بھارت کی زبانیں
بھارت کی زبانیں | |
---|---|
دفتری زبانیں | |
اشاراتی زبانیں | ہندوستانی و پاکستانی اشاراتی زبان علی پوری اشاراتی زبان ناگا اشاراتی زبان (معدوم) |
بھارت ایسا ملک ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہے۔ بھارت میں 75 فیصد ہند-آریائی زبانیں بولی جاتے ہیں، باقی 20 فیصد دراوڑی زبانیں بولی جاتی ہیں اور 5 فیصد کچھ اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔[1][2]
اردو سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کے لیے یہ خبر تشویش کا باعث ہوگی کہ پہلی مرتبہ ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔جہاں ملک کی آبادی لگاتار بڑھ رہی ہے اور تمام بڑی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو اہے،اردو کے اعداد و شمار ایک الگ ہی داستان بیان کر رہے ہیں۔پہلی بات یہ کہ نہ صرف اردو کو اپنی مادری زبان درج کرانے والوں کے فیصد میں کمی آئی ہے، بلکہ تعدادمیں بھی قابل لحاظ کمی ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد ہر دہائی میں اردو بولنے والوں کی تعداد بدتریج بڑھتی رہی ہے۔
1971 کی مردم شماری رپورٹ میں یہ تعداد2 کروڑ 86 لاکھ تھی، جو دس سال بعد 1981 میں ساڑھے 3 کروڑ ہو گئی تھی۔ اس کے بعد1991 میں یہ 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس صدی کی پہلی مردم شماری یعنی 2001 میں یہ 5 کروڑ 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔مگر2011 کی مردم شماری، جس کی رپورٹس کافی بعد میں آیئں اور جس میں زبانوں کے اعداد و شمار کے تجزیہ کی رپورٹ اب جاری کی گئی ہے، یہ تعداد بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے۔ یعنی اب اردو ہندوستان میں سرکاری اعداد و شمار کی حیثیت سے ساڑھے چار فیصد سے بھی کم لوگوں کی زبان ہے۔
آپ لاکھ کہیں کہ اردو بولنے والوں کی تعداد اس سے گئی گنا زیادہ ہے مگر اعداد و شمار کے حساب سے اردو کا کمزور ہونا، زبان کے لیے نیک فال نہیں ہے۔کچھ لوگوں کورپورٹس پر شک ہونے لگتا ہے ااور اس کمی کے پیچھے بھی سازش نظر آتی ہے مگر حقیقت تلخ ہے۔یہ سچ ہے کہ زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہندوستان میں عام طور پرمسلمان ہی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرواتا ہے۔اور گذشتہ کچھ دہائیوں کی مردم شماری سے ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات بگڑنا شروع ہو گئے ہیں۔
اترپردیش کو اردو کا ہوم لینڈ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً پونے 4 کروڑ مسلمان رہتے ہیں مگر بمشکل 1 کروڑ 8 لاکھ نے اردو کو مادری زبان درج کروایا۔یہ ٹرینڈ آج سے بیس پچیس سال پہلے شروع ہو گیا تھا، تب مسلمانوں کی آبادی اور اردو آبادی کا تناسب50فیصدی تھا، جو بگڑتے بگڑتے28 فیصد ی پر آ گیا ہے۔ یعنی یہاں 100 میں سے صرف 28 مسلمان اردو کو مادری زبان درج کروا رہے ہیں۔ظاہر ہے، وہ نسلیں جن کو اردو سے جذباتی لگاؤ تھا، ختم ہو رہی ہیں۔ یہی حال راجستھان، مدھیہ پردیش اورشمال کے دوسرے صوبوں کا ہے۔یہ وہ صوبے ہیں جہاں مسلمان عام طور پر اردو کو اپنی زبان سمجھتا تھا –بہار کی صورت حال اترپردیش سے بہتر ہے مگر وہاں بھی حالات تسلی بخش نہیں ہے-وہاں مسلم آبادی پونے 2 کروڑ ہے اور اردو گو آبادی ساڑھے 87 لاکھ۔
جنوبی ہنداورمہاراشٹر کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں مسلم آبادی اور اردو گو آبادی میں بہت کم فرق ہے۔ تلنگانہ-آندھرا پردیش میں 81 لاکھ مسلمان ہیں اور اردو بولنے والے 75لاکھ—یعنی 90 فیصد مسلمان اردو کواپنی مادری زبان لکھوا رہے ہیں، جبکہ شمال کے صوبوں میں یہ تعدادتیس اور بیس فیصد سے بھی کم ہے۔کرناٹک بھی ایسا ہی صوبہ ہے جہاں اردو بے حد مضبوط نظر آتی ہے۔حد تویہ ہے کہ تمل ناڈو میں بھی اردو بولنے والوں کی تعدادراجستھان اور مدھیہ پردیش کے مقابلہ زیادہ ہے۔گجرات، آسام اور بنگال میں مسلمان کی زبان عام طور پر گجراتی، بنگلہ اور آسامی رہی ہے مگر شمال کی ان ریاستوں میں تو مسلم معاشرہ میں اردو کا ہی رواج تھا۔
ہم د ل بہلانے کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو جاننا اور اردو کو اپنی زبان لکھوانے میں فرق ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ شمال میں ایک بڑی اردو گو آبادی ایسی ہے جو اردو اور ہندی میں کوئی خاص فرق نہیں سمجھتی اور یہ اعداد و شمار اسی رجحان کا مظہر ہیں۔ہندی ملک کی سب سے بڑی اور سرکاری زبان ہے۔ ہندی اور اردو دونوں کی بقا ضروری ہے۔ہندی بولنے والوں کے تعداد میں دس سال میں 10کروڑ کا حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ 42 کروڑ سے بڑھ کر یہ تعداد اب 52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔آٹھویں شیڈیول میں شامل 22 زبانوں میں صرف اردو اور کونکنی کے بولنے والے کم ہوئے ہیں۔
رپورٹس میں صاف نظر آتا ہے کہ شمالی ہندوستان میں اردو سے جذباتی وابستگی کم ہوتی جا رہی ہے اورمردم شماری کے وقت لوگ اس بات پر غالباً ر توجہ نہیں دیتے کہ مادری زبان کے خانے میں اردو ہی لکھوانا ہے۔شمال کے کچھ صوبوں اور اضلاع میں تو یہ حال ہے کہ اگر لوگ ابھی نہ جاگے توان ٹرینڈس کے حساب سے آگے چل کر اتنے کم بولنے والے رہ جائیں گے کہ وہاں اردو کی حیثیت ایک بولی جیسی ہو جائے گی۔ اردو اب ساتویں نمبر پر کھسک گئی ہے اور گجراتی بولنے والوں کی تعداد بھی اس سے زیادہ ہو گئی ہے۔
پھر بھی اگر 5 کروڑ سے کچھ زیادہ لوگ اردو کو اپنی زبان لکھواتے ہیں تو اس کے لیے جنوبی ہندوستان کے اردو معاشرے کا سب سے اہم کردار ہے۔ جن صوبوں میں ہندی ریاستی زبان نہیں ہے، وہاں اردو اب بھی مسلم شناخت سے جڑی ہوئی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پھر سے زبان کامرثیہ لکھنا شروع کر دیں اور ‘اردو مر رہی ہے’، جیسے جملوں کی گردان شروع کر دیں۔بہر حال مہاراشٹر، دکن اور جنوبی ہندوستان کے اردو بولنے والے اس بات پر بجا فخر کر سکتے ہیں کہ انھوں نے ہی اس زبان سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔ بے شک اورنگ آباد سے گلبرگہ اور حیدرآباد سے ویلور تک کا علاقہ اردو کا مستقر بن گیا ہے۔جنوب کے اردو والے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اردو کے تیئں محبت کے ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ اس کا عملی ثبوت پیش کر چکے ہیں۔
صدیوں سے یہ اردو کا علاقہ رہا ہے اور آج بھی یہ اردو کا مضبوط قلعہ ہے۔ شمال، خصوصاً یوپی، جو آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا اور اردو بولنے والوں کا بھی سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں اردو داں طبقہ کو اس سے سیکھ لینے کی ضرورت ہے۔
تاریخ
[ترمیم]کلہیا
فہرست دفتری زبانیں
[ترمیم]اردو پنجابی ہندی کشمیری سندھی گجراتی تامل
آئین کی شقیں
[ترمیم]آئین کے آرٹیکل 343 کی شق نمبر 1 کے تحت: بھارتی یونین کی سرکاری زبان دیوناگری رسم الخط میں ہندی ہوگی۔ اعداد کی بین الاقوامی صورت استعمال کی جائے گی ۔ شق نمبر 2 کے تحت اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آئین کے نفاذ کے پندرہ برس تک انگریزی بطور دفتری زبان رائج رکھی جائے گی جس کے بعد صدارتی حکم کے ذریعے دیوناگری رسم الخط میں ہندی رائج کر دی جائے گی۔ شق نمبر 3 یہ کہتی ہے کہ اس عرصے کے بعد پارلمنٹ قانون سازی کے ذریعے انگریزی جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 344 کہتا ہے کہ ایک کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جو ہندی کو ملک بھر رائج کرنے کے سفارشات مرتب کر کے صدر جمہوریہ کو پیش کرے گی۔ کمیشن کے ارکان بھارت کی ثقافتی، صنعتی اور سائنسی ترقی کے پیش نظر ہندی نہ بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی آراء کا خیال بھی رکھیں گے۔ آرٹیکل 345 کے تحت ریاستوں کو اپنی مقامی اایک یا ایک زائد اور ہندی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 346 کے مطابق ریاستیں آپس میں اور وفاق سے رابطے کے لیے وقتی طور پر انگریزی اور بعد ازاں ہندی کا استعمال کریں گی یا اس زبان کا جس پر ریاستیں اور وفاق باہم متفق ہوں۔ آرٹیکل 347 کے تحت صدر جمہوریہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں (کثیر تعداد) کی خواہش پر کسی زبان کو شیڈولڈ زبانوں شامل کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 348 میں پارلیمانی کارروائی اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کی عدالتی کارروائی انگریزی میں رکھنے کی ہدایے جب تک کہ پارلیمنٹ اس کے مخالف قانون منظور نہ کر لے۔ آرٹیکل 349 میں آئین کے نفاذ کے پندرہ برس کے دوران زبان کے متعلق بنائے کمیشن کی قانونی کارروائی کی وضاحت ہے۔ آرٹیکل 350 کے تحت تنازعات کی صورت میں کوئی بھی شخص ریاستی یا وفاقی افسر یا ادارے کے خلاف شکایت وفاق یا ریاست کے زیر استعمال کسی زبان میں بھی دائر کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 351 زبان کے معاملے کو مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وفاقی حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ ہندی زبان کی ترویج، ترقی اور حفاظت کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ پورے بھارت میں یہ زبان رابطے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکے۔ اس آئین کے آرٹیکل 345 کے تحت بھارت میں 22 زبانیں شیڈولڈ لینگوایجز قرار دی گئی ہیں جو مختلف ریاستوں میں دفتری زبانوں کے طور بھی رائج ہیں۔
ہندی اور گاندھی
[ترمیم]پورے ہندوستان کی ایک بھاشا ہونی چاہیے ۔۔۔۔ اور وہ ہے ہندی : گجرات ایجوکیشن کانفرنس 1917، بھروچ میں گاندھی کا خطاب۔
جب تک ہم سب ہندی بھاشا کو نہیں اپنائیں گے، سوراج نہیں مل سکے گا: ہندی ساہتیہ سمیلن 1918، اندور میں گاندھی کا صدارتی حطبہ۔ یہ ہندی کو پورے برصغیر کی زبان بنانے کے متعلق گاندھی کی خواہش اور کوشش کا نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد 29 ستمبر 1919، 24 مارچ 1920، 5 اپریل 1921، 25 اکتوبر 1921 کو انہی خیالات کا اظہار کیا جو ان کی وفات تک قائم رہے۔ اس سلسلے میں کم از کم 28 حوالہ جات موجود ہیں ۔ گاندھی کی "ایک دیش، ایک بھاشا" مہم تا عمر یعنی قریباً 31 برس تک جاری رہی۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Indo-Aryan languages"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2014
- ↑ "Dravidian languages"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2014