مندرجات کا رخ کریں

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایسٹ انڈیا کمپنی
East India Company
عوامی
صنعتبین الاقوامی تجارت
قسمتتحلیل
کالعدم1 جون 1874 (1874-06-01)
صدر دفترلندن، انگلستان
1757 کی جنگ پلاسی کے بعد لارڈ کلائیو کا فاتحانہ لشکر میر جعفر کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے، ہندوستان میں انگریز راج کے عروج کی سمت پہلا قدم

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی شرق الہند کمپنی جسے انگریزی (British East India Company) کہا جاتا ہے، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار کے علاوہ تخت و تاج پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں فروخت کیا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں (ڈچ) نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آ گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1795ء میں جب فرانس نے نیدرلینڈ (ڈچ) فتح کر لیا تو برطانیہ نے ڈچ کولونیوں پر قبضہ کر لیا۔ نیدر لینڈ کے بڑے بینکار (Hope) لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکز ایمسٹرڈم سے لندن منتقل ہو گیا۔

1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 1602ء میں بنی تھی مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ بڑی ثابت ہوئی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 4785 بحری جہاز تھے جبکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 2690 جہاز تھے۔[1]
انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی لمیٹڈ کمپنی تھی۔ اس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72000 پاونڈ کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔[2]

2010ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا نے خرید لیا۔[3]

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی
ملک سال
برطانیہ 1600ء
ہالینڈ (ڈچ) 1602ء
ڈنمارک 1616ء
فرانس 1664ء
ہندوستان 1765ء تا 1805ء ایسٹ انڈیا کمپنی علاقہ جات گلابی رنگ میں
ہندوستان 1765ء تا 1805ء ایسٹ انڈیا کمپنی علاقہ جات گلابی رنگ میں
ہندوستان 1837ء تا 1857ء ایسٹ انڈیا کمپنی (گلابی رنگ میں) اور دیگرعلاقے
ہندوستان 1837ء تا 1857ء ایسٹ انڈیا کمپنی (گلابی رنگ میں) اور دیگرعلاقے

اقتباسات

[ترمیم]

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔
1757ء میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہو گیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے مشرقی صوبوں بنگال،بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوض حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کر لیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کارروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔[4]

1876–78 کے جنوبی ہندوستان کے قحط زدگان۔انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ بر آمد کرتے رہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔

شیخ دین محمد جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن 1772ء میں) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم منگیر سے بھاگلپور (بہار) پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اس کی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے ان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انھیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ ان کے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔
یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گذر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کارروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیرکمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان کی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔
کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔[5]

جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ (جو فرانس کا اتحادی تھا) کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسے اودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔[6]
بنگال کے قحط (1769ء - 1770ء) نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے فروخت کرنے لگے تھے۔[7]

برطانیہ کے ہاوس آف کامنز نے 1813ء میں Thomas Munroe (جسے 1820ء میں مدراس کا گورنر بنایا گیا) سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعدبرطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔[8][9]

1857کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے الٰہ باد کا شہر جلا دیا۔

اس کے بعد ایسی ظالمانہ پالیسیاں اپنائی گئیں کہ برطانیہ کی ایکسپورٹ جو 1815ء میں 25 لاکھ پاونڈ تھی وہ 1822ء تک 48 لاکھ پاونڈ ہو گئی۔[10]

برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے فروخت کرتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔

The "moneyocracy" shut out India's finished textiles from British markets, and the "millocracy" flooded India with products of Britain's power looms. "British steam and science uprooted, over the whole surface of Hindustan, the union between agriculture and manufacturing industry." [11]

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823ء میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے۔ (تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں فروخت کیا جا سکے)

India is thus reduced from the state of manufacturing to that of an agricultural country. (Memorials of the Indian Govt. being a selection from the papers of Henry St. George Tucker London, 1853 Page 494) [12]

1814ء سے 1835ء تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورت حال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔[13]

1771ء میں کمپنی کے پاس صرف 187 یورپی سول افسران تھے جو بنگال میں تعینات تھے اور تین کروڑ لوگوں پر حکومت کرتے تھے۔ فوج میں بھی عموماً آدھے سے زیادہ لوگ ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔

1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریز دہشت پھیلانے کے لیے ہندوستانیوں کو سرعام پھانسی دیتے تھے۔
1884 میں مصور وزلی کی بنائی ہوئی ایک پینٹننگ۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندوستانیوں کو توپ سے اُڑایا جا رہا ہے۔ خون آلودہ سفید لباس لاش کی دہشت میں اضافہ کرتا ہے۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد پشاور میں باغیوں کو توپ سے اڑانے کی "تقریب"۔ چونکہ توپیں کم تھیں اور باغی زیادہ اس لیے یہ "تقریب" دو قسطوں میں انجام پائی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورسارے دیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ اُس زمانے میں ہندوستان میں بینک نہیں ہوتے تھے اور امیر لوگ حفاظت کی خاطر اپنی دولت زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے امرا کی حویلیاں بارود سے اڑا دیں اور زمین کھدوا کر سارا سونا چاندی لوٹ لیا۔
انگلینڈ میں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ معظم پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کری تھی لیکن انھوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔[14] لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے۔ [15] اور واقعی یہی کیا گیا۔ دہلی میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔ کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔ [16]

"انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظرا نداز کیا ہے۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کیے گئے تھے۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آ گیا ہو۔ لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جا سکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امرا کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیاجاتا۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا۔ ہندؤوں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انھیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مرجاتے۔ کوئی بھی ملک یاکوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پُرتشدد کام نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ "[17]

جنگ آزادی کے دوران چار ہزار انگریزوں کی موت واقع ہوئی جس کے جواب میں 12 لاکھ ہندوستانیوں کا خون بہا کر بھی انگریز کا غصہ کم نہ ہوا۔[18]

اگرچہ لندن سے بمبئی تک ٹیلی گرافی کا آغاز 1870ء میں ہوا مگر انڈیا میں ریلوے لائن کے ساتھ ٹیلی گرافی کا آغاز بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ 1856ء تک ہندوسان کے مختلف بڑے شہروں میں 4000 میل لمبے ٹیلی گرافی سسٹم کا کامیاب نظام شروع ہو چکا تھا۔[19] مورخین کا کہنا ہے کہ ٹیلی گرافی نے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی میں انگریزوں کی بڑی مدد کی۔ مقامی باغی اس ٹیکنولوجی سے محروم تھے۔[20]

نک روبنس اپنی کتاب The Corporation that Changed the World میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں لکھتے ہیں “اس کمپنی نے معیشت کی تاریخ بالکل بدل دی۔ صدیوں سے دولت کا بہاو مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔ روم کے عروج کے زمانے سے یورپ تجارت کے لیے ایشیا کا مرہون منت تھا اور مسالا، کپڑے اور نفیس اشیاء کے بدلے سونا اور چاندی ادا کرتا تھا۔ انگلینڈ کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جسے مشرق خریدنا پسند کرتا۔ جنگ پلاسی سے پہلے تجارتی توازن سارے ممالک کے خلاف اور بنگال کے حق میں تھا۔ بنگال وہ جگہ تھی جہاں جا کر یورپ کا سونا چاندی گُم ہو جاتا تھا اور جہاں سے یورپ کا سونا چاندی واپس آنے کے امکانات صفر تھے۔ (1694ء میں بینک آف انگلینڈ کا قیام ہوا جس سے سرکاری سطح پر کاغذی کرنسی کا اجرا شروع ہوا اور) 1773ء تک سونے چاندی کے بہاو کا رخ پلٹ چکا تھا۔ 1600ء میں ہندوستان اور چین کی معیشت یورپ کی معیشت سے دوگنی تھی۔ 1874ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوا اس وقت یورپ کی معیشت ہندوستان اور چین کی معیشت کا دُگنا ہو چکی تھی۔ اس کمپنی نے ساری دولت لوٹ کر انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اس کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لیے دو حربے استعمال کیے۔ پہلا یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو رشوت سے قابو کرو اور دوسرا یہ کہ عوام کو تقسیم کرو۔ (Divide and rule)

the hegemony of the collective West could only be fully achieved by applying Divide and Rule across Eurasia.[21]

جنگ پلاسی میں فتح حاصل ہونے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 25 لاکھ پاونڈ کا مال غنیمت ہاتھ لگا جبکہ لارڈ کلائیو کو دو لاکھ چونتیس ہزار پاونڈ ذاتی منافع ہوا“۔ اس کی مالیت آج کل کے حساب سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔
اس رقم سے اس نے برطانیہ میں ایک شاندار محل بنوایا اور وسیع جاگیر خریدی جس کا نام 'پلاسی' رکھا۔ یہی نہیں، اس نے پیسہ دے کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے باپ کے لیے بھی پارلیمان کی نشست خرید لی۔ بعد میں اسے سر کا خطاب بھی عطا کر دیا گیا۔ پارلیمان کے ایک چوتھائی کے لگ بھگ ارکان خود ایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے۔[22]
ایسٹ انڈیا کمپنی (جو جوہن کمپنی کے نام سے شروع ہوئی تھی) نے ہندوستان کو تجارت کے نام پر لوٹ کر بے حساب دولت کمائی مگر ہندوستانیوں کو شدید کرب و اذیت سے دوچار کیا۔ کمپنی کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف تجارت نہیں چاہتیں بلکہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

تحلیل

[ترمیم]

اپنے آغاز کے 275 سال بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے سارے اثاثے Lloyds کے حوالے کر دیے گئے جو N.M. Rothschild & Co کا ذیلی ادارہ ہے۔ آج کل ایسی کمپنیاں ملٹی نیشنل کمپنیاں کہلاتی ہیں۔[23] [24]

اسٹاک مارکیٹ

[ترمیم]

یورپ میں سونے چاندی کے سکوں کی شدید قلت ہوا کرتی تھی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی تھی جس نے 1602ء میں کاغذ پر چھاپ کر شیئر (اسٹاک) فروخت کرنا شروع کیے[25](یعنی دنیا کے پہلے IPO جاری کیے) جس سے سونا چاندی یورپ آنے لگا۔ اس سے پہلے اسٹاک کاغذ کی بجائے تجارتی اشیاء پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔[26] خود ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا پہلا منافع (dividend) مصالحوں کی شکل میں ادا کیا تھا۔ اگرچہ یورپ میں جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں کئی صدیوں سے موجود تھیں لیکن ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے یہ کاغذی شیئر (حصص) باآسانی دوسروں سے خریدے اور فروخت کیے جا سکتے تھے۔[27] اس طرح پہلی دفعہ کیپیٹل مارکیٹ کا آغاز ہوا[28] اور کاغذی اثاثوں کی خرید و فروخت شروع ہوئی۔ کاغذی دولت تخلیق کرنے کا یہ کاروبار اتنا منافع بخش ثابت ہوا کہ جلد ہی اسے پرتگال، اسپین اور فرانس کی بحری تجارتی کمپنیوں نے اپنا لیا۔ اس کے بعد یہ کاروبار برطانیہ پہنچ گیا۔ آج بھی اسٹاک مارکیٹیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔[29]

"جنگ کے بغیر تجارت ناممکن ہے اور تجارت کے بغیر جنگ ناممکن ہے"
‘trade without war is not possible, neither is war without trade’.[30]
سمندر پار تہذیبوں کی مکمل فتح، غلامی اور لوٹ صرف کریڈٹ سے ممکن ہوئی۔
The prime example before these nascent central bankers was the conquest, subjugation, and material strip mining of entire overseas civilizations using almost nothing but credit.[31]

لگ بھگ دو سو سال پہلے کسی گورے نے ہندوستانیوں کے بارے میں لکھا کہ پرانی نسل نے بزور شمشیر یہ سلطنت بنائی اور قائم رکھی۔ آج کی زوال شدہ نسل کس قدر مختلف ہے جو روٹی کے لیے بھی فرنگیوں کے فراخ دلانہ قرض کی محتاج ہے۔

men who won their kingdoms at the sword's point, and kept them, how different to the present degenerate race, who are indebted for the bread they eat to the generosity of the Feringhees[32]
یورپ میں ایسٹ انڈیا کمپنیاں اور اسٹاک مارکٹیں ایک ساتھ وجود میں آئیں اور بظاہر سبھوں کو منافع ہوا سوائے ایشیا کے لوگوں کے۔
In the 1600s, the Dutch, British, and French governments all gave charters to companies with East India in their names. On the cusp of imperialism's high point, it seems like everyone had a stake in the profits from the East Indies and Asia except the people living there.[33]

لوٹ

[ترمیم]

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔

اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔

ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بے چارے کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔ [34]

برطانوی وزیر اعظم کا بیان

[ترمیم]

1947ء میں تقسیم ہند کے موقعے پر ونسٹن چرچل کے جانشین Clement Richard Attlee نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اپنے ساتھیوں کے اُن کارناموں پر فخر ہے جو انھوں نے انڈیا میں انجام دیے۔[35]

نسل کُشی

[ترمیم]
  • تہذیب کی ہر بڑی کامیابی بربریت کی بڑی نشانی ہوتی ہے۔
"Every monument of civilization is a monument of barbarism-Walter Benjamin"[36]
ہولوکاسٹ[37]
مقام دورانیہ مرنے والوں کی تعداد
فلسطین 1967-2009 3 لاکھ
عراق 1990-2009 41 لاکھ
افغانستان 2001-2009 30 سے 70 لاکھ
بنگال 1769-1770 ایک کروڑ
بنگال 1943-1945 60 سے 70 لاکھ
ہندوستان 1757-1947 ایک ارب 80 کروڑ

"شہاب نامہ" سے اقتباس

[ترمیم]
  • "جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوبی ایشیا میں تجارت کے پردے میں سیاست کا جال پھیلایا تو اس کے جلو میں ملازمین کا ایک لاؤ لشکر بھی اس خطہ ارض پر ٹڈی دل کی طرح امڈ آیا۔ یہ ملازم عام طور پر کمپنی کے ڈائریکٹروں کے بیٹے بھانجے بھتیجے یا ان کے دوست احباب کے عزیز و اقارب ہوتے تھے۔ ان کی تنخواہ 5 پاؤنڈ ماہوار تک مقرر تھی۔ لیکن اس کے علاوہ ذاتی تجارت کرنے کی بھی ان کو کھلی چھٹی تھی۔ چنانچہ اکثر ملازم کمپنی کا کام کم اور نجی تجارت زیادہ کرتے تھے۔
مقامی راجوں، رجواڑوں زمینداروں اور رئیسوں سے زبردستی نذرانے وصول کرنے کا رواج بھی عام تھا۔ اور اس طرح اکثر ملازم چند سال میں لاکھوں روپے سمیٹ کر انگلستان واپس چلے جاتے تھے۔ واپسی پر وہ ایک آدھ ملازم چھوکرا یا طرحدار آیا بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور جب وہ انگلینڈ کے مضافات میں بیش قیمت جائیدادیں خرید کر اپنا ٹھاٹھ جماتے تھے تو وہاں کی سوسائی میں "نبان" کہلاتے تھے۔
مال و دولت سمیٹنے کا یہ نیا راستہ دیکھ کر دوسرے انگریزوں کی بھی رال ٹپکنے لگی۔ اور ہندوستان میں کمپنی کی ملازمت حاصل کرنا ایک باقاعدہ مہم کی صورت اختیار کر گیا۔ اب لندن میں ڈائریکٹڑوں کی بر آئی اور انھوں نے بھی کھلے بندوں ہاتھ رنگنے شروع کر دیے۔ چنانچہ کمپنی کی اسامیاں فروخت ہونے لگیں۔ ڈائریکٹر صاحبان ایک ایک اسامی کی قیمت دو ہزار سے تین ہزار پاؤنڈ تک وصول کرتے تھے۔
اسامی سفارش سے ملی ہو یا قیمت دے کر خریدی گئی ہو، کمپنی کے ملازمین کا واحد مقصد یہی ہوتا تھا کہ ہندوستان آ کر وہ کم سے کم عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹیں اور پھر وطن عزیز واپس جا کر عیش و آرام کی زندگی بسر کریں۔ اس مقصد براری کی دھن میں میں انھیں طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا نیا ملازم ہندوستان پہنچ کر جہاز سے اترتا تھا تو سب سے پہلے اسے یہاں کا بنیا ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ ہر انگریز کے ساتھ ایک ایک بنیا ہر وقت اس طرح چپکا رہتا تھا جس طرح جسم کے ساتھ سایہ لگا رہتا ہے۔ انگریزوں کی ذاتی تجارت کے لیے سرمایہ بنیا فراہم کرتا تھا۔ اسمگلنگ کے کاروبار کے نت نئے راستے وہ نکالتا تھا۔ گھروں کے لیے فرنیچر آرائش و زیبائش کا سامان وہ لاتا تھا۔ باورچی خانے کی روزمرہ ضروریات اس کے دم قدم سے پوری ہوتی تھیں۔ گھریلو ملازمین کا چناؤ اس کے مشورہ سے ہوتا تھا۔ نذرانہ وصول کرنے کے لیے موٹی موٹی اسامیوں کی نشان دہی بھی بنیا کرتا تھا۔ اور اپنے فرنگی آقاؤں کی جنسی حاجات پر بھی وہ بڑے رکھ رکھاؤ سے اپنی نظر التفات ہر دم مرکوز رکھتا تھا۔
زندگی کے ہر شعبے میں ہر طرح کے مسائل کو آناً فاناً حل کرنے میں بنیے نے کچھ ایسے مہارت حاصل کر رکھی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اکثر ملازم اس کے بنے ہوئے پیچیدہ جال میں بے بس مکڑیوں کی طرح جکڑے بندھے رہتے تھے۔ ابتدا میں انگریزوں اور ہندو بنیوں کا گٹھ جوڑ شروع تو تجارتی لین دین سے ہوا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ ایک عالمگیر بلا (Octopus) کی طرح اس نے باہمی خیر سگالی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
انگریزوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک بہت بڑی قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں مسلمانوں کو اپنا واحد دشمن تصور کرتے تھے۔ یہ ملی بھگت خوب رنگ لائی۔ جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنا تسلط جمانے کا آغاز کیا تو تجارتی بنیا ان کا دست راست تھا۔ اور آزادی کے بعد جب انھوں نے خطہ ارض چھوڑا تو سیاسی بنیا ان کا ہمدم و ہمراز تھا۔ یہ محض حسن اتفاق ہی نہ تھا کہ ہندوؤں نے جس انگریز سے چھٹکارا حاصل کیا تھا اسی انگریز کو برضا و رغبت بھارت کا پہلا گورنر جنرل بھی تسلیم کر لیا۔ برٹش فراست اور بنیا سیاست کی یہ کامیابی چانکیہ کے فلسفہ ریاست کے عین مطابق ہے۔ جس میں راج نیتی کے کاروبار میں جھوٹ اور فریب واجب ہے اور ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔
ڈیڑھ دو سو سال پہلے ان دونوں کا نصب العین مسلمانوں کے بنے بنائے اقتدار کو پامال کرنا تھا۔ آزادی کے بعد دونوں کا مقصد ایک نئی ابھرتی ہوئی اسلامی مملکت کو درہم برہم کرنا بن گیا۔ یوں تو بنیا گیری عام طور پر ایک انفرادی پیشہ تھا۔ لیکن کلکتہ میں چند منچلوں نے مل کر بنیوں کی ایک کمپنی بھی کھول لی تھی۔ اس فرم کا نام "چار یار" تھا اور یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ بڑے بڑے ٹھیکوں کا کام کیا کرتی تھی۔
4 مئی 1799ء کا وہ منحوس دن تھا جب سرنگا پٹم کے تاریخی معرکے میں ٹیپو سلطان شہید ہو گئے۔ اور ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لیے انگریزوں کا راستہ بالکل صاف ہو گیا۔ اس فتح کی خوشی میں لارڈ کارنوالس نے کلکتہ تھیٹر میں ایک شاندار محفل رقص و سرور منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ ہال میں جگہ جگہ "دشمن" سے چھینے ہوئے سامان حرب کی نمائش لگائی گئی۔ دیواروں پر بڑے بڑے آئینوں کے سامنے معرکہ سرنگا پٹم کے مختلف مناظر کی قد آدم تصویریں بنا کر لٹکائی گئیں۔ ستونوں پر بڑی خوبصورتی سے رنگ برنگ ریشم کے تھان منڈھے گئے۔ چھت سے رنگین سلک کی بڑی بڑی چادروں کو شامیانوں کی صورت میں آویزاں کیا گیا۔
انگریزوں کی جس جس رجمنٹ نے سرنگا پٹم کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ ان کے جھنڈے ہال کے عین وسط میں لہرائے گئے۔ ان کے عین نیچے سلطان ٹیپو شہید کے جھنڈوں کو الٹا لٹکایا گیا۔ ڈانس رات گیارہ بجے شروع ہوا۔ اور صبح پانچ بجے تک جاری رہا۔ میموں نے سفید ساٹن کی چست وردیاں پہنی ہوئی تھیں جن پر ریشم کے دھاگے سے 4 مئی کے الفاظ جلی حروف میں کاڑھے ہوئے تھے۔ ڈانس کے درمیان جب مے نوشی کے لیے کچھ وقفہ ہوتا تھا تو زرق برق کپڑوں میں ملبوس ہندوستانی ناچنے اور گانے والیاں مبارکبادی کے نغمے گا کر معزز مہمانوں کا دل بہلاتی تھیں۔ ارباب نشاط کے ان طائفوں کو ”چار یار" نے بڑے اہتمام کے ساتھ بنارس سے فراہم کیا تھا۔ اس تقریب کے لیے خاص طور پر ”چار یار" کے بنیوں نے یہ انوکھی اپچ نکالی تھی کہ ٹیپو سلطان کا درباری لباس اس محفل میں کام کرنے والے خدمتگاروں اور چپراسیوں کو پہنایا گیا تھا۔
اپنے اپنے بنیے کی سرپرستی سے کمپنی کے انگریز ملازموں کی پانچوں گھی میں اور سر اکثر کڑاہی میں رہتا تھا۔ صبح سات بجے کے قریب جب صاحب بہادر کی آنکھ کھلتی تھی، تو سب سے پہلے حمال دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو کر کھڑکیاں اور دروازے کھولتا تھا۔ مسالچی بستر پر تنی ہوئی مچھر دانی سمیٹتا تھا۔ ایک طرف سے بیرا ”چھوٹا حاضری" کی چائے پیش کرتا تھا۔ دوسری جانب سے حجام لپک کر بڑھتا تھا اور صاحب کے سر کے نیچے دو تین تکیے رکھ کر لیٹے ہی لیٹے اس کی شیو بنا دیتا تھا۔ چلمچی اور آفتابہ لا کر بستر ہی میں اس کا ہاتھ منہ دھلا دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جب وہ بریک فاسٹ کے لیے بیٹھا تھا، تو یہی حجام کرسی کے پیچھے کھڑا ہو کر اس کے سر کی ہلکی ہلکی مالش کرتا تھا، بال بناتا تھا، وگ جماتا تھا۔ کانوں کی میل نکالتا تھا اور ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کو چٹخاتا تھا۔
ناشتا ختم ہوتے ہی حقہ بردار حقے کی نلکی اس کے منہ میں دے کر خود پیتل کی ایک چمکدار پھکنی سے چلم کی آگ سلگاتا رہتا تھا۔ حقے کی پہلی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ہی صاحب کا بنیا جھک جھک کر سلام کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا تھا۔ اس کے بعد ملازموں کی فوج ظفر موج کا ریلا اندر آتا تھا۔ خانساماں، بیرا، مسالچی، حمال، مالی، بہشتی، کتے والا، پنکھے والا، دھوبی، درزی۔ سب باری باری سلام کر کے اپنی دن بھر کی ضروریات پیش کرتے تھے۔ بنیا انھیں پورا کرنے کا بیڑا اٹھاتا تھا۔ اس کے بعد دفتر کے منشی، متصدی، پیشکار، ہرکارے، چوبدار اور چراسی پیش ہوتے تھے۔ دس بجے صاحب کمرے سے برآمد ہو کر اپنی حیثیت کے مطابق گھوڑے یا پالکی یا فٹن پر سوار ہوتے تھے۔ ان کے سر پر چھاتا کھلتا تھا اور آگے پیچھے دس پندرہ چوبداروں، برقندازوں اور چپراسیوں کا جلوس چلتا تھا، جو بڑی خوبصورت رنگین وردیوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ کچھ وقت دفتر میں گزار کر سارے مقامی انگریز ایک بجے ٹفن کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ لنچ میں پندرہ سے اٹھارہ تک کھانے کے کورس اور چار پانچ قسم کی شرابیں ہوتی تھیں۔
چار بجے کھانے سے فارغ ہو کر شام کے سات بجے تک قیلولہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد باربر ایک بار پھر ان کے کان کی میل نکالتا تھا، انگلیوں کے جوڑ چٹخاتا تھا اور بال سنوار کر سر پر وگ جماتا تھا۔ آٹھ بجے سب لوگ اپنی اپنی سواریوں پر ہوا خوری کے لیے نکلتے تھے اور دس بجے ڈنر کے لیے بیٹھ جاتے تھے۔ ڈنر کے بعد رات گئے تک حقے اور شراب کا دور چلتا تھا۔
اس محنت شاقہ کے عوض یہ لوگ چند برس میں لکھ پتی بن کر اپنے وطن سدھارتے تھے۔ دولت سمیٹنے کے اس کاروبار میں نذرانوں کی وصولی کو بڑا اہم مقام حاصل تھا۔ نذرانہ دراصل رشوت ہی کا دوسرا نام تھا۔ سب سے بڑا نذرانہ لارڈ کلائیو نے بنگال کے غدار میر جعفر سے وصول کیا تھا۔ اس نذرانے کا تخمینہ تیس لاکھ پاؤنڈ کے لگ بھگ تھا۔ اپنی تاریخی غداری کے شکرانے میں اس تنگ دنیا ننگ دین ننگ وطن میر جعفر نے اپنی وصیت میں بھی ساڑھے تین لاکھ روپے کے جواہرات اور ڈیڑھ لاکھ روپے کا سونا کلائیو کے لیے ان القابات کے ساتھ چھوڑا تھا: ”ہمارے ہیرو، ہماری آنکھوں کے نور نواب والی قدر لارڈ کلائیو کے نام جو میدان جنگ میں چٹان کی طرح ثابت قدم رہتے ہیں"۔ نذرانوں کے علاوہ میر جعفر کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور لارڈ کلائیو کمپنی پر بھی بے دریغ ہاتھ صاف کرتا رہتا تھا۔ ایک بار اپنی تنخواہ وغیرہ کے علاوہ اس نے دو برس کے متفرق اخراباب کا جو بل ایسٹ انڈیا کمپنی سے وصول کیا تھا۔۔۔۔۔اس کا ٹوٹل 333895 روپیہ تھا۔
اپنے اپنے بنیوں کے تعاون سے کمپنی کے بہت سے انگریز ملازم خفیہ طور پر چھوٹے چھوٹے مقامی حرم بھی قائم کر لیتے تھے۔ لیکن باقاعدہ شادی وہ صرف میموں سے ہی رچاتے تھے۔ اس مقصد کے لیے کمپنی کے ڈائریکٹر انگلستان سے آنے والے ہر بحری جہاز میں شادی کی خواستگار میموں کی کھیپ بھی ہندوستان بھیجتے تھے۔ یہ خواتین نئے نئے فیشن کے ملبوسات اور سامان آرائش سے لدی پھندی آتی تھیں۔ اور اپنے دل پسند خاوند کا شکار کرنے کے لیے طرح طرح کے دامن تنویر بچھا کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ان کے دل کو نوجوانوں کی نسبت بڈھے خاوند زیادہ پسند آتے تھے۔
عمر رسیدہ انگریز ہندوستان کی آب و ہوا میں سالہا سال کی بسیار خوری اور مے نوشی کے بعد قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوتے تھے۔ اور ان کی جوان بیویاں بہت جلد ان کی سمیٹی ہوئی دولت کی وارث بن جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ خاوند کے مرتے ہی بیوہ کے نام عمر بھر کے لیے تین سو پاؤنڈ سالانہ کی پینشن بھی مقرر ہو جاتی تھی۔ جو عورت ہندوستان آنے کے بعد ایک سال تک خاوند پھانسنے میں کامیاب نہ ہو سکے اسے کمپنی کے خرچ پر واپس انگلستان بھیج دیا جاتا تھا۔
البتہ ایک طرحدار میم مس ہالڈین نے انگلستان واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔ کیونکہ اس نے ہندوستان میں کسی خاوند کا سہارا لیے بغیر ہی دولت کمانے کا ایک نیا راستہ تلاش کر لیا تھا۔ ہندوؤں کی ریت ہے کہ دیوالی کی رات وہ لکشمی دیوی کی پوجا کرتے ہیں تا کہ سارا سال ان پر مایا کی بارش برستی رہے۔ اگر کنورای کنیا کے برہنہ جسم پر سونے چاندی کے سکے رکھ کر پوجا پاٹھ کی جائے تو لکشمی دیوی کا دل زیادہ آسانی سے خوش ہو جاتا ہے۔ چند بنیوں کی مدد سے مس ہالڈین نے دیوالی کی راتوں کے لیے کنواری کنیا کا روپ دھار لیا۔ دولت کے پجاری اس کے عریاں تن بدن کو بڑی فنکاری سے روپوں اور اشرفیوں سے سجاتے تھے اور پھر اس کے قدموں میں بیٹھ کر ساری رات بڑی عقیدت سے لکشمی دیوی کو برماتے اور اپنے قلب و نظر کو گرماتے تھے۔
رفتہ رفتہ مس ہالڈین "ہلدی دیوی" کہلانے لگی۔ ”دھن کی موج ہلدی دیوی، من کی کوج ہلدی دیوی" کی بھپتیوں کے ساتھ اس کا چرچا دور دور تک پھیل گیا۔ پوجا پاٹھ کے لیے اس کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ ہر رات دیوالی کی رات بننے لگی۔ کمپنی کے ملازمین ایک سفید فام عورت کی ان حرکات پر بڑے چراغ پا تھے۔ ایک طویل سازش کے بعد آخر انھوں نے مس ہالڈین کو زبردستی انگلستان واپس بھجوا دیا۔ اس نے اپنی واپسی کے خلاف عدالتوں میں ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی تو بہت کی، لیکن کہیں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عدالتیں مقدموں کا فیصلہ انصاف کی رو سے نہیں بلکہ مصلحت کی رو سے کرنے کی پابند تھیں۔
کمپنی کے عدالتی نظام میں کسی گورے کے ہاتھوں کالے کا قتل بڑا جرم شمار نہ ہوتا تھا۔ ایسے مقدمات میں مقتول اکثر بنگلوں اور دفتروں کے پنکھا قلی ہوتے تھے۔ انھوں نے دن رات مسلسل پنکھا کھینچنے کی بڑی مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ بسا اوقات وہ پنکھے کی رسی اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ باندھ کر فرش پر لیٹ جاتے تھے۔ اس حالت میں اگر کبھی انھیں اونگھ بھی آ جاتی تھی، تو ان کی ٹانگ متواتر چلتی رہتی تھی اور پنکھا بدستور ہلتا رہتا تھا۔ لیکن اگر شومئی قسمت سے کسی وقت پنکھا بند ہو جائے تو گرمی، نیند اور شراب کے خمار میں بوکھلایا ہوا ”صاحب“ ہڑبڑا کر اٹھتا تھا اور سوئے ہوئے قلی کے پیٹ میں زور سے ٹھوکر مار کر اسے بیدار کرتا تھا۔ کئی بار اس ٹھوکر کی ضرب سے بچارے قلی کی تلی پھٹ جاتی تھی اور وہ وہیں لیٹے لیٹے دم توڑ دیتا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں صاحب کو کبھی ایک روپیہ جرمانہ ہو جاتا تھا، کبھی محض وارننگ ملتی تھی، کبھی بالکل باعزت بری۔
ہندوستانیوں کو سب سے کڑی سزا چوری کے جرم پر ملتی تھی۔ مجرم عورتیں ہوں یا مرد، عام طور پر انھیں چوراہوں میں بر سر عام ہر روز 39 کوڑے اس وقت تک لگائے جاتے تھے جب تک کہ وہ چوری کا مال واپس نہ کر دیں۔ تپتے ہوئے گرم لوہے سے چہرہ، ہاتھ اور ٹخنے داغنا بھی ایک عام سزا تھی۔ کچھ قیدیوں کو ہفتے میں ایک یا دو بار کاٹھ بھی مارا جاتا تھا۔ کسی کو لکڑی کے شکنجے میں کس کر اس کی نمائش کرنے میں جسمانی تکلیف کی نسبت تذلیل و تشہیر کا عنصر زیادہ نمایاں ہوتا تھا۔ اکثر مقامات پر ہندوستانیوں کے لیے انگریزوں کے سامنے کسی سواری پر بیٹھنا ممنوع تھا اور بارش یا دھوپ میں چھاتا کھول کر چلنے کی بھی ممانعت تھی۔
کوئی دو سو برس تک اسی طرح من مانی کارروائیوں سے کمپنی بہادر نے ایک ہاتھ سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ملک گیری کی مہم ایسی کامیابی سے چلائی کہ 1853ء میں اس کا تجارتی کاروبار قانونی طور پر بند ہو گیا اور برصغیر پر انگریزوں کی باقاعدہ حکمرانی کا دور شروع ہو گیا۔ نئے سامراجی تقاضوں کے پیش نظر سب سے پہلے آئی سی ایس کی داغ بیل ڈالی گئی اور لارڈ میکالے کی قیادت میں اس سروس کو باضابطہ منظم کیا گیا۔ اب اس میں داخلہ صرف مقابلے کے امتحان کے ذریعہ ہونے لگا۔ آئی سی ایس کا پہلا امتحان لندن میں 1855ء میں منعقد ہوا۔ 1864ء میں پہلا ہندوستانی اس امتحان میں کامیاب ہوا۔ 1871ء میں ان کی تعداد چار ہو گئی۔ اگلے چالیس پچاس برس تک اس سروس میں جتنے ہندوستانی داخل ہوئے وہ زیادہ تر ہندو ہی تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اس برصغیر میں مسلمانوں کے تعلیم و ترقی کے بھی دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ لارڈ میکالے کا فتویٰ تھا کہ یہاں پر جو نظام تعلیم رائج کیا جائے وہ ایسے انسان پیدا کرے جو رنگت میں تو بیشک ہندوستانی ہوں لیکن چال اعمال، فہم و فراست، ذوق و مذاق، اخلاق و اطوار اور ذہنی اعتبار سے انگریز ہوں۔ اس پالیسی کے تحت جب فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان بنا دیا گیا تو برصغیر کے ہزاروں مسلمان علما و فضلاء بہ یک نوک قلم غیر تعلیم یافتہ قرار دے دیے گئے۔ اس فیصلے کا ہندوؤں نے بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔ اس لیے نہیں کہ انھیں انگریزی سے کوئی خاص محبت تھی بلکہ صرف اس لیے کہ انھیں فارسی سے چڑ تھی، کیونکہ اس زبان کا رابطہ مسلمانوں سے تھا۔
یوں بھی جب 1857ء میں سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ گل ہو گیا تو انگریزوں اور ہندوؤں کی ایک مشترکہ کوشش یہ تھی کہ اس برصغیر میں ہر اس امکان کو ختم کر دیا جائے جس میں مسلمانوں کے دوبارہ سر اٹھانے کا ذرا سا شائبہ بھی موجود ہو۔ یہاں پر مسلمان ہی ایک ایسی قوم تھی جس میں حکومت کرنے کی صلاحیت بھی تھی، روایت بھی تھی اور ہزار سالہ تجربہ بھی حاصل تھا۔ چنانچہ اس قوم کا سر کچلنا دونوں کا فرض منصبی قرار پایا۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انگریزوں نے سب سے پہلے اقتصادی طور پر ہندوؤں کو آگے بڑھانے اور تعلیمی طور پر مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ یہ تجربہ بڑا کامیاب رہا۔ حکومت انگلشیہ نے نظام تعلیم کو سیکیولر بنا کر اسے براہ راست سرکاری سرپرستی میں لے لیا۔ اس طرح مسلمانوں کے تہذیبی، تمدنی اور علمی گہواروں کا رشتہ اس نظام تعلیم سے بالکل منقطع ہو گیا۔ اسلامی مدرسے اور دار العلوم تو حکومت کی سرپرستی سے محروم ہو کر اپنے اپنے خود حفاظتی خول میں چلے گئے، لیکن کرسچین مشنری اسکولوں کی تعداد روز بروز بڑی تیزی سے بڑھنے لگی۔ مسلمان طلبہ گورنمنٹ اسکولوں میں داخل ہونے سے بڑے طویل عرصہ تک ہچکچاتے رہے۔
اس کی تین وجوہات تھیں۔ ایک تو انگریزوں کا رویہ مسلمانوں کی طرف ویسا ہی تھا جیسا کہ فاتح کا مفتوح کی طرف ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان قدرتی طور پر ان اداروں میں جانے سے استنکاف محسوس کرتے تھے، جو غالب قوم نے خاص اپنے اغراض و مقاصد کے لیے قائم کیے تھے۔ دوسرے گورنمنٹ اسکولوں میں دینی تعلیم پر مکمل پابندی تھی۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے ناقابل فہم تھی۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد تھی کہ دین کے بغیر تعلیم کا کوئی نظام نہ مکمل ہو سکتا تھا نہ قابل قبول۔ چنانچہ انگریزوں کا یہ اقدام مسلمانوں کی نظر میں شکوک و شبہات سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے شہ پا کر اس زمانے میں عیسائی مشنریوں نے بھی برصغیر پر یورش شروع کر دی اور وہ بڑی شدت سے مسیحیت کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ یہ پادری جگہ جگہ مسلمان علما کو مناظرے کا چیلنج دیتے تھے۔ مناظرے اکثر گورنمنٹ اسکولوں کی گراؤنڈ پر منعقد ہوتے تھے۔ مقامی انگریز افسر شامیانوں کا بندوبست بھی کرتے تھے اور ہر ممکن طریقے سے پادریوں کی پشت پناہی کا سامان بھی کرتے تھے۔
اس سے مسلمانوں کے ذہن میں یہ شبہ اور بھی پختہ ہو گیا کہ گورنمنٹ اسکولوں، انگریزوں اور مسیحی پادریوں کے درمیان مسلمانوں کے خلاف ضرور کوئی خفیہ گٹھ جوڑ ہے اور مسلمانوں کا سیاسی زور توڑنے کے بعد اب یہ لوگ سرکاری نظام تعلیم کے پردے میں ان کے دین کے درپے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے دینی تعلیمی ادارے اور حکومت کے سرکاری اسکول الگ الگ متوازی خطوط پر چلنے لگے۔ آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ 1880-1881ء میں سارے برصغیر میں انگریزی ہائی اسکولوں میں 36686 ہندو اور صرف 363 مسلمان طلبہ پڑھتے تھے۔ اسی طرح اس سال پورے ہندوستان میں 3155 ہندو اور فقط 75 مسلمان گریجویٹ تھے۔ قدرتی طور پر ملک کے انتظامی اور معاشی نظام میں بھی ہندوؤں کا تناسب اسی لحاظ سے تھا۔
مسلمانوں کی پسماندگی کے اس جمود کو سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ نے بڑے موثر طور پر توڑا۔"[38]

پرچم

[ترمیم]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

بیرونی ربط

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر
  2. "ٹائم لائن"۔ 05 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2015 
  3. یاہو نیوز[مردہ ربط]
  4. "Grant of the Diwani of Bengal, Bihar and Orissa"۔ 15 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2015 
  5. The Travels of Dean Mahomet
  6. From Trade To Territory
  7. کارپوریشن جس نے دنیا بدل دی
  8. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 24 ستمبر 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2013 
  9. Economic Position of Islamic World By Asrar Alm
  10. Anti-slavery Monthly Reporter, Volume 1 edited by Zachary Macaulay
  11. Emerging from Poverty: The Economics that Really Matters By Gerald M. Meier
  12. Imperialism, Labour Relations and Colonial Policies:Indian Indentured Labour in Trinidad, 1845 to 1920 | Radica Mahase - Academia.edu
  13. "Loot: in search of the East India Company by NICK ROBINS"۔ 16 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2013 
  14. great great grandfather of David Cameron was a war criminal?
  15. "The Indian Mutiny 1857-58 By Gregory Fremont-Barnes"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2015 
  16. The Human Rights Flip-Floppery of the 19th Century
  17. اردو محفل[مردہ ربط]
  18. بہادر شاہ ظفر
  19. No. 1380: INDIAN TELEGRAPH by John H. Lienhard
  20. The Telegraph and the Uprisings of 1857
  21. "The Ukraine War & the Eurasian World Order"۔ 25 جون 2020 میں اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2024 
  22. بی بی سی اردو
  23. Great Game India
  24. Why America and Britain Are Self-Destructing (And What the World Can Learn From it)
  25. What Was the First Company to Issue Stock?
  26. Why do Stock Markets Exist? And Why is it so Important?
  27. What was the first known Limited Company?
  28. ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی۔ انگریزی ویکیپیڈیا
  29. How the Stock Market Was Started & by Whom
  30. "A Concise Financial History of Europe by Jan Sytze Mosselaar" (PDF)۔ 24 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2019 
  31. The Evolution Of Fiat Money (Part 1): Physical Money & The Limits Of War
  32. Confessions of a Thug, by Philip Meadows Taylor
  33. The Birth of Stock Exchanges
  34. بی بی سی اردو
  35. British Colonialism Laid The Ground For The Crises In Hong Kong & Kashmir
  36. Walter Benjamin
  37. INDIAN HOLOCAUST under British Raj: 1.8 BILLION excess deaths (350 million Muslim), IGNORED by Anglo media - Muslim Holocaust Muslim Genocide
  38. shahab-nama