سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی
معلومات شخصیت
پیدائش 16 مارچ 1909ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خیرپور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 20 مارچ 1943ء (34 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پھانسی  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ خادم دین  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید صبغت اللہ شاہ دوم ، پیر صاحب پگاڑا ششم کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی سورھیہ بادشاہ اور پیر صاحب شہید بھی پہچان ہے۔

نسب[ترمیم]

پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی بن پیر سید شاہ مردان شاہ اول بن، پیر سید حزب اللہ شاہ بن پیر سید علی گوہر شاہ اصغر بن پیر سید صبغت اللہ شاہ اول بن امام العافین آفتاب ولایت پیر سید محمد راشد شاہ المعروف پیر سائیں روضے دھنی۔

پیدائش[ترمیم]

سید صبغت اللہ شاہ دوم 23 صفر 1327ھبمطابق 1909ء کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ ( پیر جو گوٹھ، ضلع خیر پور میرس، سندھ ) میں پیدا ہوئے۔ شمس العلماء و العرفاءسید شاہ مردان شاہ راشدیالمعروف پیر صاحب پگارہ پنجم کی حویلی میں پیداہوئے۔ آپ کا لقب ’’ پگ دھنی‘‘(یعنی پگڑی والا) ہے۔

مسند نشینی[ترمیم]

اپنے والدپیر صاحب پگارہ پنجم کے وصال ( 7 ربیع الاول 1339ھ؍9 نومبر 1921ء ) کے بعد سید صبغت اللہ فقط بارہ سال کی عمر میں مسند نشین ہو کر پیر صاحب پگارہ ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

خانقاہ شریف میں اپنے والد ماجد و پیر و مرشد کی تربیت میں پروان چڑھے۔ بعد مسند نشینی کے بھی تعلیم و مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ حافظ خدا بخش سومرو اور مولانا امام بخش مہیسر اساتذہ میں سے تھے۔

القاب[ترمیم]

پیر صاحب پگارہ ششم، صاحب دستار ( پگ دھنی )، امام انقلاب، سورھیہ بادشاہ شہید بادشاہ، بطل حریت، مجاہد اعظم ۔[1]

ماہر فنون[ترمیم]

آپ شریعت مطہرہ کی پابندی، حقوق العباد کی پاسداری، جذبہ خدمت خلق، ذکر و فکر، شجاعت ( دلیری، بہادری ) ہمت مرداں، عسکری فکر سے سرشار ی، آداب جہاد سے بیداری، ذہانت کی بلندی، دور اندیشی، بردباری، تکنیکی دماغ، نظم و ضبط تنظیم سازی، توکل علی اللہ، جہد مسلسل اور فہم و فراست ایمانی وغیرہ سے سرشار تھے۔ اس دور میں بھی آپ کے پاس جدید ہتھیار، اسلحہ اور موٹر گاڑیاں وغیرہ سبھی کچھ تھا اور اس کی مشینری کی خرابی کے لیے آپ کو کسی میکینک کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لیے کہ یہ سارا کام آپ خود کرتے تھے، جدید مشینوں کی رپیرنگ پر آپ پوری دسترس رکھتے تھے اور مجاہدین کو بھی سکھاتے تھے، اس طرح آپ ماہر فنون تھے۔

سنت کی پیروی[ترمیم]

اس جماعت کے لیے صوم و صلوۃ کی پابندی لازمی ہے۔ اسے چنگ ورباب ( موسیقی ) کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اس کے افراد رنگین کپڑا ( زنانہ شعار ) نہیں پہن سکتے۔ ان کے لیے ننگے سر چلنا ممنوع ہے۔ انھیں سنت رسول ﷺ کی پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہمیشہ پاکیزگی اور طہارت کے ساتھ رہنے کا حکم ہے اور جھوٹ نہ بولنے، منشیات سے پرہیز کرنے، شرافت، بردباری، حق گوئی، نیک نیتی اور اس قسم کی تمام اسلامی اقدار کو اپنا نے کی تلقین کی گئی ہے ‘‘۔[2]

حر[ترمیم]

پیرپگاڑانے سندھ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرفروشوں کی ایک جماعت تیار کی اور انھیںحر کا نام دیا۔ اس وقت سے پیران پگارا کے مرید حر کہلاتے ہیں۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اورسندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ ’’انگریز نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سید صبغت اللہ شاہ اور ان کی جماعت ( حروں ) کے ہزاروں بے گناہوں کے خون نا حق سے ہاتھ رنگے تھے۔ لیکن قدرت نے سید صبغت اللہ شاہ کے بعد اس کو پانچ برس کی بھی مہلت نہیں دی اور جس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس کے عروج کا سورج چار سال چار مہینے میں غروب ہو گیا۔ نہ صرف اس برصغیر میں بلکہ اس کے تمام مالک محروسہ میں اور ایسا غروب ہوا کہ مستقل میں پہلے کی سی آب و تاب کے ساتھ اس کے دوبارہ چمکنے کا امکان ہی نہیں رہا اور وہ سلطنت جو کبھی کرہٗ ارض پر درجہٗ اول کی سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی اب ایک زوال پزیر سلطنت ہے اور تیسرے درجہ کی سلطنتوں میں شمار ہونے لگی ہے‘‘۔[3]

انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد[ترمیم]

سید صبغۃ اللہ شہید کی تحریک کا نام ’’حر تحریک ‘‘ ہے اور ان کا ولولہ انگیز پر جوش نعرہ تھا ’’بھیج پاگارہ ‘‘۔ اس تحریک کے دو مراکز تھے۔ 1۔ خانقاہ راشدیہ پیران پاگارہ پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس ۔

2۔ گڑنگ کا بنگلہ عرف پیر صاحب کا بنگلہ سانگھڑ سندھ ۔ مقدمہ کے دوران میں انگریزی حکومت نے اپنے کئی ایجنٹوں کو پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ حکومت سے معافی مانگ لیں تو انھیں معاف کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ بھانسی سے بچ سکتے ہیں لیکن حضرت پیر صاحب نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا اور بلاشبہ آزادی کا پر ستار اور سادات کا سپوت ایسے ہی جواب دے سکتا ہے۔

آپ نے فرمایا:

’’شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم تو صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ‘‘۔

ملٹری کورٹ میں جب آپ پر مقدمہ چلایا گیا تو آپ نے ا س سے بیزاری اور بے رخی کا اس انداز سے اظہار کیا جو حریت پسندوں اور مجاہدوں کی شایان شان ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنا پسند کر لیا لیکن کافر کی غلامی اور جابر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوارانہ کیا۔

وفات[ترمیم]

بغاوت کے الزام میں مسٹر جارج ششم کے نمائندوں نے جان کی سزا مقرر کی اور بالآخر 20 مارچ1943ء ؍ 14 ربیع الاول 1362ھ کو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدرآباد میں فقط 35سال کی عمر میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح آپ 23 سال مسند نشین رہے۔[4][5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ پیران پاگارہ از تبسم چوہدری
  2. روحانی ڈائجسٹ لاہور
  3. تذکرہ مقدمہ صفحہ 35
  4. تذکرہ پیران پاگارہ ،از تبسم چوہدری،صفحہ 188
  5. ( مردان حر، سید ارشاد احمد عارف، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور فروری 1980ء)