"بلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 28: سطر 28:
قدیم [[مصر|مصری]] لوگ بلیوں کی پوجا بھی کرتے تھے اور ان کی لاشوں کو محفوظ کرتے تھے تا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے حفاظت مل سکے۔ آج کے دور میں بلیاں پالتو جانوروں کے طور پر پالی جاتی ہیں، اس کے علاوہ بھی بلی انسانی آبادیوں میں آوارہ پائی جاتی ہے۔<br />
قدیم [[مصر|مصری]] لوگ بلیوں کی پوجا بھی کرتے تھے اور ان کی لاشوں کو محفوظ کرتے تھے تا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے حفاظت مل سکے۔ آج کے دور میں بلیاں پالتو جانوروں کے طور پر پالی جاتی ہیں، اس کے علاوہ بھی بلی انسانی آبادیوں میں آوارہ پائی جاتی ہے۔<br />
ترقی یافتہ ممالک میں بلیوں کو پالتو جانوروں کو پالنے کا رواج بہت زیادہ ہے اور ان کے لیے مخصوص خوراک تیار کرنے کے کاروبار کو ایک بڑی صنعت کی حیثیت حاصل ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بلیوں کو پالتو جانوروں کو پالنے کا رواج بہت زیادہ ہے اور ان کے لیے مخصوص خوراک تیار کرنے کے کاروبار کو ایک بڑی صنعت کی حیثیت حاصل ہے۔
==اسلام==

اسلام میں بلی حلال نہیں ہے لیکن اس کو پاکیزہ اور طاہر حیوانات میں شمار کیا جاتا ہے۔

انسان کے لیے شرعى طور پر جائز ہے کہ وہ مباح اشیاء کو اپنى ملکیت بنا سکتا ہے، جو کسى نے بھى ملکیت میں نہ لى ہوں، مثلا صحرا سے ایندھن اکٹھا کرنا، یا جنگل سے لکڑیاں لینا، اور اسى طرح بلیاں پکڑ کر ان کو پالنا اور تربیت کرنا، اور مباح چیز پر ہاتھ رکھنے، یا اس پر فعلى غلبہ حاصل کرنے سے مباح چیز کى ملکیت حاصل ہو جاتى ہے، جب کہ وہ کسى کى ملکیت نہ ہو.

اس بنا پر جو بلیاں کسى کى ملکیت نہ ہوں انہیں رکھنے میں کوئى حرج نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ انسان انہیں کھانے پینے کو دے، اور انہیں تکلیف مت دے، لیکن اگرعلم ہو کہ وہ بلى نقصان دہ ہے مثلا بیمار ہے، یا یہ خدشہ ہو کہ اس کى بنا پر کسى کو کوئى بیمارى منتقل ہو جائے گى، تو اسے نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ [[محمد|رسول کریم صلى اللہ علیہ و آلہ سلم]] کا فرمان ہے:

:" نہ تو اپنا نقصان کرو، اور نہ ہى کسى کو نقصان دو "

تو جسے بلى کے وجود سے نقصان اور ضرر پہنچتا ہو اسے بلى نہیں رکھنى چاہیے، اور اسى طرح جو اسے کھلانے اور پلانے کى استطاعت نہ رکھے تو وہ بھى اسے چھوڑ دے تا کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے [[جانور]] کھا کر گزر بسر کر لے، اور وہ اسے اپنے گھر میں محبوس نہ کرے.

صحیح بخارى<ref>صحیح بخارى حدیث نمبر ( 3223 )</ref> اور صحیح مسلم<ref>صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1507 )</ref> میں [[عبد اللہ بن عمر]] سے حدیث ثابت ہے کہ رسول کریم {{درود}} نے فرمایا:

:" ایک عورت کو بلى کى وجہ سے عذاب دیا گیا، اس عورت نے بلى کو باندھ دیا حتى کہ وہ مر گئى وہ اسے نہ تو کھانے کے لیے کچھ دیتى اور نہ ہى پینے کے لیے، اور نہ ہى اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھائے، تو وہ عورت بلى کى وجہ سے آگ میں داخل ہو گئى "


اور بلى اگر کھانے میں سے کچھ کھا جائے، یا پانى پى جائے تو وہ پلید اور نجس نہیں ہو جاتا، کیونکہ ابوداود<ref>سنن ابو داود حدیث نمبر ( 69 )</ref> وغیرہ میں حدیث ہے:

ایک عورت نے [[عائشہ]] رضى اللہ تعالى عنہا کو [[ہریسہ]] بھیجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھیں، انہوں نے نماز میں ہى اشارہ کیا کہ وہ اسے رکھ دے، تو بلى آئى اور آکر اس میں سے کھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز کے بعد اسى جگہ سے ہریسہ کھایا جہاں سے بلى نے کھایا تھا، اور فرمایا: بلا شبہ رسول کریم {{درود}} کا فرمان ہے:

:" یہ ( بلى ) پلید اور نجس نہیں، بلکہ یہ تو تم پر آنے جانے والیاں ہیں"

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بیان کرتى ہیں
: میں نے رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بلى کے بچے ہوئے پانى سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا ہے"

اور ایک روایت<ref>سنن ابو داود حدیث نمبر ( 68 )</ref> میں ہے:

[[کبشہ بنت کعب]] بن مالک جو کہ [[ابن ابى قتادہ]] کى بیوى ہیں وہ بیان کرتى ہیں کہ [[ابو قتادہ]] رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کے وضوء کے لیے پانى برتن میں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پینے لگى، تو انہوں نے اس کے لیے برتن ٹیڑھا کر دیا حتى کہ اس نے پانى پى لیا.

کبشہ بیان کرتى ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کى طرف دیکھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے:

میرى بھتیجى کیا تم تعجب کر رہى ہو ؟

تو میں نے جواب دیا: جى ہاں.

تو وہ کہنے لگے: رسول کریم {{درود}} نے فرمایا ہے:

:" یہ نجس اور پلید نہیں، بلکہ یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والیاں ہیں "

ان دونوں روایتوں کو امام بخارى اور دار قطنى وغیرہ نے صحیح کہا ہے.<ref>دیکھیں: التلخیص ابن حجر ( 1 / 15 )</ref>

شریعت اسلامیہ میں بلیوں کى خرید و فروخت منع ہے.

صحیح مسلم<ref>صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2933 )</ref> میں ابو زبیر سے حدیث مروى ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے کتے اور بلى کى قیمت کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے:

:" نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے "


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 23:42، 14 نومبر 2015ء

اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف

بلی


صورت حال
! colspan = 2 | حیثیت تحفظ
پالتو
جماعت بندی
مملکت: جانور
جماعت: ممالیہ
طبقہ: Carnivora
خاندان: Felidae
جنس: Felis
نوع: F. catus
حمل کی مدت
Trinomial name
Felis catus
(لنی اس، 1758)
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


بلی یا پالتو بلی، گوشت خور ممالیہ جانور ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، انسان نے بلی کو قریباً دس ہزار پہلے سدھائی یا پالتو بنایا۔ [1] بلی آج کے دور میں سب سے عام پالتو جانوروں میں سے ایک ہے۔ افریقی جنگلی بلیوں کی کئی اقسام کو پالتو بلی کے آباؤاجداد سمجھا جاتا ہے۔[2]
بلیوں کو پہلے پہل شاید اس وجہ سے سدھایا گیا کہ یہ چوہے کھاتی تھیں اور آج تک یہ جہاں اناج محفوظ کیا جاتا ہے، اسی مقصد کے لیے پالی جاتی ہیں۔ بعد ازاں ان کو انسان کے دوست اور پالتو جانور کے طور پر بھی پالا جانے لگا۔
پالتو بلیوں کے جسم پر لمبے یا چھوٹے بال ہو سکتے ہیں، جس کی بنیاد پر ان کی اقسام اور نسلوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ وہ پالتو بلیاں جن کی نسل کا مخصوص تعین نہ ہو سکے انھیں عرف عام میں “چھوٹے بالوں والی پالتو“ اور “لمبے بالوں والی پالتو“ بلیوں کی نسل قرار دیا جاتا ہے۔
لفظ “بلی“ اسی خاندان کے دوسرے جانوروں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بلی کا خاندان یا گربہ خو جانوروں میں عموماً بڑی اور چھوٹی بلیاں شمار ہوتی ہیں۔ بڑی بلیاں جیسے ببر شیر، چیتا، تیندوا، باگ وغیرہ ہیں۔ چھوٹی بلیوں کی کئی اقسام ہیں جن میں زیادہ تر پالتو ہیں۔ بڑی بلیاں عموماً جنگلی ہوتی ہیں اور خطرناک ہو سکتی ہیں۔

تاریخ

دنیا میں بلی کی مختلف اقسام کا پھیلاؤ

تمام معلوم تاریخ میں، بلیوں کو پالنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ چوہے کھاتی ہیں اور اس طرح اناج کو اس نقصان سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
قدیم مصری لوگ بلیوں کی پوجا بھی کرتے تھے اور ان کی لاشوں کو محفوظ کرتے تھے تا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے حفاظت مل سکے۔ آج کے دور میں بلیاں پالتو جانوروں کے طور پر پالی جاتی ہیں، اس کے علاوہ بھی بلی انسانی آبادیوں میں آوارہ پائی جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بلیوں کو پالتو جانوروں کو پالنے کا رواج بہت زیادہ ہے اور ان کے لیے مخصوص خوراک تیار کرنے کے کاروبار کو ایک بڑی صنعت کی حیثیت حاصل ہے۔

اسلام

اسلام میں بلی حلال نہیں ہے لیکن اس کو پاکیزہ اور طاہر حیوانات میں شمار کیا جاتا ہے۔

انسان کے لیے شرعى طور پر جائز ہے کہ وہ مباح اشیاء کو اپنى ملکیت بنا سکتا ہے، جو کسى نے بھى ملکیت میں نہ لى ہوں، مثلا صحرا سے ایندھن اکٹھا کرنا، یا جنگل سے لکڑیاں لینا، اور اسى طرح بلیاں پکڑ کر ان کو پالنا اور تربیت کرنا، اور مباح چیز پر ہاتھ رکھنے، یا اس پر فعلى غلبہ حاصل کرنے سے مباح چیز کى ملکیت حاصل ہو جاتى ہے، جب کہ وہ کسى کى ملکیت نہ ہو.

اس بنا پر جو بلیاں کسى کى ملکیت نہ ہوں انہیں رکھنے میں کوئى حرج نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ انسان انہیں کھانے پینے کو دے، اور انہیں تکلیف مت دے، لیکن اگرعلم ہو کہ وہ بلى نقصان دہ ہے مثلا بیمار ہے، یا یہ خدشہ ہو کہ اس کى بنا پر کسى کو کوئى بیمارى منتقل ہو جائے گى، تو اسے نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ رسول کریم صلى اللہ علیہ و آلہ سلم کا فرمان ہے:

" نہ تو اپنا نقصان کرو، اور نہ ہى کسى کو نقصان دو "

تو جسے بلى کے وجود سے نقصان اور ضرر پہنچتا ہو اسے بلى نہیں رکھنى چاہیے، اور اسى طرح جو اسے کھلانے اور پلانے کى استطاعت نہ رکھے تو وہ بھى اسے چھوڑ دے تا کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے جانور کھا کر گزر بسر کر لے، اور وہ اسے اپنے گھر میں محبوس نہ کرے.

صحیح بخارى[3] اور صحیح مسلم[4] میں عبد اللہ بن عمر سے حدیث ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

" ایک عورت کو بلى کى وجہ سے عذاب دیا گیا، اس عورت نے بلى کو باندھ دیا حتى کہ وہ مر گئى وہ اسے نہ تو کھانے کے لیے کچھ دیتى اور نہ ہى پینے کے لیے، اور نہ ہى اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھائے، تو وہ عورت بلى کى وجہ سے آگ میں داخل ہو گئى "


اور بلى اگر کھانے میں سے کچھ کھا جائے، یا پانى پى جائے تو وہ پلید اور نجس نہیں ہو جاتا، کیونکہ ابوداود[5] وغیرہ میں حدیث ہے:

ایک عورت نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو ہریسہ بھیجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھیں، انہوں نے نماز میں ہى اشارہ کیا کہ وہ اسے رکھ دے، تو بلى آئى اور آکر اس میں سے کھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز کے بعد اسى جگہ سے ہریسہ کھایا جہاں سے بلى نے کھایا تھا، اور فرمایا: بلا شبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:

" یہ ( بلى ) پلید اور نجس نہیں، بلکہ یہ تو تم پر آنے جانے والیاں ہیں"

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بیان کرتى ہیں

میں نے رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بلى کے بچے ہوئے پانى سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا ہے"

اور ایک روایت[6] میں ہے:

کبشہ بنت کعب بن مالک جو کہ ابن ابى قتادہ کى بیوى ہیں وہ بیان کرتى ہیں کہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کے وضوء کے لیے پانى برتن میں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پینے لگى، تو انہوں نے اس کے لیے برتن ٹیڑھا کر دیا حتى کہ اس نے پانى پى لیا.

کبشہ بیان کرتى ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کى طرف دیکھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے:

میرى بھتیجى کیا تم تعجب کر رہى ہو ؟

تو میں نے جواب دیا: جى ہاں.

تو وہ کہنے لگے: رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

" یہ نجس اور پلید نہیں، بلکہ یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والیاں ہیں "

ان دونوں روایتوں کو امام بخارى اور دار قطنى وغیرہ نے صحیح کہا ہے.[7]

شریعت اسلامیہ میں بلیوں کى خرید و فروخت منع ہے.

صحیح مسلم[8] میں ابو زبیر سے حدیث مروى ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے کتے اور بلى کى قیمت کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے:

" نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے "

حوالہ جات

  1. (بزبان انگریزی)۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی http://news.nationalgeographic.com/news/2004/04/0408_040408_oldestpetcat.html  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  2. "The Evolution of House Cats" (بزبان انگریزی)۔ سائنٹیفیک امریکن 
  3. صحیح بخارى حدیث نمبر ( 3223 )
  4. صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1507 )
  5. سنن ابو داود حدیث نمبر ( 69 )
  6. سنن ابو داود حدیث نمبر ( 68 )
  7. دیکھیں: التلخیص ابن حجر ( 1 / 15 )
  8. صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2933 )

بیرونی روابط

تشریح

مضامین