افغانستان کی حکومتیں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اٹھارویں صدی سے بیشتر افغانستان کا ایک حصہ ایران کے ماتحت تھا، دوسرا حصہ ہندوستان کے ماتحت تھا تیسرا حصہ بخارا کے ازبک قوانین کے ماتحت تھا۔ اٹھارویں صدی میں نادر شاہ افشار نے افغانستان کو تسخیر کر لیا ۔

افغانستان کا قیام[ترمیم]

احمد خان جو نادر شاہ کی فوج میں جرنیل تھا نادر شاہ کے قتل کے بعد افغانستان کا نظم و ضبط سنبھال لیا اور موجودہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔ اس کی وفات کے وقت ( 1773) کے وقت اس کی حدودیں مشہد، بلوچستان، کشمیر و پنجاب پر مشتمل تھا۔ اس کا بیٹا تیمور شاہ ( 1773 تا 1793) ایک کمزور حکمران تھا۔ دار الحکومت قندھار سے کابل لے گیا اور بہت سے ہندوستانی علاقے نکل گئے اور قبائلی اختلاف ابھر آئے۔ تیمور شاہ کا فرزند زمان شاہ ( 1703 تا 1799 ) کی حکومت کا آغاز بھائیوں کے جھگڑوں اور قبائلی کشمکش سے ہوا۔ پہلے یہ اپنے بھائیوں کا دبانے میں کامیاب ہو گیا، بعد میں اپنے بھائی محمود شاہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا جس نے اسے اندھا کر دیا۔ محمود شاہ (1799 تا 1803) اول مرتبہ کو اس کے بھائی شاہ شجاع نے اقتدار سے محروم کر دیا، مگر یہ قید سے بچ نکلا اور ( دوبارہ 1810 تا 1818 ) اس نے اپنے بھائی شاہ شجاع کو شکست دے کر تخت پر قبضہ کر لیا۔ اس کا وزیر فتح خان جو اس کا بڑا حامی تھا، اس کی برطرفی پر قبائل نے بغاوت کردی۔ وہ ہرات کے سوا جہاں 1829 حکمران رہا باقی علاقوں سے دست بردار ہو گیا اور فتح خاں کے بھائیوں نے مستقل ریاستیں قائم کر لیں۔ شاہ شجاع اپنے بھائی کو شکست دے کو حکمران بنا۔ اس نے انگریزوں سے تعلقات بڑھائے مگر اسے محمود شاہ نے برطرف کر دیا۔ شاہ شجاع، رنجیت سنگھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان میں ایک معاہدہ ہوا کہ شاہ شجاع کو افغانستان کا تخت واپس دلایا جائے گا۔ 1820میں ایک انگریزی فوج کابل پہنچی اور دوست محمد کو گرفتار کرکے ہندوستان بھیج دیا گیا۔ شا شجاع تخت پر بیٹھ گیا، لیکن اس سے ملک میں سخت بیچینی پھیلی اور برطانوی اثر کے خلاف سخت سورش پیدا ہو گئی۔ دوست محمد کے بیٹے اکبر خان کی سرکردگی میں حملے کیے گئے اور تین فوجی قتل کر دے ے گئے۔ ایک اور انگریزی فوج کابل پہنچی جس نے کابل پر قبضہ کر لیا اور مجرموں کو سزا دی گئی۔ مگر انگریزی فوج نے ٹہرنا مناسب نہیں سمجھا اور واپس چلی گئی اور دوست محمد 1852 میں پھر حکمران بن گیا ۔

بارک زئی خاندان[ترمیم]

دوست محمد فتح محمد کا بھائی اور غزنی کا حکمران اور بارک زئی خاندان کا بانی تھا۔ وہ 1829 میں کابل پر اور 1834 میں قندھار پر قابض ہو گیا۔ اور 1835میں افغانستان کا حکمران بنا۔ پہلی دفعہ 1835 تا 1839 اور دوسری دفعہ1842 تا 1863 تک حکمران رہا۔ اس نے 1855 میں قندھار پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ 1855 میں اس نے ایرانیوں کے خلاف انگریزوں سے معاہدہ کیا۔ کیوں کہ ایران نے ہرات پر قبضہ کر لیا تھا۔ برطانیہ نے 1856میں ایران کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ مارچ 1857 میں ایران ہرات سے دستبردار ہو گیا اور افغانستان کی آزادی کو تسلیم کر لیا۔ دوست محمد نے دس مہینے کے محاصرے کے بعد ہرات اس حاکم سے واپس ہو گیا جو ایران کے بعد ہرت پر قابض ہو گیا تھا۔ دوست محمد خان کی وفات کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ برطانیہ نے دوست محمد کے تیسرے فرزند شیر علی کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ تاہم اس کو اپنے بھائیوں سے دعویٰ منوانے میں بڑی مشکلات پیش آئیں۔ 1871 میں یہ حکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے برطانیوی دباؤ میں توازن پیدا کرنے کے لیے روس سے تعلقات بڑھائے اور 1878 میں روس سے باہمی امداد کا معاہدہ کیا۔ اس پر برطانیوی حکومت نے اصرار کیا کہ اس کا بھی ایک مشن منظور کیا جائے۔ شیر علی کے نتیجے میں دوسری جنگ ( 1878 تا 1879 ) ہوئی۔ اسی دوران میں 1879 میں شیر علی نے وفات پائی ۔

معاہدہ گندمک[ترمیم]

یعقوب خان ( 1879 تا 1880 ) امیر شیر علی کا فرزند مشند نشین ہوا۔ نگریز ملک کے بڑے حصہ کو پامال کرچکے تھے۔ لہذا معاہدہ گندمک پر مجبور ہوا۔ اس کے مطابق انگریزوں کو درہ خیبر پر قبضہ کا حق مل گیا اور خارجہ پالیسی کا انتظام برطانیہ کے ذمہ اور اسے تجارت کی کامل آزادی مل گئی اور ہر سال امیر کو دس ہزار پاونڈ امداد منظور کی۔ اس نتیجہ میں برطانیہ کہ خلاف بغاوت ہوئی اور برطانوی سفیروں کا قتل ہوا۔ برطانیہ نے کابل کی طرف پیش قدمی کی۔ امیر یعقوب نے حکومت سے دستبرداری اور خود کو برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ عبد الرحمٰن ( 1880 تا 1901 ) امیر شیر علی کا بھتیجا اور اس کے مخالف تھا، جو روس میں پناہ لیا ہوا تھا۔ اسے وہاں سے بلا کر امیر بنایا گیا۔ اس نے معاہدہ گندمک کو قبول کر لیا، لیکن فراست کے ساتھ روسیوں کو انگریزوں کے خلاف اور انگریزوں کو روسیوں کے خلاف استعمال کرتا رہا۔ یوں ملک کو بچا کر اور ساتھ ہی اس نے بہت سے قبائل کو مسخر کرکے اپنا اقتدار کو قائم کیا ۔

روسیوں سے چپقلش اور ڈیوینڈر لائن[ترمیم]

1885 میں پنج دہ سرحدی جھگڑے میں روسی اور افغانی فوجوں چھڑپیں ہوئیں۔ اس سے روس اور برطانیہ کے درمیان میں نازک صورت حال پیدا ہو گئی، لیکن 1886 میں گفت شنید کے ذریعے معاملات طہ کیے گئے، اس کے عہد میں افغانستان کی سرحدیں متعین کی گئیں۔ برطانیہ میں کے ساتھ معاہدہ ڈیوڈینڈر ( 1863 ) اس کے مطابق چترال سے بلوچستان تک ہندوستان و افغانستان کی سرحدیں متعین ہو گئی۔ روس کے ساتھ ایک طویل کشمکش کے بعد پامیر کی سرحد کافیصلہ 1891 میں افغانستان نے ایک تنگ پٹی رکھی، جو روس کو برطانوی مقبوضات کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ حبیب اللہ خان ( 1901 تا 1919 ) یہ کم اثر و رسوخ والا حکمران تھا اور حرم و علمائ کے زیر اثر تھا۔ جب کہ یورپی خیالات بترویج پھیل گئے۔ روس کی سرگرمیوں کے جواب میں برطانیہ سے نیا معاہدہ جس میں سابقہ معاہدوں کی تصدیق کی گئی۔ 1907 میں برطانیہ اور روس کے درمیان میں سمجھوتے جس کے مطابق روس نے افغانستان میں برطانیہ کی مقتدر حثیت تسلیم کرلی اور افغانستان کے معاملات میں دخل نہ دینے کا عہد کیا۔ افغانستان پہلی جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا۔ کیوں کے ہندوستان نے اس کے لیے بھاری رقم اس کے لیے دی تھی۔ اگرچہ جرمنی اور ترکی مشنوں نے اس پرزور ڈالا اور مذہبی پروپنگنڈا بھی ہوا کہ افغانستان کو ترکی کا ساتھ دینا چاہیے۔ مگر حبیب اﷲ انگریزوں کے تابع ہو گیا تھا اور 1919 میں قتل کر دیا گیا۔ قدامت پسندوں نے اس کے بھائی نصراﷲ خان کے امیر ہونے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اس کے بیٹے امان اﷲ خان جس کی فوج حامی تھی اور وہ کابل کا حاکم تھا دار الحکومت کو اس نے اپنے قبضہ میں رکھا۔ جس پر نصراﷲ دستبردار ہو گیا۔ امان اﷲ خان ( 1919 تا 1929 ) افغانستان میں انگریزوں کے خلاف جذبات کا طوفان موجزن تھا۔ ہندوستان چار سالہ جنگ کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ امان اﷲ نے صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ کہ خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور ہندوستانی مسلمانوں سے بھی برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ چند ابتدائی کامیابیوں کے بعد اسے پیچھے ہٹنا پڑا اور خود انھیں بھی خطرہ ہو گیا۔ چونکہ طویل

جنگ کے لیے کوئی تیار نہیں تھا اس لیے گفت شنید ہوئی اور برطانیہ سے 1921 میں معاہدہ ہوا اور اس میں افغانستان کی آزادی تسلیم کیا گیا اور اسے تمام طاقتوں سے براہ راست تعلق پیدا کرنے کا حق مل گیا اور برطانیہ نے امدادی رقوم بند کر دیں۔ 1921 میں امان اللہ نے روس نے ترقی کا اور ایران سے ایک دوسرے کے خلاف عدم جارحیت معاہدہ کیا اور اس کے بعد امان اللہ آہستہ آہستہ روس پر انحصار کرنے لگا۔ 1933 میں ترکی کے دستور کے نمونے پر دستوری اصلاحات ایک قومی مجلس کا اعلان کیا۔ جس کے نصف ممبر منتخب اور نصف نامرز تھے، جسے قانون سازی کے بعض اختیار دیے گئے تھے۔ مگر بیشتر اختیارات امیر نے اپنے پاس رکھے گئے تھے۔ اس کی خواہش تھی کہ ملک کو تیزی سے نئے اصول پر لے آئے۔ 1926 میں امان اللہ نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ 1929میں روس کے ساتھ معاہدہ کیا۔ جس میں پہلے معاہدوں کی توثیق نیز غیر جانبداری اور عدم مداخلت کا کیا۔ 1927 میں ایران کے ساتھ دوستی اور حفاظت کا معاہدہ، ترکی کے ساتھ 1928 ترکی کے ساتھ دوسرا معاہدہ کیا۔ 1928 میں امان اللہ خان اور اس کی ملکہ نے ہندوستان، مصر اوریورپ کی سیاحت کی، جہاں اپنے ملک کے لیے اقتصادی اور مشاورتی معاہدے کیے اور ملک کی ترقی کے لیے نئے خیالات لے کر آئے۔ لیکن ملک میں ان کی مخالفت ہوئی، جس کو مذہبی اور قبائلی حلقے ہوا دے رہے تھے اور بغاوت کا آغاز ہو گیا۔ امان اللہ خان نے دیکھا کہ وہ مخالفت روک نہیں سکتا ہے تو اپنے بھائی عنایت اللہ خان کے حق میں دستبردار ہو گیا ۔

بچہ سقا[ترمیم]

عنایت اللہ خان آرام پسند اور بے اثر شخص تھا۔ ایک قزاق بچہ سقا نے ٹھورے سے آدمیوں کے ساتھ کابل پر قبضہ کر لیا اور حبیب اللہ کے لقب سے اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا۔ اس کے خلاف کئی دعوے دار اٹھ کھڑے ہو گئے۔ ان میں ایک امان اللہ بھی تھا۔ اس نے قندھار میں فوج جمع کرلی لیکن کابل پر پیش قدمی کرتے ہوئے شکست کھائی ۔

نادر شاہ کی بادشاہت[ترمیم]

محمد نادر شاہ ( 1929 تا 1933 ) ایک ممتاز فوجی افسر تھا اور یورپ سے آیا تھا۔ اس نے فوج جمع کرکے کابل پر قبضہ کر لیا اور اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا۔ حبیب اللہ خان مارا گیا لیکن کئی دعوے دار کھڑے ہو گئے۔ نادر شاہ نے انھیں شکست دے دی۔ اس کی پالیسی ایسی تھی کے ملک کو جدید اصولوں پر لانے کا کام کیا جائے، لیکن اس کی نمائش کم کی جائے۔ اس نے نئے دستور کا اعلان کیا، جو1923 کے نمونے کا تھا، لیکن اس میں دو ایوان تھے۔ ایک ایوان نامرز ممبر کا تھا اور دوسرے ایوان کے ارکان منتخب ہوتے تھے۔ 1933 میں نادر شاہ کو شہید کر دیا گیا۔ محمد ظاہر شاہ ( 1933 تا 1979 ) نادر شاہ کا فرزند تھا، اس کو اپنے چچاؤں کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے اپنے باپ کی پالسیوں کو جاری رکھا۔ اس کے عہد میں بھی مقامی بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ پاکستان کی آزادی کے وقت اس نے صوبہ سرحد کے ان علاقوں پر اپنا دعویٰ ظاہر کیا، جو ڈیوینڈر معاہدے کے تحت ہندوستان کے حوالے کیے تھے اور صوبہ سرحد میں پختونستان کا نارہ لگوایا۔ گو اس کو پاکستان میں چند ایک کے سوا کوئی اہمیت نہیں دی۔ 1979 میں اس کے قریبی عزیز داؤد خان نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ ظاہر شاہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔

روسیوں کی آمد[ترمیم]

داؤد خان نے ظاہر شاہ کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملک کے جمہوریہ کا اعلان کر دیا۔ اس نے پختونستان کے مسئلہ کو اٹھایا۔ لیکن 1979 نور محمد تراکی کی روسیوں کی مدد سے بغاوت کردی اور قتدار پر قبضہ کر لیا، داؤد خان مارا گیا اور روسی فوجیں ملک میں داخل ہوگئیں اور ایک کڑور سے زیادہ پناہ گزین پاکستان اور دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہو گئے۔ پاکستان میں ان کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد تھی۔ مقامی باشندوں نے روس کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کردی۔ یہ لوگ جو منشر اور غیر تربیت یافتہ تھے۔ پاکستان نے انھیں منعظم کیا اور تربیت فراہم کی اور انھیں محدود پیمانے پر اسلحہ بھی دیا اور ان کی رہنمائی کی۔ بعد میں امریکا بھی ان کی مدد کرنے لگا۔ اس طرح مجاہدین کو جدید ترین اسلحہ ملنے لگا اور مجاہدین نے اپنی جدوجہد تیز سے تیز تر کردی گئی۔ روس نے دس سال افغانستان میں قبضہ سے شدید نقصان اٹھایا اور اس سے اس کے اقتصادی ڈھانچہ کو شدید نقصان اٹھایا اور اس سے ایک پاکستان سے ایک معاہدے کے تحت 1990 میں افغانستان کی کٹ پتلی حکومت جس کا سربراہ ببرک کارمل تھا بے مدد گار چھوڑ کر واپسی اختیار کرلی۔ مجاہدین نے کابل کا رخ اختیار کیا اور کابل پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس ساتھ ہی مجاہدین ببرک کارمل نے ازبک ملشیا کے سربراہ رشید دوستم کے ساتھ مل کر مزاحمت گئی ۔

طالبان[ترمیم]

1995 میں ملا عمر نے اس خانہ جنگی سے تنگ آکر قندھار میں طا لبان کومنظم کیا۔ جس میں علمائ اور مذہبی عناصر شامل تھے۔ طالبان نے ان گروپوں کے خلاف کارروائی کی جو اقتدار کے لیے آپس میں لڑ رہے۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور ببرک کارمل کو گرفتار کرکے پھانسی دے گئی۔ طلبان نے ملک کا بیشتر حصہ ان کے تسلط سے آزاد کرالیا۔ مخالف گروپ جس میں سابقہ کمونسٹ عناصر بھی شامل تھے اور آپس میں لڑ رہے تھے وہ طلبان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے متحد ہو گئے اور ایک گروپ میں ضم ہو گئے، جو شمالی اتحاد کے نام سے موسوم ہوا اور اسے امریکا روس اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل تھی اور ان اتحادیوں کے قبضہ میں صرف شمال کا کچھ علاقہ رہے گیا تھا۔ عوام جو خانہ جنگی سے تنگ آ گئے تھے انھوں نے طالبان کا خیر خیر مقدم کیا اور ملک میں امن قائم کیا۔ طالبان کی حکومت کو صرف تین ملکوں پاکستان سعودی عرب اور شارجہ نے تسلیم کیا۔ اس کی وجہ طالبان کو انتہا پسندانہ روئیہ تھا اور انھوں نے بیرونی مالک سے تعلقات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جس کی وجہ سے افغانستان مغرب مخالف عناصر کا گڑھ بن گیا۔ جس میں القائدہ اور اسامہ بن لادن شامل تھا ۔

امریکی حملہ[ترمیم]

گیارہ ستمبر 2001 کے واقع کا امریکا اس کا الزام القاعدہ پر لگایا اور افغانستان سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دے اور دوسری صورت میں دھمکی دی کہ دوسری صورت میں امریکا افغانستان پر حملہ کرکے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ مگر طالبان نے امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور ان کا کہنا ہے کہ یہ القائدہ پر محض الزام ہے۔ پاکستان نے کوشش کی کہ طالبان اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر کے افغانستان کو ممکنہ تباہی سے بچالے۔ مگر طالبان اپنے انکار پر ڈٹے رہے۔ پاکستان اور دوسرے ممالک نے افغانستان سے اپنے تعلقات ٹوڑ لیے اور اس طرح افغانستان پوری دنیا میں تنہاہ رہے گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے میں افغانستان پر مزائلوں اور فضائی حملے طالبان اور القائدہ کے ٹھکانوں پر ممکنہ حملے کیے۔ دوسری طرف شمالی اتحاد جس کو امریکا کی پوری مدد حاصل تھی۔ مگر شمالی اتحاد طالبان کو پیچھے ڈھکیلنے میں ناکام رہے۔ لیکن طالبان پنتیس دن مزاحمت کرنے کے بعد مزار شریف اور کابل خالی کر دیے اور ملک کے باقی حصوں پر اقتدار مقامی یا قبائلی سرداروں کے حوالے کرکے خود رپوش ہو گئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں افغانستان میں اتر گیں۔ امریکا نے ایک جلاوطن رہنما حامد کرزئی جو اعتدال پسند تھے کی سرکردگی میں ایک غبوری حکومت تشکیل دی۔ جس میں شمالی اتحاد کو اہم عہدے دیے گئے۔ جینوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل کوفی عنان کی صدارت میں مختلف نسلی گروہوں جلاوطن افغانوں کے علاوہ سابقہ ظاہر شاہ کے نمائندوں کا اجلاس جس میں افغانستان کا آئندہ لائمہ عمل کا انتخاب طے کرنے کے لیے ہوا۔ اس اجلاس میں پاکستان، امریکا اور روس کے نمائندے مبصر کی حثیت سے شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں آئندہ طرز حکومت کے لیے لوئی جرگہ کے ناموں کا انتخاب ہوا۔ اس اجلاس میں ناموں کے انتخاب پر پشتو بولنے والوں نے سخت احتجاج کیا کہ انھیں غبوری حکومت کی طرح جس میں ان کی آبادی سے کم عہدے دیے گئے تھے، اس طرح لوئی جرگہ میں ان کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم دی گئی ہے۔ سخت اختلاف رائے کے بعد لوئی جرگہ کے ناموں کا انتخاب ہوا اور یہ طہ پایا گیا کہ لوئی جرگہ طرز حکومت طہ کرے گا ۔

نئی حکومت[ترمیم]

لوئی جرگہ کا اجلاس کابل میں ہوا۔ جس میں سخت طرز حکومت پر سخت اختلاف رائے ہوا اور یہ طہ پایا گیا کہ دوسال تک یہی غبوری حکومت حامد کرزئی کی قیادت میں رہے اور اس دوران میں غبوری حکومت آئین بھی تشکیل دے اور الیکشن بھی کرائے۔ اب جب کہ افغانستان میں بظاہر ایک منتخب حکومت قائم ہے اور ایک آئین بھی تشکیل بھی دے دیا ہے۔ اب کرزئی حکومت صرف کابل تک محدود رہے گئی ہے اور ملک میں باقی جگہ قبائلی یا علاقائی سرداروں کی حکمرانی ہے اور اکثر اتحادیوں کی طلبان سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ اتحادیوں کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر ابھی تک امریکا کی پہنچ سے دور ہیں اور اس دوران میں امریکا نے کوشش کی کہ طالبان کے کسی ڈھرے کو الگ کرکے اقتدار اپنی شرائط پر ان کے حوالے کر دے۔ مگر امریکا کو اس میں ناکامی ہوئی ہے ۔

پاکستان میں اوسامہ بن لان کو امریکیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد 2014 میں امریکی فوج کی واپسی کے بعد نئی حکومت پروفیسر عبد الغنی کی سرکردگی میں بنی ہے۔ جس کی سر توڑ کوشش ہے کے طلبان کو کسی طرح باچیت کے ذریعے حکومت میں شریک کیا جائے۔ دوسری طرح طلبان بھی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ کیوں عراق میں بنے والی انتہا پسند دائش جس نے عراق اور شام کے بعض علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی ہے میں طالبان کے بعض ڈھرے شامل ہو گئے ہیں۔ اس کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آنے واے دور میں افغانستان میں کیا حالات ہوں گے۔ بلاشبہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ جب تک اتحادی افواج ملک میں رہیں گی کرزئی حکومت قائم رہے گی۔ بعد میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔