ایٹمی ماڈل کا ارتقا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایٹم مادے کا چھوٹا ترین ذرہ ہوتا ہے جو اپنے کیمائی خواص برقرار رکھتا ہے۔ چونکہ ایٹم عام خورد بین سے نظر نہیں آتے اس لیے سائنس دانوں کو ایٹم کی ساخت دریافت کرنے میں بڑا وقت لگا۔ بہت ساری مختلف ایجادوں سے ایٹم کی ساخت آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی گئی۔

بوہر کے ماڈل کے مطابق ایٹم صرف مخصوص توانائی جذب یا خارج کر سکتا ہے۔ جب توانائی جذب ہوتی ہے تو اس کے الیکٹرون بیرونی مدار میں چلے جاتے ہیں۔ جب توانائی خارج ہوتی ہے تو وہ الیکٹرون دوبارہ اندرونی مدار پر آ جاتے ہیں۔

ڈالٹن[ترمیم]

1803 میں جوہن ڈالٹن نے نظریہ پیش کیا کہ مادہ ایٹموں سے بنا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی مادی چیز کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں تو آخر کار ایک حد آ جائے گی اور مزید تقسیم ممکن نہیں ہو گی۔

فیراڈے[ترمیم]

1832 میں مائیکل فیراڈے نے مختلف نمکیات کے محلولوں میں سے بجلی گزاری اور نتائج کا بغور مطالعہ کیا۔ اس نے برق پاشیدگی (electrolysis) کے قوانین وضع کیے اور بتایا کہ بجلی گزرنے سے ایٹم اور مولیکیول دو حصوں (مثبت اور منفی) میں بٹ جاتے ہیں۔

پلک کر[ترمیم]

1859 میں جے پلک کر نے پہلی گیس ڈسچارج ٹیوب بنائی۔ آج کل اسے پکچر ٹیوب (picture tube) یا کیتھوڈ رے ٹیوب (یا مخفف سی آر ٹی) کہتے ہیں۔ اس ٹیوب نے بعد میں الیکٹرون کی دریافت میں بڑی مدد دی۔

ایک پرانے 14 انچ کے TV کی کیتھوڈ رے ٹیوب (پکچر ٹیوب) کی پُشت۔ آج کل ٹی وی CRT کی بجائے ایل ای ڈی یا ایل سی ڈی سے بنائے جاتے ہیں۔

مینڈیلیف[ترمیم]

1869 میں مینڈیلیف نے سارے عناصر کو ان کے کیمائی خواص کی بنیاد پر سات گروپ میں تقسیم کیا۔ اس وقت تک غیر عامل گیسیں دریافت نہیں ہوئیں تھیں۔ مینڈیلیف نے بتایا کہ ایٹم جیسے جیسے بھاری ہوتے چلے جاتے ہیں ان کے خواص بدلتے چلے جاتے ہیں لیکن پھر ایک ایسا ایٹم آتا ہے جہاں سے یہی سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ مینڈیلیف کے بنائے ہوئے دوری جدول (Periodic Table) میں بعد میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں مگر آج بھی اس کا سہرا مینڈیلیف کے ہی نام جاتا ہے۔

Dmitri Mendeleev

میکس ویل[ترمیم]

1873 میں جیمز کلرک میکس ویل نے نظریہ پیش کیا کہ خالی جگہ میں برقی (الیکٹرک) اور مقناطیسی میدان موجود ہوتا ہے۔
میکس ویل نے ہی روشنی کی رفتار کا حساب لگانے کا فارمولا دریافت کیا تھا۔

کروکس[ترمیم]

1876ء میں سر ویلیئم کروکس نے ٹنگسٹن کے تار پر بیریم آکسائیڈ کی تہ جمانے کا طریقہ دریافت کیا جس سے کیتھوڈ (منفی برقیرہ) بنائے جاتے ہیں۔[1]

کروکس ڈسچارج ٹیوب کا ایک نمونہ جس کی مدد سے ایکس ریز بنائی جاتی تھیں۔

1879ء میں سر ویلیئم کروکس نے ڈسچارج ٹیوب میں کیتھوڈ ریز دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ کیتھوڈ سے نکلنے والی یہ شعاعیں ایک سیدھ میں چلتی ہیں، ان کی وجہ سے گیس چمکنے لگتی ہے، یہ جس چیز سے ٹکراتی ہیں اس پر منفی چارج آ جاتا ہے، برقی یا مقناطیسی میدان میں یہ جس طرح مڑتی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان شعاعوں پر منفی چارج ہے۔ جب یہ شعاعیں ایک بہت ہی چھوٹے سے پنکھے کے پر سے ٹکراتی ہیں تو پنکھا گھومنے لگتا ہے یعنی یہ شعاعیں مادی ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ (کئی سال بعد پتہ چلا کہ کیتھوڈ ریز اور تابکاری کی بی ٹا ریز درحقیقت تیز رفتار الیکٹرونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ )

بامر[ترمیم]

1885 میں Johann Balmer جو سوئزرلینڈ میں سیکنڈری اسکول میں حساب کا ٹیچر تھا، نے ہائیڈروجن گیس سے نکلنے والی طیفی خط کی وضاحت کرنے کا سادہ فارمولا دریافت کر لیا۔

گولڈسٹین[ترمیم]

1886 میں ای گولڈسٹین نے ڈسچارج ٹیوب میں کنال ریز دریافت کیں جن کے برقی اور مقناطیسی خواص کیتھوڈ ریز کے برعکس تھے۔

اسٹونی[ترمیم]

1894 میں جی جے اسٹونی نے خیال ظاہر کیا کہ بجلی کا گذرنا منفی ذرات کے بہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تصور کیا جاتا تھا کہ بجلی کا گذرنا مثبت ذرات کا بہاو ہے۔ اسٹونی نے ہی ان منفی ذرات کو الیکٹرون کا نام دیا۔

رونٹیگن[ترمیم]

1895ء میں رونٹیگن نے اتفاقی طور پر دریافت کیا کہ جب کیتھوڈ رے ٹیوب زیر استعمال ہوتی ہے تو اس کے نزدیک رکھے کچھ کیمیائی مادے (بیریئم پلاٹینو سائیانائیڈ) چمکنے لگتے ہیں۔[2] اس طرح ایکس شعاع دریافت ہوئیں جو برقی یا مقناطیسی میدان میں نہیں مڑتیں۔ ولہیلم رونٹیگن کو 1901ء میں طبیعیات کا پہلا نوبل انعام ملا۔

1896ء کی ایک تصویر۔ کروکس ٹیوب کے ذریعے ایک شخص کے ہاتھ کا ایکس رے لیا جا رہا ہے۔

بیک کوئیریل[ترمیم]

1896 میں ہنری بیک کوئیریل نے معلوم کیا کہ کچھ (تابکار) مادے خود بخود ایکس ریز (گاما ریز) خارج کرتے ہیں۔

تھامسن[ترمیم]

جے جے تھامسن نے کیتھوڈ شعاعوں کی خصوصیات معلوم کر لیں جن سے ظاہر ہوا کہ ایٹم اپنے اجزا (الیکٹرون اور مثبت آئین) میں توڑا جا سکتا ہے۔
1897ء میں جے جے تھامسن نے الیکٹرون کے چارج اور کمیت کی نسبت (e/m ratio) معلوم کر لی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اس وقت بھی نہ الیکٹرون کا چارج دریافت ہوا تھا نہ اس کی کمیت۔ 1906ء میں اسے فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔

مقناطیسی میدان میں الیکٹرون ڈسچاج ٹیوب کے اندر گردشی حرکت کرتے ہیں اور ٹیوب کے اندر آرگون گیس سے ٹکرا کر جامنی روشنی پیدا کرتے ہیں۔

تھامسن نے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ الیکٹرون کی کمیت پروٹون سے لگ بھگ 2000 گنا کم ہے۔ اس وقت الیکٹرون کو 'corpuscles' کہا گیا تھا۔[3]

کیوری[ترمیم]

1898ء میں میڈم ماری کیوری نے یورینیئم اور تھوریئم کی تابکاری کا بغور مشاہدہ کیا اور ایٹم کے اس طرح خود بخود ٹوٹنے کو تابکاری کا نام دیا۔ ماری کیوری اور ان کے شوہر نے مل کر پیزوالیکٹریسٹی کی مدد سے ایک ایسا آلہ بنایا جس سے تابکاری کی پیمائش ممکن ہوئی۔[4] ماری کیوری دنیا کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں دو بار نوبل انعام ملا۔

ردر فورڈ[ترمیم]

1898 میں ردر فورڈ نے تابکار یورینیئم اور تھوریئم سے نکلنے والی شعاعوں کا مطالعہ کیا اور انھیں الفا اور بی ٹا (beta) کا نام دیا۔

سوڈی[ترمیم]

1900ء میں ردرفورڈ کے شاگرد سوڈی نے معلوم کیا کہ تابکاری کے نتیجے میں ایک عنصر دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کیمیائی طریقے سے ریڈیئم کے مختلف ہم جا الگ الگ کر لے مگر ناکام رہا۔ 1921ء میں سوڈی کو کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔

پلانک[ترمیم]

1900 میں میکس پلانک نے سیاہ جسمی اشعاع کا راز دریافت کر لیا۔ اس نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ توانائی بھی ذرات کی نوعیت رکھتی ہے۔ اُس وقت فوٹون کو quanta کہا گیا تھا۔
پلانک نے جس کوانٹم تھیوری کی ابتدا کی تھی اسے موجودہ شکل تک پہنچنے میں 25 سال لگے۔

ناکوگا[ترمیم]

1903 میں ناکوگا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سیارہ زحل کی طرح ایٹم میں بھی الیکٹرون ایک مثبت ذرے کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔

ابیگ[ترمیم]

1904 میں ابیگ نے دریافت کیا کہ غیر عامل گیسوں میں الیکٹرون کے مدار مکمل بھر چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گیسیں غیر عامل ہو جاتی ہیں۔

آئن اسٹائن[ترمیم]

1905 میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
1921 میں آئن اسٹائن کو ضیا برقی اثر پر فزکس کا نوبل انعام ملا۔ آئن اسٹائن کو پلانک کے نظریے سے بڑی مدد ملی تھی۔

گیگر[ترمیم]

1906 میں ہینس گیگر نے ایک ایسا الیکٹرونک آلہ بنایا جو الفا ذروں کی موجودگی پر کلک کی آواز نکالتا تھا۔

ملیکین[ترمیم]

1909 میں ملیکین نے کیپیسٹر کی پلیٹوں کے درمیان تیل کے قطروں کو معلق کر کے الیکٹرون کا چارج معلوم کر لیا۔ چونکہ چارج اور کمیت کی نسبت پہلے ہی معلوم ہو چکی تھی اس لیے الیکٹرون کا وزن بھی دریافت ہو گیا۔

ارنسٹ ردر فورڈ[ترمیم]

1911 میں ارنسٹ ردرفورڈ نے تابکار مادے سے نکلنے والے الفا ذرات کے سونے کے ورق میں سے گزرنے کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ ایٹم میں مثبت گٹھلی (positive nucleus) موجود ہوتی ہے اور ایٹم کے اندر زیادہ تر جگہ خالی ہوتی ہے۔[5]

جے جے تھامسن کا خیال تھا جس طرح کھیر پر کشمش کے دانے پڑے ہوتے ہیں اسی طرح ایٹم کے مثبت چارج پر منفی الیکٹرون چپکے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے سابقہ شاگرد ارنسٹ ردرفورڈ نے اس خیال کو یکسر غلط ثابت کر دیا۔ اگر تھامسن کا ایٹم کے بارے میں Plum pudding ماڈل درست ہوتا تو ایک بھی الفا ذرہ سونے کے ورق سے ٹکرا کر نہیں پلٹتا مگر اس تجربے کے دوران چند الفا ذرے ورق کے آر پار نہ گذر سکے اور واپس پلٹے۔

موزلے[ترمیم]

1914 میں H.G.J. Moseley نے ایکس رے ٹیوب کی مدد سے بہت سارے ایٹمی مرکزوں (nucleus) کا چارج معلوم کر لیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ اب تک کیمیا دان جسے ایٹمی نمبر کہتے رہے وہ دراصل ایٹمی مرکزوں میں موجود پروٹونوں کی تعداد ہے۔ اس طرح دوری جدول (Periodic table) کو ایٹمی وزن کی بجائے ایٹمی نمبروں کے لحاظ سے ترتیب دینے میں کامیابی ملی۔
ردرفورڈ موزلے کو اپنا ذہین ترین شاگرد سمجھتا تھا لیکن بدقسمتی سے صرف 27 سال کی عمر میں موزلے جنگ عظیم اول میں مارا گیا۔[6]

ایسٹون[ترمیم]

1919 میں Aston نے ماس اسپیکٹروگراف کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک ہی عنصر کے ایٹم مختلف ایٹمی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ہم جا (isotopes) دریافت ہوئے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایسٹون کو 1922ء میں نوبل انعام ملا۔

جے جے تھامسن نے 1913 میں کینال ریز کی یہ تصویر لی۔ اس کا خیال تھا کہ نیون گیس میں کچھ ایٹم زیادہ بھاری ہوتے ہیں جسے بعد میں ایسٹون نے آئیسوٹوپ ثابت کیا۔

نیلز بوہر[ترمیم]

1922 میں Niels Bohr نے بتایا کہ ایٹم میں مرکزے کے گرد الیکٹرون کے کئی مدار ہوتے ہیں اور جب الیکٹرون توانائی جذب کرتا ہے تو بیرونی مدار میں چلا جاتا ہے۔ الیکٹرون جب اندرونی مدار میں واپس لوٹتا ہے تو وہی توانائی خارج ہو جاتی ہے۔

ڈی بروگلی[ترمیم]

1923 میں de Broglie نے ریاضیات کی مدد سے ثابت کیا کہ الیکٹرون نہ صرف مادی خصوصیات رکھتا ہے بلکہ لہر یا موج کی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ اس طرح wave particle duality کی بنیاد پڑی۔ ڈی بروگلی کے کام سے آئن اسٹائن کی تھیوری کو تقویت ملی۔

ہائزن برگ[ترمیم]

1927 میں Heisenberg نے غیر یقینیت کا اصول (Principle of uncertainity) وضع کیا یعنی کسی ذرے کی رفتار اور پوزیشن بیک وقت معلوم نہیں کی جا سکتی۔

کوکروفٹ اور والٹن[ترمیم]

1929 میں Cockcroft / Walton نے پہلا پارٹیکل ایکسیلیریٹر بنایا اور 14 اپریل 1932 میں معلوم کیا کہ جب پروٹون کو تیز رفتاری سے لیتھیئم سے ٹکراتے ہیں تو لیتھیئم کا ایٹم ٹوٹ کر ہیلیئم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح پہلی دفعہ انسان نے کسی ایٹم کے مرکزے کو توڑا۔
اسی تجربے نے پہلی دفعہ آئن اسٹائن کے فارمولے E=mc2 کی تصدیق کری۔[7]

کوکروفٹ والٹن سرکٹ جس کی مدد سے ہائی وولٹیج بنا کر پارٹیکل ایکسیلیریٹر چلایا گیا۔ اس تصویر میں صرف دو اسٹیج دکھائے گئے ہیں مگر اور زیادہ وولٹیج حاصل کرنے کے لیے ان مرحلوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے۔

شروڈنگر[ترمیم]

1930 میں Schrodinger نے ریاضیات سے ثابت کیا کہ ایٹم کے اندر الیکٹرون مرکزے کے گرد ایک بادل سا بنا دیتا ہے۔ اس طرح wave mechanics کی بنیاد پڑی۔

پال ڈیراک[ترمیم]

1930ء میں Paul Dirac نے ضد ذرے کا تصور دیا۔ دو سال بعد پوزیٹرون دریافت ہوا۔ 1955ء میں اینٹی پروٹون دریافت ہوا۔

جیمز چیڈوک[ترمیم]

1932 میں James Chadwick نے پولونیئم کی تابکاری سے حاصل ہونے والے الفا ذروں کی مدد سے نیوٹرون دریافت کر لیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح ہم جا (آئسوٹوپ)کے وزن کی وضاحت بھی ممکن ہو گئی اور nuclear spin کا معما بھی حل ہو گیا۔ جیمز چیڈوک کو 1935 میں نوبل انعام ملا۔

انریکو فرمی[ترمیم]

1934 میں فرمی نے دریافت کیا کہ اگر نیوٹرون کی رفتار کم کر دی جائے تو وہ دوسرے ایٹمی مرکزوں میں زیادہ آسانی سے جذب ہو کر نیوکلیائی تعاملات کا سبب بنتا ہے۔ فرمی کو 1938 میں نوبل انعام ملا۔
بہت کم رفتار سے چلنے والے نیوٹرون "تھرمل نیوٹرون" کہلاتے ہیں اور اینٹیمنی 124 سے نکلنے والی گاما ریزکوبیریلیئم پربرسانے پر حاصل ہوتے ہیں۔ [8][9]

Otto Hahn[ترمیم]

جنوری 1939 میں Otto Hahn نے یورینیئم کے مرکزے میں فشن کا ہونا اور چین ری ایکشن دریافت کر لیا۔ اسے 1944 کا کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔

انریکو فرمی[ترمیم]

1942 میں Enrico Fermi نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔

مین ہیٹن پروجیکٹ کے تحت 1945 میں ہونے والا پہلا ایٹم بم کا تجربہ جسے ٹرینیٹی ٹیسٹ کا نام دیا گیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی ربط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Hunterian Museum Scientific & Medical Instrument Collections:GLAHM 105791[مردہ ربط]
  2. Tales from the Atomic Age
  3. Measurement of Charge-to-Mass (e/m) Ratio for the Electron
  4. How did the Curies Measure Radioactivity?
  5. "Atomic Structure Timeline"۔ 10 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2015 
  6. Moseley's Investigation of X-rays
  7. "آرکائیو کاپی"۔ 14 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2015 
  8. Lalovic, M.، Werle, H. (1970)۔ "The energy distribution of antimonyberyllium photoneutrons"۔ Journal of Nuclear Energy۔ 24 (3): 123–132۔ Bibcode:1970JNuE...24..123L۔ doi:10.1016/0022-3107(70)90058-4 
  9. Ahmed, S. N. (2007)۔ Physics and Engineering of Radiation Detection۔ صفحہ: 51۔ ISBN 978-0-12-045581-2