رینالہ خورد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رینالہ خورد

رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ کی ایک تحصیل ہے۔ یہ ایک خوبصورت شہر ہے، جہاں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ طویل مچلز کے باغات ہیں۔
رینالہ خورد صوبہ پنجاب کے شمال مشرق میں ضلع اوکاڑہ کا ایک ترقی کرتا ہوا شہر ہے۔ یہ شہر اوکاڑہ سے 12 کلومیٹر مشرق کی طرف جبکہ لاہور سے 116 کلومیٹر مغرب کی جانب جی ٹی روڈ قومی شاہراہ 5 کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ شہر صوبے پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد کا صدر مقام ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً 570 فٹ (170 میٹر) بلندی پر ہے۔یہ شہر لاہور سے تقریباً 116 کلومیٹر (72 میل) اور ضلعی دار الحکومت اوکاڑہ سے 18 کلومیٹر (11 میل) کے فاصلے پر ہے۔ یہ لاہور کے جنوب مغرب میں قومی شاہراہ (جی ٹی روڈ) اور لاہور کراچی مین ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ شہر ایک مشہور پھلوں کے باغات جو لو ئرباری دوآب نہر اور ملتان روڑ کے چاول کی پیداوار کی وجہ سے بھی مشہور ہے یہ فصلیں لوئر باری دوآب نہر اور دیگر چھوٹی نہروں کے وافر پانی کی وجہ سے اگائی جا سکتی ہیں۔

رینالہ خوردمیںRenala Hydro Power Stationکی بھی سیر کی جا سکتی ہے جو نہر لوئر باری دوآب پر واقع ہے۔ اس کی گنجائش ایک میگا واٹ ہے ۔سرگنگا رام (1861.1927)جو ایک سول انجینئر اور Philanthropistتھے رینالہ ہائیڈرل پاور اسٹیشن 1925ء میں قائم کیا۔ 1873ء میں P.W.Dپنجا ب میں تھوڑے عرۃ کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو عمل فارمنگ کے لیے وقف کر دیا۔ انھوں نے گونمنٹ سے پچاس ہزارایکٹر کی ضلع منٹگمری میں بنجرزمین لی اور تین سال کے اندر اس بنجر زمین کو سرسبز کھیتوں میں تبدیل کر دیا۔ جسکوپانی HydroelectricPlant کے ذریعے سے دیا جا تاتھا اور ہزاروں میں آبپاشی کے نالے اپنے خرچ پر تعمیر کروائے۔ یہ اپنی طرز کاسب سے بڑا منصوبہ تھا۔ سرگنگا رام نے کروڑوں روپے کمائے جس میں سے اکثر خیرات میں دے دیا۔Sir Malcolm Hailey کے الفاظ میں جواس وقت پنجا ب کے گورنر تھے یہ کہا ’’وہ ایک ہیرو کی طرح کی فتح یا ب ہوئے اورصوفیا ء کی طرح خرچ کیا‘‘۔ رینالہ خورد کی ایک یہ بات بھی ہے کہ اس کی زمین میں میٹھے پانی کی قلت ہے۔ اس علا قے کے لوگ نہری پانی پر انحصار کر تے تھے جو اس وقت آبپاشی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ ٹیوب ویل وغیرہ نمکین پانی دیا کرتے تھے جوصرف زرخیز زمین کو آباد کرتاتھا۔

تاریخ[ترمیم]

مورخین کے مطابق 327 قبل مسیح ہندوؤں کا مقدس شہر اجودھن بعض روایات کے مطابق اسے کٹورا کہا جاتا تھا۔ جو اب پاکپتن کے نام سے مشہور ہے اور سری نگر جو اب دیپالپور کے نام سے جانا جاتا ہے۔دریائے بیاس کو پار کرنے کے لیے لوگ یہی راستہ اختیار کرتے تھے۔صحرا اور چھوٹی پہاڑیوں کے امتزاج کی طرح آج بھی اس جگہ کھنڈر کی ایک طویل رینج کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔جسے مقامی زبان میں دھایا کہا جاتا ہے۔جو مشہور تاریخ دانوں کے مطابق کسی نامعلوم قدیم شہر کی باقیات ہیں۔ایک تہذیب تھی۔جو شاید دریائے بیاس میں کہیں ڈوب گئی تھی۔یہ کھنڈر اور بیاس کا علاقہ آج بھی ایک پراسرار شکل اور ایک انکہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہے 1578ء میں مغل بادشاہ اکبر اپنے بیٹے سلیم اور شاہی وفد کے ساتھ حضرت بابا فرید گنج شکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس ہی علاقے سے گذرے تھے۔ بادشاہ اکبر نے ہی اس راہداری کا نام باری دوآب رکھا تھا۔اس وقت کاشت کاری اور چھوٹی آبادیاں صرف دریائے راوی اور بیاس کے کناروں کے آس پاس ہی ہوا کرتی تھی۔یہاں کے مقامی لوگوں کو جانگلی کہا جاتا تھا۔۔ 1849ءبرٹش سرکار نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد اپنی سلطنت کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے1886ء میں اس علاقے کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ سڑکوں و ریلوے کا نظام بنایا گیا۔2500 ایکٹر کے حساب سے گاؤں (چک) آباد کیے گئے۔ انجینئر رائے بہادر سر گنگا رام نے ہی 1914ء میں اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ 1925ء میں اپنے خرچے پر لوئر باری دوآب پر ایک عجوبہ برصغیر کا پہلا سمال ہائیڈل پاور اسٹیشن بنایا۔

تہذیب[ترمیم]

یہ علا قہ اپنی تہذیب اور تمدن کی عکا سی کر تاہے۔ ساون میں میلے ان اطوار میں سب سے نما یا ں چیز ہیں جس میں مختلف اقسام کی کھیلیں ڈھول کی تھا پ پر پیش کی جا تی ہے اورمٹھا ئیوں اور کھلونوں کی دکا نیں سجا ئی جا تی ہیں۔ ادھر کی آبادی پیشہ کے لحاظ زراعت پر انحصار کر تی ہے، اگرچہ لو گوں کی کا فی تعداد فکٹریوں اوردفتروں میں بھی کا م کرتی ہے اور دودھ کی مصنوعات اور پھلوں کی مصنوعا ت ا س علاقہ کی خاص علا مت ہے ۔[1]

شخصیات[ترمیم]

  • جاوید علاؤالدین
  • حافظ حفظ الرحمن لکھوی
  • حافظ عمر فاروق سعیدی
  • حافظ ابوبکر صدیق
  • حافظ عبد الرزاق
  • مولانا عبد اللہ سعید

حوالہ جات[ترمیم]