جہاد: سکّے کا دوسرا رُخ
جہاد: سکّے کا دوسرا رُخ | |
---|---|
جہاد: سکّے کا دوسرا رُخ، پوسٹر | |
ہدایت کار | دیا خان |
پروڈیوسر | ڈیرن پرنڈل اینڈریو سمتھ |
ایڈیٹر | کیون تھامس |
تقسیم کار | فیوز فلمز |
تاریخ نمائش | 15 جون، 2015ء |
دورانیہ | 50 منٹ |
ملک | برطانیہ، ناروے |
زبان | انگریزی |
جہاد: سکّے کا دوسرا رُخ (JIHAD: a story of the others) ایک دستاویزی فلم ہے جو مغربی ممالک میں مقیم جہادیوں اور انتہا پسندوں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ فلم دیا خان کی دو سالہ تحقیق کا نچوڑ ہے۔ جس میں ان وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مغربی ممالک میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے بچے کیسے اس حد تک انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ گھر بار اور خاندان کو چھوڑکر دوسرے ممالک میں جہاد کے نام پر لڑنے جاتے ہیں۔ اور ان میں کچھ مارے جاتے ہیں اور کچھ بچ جانے کی صورت میں حقیقت سے آگاہی پا لینے کی صورت میں اس قسم کی انتہا پسندی سے تائب ہو جاتے ہیں۔[1]
موضوع
[ترمیم]فلم کے مرکزی کردار بنگلہ دیش میں پلے بڑھے منور حسین المعروف ابو منتصر ہیں۔ ابو منتصر کو یورپی جہاد کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ ابو منتصر کا بھائی اور رشتہ دار بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ کے دوران مارے جاتے ہیں۔ ابو منتصر برطانیہ منتقل ہونے کے بعد انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنے اس انتہاپسندانہ دور میں ابو منتصر نہ صرف برطانیہ میں انتہا پسندی کے لیے نظریاتی کام کرتے ہیں بلکہ وہ عملی طور پر جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان، کشمیر اور میانمار روانہ ہو جاتے ہیں۔ میانمار میں ابو منتصر کو احساس ہوتا ہے کہ یہ لڑائی مذہب سے زیادہ ذاتی مفاد کی خاطر لڑی جا رہی ہے۔ جہاد کے کمانڈر جہاں عام غریب لوگوں کے بچوں کو میں مذہب کے نام اپنی لڑائی میں جھونک رہے ہیں، وہیں ان کے اپنے بچے ملائیشیا اور دوسرے ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یوں ابو منتصر بددل ہو کر واپس برطانیہ آ جاتے ہیں اور برطانیہ میں مسلمان نوجوانوں کو اس نام نہاد جہاد کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔
ابو منتصر کے علاوہ دیگر کردار بھی اپنی کہانی بتاتے ہیں۔ فلم میں ان انتہا پسندانہ رویوں اور سوچوں کے حامل نوجوانوں کی ذاتی زندگی اور ماحول کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ جو ان نوجوانوں کے انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے کی وجوہات بنیں۔ اکثر نوجوان گھریلو زندگی سے مطمن نہ ہونے، تنہا ہونے کا احساس، نسل پرستی، بے روزگاری، شناخت کا بحران وغیرہ جیسے مسائل کا شکار تھے۔ یہ فلم ایک عام پراپیگنڈا سے ہٹ کر اس موضوع کو بہت سنجیدہ انداز سے بحث کرتی ہے۔ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف وہ کردار شامل ہیں جو ماضی میں انتہا پسند رہ چکے ہیں۔ ان لوگوں کی کہانی انہی کی زبانی عام لوگوں کو سنائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کا اعتماد جیتنا اور فلم میں اپنی اپنی کہانی سنانے پر رضامند کرنے کی وجہ سے اس فلم کو مکمل کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔
” | عظیم صحافت عموماََ سرکاری بیانئے کو رد کرتی ہے۔ یہی چیز سرکاری اور مقبول جرائد کی بتائی گئی کہانی کے ساتھ دیا خان کی جہاد فلم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ ان کلیشے اور مبالغہ آمیز کہانیوں کو لے کر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمیں وہ کچھ دکھاتی ہے جو اصل حقیقت ہے۔ نک ڈیوس، نمائندہ خصوصی، دی گارڈین۔ |
“ |
آئی ٹی وی پر اس فلم کو "جہاد: اے برٹش سٹوری" کے نام سے دکھایا گیا۔
اداکار
[ترمیم]- ابو منتصر
- الیاس کرمانی
- منیر ضمیر
- اسامہ حسن
- شاہد بٹ
- یاسمین ملبوکس
اعزازات
[ترمیم]سال | اعزاز | زمرہ | نتیجہ |
---|---|---|---|
2016ء | نیویارک انڈیپینڈنٹ فلم اینڈ ویڈیو فیسٹول | بہترین دستاویزی فلم | فاتح |
2015ء | نارویجن وزارت ثقافت و فن [2] | انسانی حقوق اعزاز | فاتح |
2016ء | گریئرسن اعزاز [3] | حالات حاضرہ پر بہترین دستاویزی فلم | نامزد |
2016 ء | بافٹا اعزاز [4] | حالات حاضرہ پر بہترین دستاویزی فلم | نامزد |
2016ء | طلائی اپسرا اعزاز | حالات حاضرہ پر دستاویزی فلم کا 56 واں اعزاز | نامزد |
2017ء | کری ایٹو ڈائیورسٹی نیٹ ورک اعزاز [5] | حالات حاضرہ پر بہترین پروگرام | نامزد |
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Mark Piggott (14 جون 2015)۔ "Isis: 'Godfather of Jihad' says he regrets recruiting young Muslims to Islamic State"۔ ibtimes.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017
- ↑ Sveinung Stoveland (4 نومبر 2015)۔ "Deeyah Khan får menneskerettspris for modig film om religiøse krigere"۔ www.dagbladet.no۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017
- ↑ NTB (29 جولائی 2016)۔ "Deeyah Khan nominert til prestisjetung britisk dokumentarpris for Jihad-film" (بزبان ناروی)۔ www.medier24.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017
- ↑ "Television in 2016- Television/ Current Affairs on 2016"۔ www.bafta.org۔ 30 مارچ 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017
- ↑ Chris Curtis (22 مئی 2017)۔ "Shortlist revealed for CDN Awards 2017."۔ www.broadcastnow.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017