محمد ابراہیم جویو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد ابراہیم جویو
معلومات شخصیت
پیدائش 13 اگست 1915ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع دادو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 نومبر 2017ء (102 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جامعہ سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی ممبئی یونیورسٹی
جامعہ سندھ مدرسۃ الاسلام   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  مصنف ،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی ،  اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

محمد ابراہیم جویو ، (پیدائش: 13 اگست 1915ء — وفات: 9 نومبر 2017ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلم اور دانشور تھے جن کے فکر و فلسفہ سے سندھ کے سیاست دانوں، دانشوروں اور ادیبوں سمیت عوام کی بڑی تعداد متاثر ہوئی۔

حالات زندگی[ترمیم]

محمد ابراہیم جویو 13 اگست، 1915ء کو گوٹھ آباد، ضلع دادو، سندھ، برطانوی ہندوستان (موجودہ ضلع جامشورو، پاکستان) میں میاں محمد ابراہیم خان جویو کے نام سے پیدا ہوئے تھے۔[1][2][3]۔ سندھ مدرسۃ الاسلام، ڈی جے کالج اور بمبئی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 1941ء میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے بطور استاد وابستہ ہوئے۔ اسی زمانے میں ایک کتاب Save Sindh Save Continent لکھنے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردیے گئے۔ تقسیم ہند کے بعد 1951ء میں سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد کے سکریٹری بنے اور ایک طویل عرصے تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔[2]

فکر و فن[ترمیم]

محمد ابراہیم جویو ایک صاحب ِ اسلوب نثرنگار اور مترجم بھی ہیں، ان کے سرمایۂ نقدونظر میں منطق، فلسفہ، تاریخ، شاعری اور انقلابی ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے سندھی ادب کو جدید فکرو نظر سے مالامال کیا ہے ان کے موضوعات کے تنوع اور فکری جہد کا اندازہ ان عنوانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی، غریبوں کا نجات دہندہ، بھٹو کی زندگی اور عہد اور پاکستان: خواب اور حقیقت۔ منظومات میں عنوانات کا پھیلائو دیکھیے، اُو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے جی ایم سید، عبد ﷲ دائودپوتہ، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر اہم علمی و ادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے ہیں۔[3]

محمد ابراہیم جویو بحیثیت نقاد اپنے مہاگوں یعنی پیش لفظ اور مقدمہ نگاری میں اُبھر کر سامنے آتے ہیں، جن میں مصنف کی حوصلہ افزائی، فنی مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ غیر جانبدارانہ اصلاحی اظہاریہ ہوتا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے پیش لفظوں میں بین السطور ان کا نظریاتی پرچار واضح طور پر جھلکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خیال ولفظ کا رشتہ ان کے قلم سے قرطاس پر منتقل ہوکر نظریاتی ادب کا لطیف حصہ بنتے ہیں۔[3]

انھوں نے بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں کو جس چابک دستی اور زبان وبیان کی لطافت کے ساتھ سندھی ادب کا حصہ بنایا ہے، اس سے اذہان سازی میں جو انقلاب پیدا ہوا وہ ترقی پسند تحریک، روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایسی راہوں کی کشادگی کا سبب ہوا جس پر آج سندھ ہر باشندہ محمد ابراہیم جویو کا احسان مند ہے۔[3]

تصانیف[ترمیم]

  • Save Sindh Save Continent
  • بارن جو مسیح (ترجمہ)
  • شاہ سچل ائیں سامی
  • ماٹھوء جو بھاگ (کہانیاں)
  • مھکریء جا مضمون (سماجیات)
  • فکر جی آزادی (سیاسیات)
  • وحشی جیوت جا نشان (حیوانیات)
  • تاریخ پاکستان (تاریخ)

اعزازات[ترمیم]

حکومت پاکستان نے ان کے فن کے اعتراف میں 14 اگست، 2009ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور 2013ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام کمال فن ادب انعام برائے سال 2011ء عطا کیا گیا۔[2]

وفات[ترمیم]

محمد ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو 102 سال کی عمر میں حیدرآباد، پاکستان میں وفات پا گئے۔ انھیں سندھ یونیورسٹی جامشورو میں علامہ آئی آئی قاضی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "محمد ابراہیم جویو، ورلڈ پبلک لائبریری،ای بکس"۔ 21 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  2. ^ ا ب پ محمد ابراہیم جویو، تاریخ پاکستان ڈاٹ کام[مردہ ربط]
  3. ^ ا ب پ ت محمد ابراہیم جویو-ایک عہدسا ز شخصیت، پروفیسر فرزانہ خان، روزنامہ ایکسپریس کراچی،17 اگست 2014ء
  4. سندھی زبان کے معروف دانشور محمد ابراہیم جویو انتقال کر گئے، صفحہ آخر، روزنامہ ایکسپریس کراچی، 10 نومبر 2017ء