخہ تمام ارکان کو دے دیا جاتا ہے۔

اجلاس اور نشست کے اوقات[ترمیم]

ایک سال میں لوک سبھا کے تین اجلاس ہوتے ہین:

  • بجٹ اجلاس: فروری تا مئی۔
  • مان سون اجلاس: جولائی تا ستمبر۔
  • سرمائی اجلاس: نومبر تا وسط دسمبر۔

دوران میں اجلاس لوک سبھا کی نشست 11 بجے صبح تا 1 بجے دوپہر اور 2 بجے دو پہر تا 6 بجے شام تک ہوتی ہے۔بسا اوقات ایک ہی نشست صبح 11 بجے سے شام 6 بجے تک ہوتی ہے۔عموما سنیچر، اتوار اور دیگر ایام تعطیل میں لوک سبھا کی نشست نہیں ہوتی ہے۔

دورانیہ سوال[ترمیم]

ہر نشست کا پہلا ایک گھنٹہ دورانیہ سوال ہوتا ہے۔ سوال کرنا ہر ایک رکن کا حق ہے اور تمام ارکان متعلق وزرا سے قومی اور بین الاقوامی سطح کے سوالات لر سکتے ہیں۔متعلق وزیر کھڑا ہو کر اس کا جواب دیتا ہے اور اپنی وزارت سے متعلق فیصلہ پر صفائی پیش کرتا ہے۔ دورانیہ سوال تین نوعیت کے ہوتے ہیں-ستارہ زد، غیر ستارہ زد اور مختصر نوٹس۔ ستارہ زد سوال کا جواب اسی نشست میں شفوی طور پر دیا جاتا ہے اور اسے نشان زد کر لیا جاتا ہے۔ غیر ستارہ زد سوال کا اسی نشست میں شفوی جواب ضروری نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر دوسرا کوئی سوال داغا جا سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب تحریری طور پر 10 دنوں کے اندر دیا جاتا ہے۔ مختصر نوٹس کو پہلے اسپیکر قبول کرتا ہے پھر اسے طباعت کے بعد متعلق وزیر کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔مختصر نوٹس کا جواب فواری طور پر وقفہ صفر میں دیا جاتا ہے۔

وقفہ صفر[ترمیم]

دورانیہ سوال کے بعد وقفہ صفر ہوتا ہے جو 12 بجے کے آس پاس شروع ہوتا ہے۔ ارکان اس دوران میں اسپیکر کی اجازت سے اہم نکات ایوان میں پیش کرتے ہیں۔ عموما اس دوران میں اہم بل پر بحث ہوتی ہے۔یہ سلسلہ دن کے 2 بجے تک چلتا ہے۔

لوک سبھا کے افسران[ترمیم]

اسپیکر اور نائب اسپیکر[ترمیم]

آئین ہند کی دفعہ 93 لوک سبھا کو اسپیکر اور نائب اسپیکر کا جواز فراہم کرتا ہے۔لوک سبھا میں اسپیکر اور نائب اسپیکر کا انتخاب ایوان میں موجود ارکان تناسبی اکثریت سے کرتے ہیں۔ آئین ہند کے مطابق لوک سبھا کی اسپیکر کی اہلیت کے لیے صرف لوک سبھا کا رکن ہونا ضروری ہے۔ لیکن آئین اور قوانین اور پارلیمان کی کارروائیوں کا ماحول اسکیپر کو ایک اہم شخصیت بناتے ہیں۔ اسپیکر اور نائب اسپیکر کی تعطیلات، استعفی، معزولی، دفتر سے متعلق تمام احکامات آئین ہند کی دفعہ 94 میں درج ہیں۔ دفعہ 94 کے مطابق لوک سبھا کا اسپیکر اور نائب اسپیکر استعفی دے گا اگر (الف) راجیہ سبھا کا رکن بن جائے، (ب) استعفی دے دے یا (ج) لوک سبھا کے ارکان کی اکثریت کے فیصلہ سے اسے معزول کر دیا جائے۔ لوک سبھا اسپیکر لوک سبھا کا رکن بھی ہوتا ہے اور صدر بھی۔ اسپیکر ہی ایوان کا کام کاج سنبھالتا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ ایک بل آیا منی بل ہے یا عام بل۔ اسپیکر ایوان میں نظم وضبط برقرار رکھتا ہے اور کسی بھی رکن کو نازیبا حرکت کی بنا پر برخواست کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔لوک سبھا اسپیکر ہی ایوان ہیں مختلف تحریکیں جیسے تحریک عدم اعتماد، تحریک عدم تعاون اور دیگر نوٹس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر دونوں ایوانوں کے درمیان میں کسی بل کو لے کر باہمی رضامندی نہ ہوپائے تو ایک مشترک اجلاس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور لوک سبھا کا اسپیکر ہی اس اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔ 52ویں ترمیم کے بعد لوک سبھا اسپیکر کو کسی بھی رکن کو برخواست کرنے کا اختیار حاصل ہوا ہے۔ اسپیکر کی غیر موجودگی میں نائب اسپیکر اس کی جگہ لیتا ہے۔اگر نائب اسپیکر بھی موجود نہ ہو تو صدر بھارت کسی بھی رکن لوک سبھا کو نامزد کر سکتا ہے تاکہ وہ اسپیکر کے فرائض انجام دے۔ [7] لوک سبھا کے پہلے اسپیکر جناب جی وی مالولنکر تھے۔ ان کا عہد 15 مئی 1952ء تا 27 فروری 1956ء تھا۔پہلے نائب اسپیکر ایم انستھاسیانم ایانگر تھے جن کا عہد 30 مئی 1952ء تا 7 مارچ 1956ء تھا۔ 16ویں لوک سبھا میں اسپیکر سومترا مہاجن ہیں اور نائب اسپیکر ایم تھمبی دورائی ہیں۔

نشستیں[ترمیم]

لوک سبھا میں کل 543 نشستیں ہیں۔[8]

ریاست/ یونین علاقہ* تعداد نشست[9]
جزائر انڈمان و نکوبار* 1
آندھرا پردیش 25
اروناچل پردیش 2
آسام 14
بہار (بھارت) 40
چندی گڑھ* 1
چھتیس گڑھ 11
دادرا و نگر حویلی و دمن و دیو* 2
دہلی (NCT)* 7
گووا 2
گجرات (بھارت) 26
ہریانہ 10
ہماچل پردیش 4
جموں و کشمیر (یونین علاقہ)* 5
جھارکھنڈ 14
کرناٹک 28
کیرلا 20
لداخ* 1
لکشادیپ* 1
مدھیہ پردیش 29
مہاراشٹر 48
منی پور 2
میگھالیہ 2
میزورم 1
ناگالینڈ 1
اوڈیشا 21
پدوچیری* 1
پنجاب، بھارت 13
راجستھان 25
سکم 1
تمل ناڈو 39
تلنگانہ 17
تریپورہ 2
اتراکھنڈ 5
اتر پردیش 80
مغربی بنگال 42
Total 543

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Indian Freedom Struggle (1857–1947) – Culture and Heritage – Know India: National Portal of India"۔ 22 جولائی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "Government of India Act of 1935 – Dictionary definition of Government of India Act of 1935 – Encyclopedia.com: FREE online dictionary"۔ www.encyclopedia.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2018 
  3. Part V—The Union. Article 79. p. 38 آرکائیو شدہ 24 جنوری 2013 بذریعہ وے بیک مشین
  4. Part V—The Union. Article 81. p. 41 آرکائیو شدہ 24 جنوری 2013 بذریعہ وے بیک مشین
  5. https://www.india.gov.in/sites/upload_files/npi/files/coi_part_full.pdf article 81
  6. //www.india.gov.in/sites/upload_files/npi/files/coi_part_full.pdf article 81
  7. "Lok Sabha"۔ Lok Sabha۔ 30 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. "Members : Lok Sabha" 
  9. "Lok Sabha Introduction"۔ National Informatics Centre, Government of India۔ 1 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2008