اشرف علی بستوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اشرف علی بستوی
پیدائشاشرف علی
22 مارچ 1978ء
ضلع بستی (سنت کبیر نگر ) یوپی، انڈیا
رہائشنئی دہلی، صوبۂ دہلی
پیشہادب سے وابستگی صحافت
وجہِ شہرتصحافی
مذہباسلام
شریک حیاتزینب
اولادایک بیٹا محمد انس ، تین بیٹیاں عائشہ ،کلثوم ،سمیہ

اشرف علی بستوی، اردو دنیا کے خاص طور پر صحافتی دنیا کے ایک مایہ ناز شخصیت اور محب اردو شخصیت تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اشرف علی بستوی بھارت کی دار الحکومت دہلی میں مقیم صحافی ہیں، اشرف علی بستوی کی پیدائش 22 مارچ 1978 کو مشرقی اتر پردیش کے ضلع بستی اب (سنت کبیر نگر ) میں ایک کاشت کار گھرانے میں ہوئی، والد جناب محمد خلیل پڑھے لکھے تو نا تھے البتہ دینی مزاج رکھتے ہیں، ان کے تین بڑے بھائی جمال احمد، مظہر احمد اور کمال احمد کم عمری میں ہی ممبئی میں تجارتی میدان سے وابستہ ہو گئے تھے ۔

بچپن اور تعلیم[ترمیم]

اشرف علی بستوی کی بنیادی تعلیم مکتب پرائمری سے شروع ہوئی ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ والدہ زلیخا خاتون کی رہی گاؤں میں تعلیم کا رجحان بالکل نہ ہونے کی وجہ سے بھائیوں کو خود اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر پانے کا قلق ہمیشہ رہا اسی کے پیش نظر انھوں نے اشرف علی بستوی کا داخلہ مقامی مکتب میں کرا دیا بنیادی تعلیم حاصل کر لینے کے کے بعد ان کا داخلہ پاس کے قصبے باغ نگر میں واقع مسلم انڈسٹریل جونئر ہائی اسکول میں ہوا۔ 1994 میں یوپی ایجوکیشن بوڑد الٰہ آباد کے تحت عبد الحکیم ایگری کلچرل کالیج دو دھا را ،سنت کبیر نگر سے ہائی اسکول ،اور 1996 میں نیشنل انٹر کالیج مونڈیا ڈیہا بیگ سنت کبیر نگر سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی کے تحت بستی شہر میں واقع امبیکا پرتاپ نارائن پی جی کالیج کی طرف رخ کیا ،یہاں سے اردو ،انگریزی اور سیاسیات میں 1999گریجویشن مکمل کیا۔ اس طرح انتہائی مشکل حالات میں اشرف علی بستوی کو اپنے گاءوں کے پہلے گریجویٹ بننے کا شرف حاصل ہوا لیکن دشواریاں کم نہ ہوئیں والدہ کی مستقل علا لت کے باعث بہت جلد گھریلو ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں اور ایک بار پھر تعلیم کا سلسلہ یہیں رک سا گیا اور اسی درمیان مقامی سطح پر صحافت وابستہ ہو گئے، لیکن مزید تعلیم کے حصول کی ان کی کوشش جاری رہی موقع ملتے ہی لگ بھگ ایک دہائی بعد دوبارہ 2012 میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ایڈوانس ڈُلوما ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونکیشن کر نے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اردو مکمل کیا ۔

ابتدائی کریر[ترمیم]

اشرف علی بستوی نے اپنا صحافتی کریر 15 سال قبل شروع کیا تھا ،گریجویشن مکمل کر نے کے فورا بعد اردو ٹائمز ممبئی کے چیف رپورٹر فاروق انصاری کے مشورے سے اردو ٹائمز ممبئی سے وابستہ ہو گئے اور مشرقی یوپی سے جز وقتی نامہ نگار کے طور پر کام شروع کیا اور کچھ ہی عرصے بعد جب روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو، گورکھپور شروع ہوا تو 13 ستمبر 2002کو بطور نامہ نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا سے وابستہ ہو گئے، بعد از 2004 میں ہندی میڈیا کی طرف رخ کیا اور ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخبار دینک جاگرن ہندی میں بطور علاقائی رپورٹر لگ بھگ دو سال مئی 2006 تک خدمات انجام دیں۔ اس درمیان انھیں احساس ہوچلا تھا کہ میڈیا میں بہتر مسقبل کے لیے ہجرت لازمی ہے چنانچہ بہترکی تلاش میں صحافت کے اپنے استاذ معروف صحافی مولانا صادق بستوی کے مشورے سے قومی راجدھا نی دہلی کا رخ کیا اور ایک بار پھر اردو میڈیا سے وابستہ ہو گئے، جون 2006 سے روزنامہ ہندوستان دہلی میں رپورٹنگ شروع کی ،یہاں ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے کہ جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ،موقر اخبار سہ روزہ دعوت میں بطور سب اڈیٹر تقرر ہو گیا، یکم ستمبر 2006 کو سہ روزہ دعوت جوائن کیا،اس درمیان ان کی صحافتی سرگرمیوں میں دل چسپی بڑھتی گئی اور 2008 میں کناڈا سے آن لائن شائع ہونے والے اخبار اردو ٹائمز ڈاٹ کام کے لیے بھی ہندوستان سے لکھنے لگے ،یہ سلسلہ لگ بھگ 4 برس تک جاری رہا ۔

پیشے ورانہ سرگرمیاں[ترمیم]

ہندی و اردو صحافت میں لگ بھگ ایک دہائی کا تجربہ حاصل کر لینے کے بعد اپنے جرنلسٹ دوستوں کے ساتھ ملکرمجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش 11نومبر 2014 کو اردو زبان میں www.asiatimes.co.in نامی نیوز پورٹل شروع کیا ایشیا تائمزاردو کو مسلسل دو سال تک مقبول عام کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں 17 اکتوبر 2016 کو یوم سرسید کے موقع پر ایشیا ٹائمز ہندی بھی لانچ کر دیا۔ اس درمیان 2010 میں آل انڈیا ریڈیو کے نیوز سروس ڈیویزن NSD کے اردو نیوز شعبے میں جزوقتی نیوز ریڈر کے طور وابستہ ہو گئے۔ اور 2012 میں نیشنل براڈ کاسٹر دور درشن کے نیوز چینل ڈی ڈی ں یوز کے اردو ڈیسک پر بطور نیوز ایڈیٹر جزوقتی سلیکشن ہوا۔ اس طرح انھیں بیک وقت میڈیا کے سبھی ذرائع پرنٹ ،الیکٹرانک،ریڈیو اور ویب جرنلزم میں کام کرنے کا تجربہ ملا، جو ان کے صحافتی کریر میں بڑا معاون ثابت ہوا ۔

دوران صحافت پیش آئے اہم واقعات و حصول یابیاں[ترمیم]

سہ روزہ دعوت کی خصوصی پیش کش جائزہ‘ کے انچارج کے طور پر طویل عرصے تک کام کیا اور ملکی، ملی و بین الاقوامی سے متعلق لگ بھگ 70 ایشوز پر 500 سے زائد انٹریوز کیے۔ ایشیا ٹائمز کے لیے کئی بین الاقوامی شخصیات سے انٹر ویو کیا۔ 2003 میں روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو گورکھپورمیں رپورٹنگ کرتے ہوئے انھیں ایک درسی کتاب ہاتھ لگی یہ کتاب یو پی بورڈ سے منظور شدہ سوشل سائنس کی تھی، کتاب میں ایک سبق تاریخی مقامات سے متعلق تھا جس میں بابری مسجد کا ذکر کچھ اس طرح تھا" بابری مسجد کی تعمیر بابر نے رام جنم بھومی توڑ کر کرایاتھا" یہ کتاب ہائی اسکول کے بچوں کے نصاب میں داخل تھی۔ انھوں نے اس کو حوالے کے ساتھ خبر بنایا یہ خبر سہارا اردو کے صفحہ اول پر شائع ہوئی جس کا مثبت اثر یہ ہوا کہ یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھ گیا ،اور یہ کتاب فوری طور یوپی بورڈ سے ہٹالی گئی۔ دوسرا واقعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام میں بروقت جرات مندانہ رپورٹنگ کا ہے ' ہوا یہ تھا کہ کچھ شر پسند عناصر نے ایک دلت کا جانور غائب کرنے کے بعد اسے گائے کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جس پر فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑنے کی نوبت آگئی تھی اور ضلع کا پولیس انتظامیہ بھی متعصب رویہ اپنانے لگا تھا ' معاملے کی دیانت دارانہ رپورٹنگ سے انتظامیہ پر عوامی دباو پڑا اور قصور واروں کے خلاف کار روائی ہوئی اور غائب جانور ایک ہفتے بعد برآمد ہوا۔ اسی معاملے انھوں نے میں ضلع کے ڈی آئی جی مسٹر ترپاٹھی کے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان کو بھی من و عن رپورٹ کر دیا جس میں انھوں نے معاملہ تھمنے کے بعد ایس او سے کہہ دیا تھا کہ " آدمی کٹ جائے گائے نہ کٹنے پائے " یہ معاملہ اس قدر طول پکڑا کہ مسٹر ترپاٹھی کو میڈیا میں وضاحت کرتے کرتے آخر کار جانا ہی پڑاتھا۔ بالاخر آگے چل کر دیانت داری پر مبنی رپورٹنگ ہی ان کے دینک جاگرن سے الگ ہونے کی وجہ بنی ' ہوا یہ تھا کہ بستی اور سنت کبیر نگر کی سرحد پر علی الصبح جانوروں سے لدا ایک ٹرک حادثے کا شکار ہوا جس میں دودھ دینے والی گائیں تھیں جنھیں تاجر قریب کی جانوروں کی مارکیٹ لے جا رہے تھے، بیورو چیف کا فون آیا کہ آپ کے علاقے میں گایوں سے لدی گاڑی پلٹ گئی ہے یہ گائیں گئو کشی کے لیے اسمگل کی جا رہی تھیں، موقع پر پہنچ کر رپورٹ کریں۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہ دودھ والے جانور تھے جن کو پاس کے مارکیٹ لے جایا جا رہا تھا حادثے کے عینی شاہدین اور موقع پر موجود پولیس افسران کا بیان لینے کے بعد جامع رپورٹ تیار کی اور دفتر کو فیکس کرنے کے لیے رابطہ کیا، جواب ملا کیا رپورٹ ہے ،جوکچھ دیکھا تھا بتا دیا لیکن دفتر مطمئن نہیں ہوا وہ اس بات پر ہی مصر تھے کہ یہ جانور گائے کشی کے لیے ہیلے جائے جا رہے تھے،خیر انھوں نے فیکس ٹون دینے سے منع کر دیا۔ انھیں عوامی مسائل اور ترقیاتی خبروں میں دل چسپی کم جرائم کی خبروں میں دل چسپی کچھ زیادہ ہی ہوتی، دھیرے دھیرے یہ معاملہ بڑھتا گیا اور ایک دن دفتر پہنچ کر انھوں نے اپنے بیورو چیف کے سامنے معذرت کر لی۔ اور اس کے بعد دہلی کا رخ کر لیا ۔

ملکی و بین الاقوامی ایشوز پر انٹر ویوز[ترمیم]

بھارت امریکا جوہری معاہدہ،تعلیمی اداروں میں او بی سی ریزرویشن،اسپیشل اکنامک زون،انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی،بدعنوانی اور اس کا حل،پسماندگی اور اس کا حل،فرضی انکاونٹرس،ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا رول،سچر کمیٹی رپورٹ،عالمی اقتصادی بحران،سری کرشنا کمیشن رپورٹ،پارلیامانی انتخاب اور مسلم سیاست،بھارتی مسلمانوں کی تعلیم،بین مذاہب ڈائیلاگ،وقف بورڈ،اقلیتوں کے مسائل اور ان کا حل،بھارت اور نکسلزم،رحم مادر میں بچیوں کا قتل،لوک سبھا الیکشن 2009،مسلم سیاسی پارٹی،مدرسہ بورڈ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اقلیتی کردار قابل ذکر ہیں ۔

بین الاقوامی شخصیات سے انٹرویو[ترمیم]

یونیسکو کے سابق اڈیشنل ڈائریکٹر جنرل و سابق وی سی اندراگاندھی نیشنل اوپین یونیورسٹی عبد الوحید خان مقیم حال ٹورنٹو کناڈا، ترک اسکالریوسف کاراجا (استاذ سابق ترک وزیر اعظم احمد اوغلو) ہند نزاد امریکی تاجر فرینک اسلام یو ایس اے، عمر افضل کارنل یونیورسٹی یو ایس اے، پروفسر سلیم منصور خالد پاکستان،

سیاسی شخصیات سے انٹرویو[ترمیم]

کے رحمٰن خان ،سابق ڈپٹی اسپیکر راجیہ سبھا سی ایم ابراہیم سابق انفارمیشن منسٹربھارت سرکار ،عبد الرحمٰن انتولے پہلے اقلیتی وزیر بھارت سرکار ،مختار عباس نقوی، مرکزی اقلیتی وزیر بھارت سرکار، وی کے ملہوترا سابق بی جے پی لیڈر، سی پی ایم لیڈر برندا کرات، کانگریس کے سابق ترجمان راشد علوی، کانگریس کے سابق ترجمان میم افضل ،سماج وادی لیڈر ابو عاصم اعظمی ،بی جے لیڈر جے کے جین، سپریم کورٹ کے سئنئر وکیل پر شانت بھوشن ،سی پی آئی ایم لیڈر ہنان ملا ،مجید میمن این سی پی۔ این سی پی ایل کے ڈائریکٹر ارتضیٰ کریم، پروفیسر اخترالواسع

وکلا، سماجی کارکنان اور پروفیسر صاحبان سے انٹرویو[ترمیم]

ریاٹائرڈ آئی اے ایس ہرش مندر، سابق چانسلر جامعہ ہمدرد مرحوم سید حامد، معروف گاندھیائی لیڈر مرحومہ نرملا دیش پانڈے، شبنم ہاشمی ،تیستا سیتل واڑ، فلم میکر مہیش بھٹ ،جاوید آنند ،ریاٹائرڈ آئی پی ایس ایس آر داراپوری، ریٹائرڈ آئی پی ایس وی این رائے ،ریاٹائرڈ آئی پی ایس منظور احمد، نوید حامد صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ایڈیٹر ملی گزٹ، گوتم نولکھا سماجی کارکن ،انل چمڑیا، ایڈوکیٹ یوسف حاتم موچھلا، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی، ایڈوکیٹ وصی نعمانی، ایدوکیٹ نجمی وزیری، این ڈی پنچولی۔ ریختہ کے بانی سجیو صراف۔ این سی پی ایل کے ڈائریکٹر ارتضیٰ کریم، پروفیسر اخترالواسع جامعہ ملیہ، پروفیسر خواجہ اکرام جے این یو ۔، سابق ایم پی سید شہاب الدین، ڈاکٹر منظور عالم چیر مین آئی او ایس، سابق چیر مین این سی ایم ای آئی جسٹس ایم ایس اے صدیقی، ظفر سریش والا چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یو نیورسٹی، عرفان فرنیچر والا سابق چیر مین ممبئی مرکنٹائل بینک ۔

میڈیا سے وابستہ اہم شخصیات سے انٹرویو[ترمیم]

سینئر جرنلسٹ کلدیپ نیر، این ڈی ٹی وی کے معروف اینکر رویش کمار، نیوز پوٹل دی کوئنٹ کی شریک بانی ریتو کپور ،روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر شاہد لطیف، نئی دنیا کے ایڈیٹرشاہد صدیقی ،اجیت ساہی ،ڈاکٹر آنند سوروپ ورما ،حسن کمال ،ظفر آغا، قربان علی راجیہ سبھا ٹی وی ،

مذہبی شخصیات سے انٹرویو[ترمیم]

جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری، جمعیت علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، شیعہ عالم کلب صادق، مولانا عقیل الغروی،مولانا عبید اللہ خان اعظمی، مولان سیف اللہ رحمانی ،سوامی اگنی ویش، جمعیت اہل حدیث کے جنرل سیکریٹری مولانا اصغر امام مہدی سلفی قابل ذکر ہیں ۔


غیر ملکی اسفار

4 اگست 2019 کو حج کوریج کے لیے سعودی حکومت کی دعوت پر جدہ کا سفر ہوا ، یہاں دنیا کے الگ الگ حصوں سے آئے لگ بھگ 50 صحافیوں کے ساتھ حج کے ایام کو ایشیا ٹائمز کے لیے کور کیا ، سعودی عرب کا دوسرا دورہ اکتوبر 2019 میں ہوا یہاں اس بار فیوچر انویسٹ منٹ انیشی ایٹیو کانفرنس کو ر کرنا تھا بھارت سے 18 صحافیوں کا گروپ تھا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھر پور طریقے سے کور کیا ۔

5اگست 2018 کو پہلا غیر ملی سفر ایران کے داراحکومت تہران کا ہوا یہاں ایک ہفتے تک ایران کا سماجی ، سیاسی ، ثقافتی جائزہ لیا ۔ ایرانی پارلیامنٹ کی کارروائی میں شرکت ہوئی ۔

دوسرا غیر ملی سفر : ترکی کے تاریخی شہر استنبول کا 13 ستمبر 2018 کو ہوا ، یہاں سہ روزہ فلسطین میڈیا کانفرنس میں شرکت ہوئی جس میں دنیا بھر کے 65 ملکوں کے لگ بھگ 650 صحافی شریک ہوئے ، بھارت سے 11 صحافیوں نے شرکت کی ۔ یہاں بطور ایشیا ٹائمز کے بانی ایڈیٹر کے طور پر مدعو کیا گیا تھا ۔


دیگر سماجی و صحافتی سرگرمیاں[ترمیم]

  • ممبر پریس کلب آف انڈیا ،نئی دہلی
  • چیر مین ، ایشیا ٹائمز فاؤنڈیشن ،نئی دہلی   
  • سیکریٹری ورکنگ جرنلسٹ کلب ،نئی دہلی
  • ممبر یو نائٹیڈ جرنلسٹ ٹرسٹ ، نئی دہلی
  • نیشنل کنوینر، آل انڈیا آئیڈیل جرنلسٹ ایسو سی ایشن ،نئی دہلی
  • انفارمیشن انچارج برائے دہلی 'پترکاریتا کوش' ممبئی
  • ایڈیٹوریل ایڈوائزر، ماہنامہ نقوش حیات سنت کبیر نگر اترپردیش
  • وائس چیر مین ،گریٹ انڈیا ویلفیر فاؤنڈیشن نئی دہلی
  • سیکریٹری، سہارا ایجوکیشنل ایندی ویلفیر ایسوسی ایشن نئی دہلی
  • ممبر یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا نئی دہلی
  • سابق نائب صدر، گرامین پترکار سنگھ ،سنت کبیر نگر اتر پر دیش
  • سابق میڈیا کو آرڈینیٹر، ہیومن ویلفیر فاؤنڈیشن نئی دہلی

نجی زندگی[ترمیم]

شریک حیات، زینب، خاتون خانہ ہیں اولاد : ایک بیٹا محمد انس، تین بیٹیاں عائشہ ،کلثوم ،سمیہ سبھی زیر تعلیم، فی الحال دہلی میں مقیم ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

http://www.okhlaheadlines.com/celebrities/ashraf-ali-bastavi.html*آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ okhlaheadlines.com (Error: unknown archive URL)

  • www.asiatimes.co.in