سید محمد راشد شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امام الاحرارسید محمد راشد شاہ راشدی خاندان پیر جو گوٹھ کے جدِّ اعلیٰ ہیں۔

پس منظر[ترمیم]

قطب الاقطاب فیض مآب سید محمد راشد روزہ دھنی(صاحب الصوم) خواجہ پیرسیدمحمد بقا شہید کے سب سے چھوٹے فرزندِ ارجمند ہیں۔

پیدائش[ترمیم]

آپ یکم رمضان 1170ھ بمطابق 19 مئی 1757ء میں گوٹھ رحیم ڈنو کلہوڑا ضلع خیرپور میں پیدا ہوئے۔۔ان کے والد سید محمد بقا شاہ اپنے آبائی گاؤں رسول پور ( چھوٹی سائیڈ ی) سے ہجرت کر کے رحیم ڈنوکلہوڑا میں آباد ہوئے تھے

نسب[ترمیم]

آپ حسینی سید تھے اور آپ کا نسب سیدنا حسین ابن علی ابن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔ یہ ایسا سلسلۃ الذہب ہے جس کے تمام افراد مسند تدریس پر مدرس اور سجادہ طریقت پر شیخ شب بیدار، محراب و منبر پر مفتی و مصلح اور میدان جہاد میں غازی و شہید ہیں۔

حالاتِ زندگی[ترمیم]

آپ سب بھائیوں میں سے چھوٹے مگر سب سے بلند اقبال، ارجمند مقتدائے جہاں، عالی الشان، جان جہاں اور سلسلہ راشدیہ طیبہ کے صاحب بنے۔ آپ کی ولادت رحیم ڈنو کلہوڑو میں ہوئی۔ آپ کے پوتے محبوب السالکین یعسوب العارفین پیرسیدعلی گوہر شاہ عرف بنگلہ دھنی تخلص اصغرکی سجادگی کے دوران میں 1250ھ میں دریا کی باڑ کا خطرہ ہوا تو آپ نے تمام مزارات منتقل کرواکر نئی درگاہ (موجودہ) میں رکھوائیں اور نیا گوٹھ آباد کیا۔ جس کو اب پیر جو گوٹھ یا نئی درگاہ کہاجاتا ہے۔ چونکہ اولاد میں سے کچھ لوگ وہیں پر رہ رہے تھے اس لیے اسے پرانی درگاہ کہاجاتا ہے۔ منقول ہے کہ جب پیرسید محمد بقا شاہ شہید کے ہاں چاروں فرزند تولد ہوئے تو ایک بار حضرت مقتدائے اہل تفضیل، مقبول بارگاہ رب جلیل مخدوم محمد اسماعیل (جو نقشبندی مشرب میں آپ کے پیرطریقت تھے)کو اپنے گاؤں لے آئے اور تینوں فرزندوں کو دعا طلبی کے لیے پیش خدمت کیا، مخدوم صاحب ایک ایک کا نام پوچھتے دعا فرماتے گئے کہ "اچھا ہوگا" پھرجب سید روزہ دھنی (جو ابھی بندھنوں میں تھے)کو لے آئے تب مخدوم صاحب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انھیں اٹھا کر فرمایا "یہ وہ دوست ہے جس سے دنیا کا اچھا خاصہ حصہ فیضیاب ہوگا"

تعلیم و تربیت[ترمیم]

پیرسائیں قبلہ عالمیاں قدوۂ عارفاں کا بچپن نہایت ہی پاکیزہ گذرا، بچپن کی بے فائدہ لہو و لعب سے آپ کی طبعیت مقدس بالکل بیزار و متنفر رہتی تھی۔ کبھی بھی دیگر بچوں کی طرح کھیلنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔ جب تعلیم لینے کی عمر کو پہنچے تو والد کے امر کے مطابق نہایت ہی خوشی اور کشادہ ذہنی سے علم کے حصول میں لگ گئے۔ ملفوظات شریف میں ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ بچپن میں ہمارے دل میں خیال وارد ہوتا تھا کہ کاش ہم عارف کامل مکمل صاحب ارشاد و تلقین بن جائیں کہ ہماری توجہ سے لوگ دنیا و مافیہا کو بھول کر مجذوب بن جائیں اور وجد میں اپنے حال سے بے خود ہوجائیں۔ در حقیقت آپ کا یہ خیال الہام الہی تھاجس کا عکس آپ کے قلب مبارک والے آئینۂ مصفیٰ پر پڑتا تھا جو آگے چل کر بعینہ ظہور پزیر اور نروار ہوا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میاں محمد اکرم گھمرو اور حافظ زین الدین مہیسر سے حاصل کی جو آپ کے والد حضرت میاں صاحب کے کامل مریدین میں سے تھا۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے سفر اختیار فرمایا والدمحترم نے آپ کو پہلے مخدوم طیب بقاپور والے کے پاس اور بعد میں قدوۃ العرفاء الحاج میاں فقیراللہ علوی نقشبندی (متوفی 1195ھ) کے ہاں بٹھایا لیکن میاں صاحب شہید دوسری مرتبہ آئے اور بیٹے کے لیے تعظیم و تکریم کے ساتھ پر تکلف کھانا دیکھا تو فرمایا بابا! جس مدرسے میں عمدہ کھانا ہو وہاں علم حاصل کرنا محال ہے۔ پھر وہاں سے شہر کوٹڑی کبیر میاں یارمحمد کے ہاں لے آئے جو ایک اہلِ دل فاضل اور کامل عالم تھے۔ وہاں آپ کی طبع مقدس مختلف مدارس کی طرف سفر کرنے سے مشقت اور گرانی کی وجہ سے پریشان ہوئی تو ایک رات ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر 5 ہزار مرتبہ درود شریف پڑھ کر حضور سید دو عالم ﷺ سے استمداد و استغاثہ کیا۔ جس سے آپ کے قلب کو ایسی صفائی اور آسانی حاصل ہوئی کہ ان پڑھے علوم بھی پڑھے ہوئے ہو گئے اور علم الانسان مالم یعلم کی مصداق بن گئے۔ آخر میں آپ نے حضرت مولانا مخدوم محمد آریجوی کے ہاں علوم کی تکمیل کی۔ اس مدرسے میں حضرت سید عاقل شاہ بھی آپ کے ہمدرس تھے۔ مگر حضرت روزہ دھنی علم کے نصاب کی تکمیل کے بعد فیض اور فضیلت کی دستار حاصل کرکے پہلے فارغ ہوئے اور جناب شاہ صاحب ایک سال بعد فارغ ہوئے۔

سلسلہ طریقت[ترمیم]

سید محمد راشد فرماتے ہیں

’’جب میں اور برادرم میاں مرتضیٰ علی شاہ کوٹڑی کبیر میں مخدوم میاں یارمحمد کے ہاں ظاہری علوم کے درس و تدریس میں مشغول تھے تب ایک دن والد بزرگوار وہاں تشریف فرما ہوئے۔ ہم قدم بوسی سے مشرف ہوکر خدمت میں بیٹھے تو آپ نے فرمایا اے برخورداران! آپ کو معلوم ہے کہ آج ہمارے یہاں آنے کا کیا سبب ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں معلوم۔ آپ نے فرمایا کہ میں مخدوم عبد الرحمٰن سے ملاقات کرنے گیا تھا جو مخدوم محمد اسماعیل کے خاص مریدین میں سے ہیں۔ تو دورانِ گفتگو مخدوم صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ کو طریقۂ مبارکہ کی تلقین کرنے اور ہدایت کرنے کی اجازت ہے؟ میں نے کہا ہاں تو اس نے مجھ سے اپنے اہل کو مرید کرنے کی اجازت لی اور پوچھا کہ آپ نے اپنے صاحبزادوں کو طریقۂ مبارکہ میں داخل فرمایا ہے کہ نہیں؟ میں نے کہا انھیں اب ایسا خیال نہیں آیا۔ کہا خیال نہ آیا ہو تو بھی انھیں طریقۂ مبارکہ میں داخل فرمادیں آج اس مشورے کے باعث ہمارا آنا ہوا ہے۔ پس آپ نے اولا ہم دونوں بھائیوں کو طریقۂ نقشبندیہ میں داخل فرمایا ہم سے وعدہ فرماکر کسی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم تعلیم و تدریس کے ساتھ ذکر کرکے شغل میں بھی مشغول رہتے تھے۔ برادرم میاں علی مرتضی شاہ پر طریقۂ نقشبندیہ کی مشغولی نے اچھا اثر کیا لیکن مجھے کوئی کیفیت محسوس نہ ہوئی پھر دوسری مرتبہ والد مربی تشریف لے آئے اور مجھ سے شغل کی کیفیت معلوم کی تو میں نے عرض کیا حضور مجھے کوئی خبر یا کیفیت معلوم نہیں ہوئی تو آپ نے مجھے طریقۂ عالیہ قادریہ میں داخل فرماکر ذکرِ جہر سے مشغول فرمایا۔ بلند آواز سے ذکر نے سارے وجود کو ایسا لیا کہ سرسے لے کر پاؤں تک پورے جسم سے ذکر جاری ہو گیا‘‘
  • یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب میاں صاحب شہید جناب قدس خطاب سید عبد القادر شاہ چناہ شریف والوں کی خدمت میں فیض حاصل کر رہے تھے تب پیرصاحب چناہ والوں نے ایک دن خاص مہربانی اور شفقت فرماتے ہوئے کہا بابا ہمارے جد امجد غوث الثقلین محبوب سبحانی سیدنا عبد القادر جیلانی کے مبارک قول "قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ" کے مطابق ہمارے خاندان کی یہ روایت رہتی ہے جس خاص منظور نظر مرید پر مخصوص توجہ اور شفقت فرماتے ہیں تو جدی سنت کے مطابق اس کی گردن پر اپنا قدم رکھتے ہیں۔ وہ قدم مبارک پشت بہ پشت ہماری گردن پر بھی ہے۔ ہم نے یہ سنت اور متابعت آج تک کسی مرید پر قدم رکھ کر ادا نہیں کی۔ آج دل چاہتا ہے کہ آپ کی گردن پر قدم رکھ کر وہ عمل ادا کر دیں۔ پھر میاں صاحب نے گردن خم کی تو آپ نے قدم مبارک رکھ کر اپنی خاندانی سنت سے سرفراز و مشرف فرمایا۔ پھر جب کوٹڑی کبیر میں دونوں بیٹے علم کی طلب میں مشغول تھے اور انھیں طریقۂ عالیہ میں داخل کیا گیا تو ایک دن حضرت میاں صاحب نے بیٹے حضرت روزہ دھنی کو خلوت میں بٹھاکر اس حقیقت سے آشنا کیا اور فرمایا کہ بابا تمام صاحبزادوں میں سے ہمارے دل کا میلان آپ کی طرف زیادہ ہے۔ لہٰذا میں اپنے مرشد کی سنت کی متابعت کے مطابق آپ کی گردن پر قدم مبارک رکھ رہا ہوں۔ آپ کے ہمدرس مولانا سید محمد عاقل سے منقول ہے کہ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا صحبت کے دوران میں دیکھا کہ ذکر اسم ذات کی مشغولی نے قلب میں وہ حرارت پیدا کی تھی جو قریب بیٹھنے سے آپ کے وجود مبارک کی حرارت سے مجھے گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ ملفوظات شریف میں آپ سے منقول ہے کہ لکیاری سادات میں سے ایک مجذوب ابتدائی زمانہ میں ہمارے ہاں قیام کرتا تھا اور میں دل و جان سے اس کی خدمت کرتا تھا ایک مرتبہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت ذوق اور شوق اور طلب کے جذبہ میں رو رہا تھا تب اس مجذوب کو میرے حال پر بہت رحم آیا اور شفقت سے فرماتے ہوئے کہا "پی پی کر دریا بن جا" تب بھی میں رونے سے نہیں رکا۔ تو کمال شفقت اور رحم کے جذبے سے کہا
پی پی کر سمندرہوجا اور ہرپیاسے کو پلا

دنیا نے دیکھا کہ اس مجذوب کا فرمودہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا اور فیض کا ایسا سمندر جاری ہوا کہ لاکھوں لوگوں کی تشنگی مٹاکر انھیں سیراب کیا کہ وہاں چشمے پھوٹ پڑے درباریں بنیں پھر درباروں سے اور خانقاہیں آباد ہوئیں کہ اس فیض رسانی کی حد کو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

تعلیم[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدماجدپیرسید محمد بقا شاہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد فقیراللہ علوی شکارپوری ( المتوفی 1195ھ) سے حاصل کی۔ آخر میں علوم دینیہ کی تکمیل لاڑکانہ سندھ کے گوٹھ آریجا کے ایک عالم مخدوم محمد سے حاصل کی۔[1]

چشمہ فیض[ترمیم]

کنگری ہاؤس (سید محمد راشد سے منسوب گھر )کا فیض پورے سندھ پر آج بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے جس کے آثار سوئی شریف، بھرچونڈی شریف، امروٹ شریف اور دین پور میں نظر آتے ہیں۔[2]

اولاد[ترمیم]

پیرسید محمد راشد شاہ کے 18 بیٹے تھے۔ ان میں سے پیرصبغت اللہ شاہ راشدی (اول)اورپیرسید محمد یاسین شاہ راشدی نے بہت شہرت پائی۔

راشدی خاندان کی تقسیم[ترمیم]

سید محمد راشد شاہ کی وفات کے وقت ان کے دو بڑے بیٹے تھے۔ سیدصبغت اللہ شاہ راشدی اور سید محمد یاسین شاہ راشدی۔ آپ کی دو نشانیاں تھیں ایک پگڑی اور دوسرا جھنڈا۔ یہ دونوں چیزیں افغانستان کے بادشاہ تیمورشاہ کے بیٹے زمان شاہ نے آپ کی خدمت میں بھیجی تھیں۔ شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے پگڑی سیدصبغت اللہ شاہ راشدی کے سراور جھنڈہ پیرسید محمد یاسین شاہ راشدی کودینے کافیصلہ کیا۔ اس طرح راشدی خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک کو اور دوسرے کو کہاجانے لگا۔[3]

وفات[ترمیم]

آپ 63 سال کی عمر میں یکم شعبان 1233ھ بمطابق 5 جون 1818ء کو فوت ہوئے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سندھ کی اسلامی درسگاہیں۔ ڈاکٹر محمد جمن ٹالپر ص : 336
  2. تاریخ سکھر صفحہ 345
  3. مقدمہ بدیع التفاسیر پیش لفظ از پروفیسر محمد جمن کبھر، صفحہ : 11
  4. مختصرسوانح حضرت پیر سید محمد راشد شاہ علیہ الرحمۃ - الراشد | سڪندريہ پبليڪيشنز پيرڳوٺ
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔