مندرجات کا رخ کریں

برڈ فلو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فلوکی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے کہ انفلوئنزا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری جس میں نظامِ تنفس متاثر ہوتا ہے

علامات

[ترمیم]
  • بخار (درجہ حرارت 102 تا 103 فارن ہائٹ تک ہو سکتا ہے)
  • دردِ سر (headache)
  • عضلاتی درد (muscular pain)
  • جارانفی (rhinorrhea) جسے عام الفاظ میں ناک بہنا کہتے ہیں۔ اس میں ناک (انف) سے مخطی سیال جاری ہوتا ہے
  • زکام (coryza) ---- یہ ایک حادی نزلہ ہوتا ہے حادی (acute) سے مراد اچانک نمودار ہونے والے مرض کی ہوتی ہے، اس کیفیت میں ناک میں سوزش، جھلی میں ورم اور سانس میں مشکل، چہرے پر ورم (بطورخاص آنکھ کے گرد) اور چھینکوں (sneezing) کی علامات مل سکتی ہیں ---- جبکہ نزلہ (catarrh) ایک مزمن (chronic) کیفیت کا نام ہے۔
  • کمزوری

انفلوئنزا وائرس

[ترمیم]

انفلوئنزا وائرس کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم A کہلاتی ہے۔ اے ( ) قسم کے وائرس کو اس کی سطح پر پائے جانے جانے والے دو پروٹین یعنی ہیما گلیوٹینن ( ) جسے H اور نیورامنیڈیز ( ) جسے N سے ظاہر کرتے ہیں، کی بنیاد پر ذیلی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ H قسم کے پروٹین کی ١٥ اور N قسم کے پروٹین کی نو اقسام ہیں۔ ان دونوں اقسام کے پروٹین کے مختلف ملاپ کی صورتوں میں مختلف اقسام کے وائرس بنتے ہیں۔ مثلا تائیوان میں پھیلنے والا H5N1 قسم کا وائرس ہے جس میں پروٹین H کی پانچویں اور این کی پہلی قسم موجود ہے۔

اے قسم کے انفلوئنزا وائرس پرندوں اور ممالیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ پرندوں کو متاثر کرنے والے اے انفلوئنزا وائرس کی 15 ذیلی اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ اے قسم کے انفلوئنزا وائرس گھوڑے، وہیل اور سؤر کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

انفلوئنزا B اور C قسم صرف انسانوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ یہ دیگر حیوانات کو متاثر نہیں کرتی ہیں۔ C قسم کے وائرس انسانوں میں وبائی صورت اختیار نہیں کرتے ہیں اور ہلکا سا متاثر کرنے کے بعد ختم ہو جاتے ہیں جبکہ انفلوئنزا A اور B قسم شدید حملہ کرتی ہیں اور وبائی صورت اختیار کرتی ہیں۔

عموما انفلوئنزا A کی لہر انسانی آبادیوں میں ہر تین سال جبکہ B چار سال کے وقفہ سے ظہور ہوتی ہیں۔ اس صدی کے دوران انسانی آبادی میں عالمگیر سطح پر تین دفعہ انفلوئنزا کی تین ذاتوں نے وبائیت پھیلائی۔ یعنی 1918ء، 1957ء اور 1968ء میں۔

برڈ فلو

[ترمیم]

برڈ فلو یعنی طیوری زکام پرندوں کو متاثر کرتا ہے۔ ان میں جنگلی پرندے بطخیں، مرغیاں شامل ہیں۔ انسانی فلو اور برڈ فلو میں خاصا فرق ہے۔ پرندوں میں فلو ان کی آنت کو متاثر کرتا ہے اور فضلے کے ساتھ خارج ہوتا ہے اور عماما فلو کا پرندوں پر کوئی منفی اثر ظاہر ہوتا ہے۔ پرندوں میں دریافت ہونے والے انفلوئنزا A کے ١٥ ذیلی اقسام کے وائرس میں چند ایک ہی اتفاقی طور پر پولٹری کی صنعت کو متاثر کرتے ہیں۔ وائرس سے بڑے پیمانے پر مرغیوں کی ہلاکتوں کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے فارم میں اتفاقی طور پرکوئی ایک وائرس سرگرم ہو جائے تو وہ جلد ہی اطراف و کنار کے فارموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کے باعث بڑے پیمانے پر پولٹری کی صنعت متاثر ہوتی ہے۔ انفلوئنزا وائرس کی جو اقسام پرندون کو ہلاک کرنے والی ہیں ان میں H5 اور H7 اقسام ہیں۔ 1997ء سے قبل کسی پرندے کے وائرس سے انسانوں میں انفلوئنزا پھیلنے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ 1997ء میں H5N1 قسم کے وائرس نے جو قبل ازیں صرف پرندوں کو متاثر ہوئے جن میں سے چھ ہلاک ہوئے۔ پھر 2003ء میں ہانگ کانگ میں اسی وائرس سے دو افراد متاثر ہوئے جن میں ایک ہلاک ہوا۔ اور پھر 2004ء میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 31 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 22 ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک اور وائرس H7N7نے فروری 2003 میں ہالینڈ میں 83 افراد کو معمولی سا متاثر کیا اور ایک شخص ہلاک ہوا۔ اس کے علاوہ کسی اور قسم کے پرندوں کے وائرس سے کہیں بھی انسانی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔ البتہ پرندوں کے وائرس کی ایک اور قسم H9N2 ہے جو مرغیوں میں بھی معمولی بیماری پیدا کرتی ہے۔ اس سے عموما ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔ اس نے ہانگ کانگ میں 1999ء میں ہی چند بچوں کو متاثر کیا مگر وہ سب صحت یاب ہو گئے۔ پرندوں کو متاثر کرنے والے انفلوئنزا وائرس H5N2 نے 1983ء میں امریکا میں بڑے پیمانے پر پولٹری کی صنعت کو متاثر کیا مگر اس سے کسی انسان کے متاثر ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

انفلوئنزا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کے وائرس عموما انسانوں کو متاثر نہیں کرتے۔ 1983ء میں امریکہ میں وائرس سے بڑے پیمانے پر مرغیاں متاثر ہوئیں جنہیں تلف کرنا پڑا۔ ابتدا میں جب H5N2 ظاہر ہوا تو اس سے پرندوں میں بیماری کی شدت میں اضافہ ہو گیا جس کے باعث فوری طور پر مرغیوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس وقت امریکی ڈاکٹر ویپسٹر نے پیشن گوئی کی کہ پرندوں کے وائرس انسانوں میں منتقل ہو کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

1997ء میں پہلی بار ہانگ کانگ میں H5N1 وائرس جو صرف پرندوں کو متاثر کرتا تھا، انسان پر حملہ آور ہوا۔ اس حملے کی زد میں آنے والے افراد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو پولٹری فارمز پر کام کرتے تھے۔ اسی طرح حالیہ واقعات میں بھی وہی لوگ متاثر ہوئے جو پولٹری فارمز پر کام کرتے تھے۔

H5N1 پرندوں سے انسانوں میں کیوں؟

[ترمیم]

H5N1 وائرس ایک عرصے سے پرندوں کو متاثر کر رہا تھا مگر انسانوں میں اس کے حملہ آور ہونے کی صلاحیت نہیں تھی۔ انسانوں کو متاثر کرنے والی H5N1 قسم کی تبدیل شدہ قسم ہی انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف وسکنسن کی تحقیقاتی ٹیم نے ایک تجربہ کیا۔ عموما انسانوں کو متاثر کرنے والے انفلوئنزا کی اقسام چوہوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ H5N1 کی وہ قسم جس نے انسانوں کو متاثر کیا، وہ چوہوں میں صرف پھپھڑوں کو متاثر کرسکی مگر اس نے چوہوں میں کسی قسم کی ہلاکت خیزی نہیں دکھائی۔ اس تحقیقی ٹیم نے H5N1 وائرس کا جینیاتی تجزبہ کیا تو علم ہوا کہ صرف ایک جین PB2 میں ایک نیکلیوٹائیڈ کی تبدیلی واقع ہوئی اور ایک مقام پر ہونے والی تبدیلی کے باعث H5N1 شاید انسانوں کو متاثر کرنے کے قابل ہوا ہے۔

برڈ فلو اور پاکستان

[ترمیم]

برڈ فلو کی کئی اقسام ہیں اور دنیا بھر میں پولٹری کی صنعت کو اس سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مگر یہ نقصان اچانک پرندوں کی اموات کے باعث ہوتا ہے۔ پاکستان میں دو وائرس جن سے نقصان ہوا ہے وہ H7N3 اور H9N2 ہیں۔ ان دونوں انفلوئنزا وائرسوں سے دنیا بھر میں کہیں بھی کسی شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

برڈ فلو کی جس وبا کا خوف پھیلایا جا رہا ہے وہ انفلوئنزا وائرس H5N1 ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی یہ وائرس نہیں ہے۔ ہالینڈ میں جہاں H7N7 سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا، اس قسم کا واویلا عالمی سطح پر نہیں مچایا گیا جبکہ صرف H7 کے شبہ پر پاکستان میں برڈ فلو کا کہرام مچا ہوا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں H7N3 وائرس سے مرغیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پھر غور طلب بات یہ بھی ہے کہ دیگر ممالک میں بھی جہاں برڈ فلو سے انسان متاثر ہوئے ہیں جو پرندوں ( مرغیوں اور بطخوں ) کے ساتھ یعنی فارم پر ہوتے ہیں جبکہ مرغی کا گوشت کھانے سے برڈ فلو سے متاثر ہونا کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اگر برڈ فلو سے انسان متاثر ہونے لگیں ( یعنی وہ خدشہ سچ ہو جائے جس کی بنیاد پر واویلا مچایا جا رہا ہے ) تو اس فلو کی سرعت اور ہلاکت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ چونکہ برڈ فلو پرندوں سے پھیلتا ہے اس لیے آپ کا مرغی نہ کھانا آپ کی حفاظت کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر کوئی اس قسم کا وائرس جو پرندوں اور انسانوں کو یکساں متاثر کرے، وبائی شکل اختیار کر لے تو وہ صرف چار دن میں پوری دنیا میں پھیل کر اپنی ہلاکت خیزی مچا سکتا ہے۔

اس کی سرعت کی ایک وجہ تو پرندے ہیں جو اس وائرس کو تیزی سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہچانے کا سبب بنیں گے۔