سودیشی تحریک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تقسیم بنگال کو منسوخ کرانے کے لیے انتہا پسند ہندوؤں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے 7 اگست 1905ء کو سودیشی تحریک کا آغاز کیا۔

اغراض و مقاصد[ترمیم]

تحریک کی کامیابی کے لیے اقدامات[ترمیم]

  • سودیشی تحریک کو کامیاب بنانے اور غیر ملکی مصنوعات کی خرید و فروخت کو بند کرنے کی خاطر دکانوں کی ناکہ بندی کی جاتی اور جہاں کہیں غیر ملکی اشیاء ملتی انھیں برسر عام نذرِ آتش کر دیا جاتا۔ گاہکوں کو مال خریدنے سے جبراً روکا جاتا۔
  • مانچسٹر چیمبر آف کامرس پر دباؤ ڈالا گیا کہ اگر وہ برصغیر میں تجارتی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تقسیم بنگال کو منسوخ کر دے۔

تحریک کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات[ترمیم]

انگریز حکومت نے تقسیم بنگال کے فیصلے کو آخری حکم قرار دیتے ہوئے اس سودیشی تحریک کو دبانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے لیکن وہ اس تحریک کو کچلنے میں ناکام رہی۔

تحریک کے نتائج[ترمیم]

  • غیر ملکی مصنوعات کی خرید و فروخت بند ہو گئی۔
  • 12 دسمبر 1911ء کو تقسیم بنگال منسوخ ہو گئی۔
  • تحریک کے نتیجے میں تقسیم بنگال کی منسوخی کے فیصلہ سے مسلمان انگریزوں سے بدظن ہو گئے اور ان کا انگریزوں پر سے اعتماد اٹھ گیا۔
  • اہل برصغیر سمجھ گئے کہ دہشت اور بے امنی پیدا کر کے حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے چنانچہ برصغیر کی سیاست میں انتہا پسندی کے رجحانات نے جنم لیا۔
  • تقسیم بنگال کے خلاف اس سودیشی تحریک کا ہندو مسلم تعلقات پر گہرا اثر پڑا اور مسلمانوں پر ہندوؤں کی دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔

تحریک کے مسلمانوں پر اثرات[ترمیم]

سودیشی تحریک ابتداً انگریزوں کے خلاف شروع کی گئی تھی لیکن بتدریج مسلمانوں کو اس کی لپیٹ میں لیا جانے لگا۔ چنانچہ مسلمان تاجروں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ وہ انگریزی مال کی خرید و فروخت سے باز رہیں۔

ہندوؤں کی دہشت گردی کے سبب مسلمان انڈین نیشنل کانگریس سے متنفر ہونے لگے کیونکہ انھیں احساس ہونے لگا کہ انڈین نیشنل کانگریس ایک ہندو سیاسی جماعت ہے اور اسے محض اپنے مفادات عزیز ہیں۔

تحریک سے ہندو تاجروں کا فائدہ[ترمیم]

سودیشی تحریک کی تائید میں انڈین نیشنل کانگریس نے کھدر کے کپڑے کا استعمال حب الوطنی کی علامت قرار دیا جس کے نتیجے میں ہندو تاجروں نے خوب نفع کمایا۔

تحریک سے انگریز تاجروں کا نقصان[ترمیم]

برطانوی تجارت پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوئے اور انگریز تاجروں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔

بے امنی و دہشت گردی[ترمیم]

1908ء میں سودیشی تحریک نے باقاعدہ دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی جس کے نتیجے میں ہر طرف بے امنی، لا قانونیت اور قتل و غارت گری میں اضافہ ہو گیا۔

  • گورنر کی گاڑی کو کئی دفعہ پٹڑی سے اتارنے اور تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
  • وائسرائے ہند لارڈ منٹو پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
  • بنگال میں ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر بم پھینکا گیا جس دو انگریز عورتیں ہلاک ہو گئیں۔
  • بم پھینک کر اور پستول سے قتل کے متعدد واقعات رونما ہونے لگے۔
  • پلوں کو اڑانے، سرکاری املاک کو تباہ کرنے اور بے امنی پھیلانے کی خفیہ تربیت گاہیں قائم ہونے لگیں۔

اگر کوئی دہشت گرد پکڑا جاتا تو بڑے بڑے ہندو وکلا اس کا کیس لڑتے اور اسے قانونی گرفت سے بچانے کے لیے فوراً تیار ہو جاتے۔ اگر وہ بری ہو جاتا تو اسے قومی ہیرو قرار دیتے اور اگر اسے پھانسی ہو جاتی تو اس کا کریا کرم بڑی دھوم دھام سے کرتے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ پاکستان، محمد عبد اللہ ملک