مندرجات کا رخ کریں

بھارت کے خارجہ تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا اس کی تاریخ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی بھی اس کی تاریخ اور تحریک آزادی سے تعلق رکھتی ہے۔ تاریخی ورثے کے طور پر بھارت کی خارجہ پالیسی آج ان متعدد حقائق کی حامل ہے جو کبھی بھارت کی تحریک آزادی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پر امن بقائے باہم اور عالمی امن کا خیال یقیناً ہزاروں سال پرانے اس غور و فکر کا نتیجہ ہے جسے گوتم بدھ اور مہاتما گاندھی جیسے دانشوروں نے پیش کیا تھا۔ اسی طرح بھارت کی خارجہ پالیسی میں نو آبادیاتی نظام، سامراجیت اور تفریق رنگ و نسل کی مخالفت عظیم قومی تحریک کی پیداوار ہے۔
بھارت کے اکثر ممالک سے بہترین خارجہ اور سفارتی تعلقات ہیں، نیز بھارت دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس کی معیشت دنیا کی انتہائی تیز رفتاری سے ترقی والی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔[1] نیز آٹھواں سب سے بڑا عسکری اخراجات، تیسری سب سے بڑی مسلح فوج، قیمت اسمیہ کے لحاظ سے ساتویں سب سے بڑی معیشت اور مساوی قوت خریدکے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت[2] کا حامل بھارت ایک علاقائی طاقت،[3] ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور ممکنہ سپرپاور ہے۔ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر بھارت کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور عالمی معاملات میں اس کی اہمیت مسلم ہو چکی ہے۔
قدیم دور میں بھی ہندوستان کے تمام دنیا سے تجارتی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات تھے۔ مختلف ادوار میں ہندوستان کے علاحدہ علاحدہ خطوں میں متفرق بادشاہ آتے رہے اور ہندوستان کا نقشہ بھی تبدیل ہوتا رہا، لیکن عالمی سطح پر ہندوستان کے تعلقات ہمیشہ برقرار رہے۔ بھارت کے دیگر ممالک کے تئیں عسکری تعلقات دیکھے جائیں تو وہ بیشتر ادوار میں جارحانہ نہیں رہے۔
سنہ 1947ء میں برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد بھارت نے زیادہ تر ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔ عالمی منظرنامہ پر ہندوستان ہمیشہ فعال رہا۔ سنہ 1990ء کے بعد اقتصادی اور معاشی سطح پر بھی بھارت اثر انداز ہونے لگا، عسکری سطح پر بھارت نے اپنی طاقت کو برقرار رکھا اور عالمی قیام امن کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون فراہم کرتا رہا۔ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کچھ کشیدہ ضرور ہیں لیکن روس کے ساتھ عسکری تعلقات کے علاوہ بھارت کا اسرائیل اور فرانس کے ساتھ وسیع حفاظتی تعلقات ہیں۔
نیز بھارت ایک جدید صنعتی ملک، بریکس معیشتوں کا جزو اور ترقی پزیر دنیا کا اہم حصہ بھی ہے۔[4][5] مزید یہ کہ بھارت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا بانی رکن ہے، جن میں بالخصوص اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور جی 20 اہم معیشتیں قابل ذکر ہیں جبکہ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی بنیاد بھارت ہی نے رکھی تھی۔ بھارت کا دیگر متعدد بین الاقوامی تنظیموں مثلاً مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس،[6] عالمی تجارتی ادارہ،[7] بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)،[8] جی ایٹ + فائیو[9] اور ابسا ڈائیلاگ فورم[10] میں اہم اور موثر کردار رہا ہے۔ مقامی طور پر بھارت سارک اور بمس ٹیک کا رکن ہے۔ نیز بھارت نے متعدد اقوام متحدہ امن جوئی مہموں میں بھی حصہ لیا ہے اور 2007ء میں بھارت اقوام متحدہ میں دوسرا سب سے بڑا فوج بھرتی کرنے والا ملک تھا۔[11] اس وقت بھارت جی 4 اقوام کے ساتھ سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔[12]

تاریخ

[ترمیم]

اگرچہ آزادی سے پہلے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترقی بھارت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں ہوئی، لیکن اس سے پہلے بھی بھارتی افکار میں پر امن بقائے باہم، اہنسا جیسے اصولوں کے ساتھ ساتھ چانکیہ کے افکار میں سفارتی طریقہ کاروں اور اقدامات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بعض مفکرین کا یہ بھی خیال ہے کہ خارجہ پالیسی کے کچھ اصول و قواعد چانکیہ ہی کی دین ہے۔
بھارت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت میں انگریزوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا تعین اپنے تجارتی مفادات کی حفاظت اور اس کی ترقی کو ذہن میں رکھ کر کیا تھا۔ انگریزوں نے چین، افغانستان اور تبت کو بفر اسٹیٹ قرار دیا، انھوں نے چین میں بھی خصوصی دلچسپی دکھائی اور بھارت-چین سرحد کا تعین کیا۔ انگریزوں نے نیفا (اروناچل پردیش) کو ہندوستانی سرحد ہی میں رکھا اور اپنے کاروباری معاملات کے پیش نظر اس علاقے میں حفاظت کی ذمہ داری خود سنبھالی۔

بھارتی قومی تحریک اور خارجہ پالیسی

[ترمیم]

بھارت کی خارجہ پالیسی کے جدید معاصر اصولوں کی تعمیر بھارتی قومی تحریک کے دوران 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے بعد ہوئی۔ 1885ء سے کانگریس نے انگریزوں کی جابرانہ پالیسی کی مخالفت کرنا شروع کی اور کچھ ایسے بنیادی اصول مقرر کیے جو آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔
1885ء میں منظور شدہ تجویز کے ذریعہ کانگریس نے شمالی برما کو اپنے علاقے میں شامل کر لینے پر برطانیہ کی مذمت کی۔ اسی طرح 1892ء میں ایک اور تجویز کے ذریعہ بھارت نے اپنے آپ کو انگریزوں کی سامراجی پالیسیوں سے خود کو غیر متعلق قرار دیا، اسی دوران کانگریس نے بھارت کو برما، افغانستان، ایران، تبت وغیرہ قریبی ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی کے استعمال کیے جانے پر عدم اطمینان کا بھی اظہار کیا۔ پہلی جنگ عظیم تک کانگریس نے اپنے آپ کو برطانوی پالیسیوں سے دور ہی رکھا۔ اس دوران کانگریس نے انگریزوں کی سامراجیت اور نو آبادیاتی نظام اور جنوبی افریقا میں رنگ و نسل کی تفریق کی پالیسی کی مخالفت کی جو آگے چل کر جدید بھارت کی خارجہ پالیسی کا اہم مقصد اور اصول بنی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد 1921ء میں کانگریس نے اعلان کیا کہ برطانوی حکومت کی پالیسیاں بھارت کی پالیسیاں نہیں ہیں اور نہ وہ کسی طرح ہندوستان کی نمائندہ ہو سکتی ہیں۔ کانگریس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بھارت کو اپنے پڑوسی ممالک سے کوئی خطرہ اور عدم تحفظ کا احساس نہیں۔ اسی وجہ سے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم میں کانگریس نے انگریزی مفادات کے تحت شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ 1920ء میں برپا ہونے والی تحریک خلافت میں بھی ہندوستان نے مسلمانوں کا ساتھ دیا جو آج بھی ہندوستان کی عرب نواز خارجہ پالیسی کی علامت ہے۔ نیز بھارت نے ہمیشہ ہی عرب اسرائیل بحران میں عرب کا ساتھ دیا ہے۔ اسی دوران کانگریس نے نو آبادیاتی نظام اور سامراج مخالف کانفرنسوں میں بھارت کی نمائندگی کی اور نو آبادیاتی نظام کے شکار ممالک کے ساتھ مل کر انگریزوں کی پالیسیوں کی سخت مذمت کی۔

عالمی سطح پر بھارت

[ترمیم]
جواہر لعل نہرو کے ساتھ ہرمن جوزف ایبس (1956ء)

1947ء سے 1990ء

[ترمیم]

ناوابستہ تحریک

[ترمیم]

1950ء کی دہائی میں بھارت نے پرزور طور پر افریقا اور ایشیا میں یورپی نوآبادیوں کی آزادی کی حمایت کی اور ناوابستہ تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا۔[13]

1990ء کے بعد

[ترمیم]

حالیہ برسوں میں، بھارت نے علاقائی تعاون اور عالمی تجارتی تنظیم کے لیے جنوب ایشیائی ایسوسی ایشن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔[14] نیز بھارت نے متعدد کثیر جہتی فورم، خصوصا مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس اور گروہ 8+5 میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھارت کا جنوبی امریکا، ایشیا اور افریقہ کے ترقی پزیر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔[15]

بریکس

[ترمیم]

بھارت نے برازیل، روس، چین اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر بریکس گروپ قائم کیا۔ یہ ترقی یافتہ ممالک کے گروپ G-8 اور G-20 کے اثرات کو عالمی سطح پر متوازن کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بریکس کے تمام اراکین ترقی پزیر یا نئے صنعتی ممالک ہیں جن کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ ممالک علاقائی اور عالمی معاملات پر اہم اثرات ڈالتے ہیں۔ سنہ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق پانچوں بریکس ممالک دنیا کے تقریبا 3 ارب افراد کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق یہ متحدہ اقوام غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں 4 ٹریلین امریکی ڈالر کی شراکت کرتے ہیں۔ ان قوموں کا مشترکہ جی ڈی پی 15 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔[16]

اقوام متحدہ میں بھارت

[ترمیم]

عالمی امن کی کوششوں میں بھارت کی شراکت

[ترمیم]

بھارت نے 100،000 فوجی اور پولیس اہلکاروں کے ذریعہ چار براعظموں میں اقوام متحدہ کے 35 امن جوئی مہمات میں اپنی خدمات فراہم کی۔[17]

معاہدات حوالگی

[ترمیم]

جنوری 2014ء تک ہندوستان 37 ممالک کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کر چکا ہے،[18] جن کی فہرست حسب ذیل ہے:[19]

معاہدات
شمار ملک معاہدے پر دستخط کیے گئے سال حوالہ جات
1  فرانس 1997 [20]
2  روس 2000 [21]
3  جرمنی 2001 [22]
4  موریشس 2003 [23]
5  ایران 2003 [24]
6  مملکت متحدہ 2004 [25]
7  ریاستہائے متحدہ 2004 [26]
8  روانڈا 2017 [27]
9  انڈونیشیا 2005 [28]
10  چین 2005 [29]
11  برازیل 2006 [30]
12  ویت نام 2007 [31]
13  عمان 2008 [32]
14  قازقستان 2009 [33]
15  آسٹریلیا 2009 [34]
16  ملائیشیا 2010 [35]
17  جنوبی کوریا 2010 [36]
18  سعودی عرب 2010 [37]
19  ازبکستان 2011 [38]
20  افغانستان 2011 [39]
21  تاجکستان 2012 [40]
22  اسرائیل 2017 [41]
23  جاپان 2014 [42]
24  سیشیلز 2014 [43]
25  منگولیا 2015 [44]
26  سنگاپور 2015 [45]
27  متحدہ عرب امارات 2015 [46]
28  یورپی اتحاد 2004 [47]
29  جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم 2012 [48]
30  مصر 2023 [49]
31  اطالیہ 2023 [50]
32  یونان 2023 [51]

عالمی تجارت اور خزانہ

[ترمیم]

بریٹن وڈز، بیسل
عالمی تجارتی ادارہ

دو طرفہ اور علاقائی تعلقات

[ترمیم]

سرحدی اور قریبی ممالک

[ترمیم]

سنہ 2014ء میں بھارت کے نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں تمام سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا، یوں ان پڑوسی ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں نئی روح پھونک دی۔ اس واقعہ کو "اہم سفارتی واقعہ" کے طور پر بھی دیکھا گیا۔[52][53]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Indian economic growth rate eases"۔ BBC۔ 30 نومبر 2007۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  2. as per data shown in 2012 on http://unstats.un.org/unsd/snaama/dnltransfer.asp?fID=2
  3. "Partnering with India: Regional Power, Global Hopes"۔ NBR۔ 2 اپریل 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  4. G8 SUMMIT: Developing Countries Stand Firm by Kyoto Protocol آرکائیو شدہ (غیرموجود تاریخ) بذریعہ ipsnews.net (نقص:نامعلوم آرکائیو یو آر ایل). Ipsnews.net (7 July 2005). Retrieved 12 November 2011.
  5. "آرکائیو کاپی"۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2014-12-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-22{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link)
  6. "Analysts Say India'S Power Aided Entry Into East Asia Summit. | Goliath Business News"۔ Goliath.ecnext.com۔ 29 جولائی 2005۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  7. Alan Guebert (5 اگست 2008)۔ "Guebert: WTO talks show declining U.S. clout – Peoria, Illinois"۔ pjstar.com۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  8. "Mmegi Online :: Emerging economies eye IMF power"۔ Mmegi.bw۔ 26 اکتوبر 2007۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  9. Peter Alford (7 جولائی 2008)۔ "G8 plus 5 equals power shift"۔ The Australian۔ 2008-12-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  10. "India, Brazil, South Africa – the power of three"۔ bilaterals.org۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  11. "A History of Indian Participation in UN Peacekeeping Operations"۔ Indianembassy.org۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  12. "Four nations launch UN seat bid"۔ BBC۔ 22 ستمبر 2004۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  13. "The Non-Aligned Movement: Description and History"، nam.gov.za، The Non-Aligned Movement، 21 ستمبر 2001، 2011-08-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا، اخذ شدہ بتاریخ 2007-08-23
  14. India's negotiation positions at the WTO (PDF)، نومبر 2005، اخذ شدہ بتاریخ 2010-08-23
  15. Analysts Say India'S Power Aided Entry Into East Asia Summit. | Goliath Business News، Goliath.ecnext.com، 29 جولائی 2005، اخذ شدہ بتاریخ 2009-11-21
  16. "Amid BRICS' rise and 'Arab Spring', a new global order forms". Christian Science Monitor. 18 اکتوبر 2011. اخذ کردہ 2011-10-20.
  17. "آرکائیو کاپی"۔ 2006-05-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-23
  18. "بھارت کے 37 ممالک کے ساتھ حوالگی معاہدہ ہے"۔ پریس انفارمیشن آفس، حکومت ہند۔ 12 فروری 2014۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-13
  19. "ndia has Extradition Treaties in operation with 37 countries"۔ پریس انفارمیشن آفس، حکومت ہند۔ 12 فروری 2014۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-02-13
  20. "Deepening the French connection"۔ The Hindu۔ 1 فروری 2016۔ 2016-12-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  21. "For Russia, deepening friendship with India is a top foreign policy priority"۔ The Hindu۔ 2013-05-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  22. "Bilateral Relations – Embassy of India, Berlin – Germany"۔ Indianembassy.de۔ 2016-04-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  23. "India-Mauritius Joint Statement"۔ Mea.gov.in۔ 2016-10-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  24. "Iran-India Strategic Partnership Needs Resuscitation | South Asia Analysis Group"۔ Southasiaanalysis.org۔ 3 نومبر 2014۔ 2022-09-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  25. "Welcome to High Commission of India, London, UK"۔ Hcilondon.in۔ 2016-03-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  26. "United States – India Joint Statement on Next Steps in Strategic Partnership"۔ 2001-2009.state.gov۔ 17 ستمبر 2004۔ 2017-02-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  27. "DECLARATION ON STRATEGIC PARTNERSHIP BETWEEN INDIA AND RWANDA"۔ mea.gov.in۔ 10 جنوری 2017۔ 2017-12-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-22
  28. "Joint Declaration between the Republic of India and the Republic of Indonesia"۔ mea.gov.in۔ 2021-01-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-09-03
  29. "China, India to Build Strategic Partnership"۔ China.org.cn۔ 2021-07-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  30. "India, Brazil to elevate relations to strategic partnership – Today's Paper"۔ The Hindu۔ 2018-06-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  31. Carl Thayer (11 دسمبر 2014)۔ "India and Vietnam Advance Their Strategic Partnership"۔ The Diplomat۔ 2016-10-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  32. David M. Malone؛ C. Raja Mohan؛ Srinath Raghavan (23 جولائی 2015)۔ The Oxford Handbook of Indian Foreign Policy – Google Books۔ OUP Oxford۔ ISBN:9780191061196۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  33. "Joint Declaration on Strategic Partnership between India and Kazakhstan – Embassy of India, Sofia (Bulgaria)"۔ Indembsofia.org۔ 2016-10-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  34. Greg Earl۔ "India Australia Relations"۔ Lowy Institute۔ 2016-11-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  35. "Joint Statement on the Framework for the India-Malaysia Strategic Partnership"۔ Mea.gov.in۔ 2016-10-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  36. "India- Republic of Korea Joint Statement for Expansion of the Strategic Partnership"۔ Mea.gov.in۔ 2017-01-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  37. "India-Saudi Arabia Relations" (PDF)۔ mea.gov.in۔ 28 جنوری 2013۔ 2022-12-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-10-10
  38. "India and Uzbekistan declare Strategic Partnership"۔ Mea.gov.in۔ 18 مئی 2011۔ 2016-10-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  39. "Afghanistan and India sign 'strategic partnership' – BBC News"۔ BBC۔ 4 اکتوبر 2011۔ 2016-12-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  40. "Joint Statement on Strategic Partnership between the Republic of India and the Republic of Tajikistan"۔ mea.gov.in۔ 2016-04-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-03
  41. "PM Modi in Israel: India, Israel elevate their ties to strategic partnership"۔ The Times of India۔ 6 جولائی 2017۔ 2021-05-11 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-10
  42. "Business News Live, Share Market News - Read Latest Finance News, IPO, Mutual Funds News"۔ The Economic Times۔ 2015-08-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-03-16
  43. "Five agreements signed as Seychelles President Michel begins state visit in India"۔ seychellesnewsagency.com۔ 2016-04-15 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-03
  44. "Joint statement for India-Mongolia strategic partnership"۔ The Times of India۔ 17 مئی 2015۔ 2020-11-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-10
  45. Prashanth Chintala (25 نومبر 2015)۔ "India, Singapore enter into strategic partnership"۔ The Hindu۔ 2020-07-31 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-24
  46. "How India's strategic partnership with UAE will hit Pakistan where it hurts – Firstpost"۔ firstpost.com۔ 18 اگست 2015۔ 2016-04-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-02
  47. "EU–China and EU–India: A Tale of Two Strategic Partnerships | Institute for Defence Studies and Analyses"۔ Idsa.in۔ 2016-10-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-01
  48. "Straits Times: Asean and India now strategic partners"۔ mfa.gov.sg۔ 2016-04-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-02
  49. "Egypt and India now strategic partners"۔ livemint.com۔ 25 جنوری 2023۔ 2023-01-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-01-28
  50. Dinakar Peri (2 مارچ 2023)۔ "India, Italy elevate ties to strategic partnership, sign MoU on defence cooperation"۔ The Hindu۔ 2024-02-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-02-19
  51. "India, Greece Elevate Ties to 'Strategic Partnership'"۔ The Wire۔ 2023-08-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-08-25
  52. "From potol dorma to Jaya no-show: The definitive guide to Modi's swearing in" (بزبان انگریزی). پھرسٹپوسٹ . 26 May 2014. Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2014-05-26. {{حوالہ ویب}}: ترچھے یا جلی خط کا استعمال ممنوع ہے: |ناشر= (help)
  53. کرشن اپپلري (25 May 2014). "Narendra Modi's swearing in offers a new lease of life to SAARC" (بزبان انگریزی). نئی دہلی: ڈی این اے انڈیا. Archived from the original on 2018-12-25. Retrieved 2014-05-26.

بیرونی روابط

[ترمیم]