جونس سالک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جونس سالک
(انگریزی میں: Jonas Salk ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (انگریزی میں: Jonas Salk ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 28 اکتوبر 1914ء[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیویارک شہر[8]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 جون 1995ء (81 سال)[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہویا  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات عَجزِ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن لاس اینجلس  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش New York, New York
پٹسبرگ, پنسلوانیا
لاہویا, کیلی فورنیا
شہریت ریاستہائے متحدہ امریکا  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون،  فی بیٹا کاپا سوسائٹی  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مقام_تدریس University of Pittsburgh
Salk Institute
یونیورسٹی آف مشی گن
مادر علمی مشی گن یونیورسٹی
نیویارک سٹی کالج
جامعہ نیور یارک  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر Thomas Francis, Jr.
پیشہ طبیب،  ماہر حیاتیات،  ماہر وبائیات،  موجد،  ماہر سمیات،  ماہر مناعیات  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی[9]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم الوائرس،  وبائیات  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت پٹزبرگ یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
کیلیفورنیا ہال آف فیم (2007)
جواہر لعل نہرو ایوارڈ (1975)[10]
رابرٹ کوچ انعام (1962)[11][12]
 صدارتی تمغا آزادی 
کانگریشنل گولڈ میڈل  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط

جونس ایڈورڈ سالک(جوناس ایڈورڈ سالک) (28 اکتوبر 1914 - 23 جون 1995 لا ہویا میں) (انگریزی: Jonas Edward Salk) ایک امریکی طبی محقق اور وائرالوجسٹ تھا۔ اس نے پولیو کے خلاف پہلی کامیاب ویکسین دریافت کر کے ٹیکہ بنایا۔ اس کی پیدائش نیویارک شہر میں یہودی والدین کے ہاں ہوئی۔ اگرچہ اس کے والدین کی رسمی تعلیم واجبی سی تھی لیکن انھوں نے اپنے بچوں کو کامیاب بنانے کی ہرممکن کوشش کی۔ نیویارک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں تعلیم کے دوران سالک اپنے ہم عصروں سے الگ روش پر چل نکلا کیونکہ اس نے اپنی تعلیم کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے تحقیق کا شعبہ اپنایا۔

پولیو سے متاثرہ بچوں کو مشینی طریقے سے مصنوعی سانسیں دی جا رہی ہیں۔1952

1957 میں سالک کی ویکسین متعارف کرائے جانے سے قبل پولیو اس وقت کے ریاست ہائے متحدہ امریکا کی عوامی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ ہر سال پولیو کی وبائیں زیادہ سے زیادہ جان لیوا ہوتی جا رہی تھیں۔ امریکی تاریخ میں 1952 کی وباء سب سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس سال تقریباً 58،000 مریضوں میں پولیو کا مرض پایا گیا جن میں سے 3145 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 21،269 افراد مختلف نوعیت کی معذوریوں کا شکار ہوئے، جن کی اکثریت بچوں کی تھی۔ عوام میں اس کی دہشت ایسی پھیلی جیسے یہ طاعون کا مرض ہو۔ 2009 کی ایک ڈاکومنٹری (دستاویزی فلم) کے مطابق امریکیوں کا سب سے بڑا خوف ایٹم بم جبکہ پولیو دوسرے نمبر پر تھا۔ نتیجتاً سائنس دان اس سے بچاؤ یا علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ پولیو کے سب سے مشہور شکار تھے۔ انھوں نے "مارچ آف ڈائمز" نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے پولیو کے خلاف ویکسین کی تیاری کے لیے امداد مہیا کی۔

1947 میں سالک نے یونیورسٹی آف پٹز برگ کے اسکول آف میڈیسن میں ملازمت اختیار کی۔ 1948 میں اس نے ایک منصوبے کی نگرانی شروع کی جس کے لیے امداد ایک قومی ادارے نے مہیا کی تھی۔ اس منصوبے میں پولیو وائرس کی مختلف اقسام کا پتہ لگانا تھا۔ اس منصوبے سے دوہرا فائدہ اٹھانے کے لیے سالک نے پولیو کی ویکسین بنانے کا بھی سوچا۔ قابل ترین محققین کی جماعت بنا کر سالک نے سات سال تک تحقیق جاری رکھی۔ اس پروگرام کے آخری مرحلے کو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان کہا جاتا ہے جس میں لگ بھگ 20،000 ڈاکٹروں اور صحتِ عامہ کے افسران، 64،000 اسکول اور 2،20،000 رضاکار شامل ہوئے۔ اس امتحان میں کل 18،00،000 بچوں نے حصہ لیا۔ 12 اپریل 1955 کو جب اس ویکسین کی کامیابی کی خبر شائع ہوئی تو سالک ایک قومی ہیرو بن کر سامنے آیا اور پورے ملک میں جشن منائے گئے۔ سالک کا منصوبہ پولیو کے خلاف قابلِ عمل اور تیز ویکسین کی تیاری تھی جس سے اس نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جب سالک سے اس کے حقوق محفوظ کرنے کی بات ہوئی تو سالک کا جواب تھا کہ "اس کا کوئی پیٹنٹ نہیں۔ کیا آپ سورج کا پیٹنٹ کرا سکتے ہیں؟" اندازہ ہے کہ اگر اس ویکسین کو پیٹنٹ کرایا جاتا تو اس سے لگ بھگ 7 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی۔

1960 میں سالک نے لا جولا (لا ہویا)، کیلیفورنیا میں سالک انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل سٹڈیز کی بنیاد رکھی جو آج طبی اور سائنسی تحقیق کا مرکز ہے۔ اس نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور کتابیں بھی لکھیں۔ آخری سالوں میں سالک نے ایڈز کے خلاف ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کے ذاتی مسودات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سان ڈیئگو لائبریری میں محفوظ ہیں۔

ابتدائی ایام[ترمیم]

جونس سالک (جوناس سالک) نیویارک شہر میں 28 اکتوبر 1914 کو پیدا ہوا۔ والدین کے نام ڈینیئل اور ڈورا سالک تھے جو اشکینازی یہودی تارکین وطن تھے اور ان کی رسمی تعلیم معمولی تھی۔ مؤرخ ڈیوڈ اوشینسکی کے مطابق سالک نیویارک کے یہودی تارکین وطن ماحول میں پروان چڑھا۔ سالک کے دو چھوٹے بھائی بھی تھے جن کے نام ہرمین اور لی تھے۔ خاندان ایسٹ ہارلم سے دی برانکس منتقل ہوا اور کچھ عرصہ کوئینز میں بھی گزارا

تعلیم[ترمیم]

جب سالک کی عمر تیرہ برس ہوئی تو اسے ٹاؤنسینڈ ہیرس ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا جو ذہین بچوں کے لیے مختص تھا۔ یہ اسکول نیویارک کے سٹی کالج کے بانی کے نام پر رکھا گیا تھا اور تارکین کے وطن کے ذہین مگر غریب بچوں کو بہترین تعلیم دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ہائی اسکول میں سالک کو کمال پرست مانا جاتا تھا۔ اس کا شمار ان طلبہ میں ہوتا تھا جو ہاتھ آئی ہر تحریر پڑھ ڈالتے تھے۔ اس اسکول میں طلبہ کو چار سال کا نصاب تین سال میں پورا کرنا ہوتا تھا۔ نتیجتاً زیادہ تر طلبہ یا تو خارج ہو جاتے تھے یا نکال دیے جاتے تھے۔ تاہم کامیاب ہونے والے زیادہ تر طلبہ اپنے نمبروں کے بل بوتے پر سٹی کالج آف نیویارک میں داخل ہونے کے قابل ہوتے تھے جو انتہائی سخت مقابلے والا کالج شمار ہوتا تھا۔

کالج[ترمیم]

سالک نے سٹی کالج آف نیویارک میں داخلہ لیا اور بیچلر آف سائنس کی ڈگری کیمسٹری میں 1934 میں مکمل کی۔ ایک مؤرخ کے مطابق سٹی کالج تارکین وطن بچوں کے لیے بہترین جگہ تھی۔ داخلہ بہت مشکل سہی لیکن تعلیم مفت تھی۔ مقابلہ بہت سخت لیکن اصول سب کے لیے یکساں تھے۔ کسی کو اس لیے فائدہ نہیں پہنچتا تھا کہ اس کی پیدائش کہاں اور کیسے ہوئی ہے۔

اپنی والدہ کے اصرار پر جونس(جوناس) نے وکالت کی بجائے طب کی تعلیم کے لیے درکار نصاب پڑھنا شروع کر دیا۔ سالک سٹی کالج میں 15 سال کی عمر میں داخل ہوا۔

بچپن میں سالک کو طب یا سائنس سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ ایک انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ "بچپن میں مجھے سائنس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری دلچسپی کا محور انسان، اشیاء اور ان سے متعلق پہلو تھے۔"

میڈیکل اسکول[ترمیم]

سٹی کالج کے بعد سالک نے نیویارک یونیورسٹی میں طب کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ فیس نسبتاً کم تھی اور تعلیم بہتر تھی جبکہ یہودیوں کے خلاف نفرت بھی نہیں تھی جبکہ آس پاس کے دیگر طبی تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے لیے مخصوص کوٹے ہوتے تھے۔ تعلیم کے دوران سالک نے لیبارٹری ٹیکنیشن اور کیمپ کاؤنسلر کے طور پر بھی کام کیا۔

طب کی تعلیم کے دوران سالک نے اپنی الگ شناخت بنائی۔ اس نے طب کو بطور پیشہ اختیار کرنے کی بجائے تحقیق پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ تحقیق کی وجہ سے اس نے ایک سال تعلیم سے رخصت لے کر بائیوکیمسٹری پڑھی۔ بعد میں تحقیق کا مرکز بیکٹریالوجی بن گئی۔ سالک کے بقول وہ اپنے کام سے اکا دکا مریضوں کی نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ لیبارٹری کے کام سے ہی سالک کو نئی جہت ملی۔

پوسٹ گریجویٹ ریسرچ[ترمیم]

1941 میں وائرلوجی میں پوسٹ گریجویٹ تحقیق کے دوران سالک نے دو ماہ یونیورسٹی آف مشی گن میں ڈاکٹر تھامس فرانسز کے ساتھ گزارے۔ فرانسز نے راکفیلر کارپوریشن کے ساتھ کام کر کے انفلوئنزا کی ب قسم دریافت کی اور حال ہی میں اس یونیورسٹی کو منتقل ہوا تھا۔ ان دو ماہ کے کام کے دوران سالک ہمیشہ کے لیے وائرلوجی کا ہو کر رہ گیا۔ یہیں سے اس کا پہلا تنازع شروع ہوا جس میں فرانسز اور سالک نے نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں کئی مریضوں کو جان بوجھ کر انفلوئنزا کی بیماری لگائی۔

گریجویشن کے بعد سالک نے نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال میں ریزیڈنسی شروع کی۔ یہ ہسپتال اس وقت قابل ترین ڈاکٹروں کے حوالے سے مشہور تھا۔

تحقیق کے علاوہ امراض کی تشخیص اور جراحت کے شعبے میں بھی سالک نے خوب نام پیدا کیا۔

ریسرچ کیریئر[ترمیم]

ریزیڈنسی کے اختتام پر سالک نے مختلف جگہوں پر تحقیق سے متعلق ملازمتوں کے لیے درخواستیں دینی شروع کر دیں۔ ان میں سے کئی جگہوں پر یہودی ہونے کی وجہ سے اسے ملازمت نہ ملی۔ ماؤنٹ سینائی ہسپتال کا یہ قانون تھا کہ وہ اپنے انٹرنز کو نوکری نہیں دیتے۔ آخرکار سالک نے ڈاکٹر فرانسز سے مدد چاہی لیکن ڈاکٹر سالک بھی ایک سال قبل یونیورسٹی آف مشی گن کے پبلک ہیلتھ اسکول کو جا چکا تھا۔

تاہم فرانسز نے کہیں نہ کہیں سے رقم جمع کر کے ایک فوجی منصوبے میں سالک کو نوکری مہیا کر دی جس کا کام انفلوئنزا کی ویکسین تیار کرنا تھا۔ ان دونوں کی تیار کردہ ویکسین جلد ہی فوجی مراکز پر عام استعمال ہونے لگی۔

1947 میں سالک نے اپنی تحقیق کے لیے مختلف اداروں سے رابطہ کیا اور آخرکار یونیورسٹی آف پٹس برگ اسکول آف میڈیسن نے اسے قبول کر لیا اور مشی گن چھوڑ کر پینسلووینیا منتقل ہو گیا۔ تاہم اسے ایک پرانے ہسپتال کے تہ خانے میں غیر تسلی بخش جگہ دی گئی۔ بعد میں میلون خاندان سے پیسے مانگ کر سالک نے اپنی لیبارٹری بنائی اور فلو ویکسین پر کام شروع کر دیا۔

سالک کے انفلوئنزا پر کیے گئے کام پر اخلاقی مسائل موجود ہیں۔ سالک کی نگرانی اور منظوری سے حکومتی نگرانی میں چلنے والے ذہنی ہسپتال کے مریضوں پر تجربات کیے گئے۔ پہلے انھیں ویکسین دی گئی اور پھر چند ماہ بعد انفلوئنزا کے جراثیم ان کے جسموں میں داخل کیے گئے تاکہ ویکسین کی کارکردگی کو جانچا جائے۔

بعد میں نیشنل فاؤنڈیشن فار اینفینٹائل پیرالسز کے ریسرچ ڈائریکٹر نے سالک سے رابطہ قائم کر کے پوچھا کہ کیا وہ اس منصوبے کا حصہ بننا چاہے گا؟ اس منصوبے کی منظوری پہلے ہی امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ دے چکے تھے۔ سالک نے فوراً ہامی بھر لی۔

پولیو کے خلاف جدوجہد میں شمولیت[ترمیم]

جنگِ عظیم کے بعد بد ترین بیماری[ترمیم]

پولیو نے محققین کو برسوں پریشان کیے رکھا تھا۔ پہلی بار اس کی تصدیق 1835 میں ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ پھیلتا چلا گیا۔ کافی عرصے بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ پولیو مریض کے فضلے اور ناک اور گلے کے مواد سے پھیلتا ہے۔ پولیو مریض کے منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور آنتوں کے راستے ہوتا ہوا دماغ یا حرام مغز تک جا پہنچتا ہے۔

20ویں صدی کے آغاز میں 1914 اور 1919 میں پھیلنے والے وباؤں کی وجہ سے ڈاکٹر اور نرسیں گھر گھر جا کر مریض تلاش کرتے تھے اور جہاں بھی مرض کا شک ہوتا، بچوں کو ہسپتال بھیج کر گھر والوں کو اس وقت تک قرنطینہ بھیج دیا جاتا جب تک بچے میں پولیو کا مرض متعدی رہتا۔ اگر بچے مر جاتے تو والدین کو جنازے میں شرکت بھی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

جنگ کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا میں پولیو سب سے زیادہ دہشت پھیلانے کا سبب رہا ہے۔ ہر بار اس کی وباء بد سے بدتر ہوتی گئیں اور زیادہ تر مرض بچوں میں ہوتا تھا۔ 1952 تک پولیو کسی بھی دوسرے متعدی مرض کی نسبت زیادہ اموات کا سبب بن چکا تھا۔ تاہم 1921 میں جا کر پولیو کو ملک گیر اہمیت ملی جب نائب صدارت کے امیدوار فرینکلن روزویلٹ کو پولیو ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 39 سال تھی اور وہ باقی ساری عمر کے لیے معذور ہو کر رہ گئے۔

سالک کی شمولیت[ترمیم]

سالک اپنی لیبارٹری کے لیے پرامید ہو گیا اور آخرکار یونیورسٹی آف پٹس برگ نے اس کی منظوری دے دی۔ تاہم اس بارے اسے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ لیبارٹری نہ صرف بہت چھوٹی تھی بلکہ یونیورسٹی نے کئی ایسے اصول بھی لاگو کر دیے جو اس کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

1948 میں نیشنل فاؤنڈیشن فار انفینٹائل پیرالسز کے ڈائریکٹر نے سالک کو اپنے پروگرام شمولیت کی دعوت دی جو سالک نے فوراً قبول کر لی۔ اس وقت تک پولیو کی 3 اقسام دریافت ہو چکی تھیں اور مزید کی تلاش جاری تھی۔ اگرچہ اس طرح کی تحقیق لمبی اور سالک کے مقصد سے ہٹ کر تھی لیکن فاؤنڈیشن نے مزید جگہ، آلات اور محقیقین مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ جونہی یہ تحقیق مکمل ہوئی، سالک نے اپنی تحقیق پھر سے شروع کر دی۔

جدوجہد کا آغاز[ترمیم]

پولیو کے خلاف جدوجہد کا اصل آغاز 1938 سے ہوا جب نیشنل فاؤنڈیشن فار انفینٹائل پیرالسز وجود میں آئی۔ اس کا سربراہ امریکی صدر روزویلٹ کا قانونی مشیر تھا۔ روزویلٹ پولیو کا شکار ہوئے تھے۔ اسی سال مارچ آف ڈائمز کے نام سے مہم شروع ہوئی اور عوام نے چندہ دینا شروع کر دیا۔

چونکہ پولیو کا خوف ہر سال بڑھتا جاتا تھا، اس لیے چندے کی مقدار 18 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 1955 تک 6 کروڑ 70 لاکھ تک جا پہنچی۔ تاہم اس وقت سائنسدانوں کے پاس بنیادی معلومات ہی غلط تھیں۔ کئی بار ویکسین میں زندہ وائرس استعمال ہوئے جس سے بچے یا تو مر گئے یا دائمی معذوری کا شکار ہو گئے۔

سالک نے اس وقت کی متنازع ویکسین متعارف کرائی جس میں مردہ وائرس استعمال ہوتے تھے۔ 2 جولائی 1952 میں 43 بچوں کو یہ ویکیسن لگائی گئی اور پھر چند ہفتے بعد ذہنی اور جسمانی معذور افراد کے اسکول میں بھی یہ تجربہ دہرایا گیا۔ نومبر 1953 میں سالک نے اس ویکسین کو اپنی ذاتی ذمہ داری قرار دیا اور بتایا کہ اس کی بیوی اور تین بیٹے اس ویکسین کو آزمانے والے اولین رضاکاروں میں شامل تھے۔

تاہم وسیع پیمانے پر قبولیت کے لیے اس ویکسین کے مزید تجربات ضروری تھے۔

سالک کے ابتدائی نتائج کی روشنی میں 1954 میں پولیو سے کسی دوسری متعدی مرض کی نسبت زیادہ امریکی بچے مر رہے تھے، سالک کی ویکسین فیلڈ ٹیسٹ کے لیے تیار تھی۔

فیلڈ ٹیسٹ[ترمیم]

فیلڈ ٹیسٹ میں 20٫000 سے زیادہ ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ افسران، 64٫000 تدریسی عملہ اور 2٫20٫000 رضاکار شامل تھے اور یہ پروگرام اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ اس دوران 18٫00٫000 بچوں نے حصہ لیا۔ 1954 کے گیلپ پول کے مطابق امریکی صدر کے پورے نام کی نسبت پولیو ویکیسن کے تجربات کے بارے زیادہ امریکی باخبر تھے۔

تاہم سالک کی تحقیق پر اعتراضات بھی اٹھے۔ مشہور وائرلوجسٹ ایستھر لیڈربرگ کے مطابق سالک کو زیادہ تفصیلی نتائج دینے چاہیے تھے تاکہ ویکسین کی افادیت کے دعوے کو پوری طرح ثابت کیا جا سکے۔

ویکسین کی تیاری[ترمیم]

ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان[ترمیم]

12 اپریل 1955 کو تھامس فرانسز جونیئر جو یونیورسٹی آف مشی گن سے تعلق رکھتا تھا اور ٹیسٹ کے نتائج کی نگرانی کر رہا تھا، نے ویکسین کو محفوظ اور مؤثر قرار دیا۔

بقول نیویارک ٹائمز، رپورٹ کے مطابق ویکیسن 80 سے 90 فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے اور یہ ٹیسٹ 11 ریاستوں میں ہوئے تھے۔ تاہم 4٫40٫000 بچوں کو یہ ویکسین 44 امریکی ریاستوں، کینیڈا کے 3 صوبوں اور فن لینڈ کے درالحکومت ہیلسنکی میں دی گئی تھی۔

پوری قوم کی کامیابی[ترمیم]

سالک کی نئی ویکیسن کو برطانوی کمپنی گلیکسو نے ایسی شکل دی کہ جسے دنیا بھر میں انتہائی وسیع پیمانے پر تیار کیا جا سکتا تھا۔ فرانسز کے اعلان کے چند منٹ کے اندر اندر امریکا بھر میں یہ خبر پھیل گئی۔ ہر طرف جشن کا سماں بندھ گیا اور کاروبارِ زندگی تھم گیا۔

اس کامیابی کو پوری قوم کی کامیابی کہا گیا اور ڈاکٹر جونس سالک(جوناس سالک) راتوں رات دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔

عالمی قبولیت اور امید[ترمیم]

سالک کے اعلان سے 6 ماہ قبل ہی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ پولیو فنڈ سے امریکا نے پہلے ہی اتنی ویکسین خریدنے کا فیصلہ کر لیا تھا جو 90 لاکھ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے کافی رہتی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے بھی اس ویکسین کی خریداری میں انتہائی دلچسپی سامنے آئی۔ کینیڈا، سوئیڈن، ڈنمارک، ناروے، مغربی جرمنی، ہالیند، سوئٹزرلینڈ اور بیلجئم نے فوری طور پر ویکسین کی خریداری کا اعلان کر دیا۔ جونس سے قبل ایزابیل مورگن مردہ وائرس سے پولیو کی ویکسین کی تیاری کی بابت نظریہ پیش کر چکی تھی لیکن اس نے یہ طریقہ انسانوں پر نہیں آزمایا تھا۔ مورگن کا کام ہی دراصل سالک کے کام آیا۔

1957 کے گرما تک امریکا بھر میں پولیو ویکسین کی 10 کروڑ خوراکیں تقسیم ہو چکی تھیں۔ جینیوا میں ہونے والی انٹرنیشنل پولیو کانفرنس کے مطابق ویکسین کے بعد ہونے والی پیچیدگیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ڈنمارک میں 25 لاکھ افراد میں چند ہی پولیو کے کیسز ہوئے۔ آسٹریلیا میں پولیو ختم ہو گئی۔

تاہم جن ممالک میں ویکسین استعمال نہیں ہوئی، وہاں پولیو کا زور بڑھتا گیا۔

دنیا بھر بیماری کے خاتمے میں کامیابیاں اور ناکامیاں[ترمیم]

1990 کے اواخر تک ایک تخمینے کے مطابق سالانہ بنیادوں پر دنیا بھر سے کم از کم پانچ لاکھ افراد کو پولیو سے ہونے والی معذوری سے بچایا جاتا ہے۔ 1991 میں مغربی نصف کرے میں پولیو کی منتقلی کو روک دیا گیا تھا۔

ترقی پزیر ممالک میں اندازہ ہے کہ 1988 میں ساڑھے تین لاکھ تک مریض دریافت ہوتے رہے تھے۔ نتیجتاً 2002 میں 93 ممالک کے 50 کروڑ بچوں کو ویکسین دی گئی اور دسمبر 2002 تک پولیو کے کل کیسز کی تعداد 1924 رہ گئی، جن کی اکثریت انڈیا سے تھی جبکہ دیگر چھ ممالک یعنی افغانستان، مصر، نائجر، نائجیریا، پاکستنا اور صومالیہ میں پولیو ابھی تک موجود ہے۔ 2014 کے شروع میں محض تین ممالک رہ گئے جہاں پولیو ابھی تک موجود ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، نائجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستانی شہر پشاور کو دنیا بھر میں پولیو کا دار الحکومت قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ سی آئی اے کی جانب سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں چلائی گئی جعلی پولیو مہم بھی ہے، جسے مذہبی شدت پسند اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

چین

1993 میں چین نے 8 کروڑ سے زیادہ بچوں کو دو روز کی مدت میں پولیو کی ویکسین دی اور اگلے سال پولیو کے محض پانچ کیس سامنے آئے۔

انڈیا

ہندوستان میں 1981 میں پولیو کے 38٫000 کیسز درج ہوئے اور پھر ملک گیر پولیو مہمات کے بعد 13 جنوری 2011 کو پولیو کا آخری کیس سامنے آیا۔ جنوری 2014 میں انڈیا کو پولیو سے پاک ملک قرار دے دیا گیا۔

افریقہ

2003 کی وباء کے بعد بین الاقوامی اداروں نے نائجیریا اور اس کے ہمسائیہ ممالک میں پولیو مہم کے لیے 1 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔

لاطینی امریکا

1970 کی دہائی میں لاطینی امریکا میں پولیو کے 15٫000 کیس سامنے آئے تھے اور ان سے 1٫750 اموات ہوئیں۔ تاہم لاطینی امریکا میں کیریبئن میں پولیو کا آخری کیس 1991 میں سامنے آیا اور اب پورا خطہ پولیو سے پاک ہے۔

خاتمے کی کوششیں[ترمیم]

1988 میں بہت ساری بین الاقوامی تنظیموں نے پولیو کے عالمی خاتمے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ ماضی میں چیچک کے خلاف اسی نوعیت کی کامیاب مہم چلائی جا چکی تھی۔ 2003 تک پولیو کو افغانستان، انڈیا، نائجیریا اور پاکستان کے علاوہ ہر جگہ سے ختم کیا جا چکا تھا۔ تاہم مغربی نائجیریا کے ملاؤں نے ویکسینیشن پروگرام کی مخالفت شروع کر دی اور الزام لگایا کہ یہ ایڈز پھیلانے اور بانجھ پن پیدا کرنے کی مہم ہے۔ اگلے تین سالوں میں نائجیریا میں پولیو کے مریضوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی۔

ایک ماحولیاتی سائنس دان لیسٹر براؤن نے پیشین گوئی کی کہ حج کے دوران نائجیریا کے مسلمان دوسرے ملکوں کے مسلمانوں میں پولیو پھیلا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے سعودی حکام نے مخصوص زائرین کے لیے پولیو کی ویکسین لازمی قرار دے دی۔

2007 سے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں شدید مخالفت کے بعد ایک ڈاکٹر اور ایک ہیلتھ ورکر کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے طالبان نے وادئ سوات میں پولیو کی ویکسین کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ نتیجتاً 2010 میں پاکستان میں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گیٹس فاؤنڈیشن نے اس دوران ڈیڑھ ارب ڈالر پولیو کے خاتمے کی مہم پر لگائے ہیں اور مزید ایک ارب اسی کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔

نئی طبی تحقیق اور کاوشیں[ترمیم]

اگلے چند برسوں تک سالک نے پولیو کی ویکسین کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں کے علاوہ کینسر کا علاج ڈھونڈنے میں بھی وقت صرف کیا۔ اس کے علاوہ عام نزلہ زکام کے لیے ویکسین کی تیاری کے بارے سالک نے بتایا کہ "یہ محض وقت اور کچھ تکنیکی مسائل دور ہوتے ہی دسترس میں ہوگی"۔

پولیو کے خلاف آخری فتح اور سبین ویکیسن اختلافات[ترمیم]

سالک کی ویکسین کو سرکاری طور پر محفوظ قرار دیے جانے سے کئی سال قبل ڈاکٹر البرٹ سبین نے ویکسین کی دریافت کے لیے زندہ وائرس استعمال کیے تھے۔ تاہم سبین کی سالک سے کھلی دشمنی تھی۔

20 اکتوبر 1998 کو 18 سال تک سبین کی ویکسین استعمال کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے بچوں کے لیے صرف سالک کی ویکسین کی منظوری دے دی۔ سبین کی ویکسین اب پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں نہیں ملتی۔

تاہم سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی ویب سائٹ کے مطابق سبین کی ویکسین کچھ علاقوں کے لیے سالک کی ویکسین سے زیادہ بہتر کام کرتی ہے۔

4 جنوری 2013 کو عالمی ادارہ صحت نے سبین کی ویکسین کو جلد از جلد ترک کر دینے پر زور دیا ہے کیونکہ اس میں پولیو کی ٹائپ ٹو کے زندہ وائرس موجود ہیں۔ تاہم ٹائپ 1 اور ٹائپ 3 کے خلاف مختلف ویکسین کا استعمال جاری رہے گا۔

دی کٹر حادثہ[ترمیم]

1955 میں پولیو کی ویکسین کی تیاری کی حکومتی منظور کردہ کئی لیبارٹریوں میں سے ایک کٹر لیبارٹریز نے غلطی سے ویکسین کی چند لاٹوں میں پولیو کے زندہ اور متحرک وائرس ملا دیے۔ امریکی تاریخ میں طبی اعتبار سے یہ بدترین سانحہ تھا اور نتیجتاً ہزاروں بچوں کو پولیو کے وائرس سے خطرہ لاحق ہوا اور 56 بچے معذور جبکہ 5 ہلاک ہوئے۔

10ویں سالگرہ کی تقریبات[ترمیم]

12 اپریل 1965 کو پولیو ویکسین کی 10ویں سالانہ تقریب ہوئی۔ اس برس پولیو کے کل 121 مریض سامنے آئے جو دس سال قبل 28٫000 سے زیادہ سالانہ ہوتے تھے۔

30ویں سالگرہ، یوم جونس سالک[ترمیم]

6 مئی 1985 کو امریکی صدر رونلڈ ریگن نے "یوم جونس سالک"(یوم جوناس سالک) کا نام دیا۔

ایڈز ویکسین پر کام[ترمیم]

1980 کی دہائی کے دوران سالک نے اس وقت کی نئی متعدی بیماری ایڈز کے خلاف ویکسین کی تیاری پر کام شروع کیا۔ تاہم یہ منصوبہ سالک کی وفات کے 12 سال بعد 2007 میں ختم کر دیا گیا۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے اگلے دن سالک نے ڈونا لنڈسے سے شادی کر لی جو اس وقت نیو یارک کالج آف سوشل ورک میں ماسٹر کر رہی تھی۔

شادی کے بعد سالک کے تین بچے پیدا ہوئے جن کے نام پیٹر، ڈیرل اور جوناتھن سالک ہیں۔ 1968 میں طلاق کے بعد 1970 میں سالک نے فرانسواز گیلو سے شادی کی۔

80 سال کی عمر میں ہارٹ فیلور(قلبی نارسائی) سے سالک کی وفاقت ہوئی اور تدفین سان ڈیاگو میں ال کامینو میموریل پارک میں ہوئی۔

اعزازات[ترمیم]

  • 1955 میں ویکسین کی دریافت کے اعلان کے ایک ماہ بعد کامن ویلتھ آف پینسلوینیا کی طرف گورنر نے "خدمات کا اعلٰی ترین اعزاز" دیا
  • 1955 میں نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی نے سالک کے اعزاز میں ابھرتے ہوئے زیر تعلیم نوجوان ڈاکٹروں کے لیے کئی وظائف کا اعلان کیا
  • 1956 میں لیسکر ایوارڈ دیا گیا
  • 1957 میں میونسپل ہسپتال کی عمارت کو سالک کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ یہاں سالک نے ویکسین کا تجربہ کیا تھا
  • 1958 میں جیمز ڈی بروس میموریل ایوارڈ دیا گیا
  • 1958 میں ہی پولیو کے ہال آف فیم میں سالک کو منتخب کیا گیا
  • 1975 میں جواہر لعل نہرو ایوارڈ اور کانگریشنل گولڈ میڈل دیا گیا
  • 1976 میں اکیڈمی آف اچیومنٹس گولڈن پلیٹ ایوارڈ دیا گیا
  • 1977 میں امریکی صدر جمی کارٹر نے پریزیڈنشل میڈل آف فریڈم دیا
  • 1996 میں مارچ آف ڈائمز فاؤنڈیشن نے سال کے بہترین حیاتیات دانوں کے لیے 2٫50٫000 ڈالر کا سالک انعام دینے کا اعلان کیا
  • 2006 میں امریکی محکمہ ڈاک نے 63 سینٹ کی ممتاز امریکیوں کی سیریز میں سالک کے لیے ایک ٹکٹ بنائی
  • 2007 میں کیلیفورنیا کے گورنر آرنلڈ شوارزنیگر اور خاتون اول ماریا شریور نے سالک کو کیلیفورنیا کی ہال آف فیم میں داخل کیا
  • 24 اکتوبر 2012 کو سالک کے یوم پیدائش کو عالمی یوم پولیو قرار دیا گیا

=== ڈاکومنٹری فلمیں ===* 2009 میں امریکی پبلک براڈ کاسٹنگ سروس نے امریکن ایکسپیریئنس: دی پولیو کروسیڈ کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بنائی* 12 اپریل 2010 کو سالک کی ویکسین کی 55ویں سالگرہ پر 66 منٹ کی ڈاکومنٹری "دی شاٹ فیلٹ راؤنڈ دی ورلڈ" نشر کی گئی* اکتوبر 2014 کو رابرٹ ریڈ فورڈ نے سالک انسٹی ٹیوٹ پر ایک فلم کی ہدایتکاری کے فرائض سر انجام دیے جو بچپن میں پولیو سے کچھ متائثر ہوا تھا

سالک کی تصانیف[ترمیم]

  • مین ان فولڈنگ (1972)
  • سروائیول آف دی وائزسٹ (1972)
  • ورلڈ پاپولیشن اینڈ ہیومن ویلیوز: اے نیو ریئلٹی (1981)
  • اناٹومی آف ریئلٹی: مرجنگ آف انٹوئیشن اینڈ ریزن (1983)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w66w9hgj — بنام: Jonas Salk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/3800 — بنام: Jonas Salk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب Whonamedit? doctor ID: http://www.whonamedit.com/doctor.cfm/3642.html — بنام: Jonas Edward Salk — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11923481x — بنام: Jonas Salk — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. ^ ا ب گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0058178.xml — بنام: Jonas Edward Salk — عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana
  6. ^ ا ب GeneaStar person ID: https://www.geneastar.org/genealogie/?refcelebrite=salkdr — بنام: Jonas Salk
  7. ^ ا ب Hrvatska enciklopedija ID: https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=54200 — بنام: Jonas Edward Salk — عنوان : Hrvatska enciklopedijaISBN 978-953-6036-31-8
  8. یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500235742 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 اکتوبر 2018 — خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — شائع شدہ از: 27 اگست 2018
  9. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/63566947
  10. https://web.archive.org/web/20190402094610/http://iccr.gov.in/content/nehru-award-recipients — سے آرکائیو اصل
  11. Robert Koch Award — اخذ شدہ بتاریخ: 21 اگست 2018
  12. https://www.robert-koch-stiftung.de/index.php?article_id=15&clang=0