تاریخ ہند

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تاریخ ہندوستان
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن
سانچی پہاڑی پر بابِ تورن

جدید علم جینیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سرزمین پر تہتر ہزار برس پہلے سے پچپن ہزار برس قبل کی درمیانی مدت میں انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے جو افریقا سے وارد ہوئے تھے، [1] لیکن اثریاتی نقطۂ نظر سے جنوبی ایشیا میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ مہر گڑھ کے مقام پر جو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔[2] پینتالیس سو ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی[2] اور بتدریج وادیٔ سندھ کی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار عہد قدیم کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 2500 ق م سے 1900 ق م تک برصغیر کے اُس خطہ میں پھلتی پھولتی رہی جو آج پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں واقع ہے۔ شہری منصوبہ بندی، پکی اینٹوں کے مکانات، نکاسیِ آب کا پختہ بندوبست اور آب رسانی کا عمدہ نظم اس تہذیب کی خصوصیات میں داخل ہیں۔[3]

قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے اوائل میں مسلسل قحط اور خشک سالی نے وادی سندھ کی آبادی کو منتشر ہونے پر مجبور کر دیا اور یہاں کے باشندے متفرق طور پر بڑے شہروں سے دیہی مقامات پر منتقل ہو گئے۔ عین اسی دور میں ہند۔آریائی قبائل وسط ایشیا سے نکل کر خطۂ پنجاب میں وارد ہوئے۔ یہاں سے ویدک دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عہد کا قابل ذکر انسانی کارنامہ ویدوں کی تدوین ہے جن میں ان قبیلوں کے دیوی دیوتاؤں کی حمدیہ نظمیں مرتب کی گئی ہیں۔ ان قبیلوں میں وَرَن کا نظام بھی رائج تھا جو آگے چل کر ذات پات کی شکل میں سامنے آیا۔ اس نظام کے تحت ہند۔آریائی قبیلوں نے ہندوستانی معاشرے کو پنڈتوں، جنگجوؤں (سرداروں) اور کسانوں (عوام) میں بانٹ دیا جس کے بعد مقامی آبادی کو ان کے پیشے کے ناموں سے بلایا اور حقیر سمجھا جانے لگا۔ یہ عقلمند بہادر طاقتور اور مہذب ہند آریائی قبائل پنجاب سے بڑھ کر دریائے گنگا کے میدانی علاقہ تک پھیل گئے اور کاشت کاری کی غرض سے اس خطہ کے جنگلوں کو مسطح میدانوں میں تبدیل کر دیا۔ ویدک متون کی تدوین تقریباً 600 ق م تک انجام کو پہنچی اور اسی کے ساتھ ایک نئی بین علاقائی ثقافت کا ظہور ہوا۔ چھوٹے چھوٹے سردار (یا جن پد) آپس میں مل کر بڑی ریاستوں (یا مہا جن پد) کی شکل اختیار کرنے لگے اور یوں وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد دوبارہ برصغیر میں شہری آبادکاری کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف اسی دور میں متعدد مذہبی تحریکیں برپا ہوئیں جن میں جین مت اور بدھ مت قابل ذکر ہیں۔ ان تحریکوں نے برہمنیت کے بڑھتے اثرات کی سخت مخالفت کی اور ان ویدک رسوم کی افضلیت پر سوال اٹھانے لگے جنھیں صرف برہمن پنڈت کے ہاتھوں انجام دیا جاتا تھا۔[4] برصغیر کے معاشرہ میں ان تحریکوں کے مخالفانہ افکار کا نفوذ بڑھا تو نئے مذہبی تصورات پروان چڑھنے لگے[5] اور ان کی کامیابی نے برہمنیت کو برصغیر میں پہلے سے موجود ثقافتوں اور تہذیبوں کو باہم ملا کر ایک نیا آمیزہ تیار کرنے پر مجبور کر دیا جو آگے چل کر ہندومت کہلایا۔

ہندوستان کے تمدنی اثرات (ہندوستانِ عظمیٰ)

چوتھی اور تیسری صدی ق م کے دوران میں برصغیر ہند کے بیشتر حصہ کو آریائی نسل موریا سلطنت نے فتح کر لیا۔ تیسری صدی ق م سے شمالی ہندوستان میں پراکرت اور پالی ادب کا اور جنوبی ہند میں تمل اور سنگم ادب کا ارتقا شروع ہوا[6][7] اور ان زبانوں کا ادب اپنے جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر ممالکِ غیر تک جا پہنچا۔[8][9][10] کلاسیکی عہد میں اگلے پندرہ سو برس تک ہندوستان کے مختلف خطوں پر متفرق بادشاہوں کا تسلط رہا جن میں گپتا سلطنت کا عہد گوناگوں وجوہ سے ممتاز ہے۔ اس عہد میں ہندو مت اور اس کے مفکرین از سر نو ابھر کر سامنے آئے، ان کی سرگرمیاں بڑھیں اور برہمنیت کو پھر سے فروغ نصیب ہوا۔ انھی وجوہ سے یہ دور "ہندوستان کا عہد زریں" کہلاتا ہے۔ اسی عہد میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور مذہب و تمدن کے مختلف پہلوؤں سے ایشیا کا بڑا خطہ متعارف ہوا، نیز جنوبی ہند کی مملکتوں نے بحری راستوں کے ذریعہ مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم سے اپنے تجارتی روابط قائم کیے۔ چنانچہ اب جنوب مشرقی ایشیا کا بڑا حصہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہونے لگا اور اسی صورت حال نے آگے چل کر جنوب مشرقی ایشا میں خالص ہندوستانی مملکتوں (ہندوستانِ عظمیٰ) کے قیام کی راہ ہموار کی۔[11][12]

ساتویں اور گیارھویں صدی عیسوی کے درمیان میں پیش آنے والے حوادث و واقعات میں سب سے اہم واقعہ سہ گانہ مقابلہ ہے جس کا مرکز قنوج تھا۔ یہ مقابلہ پال سلطنت، راشٹر کوٹ سلطنت اور گرجر پرتیہار سلطنت کے مابین دو صدیوں سے زائد عرصہ تک جاری رہا۔ پانچویں صدی عیسوی کے وسط سے جنوبی ہند مختلف شاہانہ رزم آرائیوں کا مرکز توجہ بن گیا جن میں بالخصوص چالوکیہ، چول، پَلّو، چیر، پانڈیہ اور مغربی چالوکیہ قابل ذکر ہیں۔ گیارھویں صدی عیسوی میں چول حکمران جنوبی ہند فتح کرنے کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے بعض حصوں سمیت سری لنکا، مالدیپ اور بنگال پر بھی حملہ آور ہوئے۔[13][14][15] قرون وسطیٰ کے اوائل میں ہندوستانی ریاضیات (ہندی -عربی نظام عدد) نے عرب دنیا میں جاری فلکیات اور ریاضیات کی ترقی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔[16]

آٹھویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں عربوں کی آمد ہوئی اور انھوں نے افغانستان اور سندھ میں اپنی حکومت قائم کر لی۔[17] پھر دسویں صدی کے اواخر اور گیارھویں صدی کے اوائل میں محمود غزنوی کا ورود ہوا۔[18] سنہ 1206ء میں وسط ایشیائی ترکوں نے سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی اور چودھویں صدی عیسوی کے اوائل تک شمالی ہند کے ایک بڑے حصہ پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا لیکن چودھویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے ان کا زوال شروع ہو گیا۔[19] سلطنت دہلی کے زوال سے دکن سلطنتیں ابھریں۔[20] سلطنت بنگالہ بھی ایک اہم قوت کے طور پر نمودار ہوئی اور تین صدیوں تک مسلسل تخت اقتدار پر متمکن رہی۔[21] سلطنت دہلی کے اسی عہد زوال میں وجے نگر سلطنت اور مملکت میواڑ کے پہلو بہ پہلو دیگر مختلف طاقت ور ہندو اور راجپوت ریاستیں بھی قائم ہوئیں۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سکھ مت کا ظہور ہوا۔ سولھویں صدی عیسوی سے عہد جدید کی ابتدا ہوتی ہے جب مغلیہ سلطنت نے برصغیر ہند کے بڑے رقبہ کو اپنے زیر نگین کر کے[22] دنیا میں صنعت کاری کے ابتدائی نمونے پیش کیے اور عالمی سطح پر عظیم ترین معیشت بن گئی۔[23] سلطنت مغلیہ کے عہد میں ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار دنیا کی چوتھائی گھریلو پیداوار تھی جو یورپ کی کل گھریلو پیداوار سے زیادہ ہے۔[24][25] اٹھارویں صدی کے اوائل میں مغلوں کا تدریجاً زوال شروع ہوا جس کی بنا پر مرہٹوں، سکھوں، میسوریوں، نظاموں اور نوابان بنگالہ کو برصغیر ہند کے بہت بڑے رقبے پر زور آزمائی کا موقع مل گیا اور جلد ہی متفرق طور پر ان کی علاحدہ علاحدہ ریاستیں وجود میں آگئیں۔[26][27]

اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر بتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی قابض و متصرف ہو گئی جسے سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کی سرزمین پر اپنا خود مختار عامل و نائب قرار دے رکھا تھا۔ لیکن ہندوستان کے باشندے کمپنی راج سے سخت بیزار اور بد دل تھے۔ نتیجتاً 1857ء میں تحریک آزادی کی زبرست لہر اٹھی اور شمالی ہند سے لے کر وسطی ہند تک اس لہر نے حصول آزادی کی روح پھونک دی لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد سلطنت برطانیہ نے کمپنی کو تحلیل کر دیا اور ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد( چوہدری رحمت علی) محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد، موہن داس گاندھی اور دیگر ہندو مسلم رہنماؤں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور رسائل و جرائد کے ذریعہ پورے ہندوستان میں حصول آزادی کی تحریک چھیڑی۔ اول اول تحریک خلافت نے، پھر انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کے باشندوں کے اس جذبہ کو ایک مہم کی شکل میں مہمیز کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس جد و جہد میں آل انڈیا مسلم لیگ بھی شامل ہو گئی۔ تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بوجوہ علاحدہ مسلم اکثریتی ریاست کا مطالبہ رکھا اور آہستہ آہستہ یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ بالآخر کانگریسی قیادت کی رضامندی کے بعد سلطنت برطانیہ نے ہندوستان کو دو لخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں ہندوستان بھارت ڈومینین اور ڈومنین پاکستان کے ناموں سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اسی کے ساتھ ہندوستان نے برطانوی استعمار سے نجات پائی۔

ماقبل تاریخ کا عہد (تقریباً 3300 ق م تک)[ترمیم]

بھیم بیٹکا، مدھیہ پردیش میں موجود درمیانی سنگی دور کا چٹانی آرٹ جس میں جنگلی جانور اپنے شکاریوں پر حملہ آور ہیں۔ شاید یہ جانور فرضی ہیں۔ گو کہ اس چٹانی آرٹ کی تاریخِ قدامت کا علم نہیں، [28] لیکن واقعاتی شہادتوں سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بہت سی پینٹنگ آٹھ ہزار ق م تک مکمل ہو چکی تھیں[29][30] اور کچھ قدرے مزید پرانی ہیں۔[31]
مرایور، کیرلا کا ایک ڈولمین (قبر) جسے نئے سنگی دور کے لوگوں نے بنایا تھا۔
سنگی دور (چھ ہزار ق م) کی کچھ تحریریں جو کیرالہ کی ایڈکل غاروں میں ملی ہیں۔

قدیم سنگی دور[ترمیم]

جب براعظم افریقہ سے انسان نما انواع کا پھیلاؤ شروع ہوا تو ایک اندازے کے مطابق انھوں نے تقریباً بیس لاکھ یا شاید بائیس لاکھ برس ق ح برصغیر ہند کی زمین پر قدم رکھا۔[32][33][34] ان اندازوں کی بنیاد وہ دریافتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے آدمی کی نسل انڈونیشیا میں اٹھارہ لاکھ برس قبل اور مشرقی ایشیا میں تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار برس قبل موجود تھی۔ نیز رائیوات میں واقع وادی سوانی اور موجودہ پاکستان میں واقع پبی پہاڑیوں سے ملنے والے سنگی آلات بھی کھڑے آدمی کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ یہ سنگی آلات نسل انسانی کے بالکل ابتدائی ایام کے ہیں۔[33][35] گو کہ بعض مزید پرانے انکشافات بھی ہوئے ہیں اور ان کی مدد سے آبی رسوبات کی بنیاد پر زمانے کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن دیگر آزاد ذرائع سے ان کی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔[36][34]

برصغیر ہند ميں پائے جانے والے انسان نما انواع کے قدیم ترین متحجرات یا ڈھانچے کھڑے آدمیوں یا ہائیڈل برگ انسانوں کے ہیں۔ یہ متحجرات وسطی ہندوستان میں واقع وادی نرمدا سے ملے ہیں اور تخمیناً پانچ لاکھ برس پرانے ہیں۔[33][36] نیز ایسے متحجرات بھی ملے ہیں جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ متحجرات سے زیادہ قدیم ہیں لیکن یہ دعویٰ قابل اعتبار نہیں ہے۔[36] اثریاتی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سات لاکھ برس پہلے تک برصغیر ہند میں یہ انواع کہیں کہیں آباد تھیں اور اندازہً ڈھائی لاکھ برس قبل تک یہ برصغیر کے بڑے رقبے پر پھیل گئیں۔ چنانچہ اسی عہد سے قدیم انسانوں کے وجود کی اثریاتی شہادتیں بھی وافر تعداد میں ملتی ہیں۔[36][34]

جنوبی ایشیا کی آبادیات کے ایک ماہر جِم ڈائسن لکھتے ہیں:

موجودہ نسل انسانی کا ظہور افریقا کی سرزمین سے ہوا۔ اُس وقت یعنی ساٹھ ہزار سے اسّی ہزار سال قبل وقفے وقفے سے اس نسل کے چھوٹے چھوٹے گروہ برصغیر ہند کی شمال مغربی سمت سے داخل ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں ان کے قافلے ساحلی راستوں سے چل کر پہنچے۔۔۔۔۔اور یہ تقریباً طے ہے کہ موجودہ نسل انسانی برصغیر میں پچپن ہزار برس پہلے سے موجود ہے، گو کہ ان کے قدیم ترین آثار محض تیس ہزار برس ق ح پرانے ملے ہیں۔[37]

مائیکل پیٹراگلیا اور بریجٹ آلچن لکھتے ہیں:

وائے کروموزوم اور ایم ٹی۔ڈین این اے سے ملنے والی معلومات بتاتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں بسنے والی نسل انسانی کا آغاز سرزمین افریقا سے ہوا تھا۔۔۔۔۔بیشتر غیر یورپی گروہوں کے اتصال کی تاریخیں اوسطاً تہتر ہزار سے پچپن ہزار برس قبل کی ہیں۔[38]

اور جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی تاریخ دان مائیکل فشر کے الفاظ میں:

محققین کا اندازہ ہے کہ موجودہ نسل انسانی کا افریقا سے باہر اور جزیرۃ العرب کے اُس پار پہلا کامیاب پھیلاؤ اسّی ہزار برس قبل سے چالیس ہزار برس قبل کے درمیان میں ہوا۔ اس سے پہلے بھی پھیلاؤ کی بعض کوششیں ہوئیں لیکن وہ ناکام رہیں۔ ان کی بعض اولادوں نے اپنی ہر نسل میں نوع انسانی کی مزید افزائش کی اور ان تمام سکونتی خطوں میں پھیل گئے جو راہ میں انھیں ملتے۔ ان میں سے ایک نسل خلیج فارس اور بحر ہند کے شمال میں واقع گرم اور اپجاؤ ساحلی زمینوں کے گرد پھرتی رہی اور بالآخر ان کے متفرق قافلوں نے پچھتر ہزار سے پینتیس ہزار برس قبل کے درمیانی عرصہ میں ہندوستان کا رخ کیا۔[39]

اثریاتی شہادتوں سے بھی یہ مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی گئی کہ برصغیر ہند میں نسل انسانی کی موجودگی کے آثار اٹھہتر ہزار سے چوہتر ہزار برس قبل کے ہیں[40] لیکن یہ مفہوم ہنوز متنازع ہے۔[41][42] جنوبی ایشیا میں ابتداً انسانی قافلے انفرادی طور پر شکار کی تلاش میں آئے اور پھر یہیں آباد ہو گئے۔ خطہ میں ان کی آمد اور سکونت نے لمبے عرصہ کے بعد زبردست تنوع پیدا کر دیا۔ اس نوع کی رنگا رنگی افریقا کے بعد جنوبی ایشیا ہی میں پائی جاتی ہے۔[43] ٹم ڈائسن رقم طراز ہے:

جینیاتی تحقیقات نے برصغیر کے ما قبل تاریخ عہد کے متعلق مزید معلومات سے پردہ اٹھایا ہے۔ بالخصوص اس خطہ میں جینیاتی تنوع بہت زیادہ ہے اور صرف افریقا کی آبادی ہی برصغیر سے زیادہ تنوع رکھتی ہے۔ اس سے متعلق برصغیر میں ابتدائی واقعات کی مضبوط شہادت بھی دستیاب ہے۔ اس سے مراد وہ حالات ہیں جن میں ایک چھوٹا گروہ (مثلاً قبیلہ) اصل افراد کی قلیل تعداد سے وجود میں آتا ہے۔ مزید برآں دنیا کے بیشتر خطوں سے موازنہ کیا جائے تو برصغیر کا معاشرہ دروں ازدواجی میں خاصا ممتاز نظر آئے گا۔[43]

نیا سنگی دور[ترمیم]

آہستہ آہستہ یہ انسانی قافلے آوارہ گردی ترک کر کے کسی خطے میں مقیم ہونے لگے اور باقاعدہ بود و باش اختیار کر لی۔ یہاں سے نئے سنگی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ برصغیر میں اندازہً نو ہزار برس قبل دریائے سندھ کے مغربی کناروں پر انسانی آبادی کی ابتدا ہوئی اور یہی آبادی بڑھتے بڑھتے قبل مسیح کے تیسرے ہزارے کی وادی سندھ کی تہذیب کی شکل میں نمودار ہوئی۔[2][44] چنانچہ ٹم ڈائسن لکھتے ہیں: "سات ہزار برس پہلے بلوچستان میں کاشت کاری کی مضبوط بنیاد پڑ چکی تھی اور اگلے دو ہزار برسوں میں مشرق کی طرف وادی سندھ میں آہستہ آہستہ اس کا رواج بڑھنے لگا۔" مائیکل فشر لکھتے ہیں:[45]

ایک مستحکم اور آباد کاشت کار معاشرے کے اولین نمونہ کا انکشاف مہر گڑھ میں ہوا ہے جو درۂ بولان اور وادی سندھ (اب پاکستان میں) کے درمیان میں پہاڑیوں کے بیچ واقع ہے (نقشہ 3.1 ملاحظہ فرمائیں)۔ سات ہزار ق م کے اوائل سے ہی یہاں زمین کی تیاری، اس کی دیکھ بھال اور مخصوص غلہ کی پیداوار کے لیے سخت محنت مشقت کی جانے لگی تھی۔ یہ کسان بھیڑ بکریاں، خنزیر اور بیل (کوہانی و غیر کوہانی دونوں) بھی پالتے تھے۔ بیلوں کو خصی کر دینے سے مثلاً یہ خوراک کی بجائے پالتو بار بردار جانور بن جاتے۔[45]

برنجی دور – پہلی شہر کاری (تقریباً 3300 ق م تا 1800 ق م)[ترمیم]

وادی سندھ کی تہذیب[ترمیم]

وادی سندھ کی تہذیب کا ایک شہر دھولویرا جس میں پانی کی سطح تک پہنچنے کے لیے باؤلی کی سیڑھیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔[46]
لوتھل کے مقام پر ایک غسل خانہ میں نکاسی آب کے نظام کے باقیات

3300 ق م کے آس پاس برصغیر میں برنجی دور کا آغاز ہوا۔ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے خطوں کے ساتھ ساتھ وادی سندھ کا خطہ بھی انسانی تہذیب کے تین اولین گہواروں میں سے ایک ہے اور ان تینوں میں وادی سندھ کی تہذیب سب سے زیادہ وسيع رقبے پر پھيلی ہوئی تھی۔[47] کہا جاتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے دور عروج میں یہاں پچاس لاکھ افراد بستے تھے۔[48] دریائے سندھ کی وادی اس تہذیب کا مستقر بنی، پھر مشرقی پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان کے دریائے گھگر کی ترائی تک یہ پھیل گئی۔ 2600 ق م سے 1900 ق م تک اس تہذیب کے عروج کا دور ہے اور یہیں سے برصغیر ہند میں تمدنی زندگی کی بنیاد پڑتی ہے۔ پاکستان میں واقع ہڑپہ، گنیریوالا اور موہن جو دڑو، نیز ہندوستان میں موجود دھولویرا، کالی بنگا، راکھی گڑھی اور لوتھل اس تہذیب کے اہم مقامات تھے۔

قدیم وادی سندھ کے باشندے ہڑپہ نے دھات کاری اور دست کاری (سنگ یمانی کی مصنوعات اور مہر تراشی) کے نئے نئے اطوار ایجاد کیے اور تانبا، کانسی، سیسہ اور ٹین تیار کیے۔ مزید برآں ان لوگوں نے اینٹوں سے مکانات بنائے، نکاسی آب کا بہترین نظام قائم کیا اور متعدد منزلہ عمارتیں کھڑی کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں کسی طرز کا بلدیاتی نظم بھی پایا جاتا تھا۔[49]

وادی سندھ کی تہذیب کے سقوط کے بعد اس کے باشندے دریائے سندھ اور دریائے کھگر کی وادیوں سے نکل کر گنگا جمنا کی ترائی میں ہمالیہ کی نیچی پہاڑیوں کی جانب ہجرت کر گئے۔[50]

گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت[ترمیم]

سنولی رتھ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے یہ تصویر کھینچی ہے۔[51]

قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے دوران میں گنگ و جمن کے دو آبہ میں گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت ابھری۔ یہ دیہاتوں کے باشندے تھے اور شکار و کاشت کاری ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہ تانبے کے آلات جیسے کلہاڑی، تیر و تلوار اور نیزے وغیرہ استعمال کرتے اور مویشیوں میں گائے بیل بھینس، بھیڑ بکری، گھوڑے، کتے اور خنزیروں کو پالتے۔[52] سنہ 2018ء میں برنجی دور کے بنے ہوئے مضبوط پہیوں کے چھکڑے دریافت ہوئے[53] جن کے متعلق بعضوں کا کہنا ہے کہ ان رتھوں کو گھوڑے کھینچتے تھے۔[54][55][حاشیہ 1] اس دریافت کے بعد محققین کی توجہ مذکورہ مقام کی جانب مبذول ہوئی۔

آہنی دور (1500 ق م تا 200 ق م)[ترمیم]

ويدک دور (تقریباً 1500 ق م تا 600 ق م)[ترمیم]

وادی سندھ کی تہذیب کے آخری دنوں ميں يا اس کے کچھ عرصہ بعد وسط ایشیا سے ہند آریائی قبائل بر صغير ميں داخل ہوئے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ميل جول ہوا اور ايک ن‏‏ئی تہذيب نے جنم ليا۔ اسی دور ميں ويد لکھے گئے جن میں آریائی قبائل کے خداؤں کی حمدیہ نظمیں اکٹھا کی گئی ہیں۔ اس عہد کو ویدک دور کہا جاتا ہے۔ البتہ ویدک تہذیب کا دائرہ فقط ہندوستان کے شمال مغرب تک محدود تھا اور ہندوستان کے بقیہ خطے اپنی جداگانہ ثقافتی شناخت رکھتے تھے۔ اس تہذیب کو ویدوں میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ وید ویدک سنسکرت میں لکھے گئے ہیں اور آج بھی ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں شامل ہیں۔ نیز یہ ہندوستان کے ان قدیم ترین متون میں سے ہیں جو دست بردِ زمانہ سے محفوظ رہے۔[57] ویدک عہد کا دورانیہ 1500 ق م سے 500 ق م تک ہے۔[58][59] ہندوستانی ثقافت کی تشکیل میں اس عہد کا خاصا اہم کردار رہا اور ہندوستان کے مختلف ثقافتی پہلوؤں کی بنیاد اسی عہد میں رکھی گئی۔ علاوہ بریں برصغیر ہند کے بہت سے علاقے اس عہد میں سنگی و برنجی دور سے آہنی دور میں داخل ہوئے۔[60]

ویدک معاشرہ[ترمیم]

دیوناگری رسم الخط میں رگ وید کا ایک مخطوطہ جو انیسویں صدی عیسوی کے اوائل کا ہے۔ رگ وید کے متعلق ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ کتاب من و عن سینہ بسینہ منتقل ہوئی ہے۔[61]

خطۂ پنجاب اور گنگا کے بالائی میدان میں ویدک معاشرہ کے خد و خال کو واضح کرنے کے لیے مورخین ویدوں کا سہارا لیتے ہیں۔[60] بیشتر مورخین کا کہنا ہے کہ اس عہد میں شمال مغرب سے ہند آریائی قبائل نے متفرق طور پر بڑی تعداد میں ہندوستان کا رخ کیا اور پھر یہیں آباد ہو گئے۔[62][63] اتھرو وید کے زمانہ تک پیپل کے درخت اور گائے مقدس سمجھے جانے لگے تھے۔[64] ہندوستانی فلسفہ کے بہت سے تصورات (مثلاً دھرم) کی اصل اسی ویدک دور میں ملتی ہے۔[65]

ابتدائی ویدک معاشرہ کو رگ وید میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ رِگ وید قدیم ترین ویدک متن ہے اور کہا جاتا ہے کہ قبل مسیح کے دوسرے ہزارے میں[66][67] برصغیر کے شمال مغربی خطہ میں یہ مدون ہوا۔[68] اُس وقت کا آریائی معاشرہ ہڑپہ کی شہری تہذیب سے یکسر مختلف، قبیلوں میں منقسم اور دیہی طرز معاشرت کا عادی تھا۔ ہڑپہ کا تمدن رخصت ہو چکا تھا اور اس کی جگہ دیہی زندگی نے لے لی تھی۔[69] اثریاتی تناظر میں ہند۔آریائی قبائل غالباً جزوی طور پر ابتدا میں گیرو رنگ کے برتنوں کی ثقافت سے مشابہ نظر آتے ہیں۔[70][71]

ریگ ویدک دور کے اختتام پر آریائی معاشرہ نے برصغیر ہند کے شمال مغربی خطہ سے آگے بڑھ کر دریائے گنگا کے مغربی میدانی علاقہ کی جانب پھیلنا شروع کیا۔ انھوں نے بڑی سرعت سے کاشت کاری کو پیشہ بنایا اور اپنے معاشرے کو چار ورنوں میں تقسیم کر کے ایک مخصوص طبقاتی نظام کے تحت اسے منظم کر لیا۔ اس سماجی ڈھانچے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اسے شمالی ہندوستان کے مقامی تمدن سے ہم آہنگ رکھا گیا تھا[72] لیکن آخرکار یہ ہم آہنگی برقرار نہیں رہی اور باہر سے آنے والے یہ آریہ قبائل مقامی قوموں کو حقیر اور ان کے پیشوں کو ذلیل سمجھنے لگے۔[73] اس عہد میں چھوٹے چھوٹے قبیلوں اور سرداروں نے آپس میں مل کر جن پد قائم کرنا شروع کیا۔[74]

جن پد[ترمیم]

ویدک دور کے اواخر کا نقشہ جس میں شمالی ہندوستان کے جن پدوں کے ساتھ ساتھ آریہ ورت کی سرحدیں بھی دکھائی گئی ہیں۔ یہ ہندوستان میں آہنی دور کی مملکتوں – کرو، پانچال، کوشل، وِدیہ – کا آغاز ہے۔

برصغیر ہند میں 1200 ق م سے چھٹی صدی ق م کا درمیانی عرصہ آہنی دور کہلاتا ہے۔ یہ عہد جن پدوں کے عروج کا ہے جو دراصل مختلف سرداروں اور قبیلوں کے اتحاد سے بننے والی قلمرو، جمہوریے اور بادشاہتیں تھیں۔ ان جن پدوں میں کرو، پانچال، کوشل اور وِدیہ مملکتیں ممتاز ہیں۔[75][76]

کرو مملکت کا عہد تقریباً 1200 ق م سے 800 ق م تک تھا جو ویدک عہد میں صوبائی سطح کا پہلا معاشرہ نظر آتا ہے۔[77] اسی کے پہلو بہ پہلو اتھرو وید کی ترتیب و تدوین بھی جاری تھی۔ چنانچہ اس عہد کے یہ دونوں واقعات شمال مغربی ہندوستان میں آہنی دور کا نقطۂ آغاز سمجھے جاتے ہیں۔ اتھرو وید ہندوستان کی سب سے پہلی کتاب ہے جس میں "شیام آیَس" (سیاہ دھات) کے نام سے لوہے کا ذکر ملتا ہے۔[78] کرو مملکت نے ویدک عہد کی نظموں کو مرتب کیا اور سماجی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے شَرَوت کی رسم ایجاد کی۔[78] پرکشت اور اس کے جانشین جن مے جے اس سلطنت کے عظیم بادشاہ گذرے ہیں جنھوں نے اپنی سلطنت کو چھوٹی قلمرو سے نکال کر اسے آہنی دور کے شمالی ہندوستان کی ایک با اثر سیاسی، سماجی اور تہذیبی طاقت بنا دیا تھا۔[78] کرو سلطنت کے زوال کے بعد ویدک تہذیب کا مرکز اس کی مشرقی ہمسایہ ریاست پانچال منتقل ہو گیا۔[78] منقش خاکستری برتنوں کی ثقافت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کرو اور پانچال سلطنتوں کی ہم عصر تھی اور 1100 ق م سے 600 ق م تک[70] ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں رائج رہی۔[78][79]

ویدک عہد کے اواخر میں ویدک تہذیب کے نئے مرکز کے طور پر ودیہ مملکت ابھر کر سامنے آئی۔ یہ مملکت مشرق کے اس خطہ میں قائم تھی جو اب نیپال اور بہار کا حصہ ہے۔[71] ودیہ بادشاہ جنک کے عہد میں برہمن پنڈتوں اور یاگیہ ولکیہ، آرونی، واچکنوی گارگی جیسے فلسفیوں کو شاہی دربار کی سرپرستی حاصل رہی اور یہی اس سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔[80] اس دور کے آخری دنوں میں پورے شمالی ہندوستان میں مذکورہ جن پد سلطنتوں سے بڑی ریاستیں اور مملکتیں قائم ہونے لگیں جنھیں مہا جن پد سے موسوم کیا گیا۔

دوسری شہر کاری (600 ق م تا 200 ق م)[ترمیم]

پہلی صدی ق م کے سانچی استوپ 1 کے جنوبی دروازے کا سر ستون جس میں پانچویں صدی ق م کے شہر کشی نگر کی نقاشی کی گئی ہے۔

800 ق م سے 200 ق م کے درمیان میں شَرَمَن تحریک کی بنیاد پڑی اور اس کے بطن سے جین مت اور بدھ مت کا ظہور ہوا۔ نیز اسی عہد میں اولین اپنیشدیں بھی لکھی گئیں۔ 500 ق م کے بعد برصغیر نے وادی سندھ کی تہذیب کے سقوط کے بعد پہلی دفعہ اُس شہری تمدن کا پھر سے مشاہدہ کیا جسے تاریخ کے اوراق میں "دوسری شہر کاری" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گنگا اور بالخصوص وسطی گنگا کے میدانوں میں نئے شہر آباد ہوئے۔[81] درحقیقت دوسری شہر کاری کی بنیادیں 600 ق م سے پہلے ہی دریائے گھگر اور بالائی گنگا کے میدان میں رکھ دی گئی تھیں جو منقش برتنوں کی تہذیب کا علاقہ تھا۔ گرچہ ابتدا میں اس تہذیب کے بیشتر مقامات کسانوں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں کی شکل میں تعمیر ہوئے لیکن یہی گاؤں آگے چل کر بڑے قصبات میں بدل گئے۔ ان میں سب سے بڑے قصبے کے گرد خندقیں کھودی گئی تھیں اور لکڑی کے جنگلے لگا کر ریت کے تودوں سے بند بنائے گئے تھے۔ گو کہ یہ انتظام اُن قلعہ بند، مستحکم اور بڑے شہروں کے مقابلہ میں مختصر اور بہت سادہ ہے جو 600 ق م کے بعد سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی ثقافت کے عہد میں تعمیر کیے گئے۔[82]

دوسری شہر کاری[83][حاشیہ 2] کے عہد میں وسطی گنگا کا میدان ایک نمایاں تہذیبی خطہ تھا۔[84] اسی خاک سے مگدھ مہا جن پد کو عروج ملا جو آگے جا کر عظیم الشان موریہ سلطنت کی بنیاد بنا اور 500 ق م کے بعد اسی خطہ میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں۔[85] یہ علاقہ ویدک ثقافت سے متاثر ضرور ہوا[86] لیکن یہ کرو پنچال کے خطہ سے بہت مختلف تھا۔[84] نیز "تا حال دریافت شدہ آثار کی رو سے جنوبی ایشیا میں یہ پہلا خطہ ہے جہاں سب سے پہلے چاول کی فصل اگائی گئی اور 1800 ق م تک یہ چراند اور چیچر نامی مقامات سے منسوب نئے حجری دور کی ترقی یافتہ آبادی کا مسکن رہا"۔[87] اسی سرزمین میں شَرَمَن روایت کا شجر ثمر دار پروان چڑھا اور پھر جین مت اور بدھ مت کی شاخیں پھونٹیں۔[81]

بدھ مت اور جین مت[ترمیم]

اپنیشدیں اور شَرَمَن تحریکیں
ایشو پنیشد کے مخطوطہ کا ایک صفحہ
مہاویر، جین مت کے چوبیسویں اور آخری تیرتھنکر
رام بھر استوپ، کشی نگر جہاں گوتم بدھ کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔

800 ق م سے 400 ق م تک ابتدائی اپنیشدیں مدوّن ہوتی رہیں[4][88][89] جنھوں نے ہندو مت کی نظریاتی اساس کا کام کیا۔ ان کتابوں کو ویدانت (یعنی ویدوں کا ماحصل) بھی کہا جاتا ہے۔[90] ساتویں اور چھٹی صدی ق م کے ہندوستان میں ایک جانب شہر کاری فروغ پا رہی تھی تو دوسری طرف شَرَمَن تحریکیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھیں۔ ان تحریکوں نے برہمنیت کے تسلط کو للکارا اور قدیم رسم و رواج کے زور کو توڑنے کی کوشش کی۔[4] جین مت کے تیر تھنکر مہاویر (تقریباً 549 ق م تا 477 ق م) اور بدھ مت کے بانی گوتم بدھ (تقریباً 563 ق م تا 483 ق م) اس تحریک کی نمایاں ترین شخصیات گذری ہیں۔ ان تحریکوں نے بد حال ہندوستانی معاشرے کو سنسار (تناسخ) اور موکش (نجات) کے نئے تصورات عطا کیے۔[91] گوتم بدھ نے ایک درمیانی راستہ بھی کھوج نکالا تھا جس کی مدد سے شرمن مذاہب کی کڑی ریاضتوں اور زہدِ بے جا کو قابو میں کیا گیا۔[92]

عین اسی دوران میں (جین مت کے چوبیسویں تیرتھنکر) مہاویر نے بعض مذہبی عقائد کی تبلیغ شروع کی اور یہی عقائد آگے چل کر جین مت کی شکل میں سامنے آئے۔[93] تاہم راسخ العقیدہ جینیوں کا ایمان ہے کہ تیر تھنکروں کی تعلیمات وقت سے پہلے ہی دے دی جاتی ہیں۔ محققین لکھتے ہیں کہ جین مت کے تیئیسویں تیر تھنکر پارشوناتھ (تقریباً 872 ق م تا 772 ق م) کی شخصیت تاریخی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ویدوں میں بھی بعض تیر تھنکروں اور شرمن تحریک سے مشابہ درویشانہ تصورات کا ذکر ملتا ہے۔[94]

سنسکرت کے رزمیے[ترمیم]

مخطوطہ جس میں معرکہ کروکشیتر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

سنسکرت زبان کی شہرہ آفاق رزمیہ داستانیں راماین اور مہا بھارت اسی عہد کی یادگار ہیں۔[95] مہا بھارت دنیا کی طویل ترین نظم سمجھی جاتی ہے۔[96] انھی دو نظموں کی بنا پر مورخین اس عہد کو "مہا کاویہ عہد" سے موسوم کرتے تھے لیکن اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ نظمیں (جو ایک دوسرے سے بڑی حد تک مشابہ ہیں) صدیوں تک ارتقا کے مختلف مراحل سے گذر کر موجودہ شکل کو پہنچی ہیں۔ بر سبیل مثال مہا بھارت شاید (1000 ق م کی) کسی معمولی جھڑپ کے واقعات پر مبنی ہے جسے شاعروں اور رزمیہ نگاروں کے بے لگام تخیل نے عظیم الشان معرکہ میں تبدیل کر دیا۔ آثار قدیمہ سے اب تک کوئی ایسا حتمی ثبوت دریافت نہیں ہوا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ مہا بھارت کی داستان تاریخی واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔[97] ان رزمیہ داستانوں کے حالیہ متن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ویدک عہد کے بعد تقریباً 400 ق م سے 400 عیسوی کے درمیان میں وجود میں آئے۔[97][98]

مہا جن پد[ترمیم]

مہا جن پد اس دور کی سولہ سب سے طاقتور اور وسیع مملکتیں اور جمہوریتیں تھیں جو بنیادی طور پر سندھ و گنگ کے میدانی علاقوں میں واقع تھیں۔

چھٹی صدی ق م سے تیسری صدی ق م تک مہا جن پد کے عروج کا دور ہے۔ مہا جن پد ان سولہ طاقت ور حکومتوں اور چند سری جمہوریتوں کو کہا جاتا ہے جو شمال مغرب میں گندھارا سے لے کر مشرق میں بنگال تک پھیلی ہوئی تھیں اور ما ورائے وندھیاچل کے بعض علاقے بھی اس کے زیر نگین تھے۔[99] قدیم بودھ گرنتھوں انگُتّر نکائے[100] وغیرہ میں ان سولہ ریاستوں کا کثرت سے تذکرہ ملتا ہے۔ یہ سولہ ریاستیں حسب ذیل تھیں: انگ، اشمک، اَوَنتی، چیدی، گاندھار، کاشی، کمبوج، کوشل، کرو، مگدھ، ملّ، متسیہ، پاں چال، شورسین، وِرِجّی اور وتس۔ وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد اسی عہد میں پہلی بار ہندوستان میں بڑے بڑے شہر بسائے گئے۔[101] شاکیہ، کولی، ملّ اور لچھوی وغیرہ گن سنگھوں میں جمہوری نظام حکومت رائج تھا اور یہ گن سنگھ[102] کہلاتے تھے۔ بعض گن سنگھ[102] مثلاً ملّ، جس کا دار الحکومت کشی نگر تھا اور وَجّی، جس کا پایۂ تخت ویشالی تھا، وغیرہ چھٹی صدی ق م کے اوائل میں ہی قائم ہو چکے تھے اور کچھ خطوں پر چوتھی صدی عیسوی تک ان کی حکمرانی برقرار رہی۔[103] وجی مہا جن پد کے تخت اقتدار پر لچھوی سب سے معروف قبیلہ گذرا ہے۔[104]

سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی ثقافت کا زمانہ بھی یہی ہے۔ گرچہ اس ثقافت کا مرکز گنگا کا وسطی میدان تھا لیکن وسطی اور شمالی ہندوستان کے خاصے وسیع رقبے پر اس کے اثرات موجود تھے۔ اس ثقافت کے زیر اثر بڑے بڑے شہر قائم ہوئے اور ان کے گرد مضبوط شہر پناہیں تعمیر کی گئیں، آبادی میں زبردست اضافہ ہوا، متعدد سماجی طبقات ابھرے، تجارت کا دائرہ بڑھا، مفاد عامہ کی تعمیرات وجود میں آئیں، آب رسانی کا نظام قائم ہوا، ہاتھی دانت، سنگ تراشی اور دیگر صنعتوں کے مختلف کارخانے قائم ہوئے، وزن کا نظام طے کیا گیا، آہت سکے ڈھالے گئے اور براہمی اور خروشٹھی رسم الخط ایجاد ہوئے۔[105][106] اس عہد میں عوام الناس کی زبان سنسکرت تھی، ہاں البتہ شمالی ہندوستان کی عوامی زبانوں کو پراکرت کہا جاتا ہے۔

500 یا 400 ق م یعنی گوتم بدھ کے عہد تک مذکورہ سولہ مہا جن پد چار بڑی ریاستوں میں ضم ہو گئے۔ یہ چار ریاستیں تھیں: وَتس، اَوَنتی، کوشل اور مگدھ۔ گوتم بدھ کے حالات زندگی انھی چار ریاستوں کے گرد گھومتے ہیں۔[101]

مگدھ کا دور اول[ترمیم]

مگدھ کے شاہی خانوادے
سلطنت مگدھ 600 ق م میں، جب اس کا دار الحکومت راجگیر تھا اور ہریک اور شیشو ناگ خانوادوں کا راج تھا۔
خشیارشا اول کے مقبرے پر ہخامنشی سلطنت کا ہندوستانی سپاہی تقریباً 480 ق م میں۔

سلطنتِ مگدھ سولہ مہا جن پدوں میں سے ایک تھی اور دریائے گنگا کے جنوب میں واقع بھارت کا صوبۂ بہار اس کا مرکز تھا۔ ابتدا میں راجگیر پایۂ تخت رہا لیکن بعد میں پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) منتقل ہو گیا۔ لچھوی اور انگ[107] کو یکے بعد دیگرے فتح کر لینے کے بعد بہار و بنگال کے بیشتر علاقوں پر اور بعد ازاں مشرقی اترپردیش و اڑیسہ پر بھی سلطنت مگدھ قابض و متصرف ہو گئی۔ جین اور بودھ گرنتھوں میں مگدھ کی اس قدیم سلطنت کا بارہا ذکر آیا ہے۔ نیز راماین، مہا بھارت اور پرانوں میں بھی اس کا مذکور ملتا ہے۔[108] مگدھ کا سب سے قدیم تذکرہ اتھرو وید میں ہے، اس میں انگوں، گندھاروں اور مُجوَتوں کے ساتھ مگدھ کے لوگوں کا نام بھی لیا گیا ہے۔ جین مت اور بدھ مت کے فروغ میں سلطنت مگدھ کا خاصا اہم کردار رہا۔ مگدھ کے دائرۂ اقتدار میں بعض جمہوری برادریاں مثلاً راج کمار برادری وغیرہ بھی شامل تھیں۔ علاوہ بریں مگدھ کے زیر نگین گاؤں کی اپنی پنچایتیں ہوتی تھیں جن کا مکھیا انھی میں سے ایک ہوتا اور وہ گرامک کہلاتا۔ سلطنت کا نظم و انصرام عاملہ، عدلیہ اور فوج کے شعبوں میں منقسم تھا۔

پالی گرنتھوں، جین آگموں اور ہندو پرانوں وغیرہ قدیم مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ مگدھ پر کوئی 200 برس تک (تقریباً 600 ق م تا 413 ق م) ہَریَک خانوادہ حاکم رہا۔ اس خانوادے کا بادشاہ بمبی سار توسیع پسندانہ عزائم رکھتا تھا اور اسی بنا پر بمبی سار نے انگ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا۔ انگ کا علاقہ اب مشرقی بہار اور مغربی بنگال میں پڑتا ہے۔ بمبی سار کو اس کے بیٹے اجات شترو نے تخت سلطنت سے بے دخل کر کے قتل کر دیا اور خود حکمران بن کر اپنے باپ کی توسیع پسندانہ مہمات کو جاری رکھا۔ یہی دور ہے جس میں گوتم بدھ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مگدھ سلطنت میں گزارا۔ انھیں بودھ گیا میں نروان حاصل ہوا، سارناتھ میں اپنا پہلا خطہ دیا اور راج گرہ میں پہلی بودھ سنگتی منعقد ہوئی۔[109] ہریک خانوادہ کے بعد شی شو ناگ خانوادہ تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔ 345 ق م میں آخری شی شو ناگ بادشاہ کالا شوک مہا پدم نند کے ہاتھوں مارا گیا۔ کالا شوک کے مرتے ہی شی شو ناگ خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور مگدھ کے افق پر نندوں کا آفتاب طلوع ہوا۔ مہا پدم نند نو نندوں میں سے پہلا تھا اور اس کے بعد اسی کے آٹھ بیٹے نند کہلائے۔

نند سلطنت اور سکندر کی مہم[ترمیم]

نند سلطنت کی سرحدیں بنگال سے پنجاب تک اور جنوب میں وندھیاچل تک پھیلی ہوئی تھیں۔[110] یہ نند سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی ثروت اور دولت مندی کے چرچے ہر طرف تھے۔ ہَریَک اور شی شو ناگ خانوادوں نے جس سلطنت کی بنیادیں اٹھائی تھیں، نند کے دور میں وہ بڑھتے بڑھتے شمالی ہند کی پہلی عظیم الشان سلطنت بن گئی۔[111] اس مقصد کے لیے انھوں نے زبردست فوج بنائی جس میں (کم ترین اندازے کے مطابق) 2 لاکھ پیادے، 20 ہزار سوار، 2 ہزار جنگی رتھ اور تین ہزار جنگی ہاتھی تھے۔[112][113][114] یونانی مورخ پلو ٹارک لکھتا ہے کہ نند افواج میں 2 لاکھ پیادے، اسی ہزار سوار، آٹھ ہزار جنگی رتھ اور چھ ہزار جنگی ہاتھی تھے۔[113][115] دھنا نند کے عہد میں سکندر شمال مغربی ہندوستان پر حملہ آور ہوا لیکن نند افواج کو سکندر اعظم سے مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ دریائے بیاس پر یونانی افواج نے سکندر کے خلاف بغاوت کر دی اور مزید پیش قدمی سے انکار کر دیا تھا۔ چنانچہ سکندر کو پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے واپس لوٹنا پڑا۔[113]

موریا سلطنت[ترمیم]

موریا سلطنت
تیسری صدی قبل مسیح کی اشوک کی لاٹ، بمقام ویشالی۔

بر صغير سے سکندر اعظم کے جانے کے بعد نند سلطنت کی بساط الٹ گئی اور موريا دور کا آغاز ہوا۔ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار ایسی عظیم الشان اور مستحکم سلطنت قائم ہوئی تھی۔[116] موریا سلطنت (322 ق م تا 185 ق م) نے اپنے عہد عروج میں ہندوستان کے بیشتر خطوں کو اپنی سلطنت کے حدود میں شامل کر لیا تھا۔ چنانچہ اس کی حکومت شمال میں ہمالیہ سے جنوب میں کرناٹک تک اور مشرق میں آسام سے مغرب میں کوہ ہندوکش سے پرے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ سکندر کی واپسی کے بعد چانکیہ (کوٹلیہ) کی مدد سے چندرگپت موریا نے مگدھ (موجودہ بہار) میں نند سلطنت کا تختہ پلٹا اور موریا سلطنت کی بنیاد رکھی۔[117]

چندر گپت نے اپنے دشمنوں کو زیر کرتے ہوئے بڑی سرعت سے مغربی ہند سے وسطی ہند تک اپنا اقتدار قائم کر لیا اور 317 ق م تک پورا شمال مغربی ہندوستان اس کے ما تحت آچکا تھا۔ بعد ازاں سلوقی موریا جنگ کے میدان میں اس نے سلوقی اول کو شکست دی جو سلوقی سلطنت کا بانی اور سکندر کا دوست تھا۔ اس جنگ میں فتح پانے کے بعد دریائے سندھ کا مغربی خطہ بھی اس کی حکومت میں شامل ہو گیا۔ چندر گپت کے بعد اس کا بیٹا بندو سار 297 ق م کے آس پاس تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس کی وفات تک (تقریباً 272 ق م) برصغیر ہند کا بڑا رقبہ موریا سلطنت کے حدود میں شامل ہو چکا تھا۔ البتہ کلنگ کا علاقہ (موجودہ اوڈیشا) اس کے دائرۂ اقتدار سے باہر رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنوب سے کلنگ کے تجارتی روابط مضبوط تھے۔[118]

لومس رشی کی غار کا موریا عہد کا تراشا ہوا دروازہ جو برابر غاروں میں سے ایک ہے (تقریباً 250 ق م)۔

بندو سار کے بعد سلطنت کی باگ ڈور اشوک کے ہاتھوں میں آئی۔ اشوک نے 232 ق م میں اپنی وفات تک تقریباً 37 برس حکومت کی۔[119] تخت نشینی کے کچھ عرصہ بعد 260 ق م کے آس پاس اشوک بھاری فوج لے کر کلنگ پر قبضہ کے ارادے سے نکلا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی، لاکھوں آدمی مارے گئے لیکن کلنگ کا راجا اتنی بڑی فوج کے سامنے ٹک نہ سکا اور میدان اشوک کے ہاتھ رہا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب اشوک میدان کارزار کا معائنہ کر رہا تھا تو انسانی لاشوں کے انبار، زخموں سے چور فوجیوں اور جا بجا کٹے ہوئے سروں اور بریدہ ہاتھ پاؤں کو دیکھ کر اس کی طبیعت سخت متوحش ہوئی اور شدید احساس ندامت نے اسے آگھیرا۔ اس منظر نے اشوک کے وجود کو اندر سے ہلا ڈالا تھا۔ بالآخر اس نے زور و تشدد کی راہ ترک کر دی اور بدھ مت قبول کرنے کا اعلان کیا۔[118] اشوک کے عہد حکومت میں بدھ مت سارے ہندوستان میں پھیل چکا تھا۔ اشوک خود بدھ مت کا مبلغ بن کر تبلیغی دورے کرتا، اپنی رعایا سے ملتا اور انھیں بدھ مت کی تعلیم دیتا۔ اشوک کی وفات کے بعد سلطنت کا زوال شروع ہوا اور آخری موریا بادشاہ برہ دَرَتھ کو اس کے برہمن سالار پشیہ متر شونگ نے قتل کر کے آپ مگدھ کے تخت پر قابض ہوا اور یوں شونگ سلطنت کی ابتدا ہوئی۔[119] اس دوران میں اور اس کے بعد بھی يونانيوں اور کشانوں کا اثر برقرار رہا۔ کشان راجا گجر قوم سے تھا جس کا پورا نام مہاراجا کنشک کسانہ ہے اور اس کی اولاد آگے چل کر کسانہ کہلائی۔ اس کا دار الخلافہ قنوج تھا جس کے کھنڈر آج بھی شمالی بھارت میں پائے جاتے ہیں۔

چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کے دور میں کاشت کاری اور اقتصادی سرگرمیاں سارے ہندوستان میں تیز تر ہو گئی تھیں اور مقامی و بیرونی تجارت خوب پھل پھول رہی تھی۔ اس ترقی اور خوش حالی کی وجہ موریا سلطنت کا وہ مستحکم اور متحدہ نظام تھا جو مالی، انتظامی اور حفاظتی شعبوں میں رائج تھا اور اسی بہترین نظم نے سارے ہندوستان کو ایک سرے سے دوسرے تک ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ موریا حکمرانوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ تعمیر کی جو ایشا کی قدیم ترین اور طویل ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے اور برصغیر ہند کو وسطی ایشیا سے جوڑتی ہے۔[120] جنگ کلنگ کے بعد تقریباً نصف صدی تک سلطنت میں ہر طرف امن و امان کا راج رہا۔ یہ عوام کی فلاح و بہبود، سماجی ہم آہنگی، مذہبی تبدیلی اور علوم و فنون کی ترقی کا زمانہ تھا۔ چندر گپت کے جین دھرم کو اختیار کر لینے کے بعد ہندوستانی معاشرے میں سماجی اور مذہبی تبدیلیوں اور اصلاحات کا آغاز ہوا تھا۔ جبکہ اشوک کی تبدیلی مذہب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ نے ہندوستانی معاشرے کی سماجی و سیاسی بُنت میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور سارا ہندوستان عدم تشدد، امن و امان اور بے مثال نظم و ضبط کا گہوارہ بن گیا۔ اشوک نے حکومت کے سفیروں کی بجائے ملکوں ملکوں بدھ مت کے مبلغین بھیجے جنھوں نے گوتم بدھ کے پیغام کو عام کیا۔ چنانچہ اس کے مبلغین سری لنکا، جنوب مشرقی ایشیا، مغربی ایشیا، شمالی افریقا اور یورپ کے بحیرۂ روم تک پہنچے اور ان مقامات کو بدھ مت کی تعلیمات سے رو شناس کیا۔[121]

ارتھ شاستر اور اشوک کے کتبے موریا دور کے احوال و وقائع کے اولین مآخذ ہیں۔ اثریات کی رو سے یہ سیاہ قلعی دار شمالی برتنوں کی تہذیب کا زمانہ تھا۔ موریا سلطنت کی بنیادیں اپنے عہد کی ترقی یافتہ معیشت اور ہنر مند سماج پر استوار تھیں۔ گرچہ اس عہد میں سامان تجارت کی خریداری کا سارا نظام حکومت کے متعینہ اصول و ضوابط کے تحت ہی انجام پاتا تھا[122] لیکن معاشرے میں بنکاری کا سراغ نہیں ملتا اور شرح سود بندھے ہوئے سماجی چلن کے مطابق ہی لی اور دی جاتی تھی۔ انسانی غلامی کی شہادتیں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ موریا معاشرے میں غلاموں کا چلن عام تھا۔[123] اسی عہد میں شمالی ہندوستان میں ایک قسم کا نہایت معیاری فولاد تیار کیا گیا جسے ووٹز فولاد کہتے ہیں۔ یہ فولاد چین اور عرب تک جاتا تھا۔[8]

سنگم عہد[ترمیم]

سنگم دور میں جنوبی ہند کے سرے پر واقع تمل اکام، جو چیر، چول اور پانڈیہ کے زیر حکومت تھا۔

تیسری صدی ق م سے چوتھی صدی عیسوی تک کا زمانہ سنگم عہد کہلاتا ہے۔ یہ تمل ادب کے فروغ کا زمانہ ہے اور اسی عہد میں تین تمل شاہی خانوادوں چیر، چول اور پانڈیہ نے جنوبی ہند کے مختلف علاقوں پر حکمرانی کی۔ یہ تینوں شاہی خانوادے تمل اکام کے تاجوران ثلاثہ کہلاتے ہیں۔[125]

سنگم عہد کے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں اس دور کے وقائع و تواریخ، سیاسیات اور جنگوں اور تمل قوم کی تہذیب و ثقافت کو بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے۔[126] ان ادیبوں کا تعلق کسی مقتدر خانوادے سے نہیں تھا، بلکہ سماج کے معمولی گھروں میں ان کا جنم ہوا اور عوام الناس کے درمیان میں پرورش پائی۔ ان کے مسائل کا بچشم خود مشاہدہ کیا اور ان کے درد و کرب کو محسوس کیا۔ گو کہ ان ادیبوں کو شاہانہ سرپرستی حاصل تھی، لیکن انھوں نے راجوں مہاراجوں کی قصیدہ نگاری کی بجائے سماج کے عام طبقات کی زندگی اور ان کے روزمرہ مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔[127] سنسکرت مصنفین کے برعکس جو بالعموم برہمن ہوا کرتے تھے، سنگم ادب کے تخلیق کاروں کا تعلق مختلف سماجی طبقوں سے تھا، وہ متنوع پس منظر کے حامل اور بیشتر غیر برہمن تھے۔ ان کا دھرم مختلف اور پیشے جدا جدا تھے۔ ان میں کاشت کار بھی تھے، دست کار بھی تھے، دکان دار، تاجر اور پروہت بھی تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور شاہزادے بھی تھے۔[127]

تقریباً 300 ق م سے 200 عیسوی تک پَتو پاٹّو، ایٹو توگئی اور پَتی نَینکل کنکّو لکھے جاتے رہے۔ پَتو پاٹّو اوسط لمبائی کی دس نظموں کا مجموعہ ہے اور سنگم ادب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایٹو توگئی میں آٹھ منتخب مجموعہ ہائے کلام کو یکجا کیا گیا ہے اور پَتی نَینکل کنکّو اٹھارہ مختصر نظموں کا مجموعہ ہے۔ نیز تمل زبان کے گرامر کی قدیم ترین کتاب تولکا پیئم بھی اسی دوران میں تصنیف کی گئی۔[128] علاوہ بریں سنگم عہد میں تمل ادب کے پانچ عظیم رزمیے (ائیم پیروم کاپّی یَنکَل) بھی تخلیق کیے گئے۔ سیلاپتی کارم کو ایلانگو ادیگل نے لکھا جو ایک غیر مذہبی رزمیہ ہے۔ اس رزمیہ کا مرکزی کردار کن نکی نامی ایک خاتون ہے جس کے ساتھ پانڈیہ دربار میں نا انصافی ہوتی ہے اور وہ اپنے شوہر سے علاحدہ ہو جاتی ہے۔ اس ظلم پر کن نکی کا جذبۂ انتقام بیدار ہوتا ہے اور سلطنت سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتی ہے۔[129] سیتَلئی ساتّنار نے منی میکالئی تصنیف کی جو دراصل سیلاپتی کارم ہی کا تسلسل ہے۔ اس میں کوولن کی بیٹی مادھوی کی کہانی نظم کی گئی ہے جو بودھ بھکشونی بن جاتی ہے۔[130][131]

کلاسیکی اور اوائل قرون وسطی کے ادوار (200 ق م تا 1200ء)[ترمیم]

تیسری صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی کا درمیانی عرصہ ہندوستان کا کلاسیکی دور کہلاتا ہے۔ یہ عہد موریہ سلطنت کے زوال سے شروع ہو کر گپت سلطنت کے زوال تک جاری رہا۔ اس دور کو مزید مختلف ذیلی ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں شونگ اور ساتواہن سلطنتوں کو عروج حاصل ہوا۔ چوتھی صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی تک گپت سلطنت قائم رہی۔ گپت سلطنت کا یہ دور ہندومت کی تاریخ کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے۔ کلاسیکی عہد کی اس پوری مدت میں مذکورہ سلطنتوں کے علاوہ ہندوستان کے مختلف خطوں پر دیگر متعدد سلطنتیں بھی حکمران رہیں اور انھوں نے پوری خود مختاری سے اپنی ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔ علاوہ بریں تیسری صدی ق م سے تیسری صدی عیسوی تک جنوبی ہندوستان میں سنگم ادب بھی نکھرتا اور ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ اس پورے عرصہ میں یعنی پہلی صدی عیسوی سے 1000 عیسوی تک ہندوستانی کی معیشت دنیا کی کل دولت کا ایک تہائی سے ایک چوتھائی حصہ رہی، اس لحاظ سے اُس وقت ہندوستان کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔

ابتدائی کلاسیکی دور (تقریباً 200 ق م تا تقریباً 320 عیسوی)[ترمیم]

شونگ سلطنت[ترمیم]

شونگ سلطنت
مشرقی گیٹ وے اور ریلنگ، بھرہوت استوپ، دوسری صدی قبل مسیح۔
شونگ سلطنت، پہلی صدی قبل مسیح

شونگ مگدھ سے اٹھے اور برصغیر ہند کے مشرقی اور وسطی علاقوں تک اپنی سلطنت قائم کر لی۔ ان کا عہد سلطنت تقریباً 187 ق م سے 78 ق م تک رہا۔ پشیہ متر شونگ نے موریا سلطنت کے آخری بادشاہ کو تخت و تاج سے بے دخل کر کے اس سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کا دار السلطنت پاٹلی پتر تھا لیکن آگے چل کر بعض شونگ بادشاہوں مثلاً بھگ بھدر وغیرہ نے ودیشا میں بھی اپنا دربار کیا جو اُس وقت بیس نگر کہلاتا تھا اور مشرقی مالوہ میں واقع تھا۔

پشیہ متر شونگ نے 36 برس حکومت کی۔ بعد ازاں اس کا بیٹا اگنی متر اس کا جانشین ہوا۔ کل دس شونگ بادشاہ گذرے ہیں لیکن اگنی متر کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ تیزی سے بکھرنے لگا۔ اس عہد کے کتبات اور سکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی اور وسطی ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی متعدد سلطنتیں اور بھی موجود تھیں جو شونگ کی بالادستی سے مکمل آزاد اور خود مختار تھیں۔ شونگ سلطنت اپنے دور حکمرانی میں بیرونی اور اندرونی دونوں طاقتوں سے نبرد آزما رہی۔ چنانچہ کلنگ کی مہامیگھ واہن سلطنت، دکن کی ساتواہن سلطنت، ہند یونانیوں اور غالباً پانچال اور متھرا کی متر سلطنت سے ان کی کئی جنگیں ہوئیں۔

فنون لطیفہ اور فلسفہ کی مختلف شکلیں اور تعلیم و تعلم کے دیگر وسائل بھی اس عہد میں پروان چڑھے جن میں کھپریلوں پر شبیہ سازی، پتھروں کے دیو ہیکل مجسمے اور تعمیراتی یادگاریں بھرہوت اور سانچی کے معروف استوپ وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ شونگ بادشاہوں نے فنون لطیفہ اور تعلیم کے فروغ کے لیے شاہی وظیفہ بھی جاری کیا اور اس روایت کو قائم کرنے میں ان کا بڑا حصہ رہا۔ امور سلطنت میں جس رسم الخط کو استعمال کیا جاتا تھا، وہ براہمی رسم الخط کی ایک شکل تھی جس میں سنسکرت لکھی جاتی۔ شونگ سلطنت نے ایسے وقت میں ہندوستانی ثقافت کے فروغ میں مربیانہ کردار نبھایا جب ہندو افکار میں بعض اہم ترین تغیرات رونما ہو رہے تھے۔ اس نے سلطنت کو پھلنے پھولنے اور اقتدار حاصل کرنے میں خاصی مدد کی۔

ساتواہن سلطنت[ترمیم]

ساتواہن سلاطین اصلاً دکنی تھے، اسی بنا پر وہ "آندھرا سلاطین" بھی کہلاتے ہیں۔ آندھرا پردیش کا مقام امراوتی ان کا دار السلطنت تھا لیکن مختلف ادوار میں ان کا پایۂ تخت تبدیل ہوتا رہا، کبھی جنر (پونہ) ان کا مستقر رہا، کبھی پرٹسٹھان (پئے ٹھن)، مہاراشٹر ان کا صدر مقام بنا۔ پہلی صدی ق م میں ان کی سلطنت کی بنیاد پڑی اور رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ پہلے یہ موریا سلطنت کے باج گزار تھے لیکن اس کے زوال کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور دکن کے نصف بالائی حصہ پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک قابض ہو گئے۔

ساتواہن سلاطین ہندومت اور بدھ مت کے بڑے سرپرست اور مربی گذرے ہیں۔ ان کی اسی سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ آج ایلورا سے امراوتی تک بدھ مت کی متعدد یادگاریں پائی جاتی ہیں۔ ساتواہن ان اولین ہندوستانی ریاستوں میں سے ہے جنھوں نے اپنے سکوں پر سلاطین کی شبیہ بنائی۔ نیز ان سلاطین نے سندھ و گنگ کے میدان اور جنوبی ہندوستان میں ایک تہذیبی پل کا کام کیا جس کی مدد سے شمالی ہند کے افکار و تصورات جنوب تک پہنچے۔ علاوہ بریں ساتواہن نے ان دونوں خطوں میں تجارتی روابط کے استحکام میں بھی خاصا اہم اور فعال کردار نبھایا۔

ساتواہن کو اپنے اقتدار کے استحکام کی خاطر شونگ اور مگدھ کی اُس وقت کی کَنَو سلطنت سے معرکہ آرائی بھی کرنا پڑی۔ آگے چل کر یہی سلطنت ہندوستان پر بیرونی حملوں کے سامنے مضبوط فصیل ثابت ہوئی اور ہندوستان کے بڑے حصے کو خارجی عناصر مثلاً شکوں، یونانیوں اور پہلووں کے ہاتھوں میں جانے سے محفوظ رکھا۔ بالخصوص مغربی شترپوں سے ان کی کشمکش طویل عرصہ تک جاری رہی۔ اور بالآخر ساتواہن سلاطین گوتمی پتر شاتکرنی اور یگیہ شری شاتکرنی جیسے بیرونی حملہ آوروں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ساتواہن سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔

ہندوستان کی تجارت اور سیاحت[ترمیم]

شاہراہ ریشم اور مسالوں کی تجارت کے قدیم تجارتی راستے جو ہندوستان کو قدیم دنیا سے جوڑتے تھے؛ ہندوستان اور عالمِ قدیم کی تہذیبوں کے درمیان میں افکار و اشیا کا تبادلہ بھی انھی راستوں سے ہوا کرتا تھا۔ زمینی راستے سرخ رنگ میں اور آبی گذر گاہیں نیلے رنگ میں دکھائی گئی ہیں۔
  • کیرالا کی مسالوں کی تجارت قدیم دنیا کے تاجروں کو کھینچ کھینچ کر ہندوستان لا رہی تھی۔ چنانچہ نئے سنگی دور کے نقوش و کتبات میں ایسے قرائن ہاتھ آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کا جنوب مشرقی ساحل موزریز تین ہزار ق م تک مسالوں کی تجارت کا عظیم الشان مرکز بن چکا تھا۔ نیز 562 ق م تک کوچی، کیرالا کی بندرگاہ پر اترنے والے سمیریوں اور یہودیہ سے آنے والے یہودی تاجروں کا باضابطہ تحریری سراغ ملتا ہے۔
  • پہلی صدی عیسوی کے آس پاس توما رسول بحری راستے سے ہندوستان پہنچا اور موزریز ساحل پر اترا۔ یہاں پہنچ کر توما نے سات گرجا گھروں کی بنیاد رکھی۔
  • پہلی یا دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت شاہ راہ ریشم سے چل کر چین میں داخل ہوا اور دونوں تہذیبوں کے میل جول سے متعدد چینی سیاحوں اور سادھوؤں کے دلوں میں ہندوستان کی سیاحت کا داعیہ پیدا ہوا۔ ہندوستان کی سیاحت کرنے والے چینیوں میں فاہیان، یی جنگ، سونگ یون اور ہیون سانگ قابل ذکر ہیں۔ ان سیاحوں نے برصغیر ہند کی سیاحت کے مفصل سفرنامے لکھے جن میں اس خطہ کے سیاسی اور سماجی حالات پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔
  • جنوب مشرقی ایشا میں قائم ہندو اور بدھ مت کے مذہبی ادارے بھی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں شریک نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں کے سرپرستوں نے ان کے تصرف میں خطیر رقمیں اس غرض سے دی تھیں کہ وہ اس سرمایہ کے ذریعہ مقامی معیشت کو پروان چڑھائیں اور اسے تجارت و صنعت کے فروغ کے لیے استعمال کریں۔ خصوصاً بدھ مت نے بحری تجارت کی گذر گاہوں سے خوب سفر کیا اور سکوں، فنون لطیفہ اور تعلیم و تعلم کے نظام کو فروغ دیتی رہی۔ مسالوں کے ہندوستانی تاجر اپنے ہندوستانی پکوانوں کو جنوب مشرقی ایشیا پہنچا آئے اور مقامی باشندوں کے درمیان میں جلد ہی یہ مسالے اور ان سے تیار کی جانے والی ترکاریاں ہاتھوں ہاتھ لی جانے لگیں۔
  • روم و یونان نے شاہراہ بخور اور ہند رومی شاہراہوں کے ذریعہ اپنی تجارت جاری رکھی۔ دوسری صدی ق م میں عدن وغیرہ کے عرب ساحلوں پر یونان اور ہندوستان کے بحری تاجروں کا آمنا سامنا ہوا اور باہمی تجارتی روابط استوار ہوئے۔ پہلے ہزارے میں ہندوستان کی آبی گذرگاہوں کا انتظام ہندوستانیوں اور حبشیوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیتا ہے جو اس وقت بحیرہ احمر کی سمندری تجارت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔

کُشان سلطنت[ترمیم]

کُجُل کڈفِسیس کشان سلطنت کا پہلا فرماں روا تھا۔ تقریباً پہلی صدی عیسوی کے وسط تک اس نے اپنی سلطنت کے رقبہ کو موجودہ افغانستان سے باہر برصغیر ہند کے شمال مغرب تک پھیلا دیا تھا۔ کشانیوں کے متعلق یہ گمان ہے کہ وہ تشاری زبان بولنے والے اور یوہژی اتحاد کے پانچ ارکان میں سے ایک تھے۔ کجل کڈفسیس کے پوتے کنشک اعظم کے دور حکومت تک افغانستان کے بیشتر حصہ پر کشان قابض ہو چکے تھے۔ پھر سلطنت کی فتوحات کا دائرہ شمالی ہندوستان کے خطے ساکیت اور وارانسی کے قریب واقع سارناتھ تک وسیع ہو گیا۔

شہنشاہ کنشک بدھ مت کا بڑا مربی تھا۔ لیکن جب کشان جنوب کی طرف بڑھے تو ان کے دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں میں نئی ہندو اکثریت کا عکس نمایاں ہونے لگا۔ اس کے باوصف بدھ مت کے استحکام میں کشانیوں کے غیر معمولی کردار کو فراموش نہیں جا سکتا۔ ہندوستان سے وسط ایشیا تک اور چین کی سرزمین پر بدھ مت کا استحکام انھی کشانیوں کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

مورخ ونسنٹ اسمتھ کنشک کے متعلق لکھتا ہے:

بدھ مت کی تاریخ میں کنشک نے اشوک ثانی کا کردار ادا کیا۔

علاوہ بریں کشانی فرماں رواؤں نے بحر ہند کی سمندری تجارت کو وادی سندھ کے ذریعہ شاہراہ ریشم کے کاروبار سے جوڑا اور دور دراز کے ممالک سے تجارت کی سرپرستی کی، بالخصوص چین اور روم کے مابین تجارت کی خوب ہمت افزائی کی۔ اس عہد میں گندھارا اور متھرا کے فنون بھی بہار دکھانے لگے تھے۔ ان میں نئے شگوفے کھلے، نئے غنچے چٹخے، نئے رجحان سامنے آئے اور یہ فنون اپنی جوبن پر آگئے۔

ہیو جارج رالنسن رقم طراز ہے:

کشانوں کا عہد گپت سلطنت کی تمہید تھا۔

تیسری صدی عیسوی تک پہنچتے پہنچتے کشانوں کی سلطنت بکھرنے لگی۔ ان کا آخری قابل ذکر بادشاہ واسو دیو اول تھا۔

کلاسیکی دور (320 عیسوی - 650 عیسوی)[ترمیم]

گپت سلطنت[ترمیم]

گپت سلطنت
320ء سے 550ء تک گپتا سلطنت کی توسیع
مہا بودھی مندر کی موجودہ عمارت جس کی تاریخ قدامت گپت عہد یعنی پانچویں صدی عیسوی تک پہنچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی مقام پر گوتھ بدھ کو پروانۂ نجات ملا تھا۔

گپت سلطنت کے عہد حکومت کو تہذیبی اور ثقافتی شعبوں خصوصاً ادب، فن تعمیر، سنگ تراشی اور نقاشی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔[132] اس عرصہ میں کالی داس، آریہ بھٹ، وراہ مہیر، وشنو شرما اور وتسیہ یان جیسی ذی علم ہستیاں ابھریں جنھوں نے علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور اپنے دیرپا نقوش چھوڑے۔ انھی وجوہ سے گپت عہد کو ہندوستانی ثقافت کی تاریخ کا اہم ترین موڑ سمجھا جاتا ہے۔ گپت سلاطین نے اپنی حکمرانی کو تقویت بخشنے اور ہندوؤں کی نگاہ میں اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ایک طرف ویدک امور انجام دیے اور دوسری جانب انھوں نے بدھ مت کو بھی اپنا سایۂ عاطفت عطا کیا جو برہمنی عقائد کے بالمقابل ایک متبادل نظام فکر کے روپ میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ نیز گپت سلطنت کے ابتدائی تین سلاطین چندر گپت اول، سمدر گپت اور چندر گپت دوم کے عہد میں ہونے والی لشکر کشی سے ہندوستان کا بڑا حصہ گپت سلطنت کے زیر نگین آگیا۔[133] اس عہد میں علوم و فنون اور سیاسی انتظام و انصرام نے نئی چوٹیاں سر کیں۔ مضبوط تجارتی تعلقات نے بھی اِس خطے کو ایک اہم تہذیبی مرکز بنانے میں خاصا بڑا کردار نبھایا اور قریبی ریاستوں اور حکومتوں مثلاً سمندری جنوب مشرقی ایشیا (برونائی، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور اور مشرقی تیمور)، نیز ہند چینی (کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، تھائی لینڈ اور ویت نام) وغیرہ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے[134] اور گپت سلطنت کی مدت حکمرانی امن و سکون اور چین و سلامتی میں ضرب المثل بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے چہرے پر اس عہد کو گپت سلطنت کا بوسۂ امن قرار دیا جاتا ہے۔

بعد میں آنے والے گپت سلاطین الچون ہن کی آمد تک اپنی سرحدوں کا کامیاب دفاع کرتے رہے۔ پانچویں صدی عیسوی کے نصف اول میں الچون ہن افغانستان کی سرزمین پر ابھرے اور بامیان کو اپنا دار الحکومت بنا کر گپت سلطنت کی شمال مغربی سرحدوں پر حملہ آور ہوئے۔[135] تاہم شمال کی اس شورش سے دکن سمیت جنوبی ہندوستان کے اکثر حصے عام طور پر محفوظ رہے۔[136][137]

گپت خاندان کی تباہی ان منگول قوموں کے ہاتھوں ہوئی جو ہن کہلاتی تھیں۔ یہ لوگ سفید رنگت کی وجہ سے سفید ہن کہلائے۔ ان کی ایک شاخ ایران میں مقیم ہو گئی جبکہ ایک گروہ ترکی چلا گیا اور ایک شاخ یورپ جا کر آباد ہو گئی۔ 450ء کے قریب یہ قبائل پنجاب کی سرزمین پر وارد ہوئے اور اسی جگہ بود و باش اختیار کر لی۔ یہاں سے چل کر یہ لوگ جمنا کی تلہٹی میں پہنچے اور اس وقت کے گپت راجا پر غالب آگئے۔ ان کے سردار کا نام تورمان تھا۔ اس نے 500ء کے قریب اپنے آپ کو مالوے کا راجا بنایا اور مہاراجا کہلوایا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مہر گل گدی پر بیٹھا۔ یہ بڑا بے رحم اور ظالم حکمران تھا۔ اس نے بے شمار افراد قتل کروائے۔ اس کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ گیا کہ بالآخر ہندوستان کے تمام بادشاہ مہر گل کے خلاف متحد ہوئے اور مگدھ کا راجا بالا دتیہ وسط ہند کے ایک راجا یسودھرمن کی مدد سے بڑی بھاری فوج لے کر اس کے مقابلے پر آیا۔ 528ء میں ملتان کے قریب کہروڑ کے مقام پر مہر گل کو شکست دی اور مہر گل اور اس کی فوج کو ہندوستان سے نکال دیا۔ مہر گل کشمیر چلا گیا، وہاں کے راجا نے اسے پناہ دی۔ ہن ہندوستان میں سو برس کے قریب رہے۔ روایات کے مطابق ہن قبائل نے بعد میں کاشتکاری کا پیشہ اختیار کر لیا۔ یہ لوگ زیادہ تر گایوں کی افزائش نسل کرتے تھے، اس لیے انھیں "گاؤ چر" کا خطاب ملا جو کثرت استعمال سے گجر بن گیا۔ انھوں نے ہندوستان میں گجرات، گوجرہ اور گوجرانوالہ کے شہر آباد کیے۔

کاماروپا سلطنت[ترمیم]

ہرش سلطنت[ترمیم]

ابتدائی قرون وسطی کا دور (وسط چھٹی صدی تا 1200 عیسوی)[ترمیم]

گرجر پرتیہار سلطنت[ترمیم]

چولا سلطنت[ترمیم]

قرون وسطی کا آخری دور (1200ء تا 1526ء)[ترمیم]

سلطنت دہلی[ترمیم]

تيرہويں صدی ميں شمالی ہند ميں دہلی سلطنت قائم ہوئی۔ اس کا آغاز خاندان غلاماں نے رکھا۔ اس کے بعد شمالی ہند کا تاج خلجی، تغلق، سيد اور پھر لودھی خاندانوں کے پاس گيا۔

اس دوران میں جنوبی ہند ميں باہمنی اور وجے نگر سلطنتیں قائم تھيں۔

وجے نگر سلطنت[ترمیم]

بھکتی تحریک اور سکھ مت[ترمیم]

دورِ جدید کی ابتدا (1526ء تا 1858ء)[ترمیم]

مغلیہ سلطنت[ترمیم]

مغلیہ سلطنت
مغلیہ سلطنت کا نقشہ اس کی سب سے بڑی جغرافیائی حدود تک، 1700 عیسوی
"تاج محل ہندوستان میں مسلم فن کا بہترین نمونہ اور دنیا کے ورثے کے عالمی سطح پر قابل تعریف شاہکاروں میں سے ایک ہے۔" یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ اعلان کردہ، 1983.[138]

سن 1526ء ميں شہنشاہ بابر نے دہلی پر قبضہ کر کے بر صغير ميں مغل سرکار کی بنياد رکھی۔ اس کے بعد تاج ہمايوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزيب کے پاس گيا۔ يہ دو سو سال بر صغير کا ايک سنہرا دور تھا۔ اس دور ميں علم و ادب اور فن نے بہت ترقی کی۔

اس دوران میں جنوبی ہند ميں ايک ايک کر کے مغلوں نے کئی علاقوں پر قبضہ کر ليا۔

دیگر مغل یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات
قلعہ آگرہ اور دریائے جمنا اور پس منظر میں تاج محل
قلعہ آگرہ اور دریائے جمنا اور پس منظر میں تاج محل 
فتح پور سیکری، آگرہ کے قریب، بلند دروازہ، کمپلیکس جو تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بنوایا تھا۔
فتح پور سیکری، آگرہ کے قریب، بلند دروازہ، کمپلیکس جو تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بنوایا تھا۔ 
مقبرہ ہمایوں دہلی میں، 1570 عیسوی میں بنایا گیا۔۔
مقبرہ ہمایوں دہلی میں، 1570 عیسوی میں بنایا گیا۔۔ 
لال قلعہ، دہلی، اس کی تعمیر 1639 عیسوی میں شروع ہوئی اور 1648 عیسوی میں ختم ہوئی۔
لال قلعہ، دہلی، اس کی تعمیر 1639 عیسوی میں شروع ہوئی اور 1648 عیسوی میں ختم ہوئی۔ 

مرہٹے اور سکھ[ترمیم]

مرہٹہ سلطنت[ترمیم]

سکھ سلطنت[ترمیم]

یورپی نوآبادیاتی دور[ترمیم]

ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج[ترمیم]

بر صغير ميں یورپی اثر سولہويں صدی سے بڑھتا جا رہا تھا۔ انگريزوں نے کئی علاقوں ميں حکومت کرنا شروع کر دی تھی۔ سن 1857ء ميں بر صغير کے لوگوں نے انگريزوں کے خلاف سب سے پہلی جنگ آزادی لڑی جس ميں وہ ہار گئے۔

سنہ 1947ء ميں برطانوی ہند کی تقسیم کے ساتھ پاکستان اور ہندوستان کو آزادی ملی۔ 1971ء ميں بنگلہ ديش پاکستان سے عليحدہ ہو گيا۔ 1972ء ميں سری لنکا کو مکمل آزادی مل گئی۔

جدید دور اور آزادی (1850 عیسوی کے بعد)[ترمیم]

جنگ آزادی ہند 1857ء اور نتائج[ترمیم]

چارلس کیننگ، بغاوت کے دوران میں گورنر جنرل ہند
چارلس کیننگ، بغاوت کے دوران میں گورنر جنرل ہند 
لارڈ ڈلہوزی، 1848ء سے 1856ء تک ہندوستان کا گورنر جنرل جس نے الحاق کی پالیسی بنائی
لارڈ ڈلہوزی، 1848ء سے 1856ء تک ہندوستان کا گورنر جنرل جس نے الحاق کی پالیسی بنائی 
رانی لکشمی بائی، بغاوت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک جو اس سے قبل الحاق کی پالیسی کے نتیجے میں اپنی بادشاہی کھو چکی تھی۔
رانی لکشمی بائی، بغاوت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک جو اس سے قبل الحاق کی پالیسی کے نتیجے میں اپنی بادشاہی کھو چکی تھی۔ 
بہادر شاہ ظفر آخری مغل شہنشاہ، باغیوں نے ہندوستان کے شہنشاہ کے طور پر تاج پوشی کی گئی، انگریزوں نے معزول کر دیا اور برما میں جلاوطنی میں انتقال کر گئے
بہادر شاہ ظفر آخری مغل شہنشاہ، باغیوں نے ہندوستان کے شہنشاہ کے طور پر تاج پوشی کی گئی، انگریزوں نے معزول کر دیا اور برما میں جلاوطنی میں انتقال کر گئے 

برطانوی راج (1858-1947ء)[ترمیم]

ہندوستانی نشاۃ ثانیہ[ترمیم]

سر سید احمد خان (1817–1898)، اسباب بغاوت ہند کے مصنف، جنھوں نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی۔
سر سید احمد خان (1817–1898)، اسباب بغاوت ہند کے مصنف، جنھوں نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی۔ 
پنڈتا رما بائی (1858–1922) ایک سماجی مصلح اور ہندوستان میں خواتین کی تعلیم اور آزادی کی علمبردار تھیں۔
پنڈتا رما بائی (1858–1922) ایک سماجی مصلح اور ہندوستان میں خواتین کی تعلیم اور آزادی کی علمبردار تھیں۔ 
رابندر ناتھ ٹیگور (1861–1941) بنگالی زبان شاعر، مختصر کہانی نویس، ڈراما نگار اور اس کے علاوہ ایک میوزک کمپوزر اور پینٹر، جنھوں نے 1913ء میں ادب کا نوبل انعام جیتا تھا۔
رابندر ناتھ ٹیگور (1861–1941) بنگالی زبان شاعر، مختصر کہانی نویس، ڈراما نگار اور اس کے علاوہ ایک میوزک کمپوزر اور پینٹر، جنھوں نے 1913ء میں ادب کا نوبل انعام جیتا تھا۔ 
رامانوجن (1887–1920) ایک ہندوستانی ریاضی دان تھا جس نے نظریۂ عدد میں بنیادی شراکت کی۔
رامانوجن (1887–1920) ایک ہندوستانی ریاضی دان تھا جس نے نظریۂ عدد میں بنیادی شراکت کی۔ 

قحط[ترمیم]

ہندوستان میں قحط کا نقشہ 1800ء–1885ء
ہندوستان میں قحط کا نقشہ 1800ء–1885ء 
دی گرافک سے کندہ کاری، اکتوبر 1877ء، عظیم قحط کے دوران میں بللاری ضلع، مدراس پریزیڈنسی، برطانوی ہند میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی حالت زار کو ظاہر کرنا۔
دی گرافک سے کندہ کاری، اکتوبر 1877ء، عظیم قحط کے دوران میں بللاری ضلع، مدراس پریزیڈنسی، برطانوی ہند میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی حالت زار کو ظاہر کرنا۔ 
حکومتی قحط کی امداد، احمد آباد، بھارت، 1899ء-1900ء کا ہندوستانی قحط کے دوران۔
حکومتی قحط کی امداد، احمد آباد، بھارت، 1899ء-1900ء کا ہندوستانی قحط کے دوران۔ 
بنگال کا قحط 1943ء کے بعد زندہ بچ جانے والے یتیموں کی تصویر
بنگال کا قحط 1943ء کے بعد زندہ بچ جانے والے یتیموں کی تصویر 

پہلی جنگ عظیم[ترمیم]

مغربی محاذ پر ہندوستانی کیولری 1914ء۔
مغربی محاذ پر ہندوستانی کیولری 1914ء۔ 
1916 میں بازینٹن رج کی جنگ کے دوران میں دکن ہارس سے ہندوستانی گھڑسوار دستہ۔
1916 میں بازینٹن رج کی جنگ کے دوران میں دکن ہارس سے ہندوستانی گھڑسوار دستہ۔ 
ہندوستانی فوج کے گنرز (شاید 39ویں بیٹری) 3.7 انچ ماؤنٹین ہووٹزر کے ساتھ، یروشلم 1917۔
ہندوستانی فوج کے گنرز (شاید 39ویں بیٹری) 3.7 انچ ماؤنٹین ہووٹزر کے ساتھ، یروشلم 1917۔ 
باب ہند برطانوی ہندی فوج کے 70,000 فوجیوں کی یادگار جن کا انتقال 1914-21ء کے عرصے میں پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ہوا۔
باب ہند برطانوی ہندی فوج کے 70,000 فوجیوں کی یادگار جن کا انتقال 1914-21ء کے عرصے میں پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ہوا۔ 

دوسری جنگ عظیم[ترمیم]

جنرل کلاڈ آچنلیک (دائیں)، ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف، اس وقت کے گورنر جنرل ہند آرچیبالڈ ویول (وسط) اور جنرل برنارڈ مونٹگمری (بائیں)
جنرل کلاڈ آچنلیک (دائیں)، ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف، اس وقت کے گورنر جنرل ہند آرچیبالڈ ویول (وسط) اور جنرل برنارڈ مونٹگمری (بائیں) 
برطانوی ہندوستانی فوج کے سکھ سپاہیوں کا جاپانیوں کے ہاتھوں قتل کیا جا رہا ہے۔ (امپیریل وار میوزیم، لندن)
برطانوی ہندوستانی فوج کے سکھ سپاہیوں کا جاپانیوں کے ہاتھوں قتل کیا جا رہا ہے۔ (امپیریل وار میوزیم، لندن
ساتویں راجپوت رجمنٹ کی ہندوستانی پیادہ فوجی برما، 1944 میں اراکان محاذ پر گشت پر جانے والے ہیں۔
ساتویں راجپوت رجمنٹ کی ہندوستانی پیادہ فوجی برما، 1944 میں اراکان محاذ پر گشت پر جانے والے ہیں۔ 
دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کی یاد میں برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ سیریز "فتح"۔
دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کی یاد میں برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ سیریز "فتح"۔ 

ہندوستانی تحریک آزادی (1885-1947ء)[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم کے بعد (1946–1947)[ترمیم]

بحریہ کی بغاوت کا مجسمہ، کولابا، ممبئی

آزادی اور تقسیم (1947 تا حال)[ترمیم]

1909 کی ہندوستانی مردم شماری کی بنیاد پر ضلع وار اکثریت پر مبنی برطانوی ہندوستانی سلطنت کے مروجہ مذاہب کا نقشہ، جو معجم سلطانی ہند میں شائع ہوا۔ خطۂ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ایسی ہی اکثریت پر مبنی تھی۔
1909 کی ہندوستانی مردم شماری کی بنیاد پر ضلع وار اکثریت پر مبنی برطانوی ہندوستانی سلطنت کے مروجہ مذاہب کا نقشہ، جو معجم سلطانی ہند میں شائع ہوا۔ خطۂ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ایسی ہی اکثریت پر مبنی تھی۔ 
گاندھی کا دورہ بیلا، بہار، مارچ 1947ء میں مذہبی فسادات کا شکار ایک گاؤں۔ دائیں طرف خان عبد الغفار خان ہیں۔
گاندھی کا دورہ بیلا، بہار، مارچ 1947ء میں مذہبی فسادات کا شکار ایک گاؤں۔ دائیں طرف خان عبد الغفار خان ہیں۔ 
15 اگست 1947ء کو صبح 8:30 بجے وائسرائے لوئس ماؤنٹ بیٹن آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے حلف لے رہے ہیں۔
15 اگست 1947ء کو صبح 8:30 بجے وائسرائے لوئس ماؤنٹ بیٹن آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے حلف لے رہے ہیں۔ 

تاریخ نگاری[ترمیم]

حالیہ دہائیوں میں تاریخ نگاری کے چار اہم مکاتب ہیں کہ مورخین کس طرح ہندوستان کا مطالعہ کرتے ہیں: کیمبرج، نیشنلسٹ، مارکسی اور سبالٹرن۔ ایک زمانے میں عام "مشرقی" نقطہ نظر جس کی اپنی حس، عسیر الفہم اور مکمل روحانی ہندوستان کی تصویر تھی، سنجیدہ علمی وظائف میں ختم ہو چکی ہے۔ [139]

"کیمبرج مکتب فکر" جس کی قیادت انیل سیل، [140] گورڈن جانسن، [141] رچرڈ گورڈن اور ڈیوڈ اے واشبروک، [142] کر رہے ہیں، نظریات کی نفی کرتے ہیں۔۔ تاہم تاریخ نگاری کے اس مکتب پر مغربی تعصب یا یورو سینٹرزم کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ [143]

"نیشنلسٹ مکتب فکر" نے کانگریس، گاندھی، نہرو اور اعلیٰ سطح کی سیاست پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس نے 1857ء کے بغاوت کو آزادی کی جنگ کے طور پر اجاگر کیا اور 1942ء میں شروع ہونے والی گاندھی کی تحریک 'ہندوستان چھوڑ دو' کو تاریخی واقعات کی وضاحت کے طور پر لکھا۔ تاریخ نگاری کے اس مکتب کو اشرافیت پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ [144]

"مارکسی مکتب فکر" نے نوآبادیاتی دور میں معاشی ترقی، زمین کی ملکیت اور طبقاتی کشمکش اور نوآبادیاتی دور میں غیر صنعتی ہونے کے مطالعے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ مارکسیوں نے گاندھی کی تحریک کو بورژوا اشرافیہ کے آلہ کار کے طور پر پیش کیا تاکہ مقبول، ممکنہ طور پر انقلابی قوتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ایک بار پھر، مارکسیوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی طور پر "بہت زیادہ" متاثر ہیں۔ [145]

"سبلٹرن مکتب فکر" کی شروعات 1980ء کی دہائی میں رنجیت گوہا اور گیان پرکاش نے کی تھی۔ [146] یہ اشرافیہ اور سیاست دانوں سے ہٹ کر "نیچے سے تاریخ" کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے، کسانوں کی لوک داستانوں، شاعری، پہیلیوں، کہاوتوں، گانوں، زبانی تاریخ اور بشریات سے متاثر طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ 1947ء سے پہلے کے نوآبادیاتی دور پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور عام طور پر ذات پات اور طبقے کو کم کرنے پر زور دیتا ہے، تاکہ سبلٹرن مکتب فکر کو ناگواری ہو۔ [147]

ابھی حال ہی میں ہندو قوم پرستوں نے ہندوستانی معاشرے میں ہندوتوا کو اپنے مطالبات کی حمایت کے لیے تاریخ کا ایک نسخہ تیار کیا ہے۔ یہ مکتب فکر ابھی ترقی کے مراحل میں ہے۔ [148] مارچ 2012ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں تقابلی مذہب اور مطالعہ ہند کی پروفیسر، ڈیانا ایل۔ ایک نے اپنی کتاب "ہندوستان: ایک مقدس جغرافیہ" (India: A Sacred Geography) میں لکھاہے کہ "ہندوستان کا تصور انگریزوں یا مغلوں سے بہت پہلے کا ہے۔ یہ صرف علاقائی شناختوں کا ایک جھرمٹ نہیں تھا اور یہ گروہی یا نسلی نہیں تھا۔" [149][150][151][152]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

حواشی[ترمیم]

  1. (جنھیں "رتھ" کہا جا رہا ہے) اُن چھکڑوں کے پہیوں میں کوئی ارّا نہیں ہے جیسا کہ ویدک ادب میں مذکور رتھوں میں پایا جاتا ہے۔[56]
  2. وادی سندھ کی تہذیب کا زمانہ "پہلی شہر کاری" کا عہد کہلاتا ہے۔[81]

مراجع[ترمیم]

  1. Michael D. Petraglia، Bridget Allchin (2007)۔ The Evolution and History of Human Populations in South Asia: Inter-disciplinary Studies in Archaeology, Biological Anthropology, Linguistics and Genetics۔ Springer Science & Business Media۔ صفحہ: 6۔ ISBN 978-1-4020-5562-1  Quote: "Y-Chromosome and Mt-DNA data support the colonization of South Asia by modern humans originating in Africa. … Coalescence dates for most non-European populations average to between 73–55 ka."
  2. ^ ا ب پ Rita P. Wright (26 اکتوبر 2009)۔ The Ancient Indus: Urbanism, Economy and Society۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 44, 51۔ ISBN 978-0-521-57652-9 
  3. Rita P. Wright (2009)، The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society، Cambridge University Press، صفحہ: 115–125، ISBN 978-0-521-57652-9 
  4. ^ ا ب پ Gavin Dennis Flood (13 جولائی 1996)۔ An Introduction to Hinduism۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 82۔ ISBN 978-0-521-43878-0 
  5. Flood, Gavin. Olivelle, Patrick. 2003. The Blackwell Companion to Hinduism۔ Malden: Blackwell. pp. 273–274
  6. Researches Into the History and Civilization of the Kirātas by G. P. Singh p. 33
  7. A Social History of Early India by Brajadulal Chattopadhyaya p. 259
  8. ^ ا ب Technology and Society by Menon, R.V.G. p. 15
  9. The Political Economy of Craft Production: Crafting Empire in South India، by Carla M. Sinopoli, p. 201
  10. Science in India by B.V. Subbarayappa
  11. The Cambridge History of Southeast Asia: From Early Times to c. 1800، Band 1 by Nicholas Tarling، p. 281
  12. Flood, Gavin. Olivelle, Patrick. 2003. The Blackwell Companion to Hinduism۔ Malden: Blackwell. pp. 273–274.
  13. Ancient Indian History and Civilization by Sailendra Nath Sen p. 281
  14. Societies, Networks, and Transitions، Volume B: From 600 to 1750 by Craig Lockard p. 333
  15. Power and Plenty: Trade, War, and the World Economy in the Second Millennium by Ronald Findlay, Kevin H. O'Rourke p. 67
  16. Essays on Ancient India by Raj Kumar p. 199
  17. البدایہ و النہایہ جلد: 7 ص 141، "فتح مکران"
  18. Meri 2005, p. 146.
  19. The Princeton Encyclopedia of Islamic Political Thought: p. 340
  20. Pushkar Sohoni (2018)۔ The Architecture of a Deccan Sultanate: Courtly Practice and Royal Authority in Late Medieval India۔ London: I.B. Tauris۔ ISBN 978-1-78453-794-4 
  21. Richard M. Eaton (31 جولائی 1996)۔ The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204–1760۔ University of California Press۔ صفحہ: 64–۔ ISBN 978-0-520-20507-9 
  22. Prasannan Parthasarathi (2011)، Why Europe Grew Rich and Asia Did Not: Global Economic Divergence, 1600–1850، Cambridge University Press، صفحہ: 39–45، ISBN 978-1-139-49889-0 
  23. Maddison, Angus (2003): Development Centre Studies The World Economy Historical Statistics: Historical Statistics، انجمن اقتصادی تعاون و ترقی، آئی ایس بی این 9264104143، pp. 259–261
  24. Lawrence E. Harrison، Peter L. Berger (2006)۔ Developing cultures: case studies۔ روٹلیج۔ صفحہ: 158۔ ISBN 978-0-415-95279-8 
  25. Ian Copland، Ian Mabbett، Asim Roy، وغیرہ (2012)۔ A History of State and Religion in India۔ Routledge۔ صفحہ: 161 
  26. History of Mysore Under Hyder Ali and Tippoo Sultan by Joseph Michaud p. 143
  27. Paul S.C. Taçon (2018)، "The Rock Art of South and East Asia"، $1 میں Bruno David, Ian J. McNiven، The Oxford Handbook of the Archaeology and Anthropology of Rock Art، Oxford University Press، صفحہ: 181–، ISBN 978-0-19-084495-0 
  28. Steven J. Mithen (2006)، After the Ice: A Global Human History, 20,000-5000 BC، Harvard University Press، صفحہ: 411–، ISBN 978-0-674-01999-7 
  29. Upinder Singh 2008, p. 89.
  30. Meenakshi Dubey-Pathak (2014)، "The Rock Art of the Bhimbetka Area in India" (PDF)، Adoranten: 16, 19 
  31. Chauhan 2010, p. 147.
  32. ^ ا ب پ Petraglia & Allchin 2007, pp. 5–6.
  33. ^ ا ب پ Petraglia 2010, pp. 167–170.
  34. Tim Murray (1999)۔ Time and Archaeology۔ London: روٹلیج۔ صفحہ: 84۔ ISBN 978-0-415-11762-3 
  35. ^ ا ب پ ت Chauhan 2010, pp. 147–160.
  36. Tim Dyson (2018)۔ A Population History of India: From the First Modern People to the Present Day۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 1۔ ISBN 978-0-19-882905-8 
  37. Petraglia & Allchin 2007, p. 6.
  38. Michael H. Fisher (18 اکتوبر 2018)۔ An Environmental History of India: From Earliest Times to the Twenty-First Century۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 23۔ ISBN 978-1-107-11162-2 
  39. Claudio Tuniz، Richard Gillespie، Cheryl Jones (16 جون 2016)۔ The Bone Readers: Science and Politics in Human Origins Research۔ روٹلیج۔ صفحہ: 163–۔ ISBN 978-1-315-41888-9 
  40. Michael D. Petraglia، Michael Haslam، Dorian Q. Fuller، Nicole Boivin، Chris Clarkson (25 مارچ 2010)۔ "Out of Africa: new hypotheses and evidence for the dispersal of Homo sapiens along the Indian Ocean rim" (PDF)۔ Annals of Human Biology۔ 37 (3): 288–311۔ PMID 20334598۔ doi:10.3109/03014461003639249 
  41. Paul Mellars، Kevin C. Gori، Martin Carr، Pedro A. Soares، Martin B. Richards (25 جون 2013)۔ "Genetic and archaeological perspectives on the initial modern human colonization of southern Asia"۔ Proceedings of the National Academy of Sciences۔ 110 (26): 10699–10704۔ Bibcode:2013PNAS.۔11010699M تأكد من صحة قيمة |bibcode= length (معاونت)۔ PMC 3696785Freely accessible۔ PMID 23754394۔ doi:10.1073/pnas.1306043110Freely accessible 
  42. ^ ا ب Tim Dyson (2018)۔ A Population History of India: From the First Modern People to the Present Day۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-0-19-882905-8 
  43. Tim Dyson (2018)۔ A Population History of India: From the First Modern People to the Present Day۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 4–5۔ ISBN 978-0-19-882905-8 
  44. ^ ا ب Michael H. Fisher (18 اکتوبر 2018)۔ An Environmental History of India: From Earliest Times to the Twenty-First Century۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-1-107-11162-2 
  45. Suichi Takezawa۔ "Stepwells – Cosmology of Subterranean Architecture as seen in Adalaj" (PDF)۔ The Diverse Architectural World of the Indian Sub-Continent۔ III۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2009 
  46. Rita P. Wright (13 مئی 2010)۔ The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 1۔ ISBN 978-0-521-57652-9 
  47. Jane McIntosh (2008)۔ The Ancient Indus Valley: New Perspectives۔ ABC-Clio۔ صفحہ: 387۔ ISBN 978-1-57607-907-2 
  48. Early India: A Concise History، D.N. Jha, 2004, p. 31
  49. Anindya Sarkar، Arati Deshpande Mukherjee، M. K. Bera، B. Das، Navin Juyal، P. Morthekai، R. D. Deshpande، V. S. Shinde، L. S. Rao (May 2016)۔ "Oxygen isotope in archaeological bioapatites from India: Implications to climate change and decline of Bronze Age Harappan civilization"۔ Scientific Reports۔ 6 (1): 26555۔ Bibcode:2016NatSR.۔.626555S تأكد من صحة قيمة |bibcode= length (معاونت)۔ PMC 4879637Freely accessible۔ PMID 27222033۔ doi:10.1038/srep26555Freely accessible 
  50. Vijay Kumar۔ "A note on Chariot Burials found at Sinauli district Baghpat U.P" (PDF)۔ Indian Journal of Archaeology 
  51. Upinder Singh (2008)۔ A History of Ancient and Early Medieval India: From the Stone Age to the 12th Century۔ Pearson Education India۔ ISBN 9788131711200۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2018 – Google Books سے 
  52. Asko Parpola (2020)۔ "Royal "Chariot" Burials of Sanauli near Delhi and Archaeological Correlates of Prehistoric Indo-Iranian Languages"۔ Studia Orientalia Electronica۔ 8: 176۔ doi:10.23993/store.98032Freely accessible 
  53. Shoaib Daniyal (2018)۔ "Putting the horse before the cart: What the discovery of 4,000-year-old 'chariot' in UP signifies"۔ اسکرول ڈاٹ ان 
  54. Devdutt Pattanaik (2020)۔ "Who is a Hindu? The missing horse of Baghpat"۔ Mumbai Mirror 
  55. Parpola 2020.
  56. Antonova, Bongard-Levin & Kotovsky 1979, p. 51.
  57. Lynn MacKenzie (1995)۔ Non-Western Art: A Brief Guide۔ Prentice Hall۔ صفحہ: 151 
  58. Romila Thapar, A History of India: Part 1، pp. 29–30.
  59. ^ ا ب Upinder Singh 2008, p. 255.
  60. Frits Staal (1986)، The Fidelity of Oral Tradition and the Origins of Science، Mededelingen der Koninklijke Nederlandse Akademie von Wetenschappen, Afd. Letterkunde, NS 49, 8. Amsterdam: North Holland Publishing Company, 40 pages 
  61. Burton Stein (2010)۔ مدیر: David Arnold۔ A History of India (2nd ایڈیشن)۔ Oxford: Wiley-Blackwell۔ صفحہ: 47۔ ISBN 978-1-4051-9509-6 
  62. Kulke & Rothermund 2004, p. 31.
  63. K. C. Singhal، Roshan Gupta (2003)۔ The Ancient History of India, Vedic Period: A New Interpretation۔ New Delhi: Atlantic Publishers & Distributors۔ صفحہ: 150–151.۔ ISBN 81-269-0286-8۔ OCLC 53360586 
  64. Terence P. Day (1982)۔ The Conception of Punishment in Early Indian Literature۔ Ontario: Wilfrid Laurier University Press۔ صفحہ: 42–45۔ ISBN 978-0-919812-15-4 
  65. William Duiker، Jackson Spielvogel (2012)۔ World History۔ Cengage learning۔ صفحہ: 90 [آئی ایس بی این غیرموجود]
  66. James Melvin Nelson (2009)۔ Psychology, Religion, and Spirituality۔ Springer۔ صفحہ: 77 
  67. Gavin Dennis Flood (13 جولائی 1996)۔ An Introduction to Hinduism۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 37۔ ISBN 978-0-521-43878-0 
  68. "India: The Late 2nd Millennium and the Reemergence of Urbanism"۔ دائرۃ المعارف بریٹانیکا۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2007 
  69. ^ ا ب Reddy 2003, p. A11.
  70. ^ ا ب مائیکل وٹزیل (1989)، Tracing the Vedic dialects in Dialectes dans les litteratures Indo-Aryennes ed. Caillat، Paris, 97–265.
  71. Samuel 2010, p. 48–51, 61–93.
  72. Kulke & Rothermund 2004, pp. 41–43.
  73. Upinder Singh 2008, p. 200.
  74. Charles Rockwell Lanman (1912)۔ A Sanskrit reader: with vocabulary and notes۔ Boston: Ginn & Co.۔ … jána, m. creature; man; person; in plural, and collectively in singular, folks; a people or race or tribe … cf. γένος، Lat. genus, Eng. kin, 'race' … [آئی ایس بی این غیرموجود]
  75. Stephen Potter، Laurens Christopher Sargent (1974)۔ Pedigree: The Origins of Words from Nature۔ Taplinger Publishing Company۔ ISBN 978-0-8008-6248-0۔ … *gen-، found in Skt. jana, 'a man'، and Gk. genos and L. genus, 'a race' … 
  76. Abhijit Basu (2013)۔ Marvels and Mysteries of the Mahabharata۔ Leadstart publishing۔ صفحہ: 153 [آئی ایس بی این غیرموجود]
  77. ^ ا ب پ ت ٹ Michael Witzel (1995)۔ "Early Sanskritization. Origins and Development of the Kuru State"۔ Electronic Journal of Vedic Studies۔ 1 (4): 1–26۔ doi:10.11588/ejvs.1995.4.823۔ 07 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2022 
  78. Samuel 2010, pp. 45–51.
  79. H.C. Raychaudhuri (1950)، Political History of Ancient India and Nepal، Calcutta: University of Calcutta, p. 58
  80. ^ ا ب پ Samuel 2010.
  81. James Heitzman (31 مارچ 2008)۔ The City in South Asia۔ روٹلیج۔ صفحہ: 12–13۔ ISBN 978-1-134-28963-9 
  82. Samuel 2010, pp. 42–48.
  83. ^ ا ب Samuel 2010, pp. 48–51.
  84. "The beginning of the historical period, c. 500–150 BCE"۔ دائرۃ المعارف بریٹانیکا۔ 2015 
  85. Samuel 2010, p. 61.
  86. Samuel 2010, p. 49.
  87. Juan Mascaró (30 نومبر 1965)۔ The Upanishads۔ پینگوئن (ادارہ)۔ صفحہ: 7–۔ ISBN 978-0-14-044163-5 
  88. Patrick Olivelle (2008)۔ Upaniṣads۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: xxiv–xxix۔ ISBN 978-0-19-954025-9 
  89. J. Gordon Melton، Martin Baumann (21 ستمبر 2010)۔ Religions of the World, Second Edition: A Comprehensive Encyclopedia of Beliefs and Practices۔ ABC-Clio۔ صفحہ: 1324۔ ISBN 978-1-59884-204-3 
  90. Flood, Gavin. Olivelle, Patrick. 2003. The Blackwell Companion to Hinduism۔ Malden: Blackwell. pp. 273–274. "The second half of the first millennium BC was the period that created many of the ideological and institutional elements that characterize later Indian religions. The renouncer tradition played a central role during this formative period of Indian religious history. ۔.۔ Some of the fundamental values and beliefs that we generally associate with Indian religions in general and Hinduism, in particular, were in part the creation of the renouncer tradition. These include the two pillars of Indian theologies: samsara—the belief that life in this world is one of suffering and subject to repeated deaths and births (rebirth); moksa/nirvana—the goal of human existence.۔.۔."
  91. Laumakis, Stephen. An Introduction to Buddhist philosophy۔ 2008. p. 4
  92. Mary Pat Fisher (1997) In: Living Religions: An Encyclopedia of the World's Faiths I.B. Tauris : London آئی ایس بی این 1-86064-148-2 Jainism's major teacher is the Mahavira, a contemporary of the Buddha, and who died approximately 526 BC۔ p. 114
  93. Mary Pat Fisher (1997) In: Living Religions: An Encyclopedia of the World's Faiths I.B. Tauris : London آئی ایس بی این 1-86064-148-2 '"The extreme antiquity of Jainism as a non-Vedic, indigenous Indian religion is well documented. Ancient Hindu and Buddhist scriptures refer to Jainism as an existing tradition which began long before Mahavira." p. 115
  94. Valmiki (10 اپریل 1990)۔ مدیران: Robert P. Goldman، Sheldon Pollock۔ The Ramayana of Valmiki: An Epic of Ancient India, Volume 1: Balakanda۔ Ramayana of Valmiki۔ Princeton, New Jersey: مطبع جامعہ پرنسٹن۔ صفحہ: 23۔ ISBN 978-0-691-01485-2 
  95. Romila Thapar, A History of India Part 1، p. 31.
  96. ^ ا ب Upinder Singh 2008, pp. 18–21.
  97. J. L. Brockington (1998)۔ The Sanskrit epics, Part 2۔ 12۔ Brill۔ صفحہ: 21۔ ISBN 978-90-04-10260-6 
  98. Upinder Singh 2008, pp. 260–264.
  99. Anguttara Nikaya I. p. 213; IV. pp. 252, 256, 261.
  100. ^ ا ب Reddy 2003, p. A107.
  101. ^ ا ب Romila Thapar (2002)۔ Early India: From the Origins to AD 1300۔ University of California Press۔ صفحہ: 146–150۔ ISBN 978-0-520-24225-8۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2013 
  102. Raychaudhuri Hemchandra (1972)، Political History of Ancient India، Calcutta: University of Calcutta, p. 107
  103. Republics in ancient India۔ Brill Archive۔ صفحہ: 93–۔ GGKEY:HYY6LT5CFT0 
  104. J.M. Kenoyer (2006)، "Cultures and Societies of the Indus Tradition. In Historical Roots" in the Making of 'the Aryan، R. Thapar (ed.)، pp. 21–49. New Delhi, National Book Trust.
  105. Shaffer, Jim. 1993, "Reurbanization: The eastern Punjab and beyond"۔ In Urban Form and Meaning in South Asia: The Shaping of Cities from Prehistoric to Precolonial Times، ed. H. Spodek and D.M. Srinivasan.
  106. Ramesh Chandra Majumdar (1977)۔ Ancient India (8th ایڈیشن)۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-0436-4 
  107. "Magadha Empire – Magadha Empire in India, History of Magadh Empire"۔ www.iloveindia.com 
  108. "Lumbini Development Trust: Restoring the Lumbini Garden"۔ lumbinitrust.org۔ 6 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2017 
  109. Mookerji 1988, pp. 28–33.
  110. Upinder Singh 2008, p. 273.
  111. Mookerji 1988, p. 34.
  112. ^ ا ب پ K. A. Nilakanta Sastri، مدیر (1988) [First published 1952]۔ Age of the Nandas and Mauryas (2nd ایڈیشن)۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 16۔ ISBN 978-81-208-0465-4 
  113. Richard A. Gabriel (2002)، The Great Armies of Antiquity (1.udg. ایڈیشن)، Westport, Conn. [u.a.]: Praeger، صفحہ: 218، ISBN 978-0-275-97809-9، 5 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  114. Hem Chandra Raychaudhuri، Bratindra Nath Mukherjee (1996) [First published 1923]۔ Political History of Ancient India: From the Accession of Parikshit to the Extinction of the Gupta Dynasty (8th ایڈیشن)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 204–210۔ ISBN 978-0-19-563789-2 
  115. Peter Turchin، Jonathan M. Adams، Thomas D. Hall (دسمبر 2006)۔ "East–West Orientation of Historical Empires"۔ Journal of World-Systems Research۔ 12 (2): 223۔ ISSN 1076-156X۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2016 
  116. Romila Thapar۔ A History of India: Volume 1۔ صفحہ: 70 
  117. ^ ا ب Thapar 2003, pp. 178–180.
  118. ^ ا ب Thapar 2003, pp. 204–206.
  119. Shirin Bhandari (5 جنوری 2016)۔ "Dinner on the Grand Trunk Road"۔ Roads & Kingdoms (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولائی 2016 
  120. Kulke & Rothermund 2004, p. 67.
  121. Romila Thapar۔ A History of India: Volume 1۔ صفحہ: 78 
  122. Antonova, Bongard-Levin & Kotovsky 1979, p. 91.
  123. Elizabeth S. Rosen (1975)۔ "Prince ILango Adigal, Shilappadikaram (The anklet Bracelet)، translated by Alain Damelou. Review."۔ Artibus Asiae۔ 37 (1/2): 148–150۔ JSTOR 3250226۔ doi:10.2307/3250226 
  124. Sen 1999, pp. 204–205.
  125. Essays on Indian Renaissance by Raj Kumar p. 260
  126. ^ ا ب The First Spring: The Golden Age of India by Abraham Eraly p. 655
  127. * Zvelebil, Kamil. 1973. The smile of Murugan on Tamil literature of South India. Leiden: Brill. Zvelebil dates the Ur-Tholkappiyam to the 1st or 2nd century BCE
  128. "Silappathikaram Tamil Literature"۔ Tamilnadu.com۔ 22 جنوری 2013۔ 11 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  129. Mukherjee 1999, p. 277
  130. "Cittalaiccattanar (c. 500): Manimekalai"۔ gretil.sub.uni-goettingen.de 
  131. "Gupta dynasty: empire in 4th century"۔ Encyclopædia Britannica۔ 30 مارچ 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2010 
  132. "The Story of India – Photo Gallery"۔ PBS۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2010 
  133. Bernard Philippe Groslier (1962)۔ The art of Indochina: including Thailand, Vietnam, Laos and Cambodia۔ Crown Publishers 
  134. Iaroslav Lebedynsky, Les Nomades، p. 172.
  135. Early History of India، p. 339, Dr V.A. Smith; See also Early Empire of Central Asia (1939)، W.M. McGovern.
  136. Ancient India، 2003, p. 650, Dr V.D. Mahajan; History and Culture of Indian People, The Age of Imperial Kanauj، p. 50, Dr رامیش چندر مجمدار، Dr A.D. Pusalkar.
  137. UNESCO World Heritage Centre۔ "Taj Mahal"۔ UNESCO World Heritage Centre 
  138. Gyan Prakash (اپریل 1990)۔ "Writing Post-Orientalist Histories of the Third World: Perspectives from Indian Historiography"۔ Comparative Studies in Society and History۔ 32 (2): 383–408۔ JSTOR 178920۔ doi:10.1017/s0010417500016534 
  139. Anil Seal, The Emergence of Indian Nationalism: Competition and Collaboration in the Later Nineteenth Century (1971)
  140. Gordon Johnson, Provincial Politics and Indian Nationalism: Bombay and the Indian National Congress 1880–1915 (2005)
  141. Rosalind O'Hanlon and David Washbrook, eds. Religious Cultures in Early Modern India: New Perspectives (2011)
  142. Hostettler, N. (2013)۔ Eurocentrism: a marxian critical realist critique۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-1-135-18131-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2017 
  143. "Ranjit Guha, "On Some Aspects of Historiography of Colonial India"" (PDF) 
  144. Amiya Kumar Bagchi (جنوری 1993)۔ "Writing Indian History in the Marxist Mode in a Post-Soviet World"۔ Indian Historical Review۔ 20 (1/2): 229–244 
  145. Gyan Prakash (دسمبر 1994)۔ "Subaltern studies as postcolonial criticism"۔ American Historical Review۔ 99 (5): 1475–1500۔ JSTOR 2168385۔ doi:10.2307/2168385 
  146. John Roosa (2006)۔ "When the Subaltern Took the Postcolonial Turn"۔ Journal of the Canadian Historical Association۔ 17 (2): 130–147۔ doi:10.7202/016593ar 
  147. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  148. Mridula Chari۔ "Harvard scholar says the idea of India dates to a much earlier time than the British or the Mughals"۔ Scroll.in 
  149. Sudheendra Kulkarni جون 9، 2012 ISSUE DATE جون 18، 2012UPDATED جون 15، 2012 19:28 Ist۔ "Review of Diana L.Eck's India: A Sacred Geography"۔ India Today 
  150. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  151. William Dalrymple (27 جولائی 2012)۔ "India: A Sacred Geography by Diana L Eck – review"۔ The Guardian