کرپس مشن
عالمی سطح پر دوسری جنگ عظیم کے کئی ایک نتائج برآمد ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنگ کے آغاز پر جب انگریزوں نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کرکے اور ہندوستان کو بالواسطہ طور پر اس میں ملوث کیا تو انگریز کے اس اقدام کے نتیجے میں کانگریسی وزارتیں مستعفی ہوئیں۔
دسمبر 1940ء میں جاپان جرمنی کی طرف سے جنگ میں کود پڑا جس سے جنگ کا نقشہ یکسر تبدیل ہوا۔ جاپان کے پے درپے حملوں اور کامیابیوں سے جنوب مشرقی ایشیا جاپانیوں کے ہاتھ لگا اور اس کے ایک ماہ بعد رنگون پر بھی جاپانیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اب وہ ہندوستان کی سرحدوں پر دستک دینے والے تھے۔ جاپانیوں کی ان پے درپے کامیابیوں نے ہندوستان میں انگریزوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ان کی سلطنت کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔ کیونکہ ایک طرف ان کو جاپانیوں کا سامنا تھا تو دوسری طرف ہندوستان کے اندرونی حالات بھی سازگار نہ تھے۔ کانگریسی وزارتیں احتجاجاً مستعفی ہو گئیں تھیں۔ مسلم لیگ نے قرارداد لاہور کے ذریعے اپنے لیے ایک علاحدہ منزل مقصود کا تعین کیا تھا۔ جاپانیوں کا بہاؤ روکنے کے لیے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے تعاون اور مدد کی اشد ضرورت تھی۔ اس خیال کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے اپنے رویے میں تھوڑی نرمی اور لچک پیدا کی۔
کرپس مشن
[ترمیم]مذکورہ حالات کے پیش نظر برطانوی وزیر اعظم چرچل نے مارچ 1942ء میں سر اسٹیفرڈ کرپس کو ایک اہم مشن پر ہندوستان بھیجا۔ یہ مشن ’’کرپس مشن‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کرپس مشن نے جو منصوبہ پیش کیا اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل تھے۔
- جنگ کے خاتمے پر ایک ممتخب کمیٹی کو ہندوستان کے لیے نیا آئین بنانے کی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔
- مجوزہ آئین کے مطابق کوئی بھی صوبہ یا صوبے اگر چاہیں تو ہندوستان کی یونین سے الگ ہو سکتے ہیں۔ اور اپنے لیے ایک علاحدہ حکومت کا قیام عمل میں لاسکتے ہیں۔
- جنگ کے دوران میں موجودہ آئین میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوگی اور ہندوستان کا دفاع انگریز حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ کوشش کی جائے گی کہ ہندوستان کی بڑی بڑی قومیتوں کے زعما کو ملکی کونسلوں، دولت مشترکہ اور اقوام متحدہ میں فوری اور مؤثر طریقے سے شرکت دلائی جائے۔
رد عمل
[ترمیم]کانگریس نے کرپس مشن کو کلیتاً مسترد کر دیا۔ اور فوری طور پر ملک میں کانگریس کی خود مختار حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ مسلم لیگ نے بھی کرپس مشن کے منصوبے کو اس جواز پر مسترد کر دیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ مملکت کے قیام کے لیے کوئی ٹھوس ضمانت نہیں دی گئی تھی۔
کرپس مشن کی ناکامی کے بعد کانگریس نے "ہندوستان چھوڑ دو" کی تحریک کا نعرہ بلند کیا اور ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس پر برطانوی حکومت مشتعل ہو گئی اور کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں کو پابند سلاسل کر دیا۔ جس سے ملک کی سیاسی فضا اور بھی مکدر ہو گئی اور پورے برصغیر میں تشدد کے واقعات کا آغاز ہوا۔ مسلم لیگ نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا، کیونکہ بقول قائد اعظم اس تحریک کا مقصد نہ صرف انگریزی حکومت کو اس پر مجبور کرنا ہے کہ وہ کانگریس کو اختیارات منتقل کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ کانگریس کے آگے اپنا ہتھیار ڈال دیں۔
یہی وہ وقت تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی سیاست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی۔ نیز لیگ اور انگریزوں کے درمیان میں گہری مفاہمت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں انگریزوں کی سوچ میں مسلمانان ہند کے لیے خاصی مثبت تبدیلی رونما ہوئی۔