سید حسن رسول نما اویسی قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اویس قرنی ثانی۔.۔

سید حسن رسول نما اویسی قادری

سید محمد کاظم نجفی المعروف (سید حسن رسول نما ؒ)
مزار مبارکہ حضرت سید حسن رسول نما ؒ
ذاتی
پیدائش
نارنول ہریانہ
وفات
دہلی
مدفندرگاہ سید حسنؒ،لال کنواں، فراش خانہ پنچکوئیاں روڈ،دہلی، انڈیا
مذہباسلام
آبائی شہردہلی
والدینحضرت سید اسعد اللہ رحمۃ اللہ علیہ
فرقہاہلسنت وجماعت حنفی
مدرسہسلسلہ عالیہ قادریہ اویسیہ
فرقہاہلسنت وجماعت حنفی
سلسلہقادریہ اویسیہ
مرتبہ
دورپندرہویں صدی عیسوی
جانشینصاحبزادہ حضرت سید ہاشم رسول نمائی رحمة اللہ علیہ

سید حسن رسول نما قادری اویسی
سید حسن رسول نما قادری اویسی 15پندرہویں صدی کے مایہ ناز بزرگ فقیر صوفی بزرگ ہیں۔ آپ صوبہ ہریانہ کے ایک گاؤں نارنول میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام جو آپ کی سوانح میں درج ہے "سید کاظم نجفی الاخوندی" ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام نامی حضرت سید اسعد اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپ کا شجرہ نسب31 اکتیس واسطوں سے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتاہے۔ آپ حسنی والحسینی سید ہیں۔حضرت امام نقی ھادی رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادہ حضرت جعفر الذکی رحمتة اللہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کے حضرت سلطان الفقرا حضور موسی قادری رحمة اللہ علیہ سے مرید ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ اویسیہ جاری فرمایا۔ آپ کے خاندان میں بھی اسی طریقہ کو جاری کیا گیا۔ آپ کا سلسلہ طریقت چھ واسطوں سے جناب پیر ان پیر حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ حضرت سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ ہمدان سے معہ لشکر کے اسطرف آئے اور کفار سے جنگ میں شہید ہوئے۔ نارنول میں آپ کا مزار زیارتگاہ خاص و عام ہے اور کتابوں میں عثمان نارنولی کے نام سے مذکورہیں۔ آپ کی سوانح پر لکھی گئی سب سے مستند کتاب، فوائح العرفان سوانح سید حسن رسول نما رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ حسب روایت خاندانی آپ کے بزرگ بخارا سے ہندوستان میں تشریف لائے تھے ۔ اول قصبہ موہاں متصل لکھنوء میں قیام کیا بعد ازاں نارنول میں مستقل رہائش اختیار کی۔ یہ شہر اُسوقت بڑی رونق پر تھا اور سلطنت کے کاروبار کے لیے ایک پائے گاہ تھا۔ اس وقت کے کھنڈر اور مزارات بزرگان سے اس کی گذشتہ عظمت کا قیاس ہو سکتا ہے۔ آپ کے خاندان کے ایک بزرگ سید تاج الدین جمال شیر سوار چابک مار گذرے ہیں جو اعلیٰ رتبہ کے بزرگ تھے اُنکا مزار کرناٹک میں زیارت گاہ عام ہے۔ جناب سید پاک کی روحانی تعلیم و تربیت کی تفصیل سوائے اس کے معلوم نہیں ہو سکی جو فوائح میں درج ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض ایسے صاحب گذرے ہیں جنکو مادرزاد ولی کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی تھوڑا بہت ہوتا ہے۔ اور طریقہ اُویسیہ ہیں یہ حالات بالکل مخفی رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ مصنف نے کتاب میں کوئی ذکر آپ کی روحانی تعلیم کا یا آپ کا کسی جگہ بیعت ہونا درج نہیں کیا۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روحانی قوت پیدائشی اس قسم کی تھی جیسی مادر زاد ولی اللہ کی ہوتی ہے۔ اور طریقہ اُویسیہ مشہور ہے جس کا ذکر متن کتاب میں موجود ہے اور یہی طریقہ ہے جس میں روحانی فیض جناب سرچشمہ فیض دو جہان حضرت سرور عالم ﷺ سے بلا توسط حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ خواجہ اویس قرنی کو یہ فیض بلا تو سط و بلا زیارت وملاقات ظاہری کے رسول ﷺ سے اول ہوا تھا اس واسطے اس طریقہ کا نام اُویسیہ ہے۔

آپ کے ابتدائی حالات : آپ کے یہ حالات کتاب" فوائح العرفان سوانح سید حسن رسول نما رحمۃ اللہ علیہ " کے باب اول سے لیے گئے ہیں۔ آپ کی توجہ لڑکپن کے زمانہ سے شباب تک باوجود تعلق اور تقید کے ہمیشہ روپے پیسے کے خرچ کرنے پر مبذول رہی ہے۔ آپ کی نظر میں دنیا اور اہلِ دنیا کی پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں تھی۔ خورد سالی کے ایام میں آپ غریبوں کے لڑکوں سے کھیلا کرتے تھے اور امری زادوں کی صحبت سے متنفّر رہتے تھے۔ جب تقدیر ایزدی سے آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا تو سرکاری طور پر وہ خوانین میں اپنے والد کے منصب پر مقرر ہوئے۔ اس حالت میں آپ کی عادت مبارک یہ تھی کہ کپڑے وغیرہ جو چیز بھی ہاتھ آتی یتیموں اور مسکینوں کی نذر فرماتے اور خود رات کے وقت موسم سرما میں ایک زین کے نمدے میں لپٹ کر سو رہتے۔ دن اس طرح گذرتا تھا کہ حسب معمول حصول ثواب کی نیت سے لوگوں کے گھروں میں کھانا کھانے کے لیے تشریف لے جایا کرتے لیکن جس قدر تناول فرماتے اس کی قیمت کے مطابق اپنے گھر میں کھانا پکوا کر غربا اور مستحقین کو تقسیم فرمایا کرتے۔اس بذل و انفاق سے جو ثواب حاصل ہونا متوقع ہوتا تھا وہ صاحبِ طعام کو بخش دیتے بلکہ مستحقین کے ڈھونڈنے میں جو زحمت اُٹھانی پڑتی اس کا ثواب بھی اسی صاحب طعام کو پہنچا دیا کرتے اور بارگاہ کبریائے واہب العطایا جلّشانہٗ سے استدعا یہی کرتے تھے کہ مجھے اس درمیان میں کچھ بھی دخل نہ ہو بلکہ جو کچھ ثواب مجھ کو حاصل ہوتا ہے وہ براہِ رست صاحب طعام کو پہنچ جایا کرے۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات مروّت اسلامی سے بعید معلوم ہوتی ہے کہ دوسرے شخص کا کھانا تناول کر کے اس کا ثواب اپنے لیے جمع کر لیا جائے۔ ایک مرتبہ آپ کے دل مبارک میں یہ خیال آیا کہ جو روپے سودے سلف پر خرچ ہو جاتے ہیں اگر بالفرض ان کا نرخ کم ہو جائے تو یہ اختیار سے باہر ہے اس لیے نفس کو یہی ترغیب دینی چاہیے کہ وہ یہی خیال کرے کہ گویا اس کا نرخ کم ہو گیا ہے۔ اس خیال کی عملی صورت آپ نے یہ نکالی کہ فی روپیہ ایک ٹکہ غریبوں کو دے دیا کرتے اور باقی اپنے حوائج پر صرف فرماتے۔ پھر آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ مبادا حق تعالیٰ یہ فرمائے کہ یہ ٹکہ جو تم ہماری خوشنودی کے لیے صرف کرتے ہو کمی نرخ کی مقدار تم نے مقرر کی ہے یہ خالص ہماری خوشنودی کے لیے نہیں۔ اس خیال کی بنا پر آپ نے ایک ٹکہ بڑھا دیا۔ اس طرح بڑھاتے بڑھاتے پانچ ٹکے تک نوبت پہنچی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی طریقوں پر اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کرتے تھے۔ جب سفر میں ہوتے تو سارا راستہ یادِ خدا میں کٹتا۔ جب آپ کی عمر شریف اٹھارہ برس کی تھی اُس وقت بعض رشتہ داروں نے جو بالغرض رشتہ دار تھے۔ اور جو اقارب کا لعقارب (یعنی رشتہ دار بچھؤں کی طرح انسان کو ایذا دیتے ہیں) کا مصداق تھے اس وجہ معاش میں جو آپ کی میراث میں ملی تھی خلل انداز ہونا چاہا اور مقدمہ کھڑ اکر دیا۔ اور بعض رشوت خوار حکام کو بھی ساتھ ملا لیا۔ الغرض آپ کو ہر ایک طرح سے تکلیف دینا شروع کیا جس کا بیان قلم کی طاقت سے باہر ہے اس لیے آپ کے لیے وہاں کی سکونت بہت دشوار ہو گئی اور آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو اکہ تحصیل علم کی جانب توجہ کرنا چاہیے اور بعد حصول کمال اسی ذریعے سے کسی اہل دنیا سے تقرب حاصل کر کے ان تکلیفوں کا انتقام لینا چاہیے۔ اسی ارادہ سے ترکِ وطن کر کے اکبر آباد کا رُخ کیا۔ وہاں پہنچے تو سخت تھے ماندہ ہونے کے علاوہ آتشِ فاقہ تنورِ شکم میں مشتعل تھی۔ مجبور ہو کر شہر میں چکر لگانا شروع کیا۔ ہر ایک محلہ میں جا کر بآواز بلند کہتے کہ کسی کو لڑکوں کے لیے معلم کی ضرورت ہو تو بندہ حاضر ہے۔ لوگ اِن کا حال دیکھ کر تعجب کرتے۔ آخر ایک شخص نے وجہ دریافت کی تو آپ نے اپنی حالت پر اس کو مطلع کیا۔ اس نے کہا کہ ایک لڑکا صرف میرؔ پڑھتا ہے اس کے لیے ایک اُستاد کی ضرورت ہے۔ کل ہفتے کا دن ہے آپ کو اس کی تعلیم کے لیے مقرر کر دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو آج میں اس کا آموختہ سُن لوں۔ اور پڑھا ہوا سبق تکرار کر لوں۔ اس شخص کو آپ سخت حاجتمند ہونا معلوم ہو گیا اور کھانا حاضر کیا۔ جب آپ نے کھانے کا ارادہ فرمایا تو اپنی مصیبت کا تصور باندھ کر اس قدر رِقّت طاری ہوئی کہ آنسو بہنے لگے اور وہ کھانا تربتر ہو گیا رات ایک مسجد میں بسر کر کے صبح کو حسب وعدہ حاضر ہوئے اور بہت تھوڑی تنخواہ پر معلم مقرر کیے گئے۔ ان ایام میں ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک ہندو معہ چند سواروں کے وہاں سے گذر رہا تھا۔ جب اس کی نظر آپ پر پڑی تو بحکم ؂ ’’آنراکہ نشان حزب اعلیٰ است بر چہرۂ اوچونور پیداست ‘‘ فوراً علامات سے آپ کی نجابت و شرافت اور صاحب کمال ہونا معلوم کر کے گھوڑے سے اُترپڑا۔ آپ نے خیال کیا کہ شاید مالک خانہ سے کچھ جان پہچان ہے لیکن دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ محض آپ کو ایک بشارت سُنانے کے لیے اُترا تھا۔ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ مہابت خان کے ہندو وکیل نے آپ سے کہ دیا تھا کہ آپ ایک بہت بڑے جلیل القدر مرتبہ پر فائز ہوں گے۔ یہ کہہ کر یادداشت کے لیے کپڑے میں ایک گرہ لگا دی اور رخصت لے کر چلا گیا۔ غالباً یہ پشین گوئی علمِ نجوم یا علمِ قیافہ کی بنا پر کی گئی تھی۔ اسی اثناء میں آپ نے اپنی وجہ معاش کی سندیں میرک شیخ صدر کو دکھائیں (مطلب یہ تھا کہ آپ کی سندوں کو دیکھ کر انھیں اپنا حق دلائیں) صدر مذکور نے گواہ طلب کیے چنانچہ گواہوں نے بھی حق ثابت کیا۔ صدر نے پروانہ لکھ دینے کا وعدہ کیا اور اپنے نوکروں سے کہ دیا جس وقت آپ تشریف لے کر آیا کریں اسی وقت ان کی خدمت میں کھانا پیش کر دیا کریں اور جس چیز کی وہ خواہش فرمائیں مہیا کریں۔ لیکن خدا کی قدرت! جب صدر مذکور حکام کو پروانہ لکھنے کے لیے متوجہ ہوئے تو کوئی نہ کوئی مانع پیش آتا۔ اسی طرح ایک مدت گذر گئی آپ نے فرمایا حصول مقصود کے لیے میں نے سورۂ اخلاص کا ورد شروع کیا اور حق تعالیٰ سے التجا کی کہ یا تو کشائشِ کار ہو یا دل سے یہ خیال نکل جائے۔ آپ کا قول ہے کہ ابھی بارہ ہزار مرتبہ میں نے سورۂ مذکور کو نہیں پڑھا تھا۔ کہ یکایک ایک شخص غیب سے نمودار ہوا۔ اور غلام یا خادم کی طرح میرا جوتا میرے سامنے درست کر کے نظروں سے غائب ہو گیا۔ میں نے اُٹھ کر جوتے کا ایک پیزار ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف پھینک دیا۔ جب میں نے پاؤں میں پہننے کا ارادہ کیا تو وہ دنوں پیزار خود بخود اکٹھے ہو گئے۔ صدر سے ملاقات کی تو اس نے کہا کہ بسا اوقات میں نے پروانہ لکھنے کا ارادہ کیا لیکن اس طرح کی ایک حالت پیش آتی ہے گویا کوئی شخص میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنے سے کھینچ لیتا ہے۔ آپ کو یہ سُن کر سخت رنج ہوا۔ لیکن ان کی دعائیں بیکار نہ گئیں اور مطلوب حقیقی کے حصول کے واسطے مؤثر ہوئیں۔ وجہ معاش کی سندوں کو آپ نے آگ سے جلا دیا۔ اور تحصیل علوم کے لیے پورب کا رُخ کیا۔ راستہ میں ایک شاہی عہدہ دار سے ملاقات ہوئی اور آشنا ہو جانے پر اس نے اپنا گھوڑا سواری کے لیے دے دیا۔ آپ سوار ہوئے اور تھوڑی دور تک جا کر آپ کے دل مبارک میں خیال آیا کہ ممکن ہے اس شخص کے دل میں گھوڑے کی واپسی کے لیے اضطراب ہو۔ میری جو عزت یا وقعت اپنے وطن میں تھی وہ نہیں رہی اور حق تعالےٰ نے پیدل چلنے کی طاقت عنایت فرمائی ہے تو سواری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جہاں تک ممکن ہو پیدل چلنا چاہیے۔ مؤلّف کہتا ہے اس حدیث قدسی میں یہی اشارہ پایا جاتا ہے یابنی آدم عندک ما یکفیک وانت تطلب ما یطغیک (اے فرزند آدم! تمھارے پاس قدر کفایت موجود ہے لیکن تم ایسی چیزوں کی طلب میں سرگرم رہتے جو تمھارے لیے طغیان کا باعث ہو۔ یہ خیال آنا تھا کہ آپ اُتر پڑے۔ اس شخص نے ہر چند منت سماجت کی لیکن آپ نے نہ مانا۔ غلبۂ عشق و محبت سے سارا راستہ خداکی یاد میں طے ہوا۔ ہر ایک جگہ پر نفل ادا کرتے تھے اگر کسی جگہ پر نفل ادا کرنے کا اتفاق نہ ہوتا اور اس سے یوں ہی گذر جاتے تو تھوڑی دور جا کر آپ کو خیال آتا کہ ممکن ہے اس جگہ پر عبادت کی جاتی تو وہ بارگاہِ حق میں مشرف و قبولیت پاتی۔ یہ خیال آنے کی دیر ہوتی اور آپ پیچھے واپس ہو کر عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ جب دوگانہ ادا کر کے روانہ ہوتے تو پھر خیال آتا کہ اگر دوسرا دو گانہ بھی ادا کیا جاتا تو یہ اَور بھی بہتر تھا۔ پھر اُلٹے پاؤں چلے آتے اور ادائے نوافل میں مشغول ہو جاتے۔ ایک دن آپ نے یہ حدیث قدسی کسی سے سنی کہ من تقرب الی شبرا تقربت الیہ ذراعاً (جو شخص ایک بالشت بہر مجھ سے نزدیک ہو تو میں گز بہر اُسکے نزدیک ہو جاتا ہوں) غلبۂ عشق و محبتِ میں اونچے اونچے پہاڑوں اور درختوں پر چڑھ کر چلّا تے کہ بار خدایا! میں تو یہاں پہنچ گیا ہوں تو کہا ہے؟ پھر اس سے بھی کسی اونچی جگہ پر چڑھ کر اس طرح فریاد کرتے اور روتے جس کو سُن کر مسافروں اور رہگذروں کے دل پر رقت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ آپ کا بدن اس تگ و دو میں کانٹوں کے چُبنے سے چاک چاک ہو گیا۔ مثنوی شریف میں بعینہ اِسی قسم کی ایک حکایت ایک گڈرئے سے منقول ہے جس کا ایک شعر یہ ہے چارقت دوزم سپشہایت کشم شیر بیشت آورم اے محتشم (اے میرے خدا! تو کہاں ہے کہ میں تیرے پھٹے ہوئے پوستین کو گانٹھ دوں تیری جوئیں ماروں۔ اور تیرے سامنے اپنی بھیڑ بکریوں کا دودھ لاؤں) لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عاشقوں سے جو بات غلبۂ عشق میں سرزد ہو اس پر مواخذہ نہیں کیا جاتا۔ مثنوی میں تم نے پڑھا ہو گا کہ جب حضرتِ موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے اس گڈریے پر اعتراض کیا تو بار گاہِ کبریا سے اُن کو اس طرح تنبیہ ہوئی تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کرون آمدی (تم اس لیے پیغمبر بنائے گئے ہو کہ لوگوں کا تعلق حق تعالیٰ سے مضبوط اور مستحکم کرو۔ اس لیے تمھیں نہیں بھیجا گیا کہ ان کے تعلق کو قطع کرو۔ مثنوی میں لکھا ہے گفت و گوئے عاشقاں د ربابِ رب جو ششِ عشق است نے ترکِ ادب حق تعالیٰ کے سامنے جو کلمات عاشقانِ صادق زبان پر لاتے ہیں وہ بے ادبی یا گستاخی کی وجہ سے نہیں بلکہ عشق اور محبت کا جوش ہے۔ ہر کہ کرداز جامِ حق یک جرعہ نوش نے ادب مانددردنے عقل و ہوش (جس نے عشق ذاتِ حق کا ایک گھونٹ نوش کیا اس کی عقل اور ہوش بجا نہیں رہتے اور وہ آداب کا مقید نہیں رہتا) قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول منقول ہے کہ انھوں نے حضرت رب العزت سے خطاب کیا ان ہی الا فتنک (اے میرے خدا! یہ خود تیری آزمائش ہے۔ یعنی خود ہی تو نے ان لوگوں کو اس گستاخی پر آمادہ کیا) کیونکہ ان کو اپنے کلامِ پاک کے سننے سے مشرف فرمایا تو طبعاً ان میں دیدار کی تمنا پیدا ہوئی۔ بچھڑے سے تو نے خود آواز پیدا کی جس کا لا محالہ یہی نتیجہ ظہور میں آنا تھا کہ یہ لوگ اس پر فریفتہ ہوئے اور اس کو پوجنے لگے۔ یہ قول بھی اسی قسم سے ہے۔ فصل الخطاب میں لکھا ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو بسط کے مقام میں رکھا تھا۔ اور اس وجہ سے اس کو حضرتِ حق سے کمال انس (جس کو ہماری اصطلاح میں بے تکلفی کہتے ہیں) پیدا ہو گیا تھا۔ اور یہ کلمات جو بظاہر گستاخانہ معلوم ہوتے ہیں اسی کا نتیجہ تھا۔ آپ اس حالت جوش عشق میں تفاول (فال نکالنا) کے طور پر ایک سنگریزہ لے کر پھینکتے اور اگر وہ دوسرے سنگریزے پر پڑ جاتا تو اس کو ایک فال نیک خیال کرتے اور فرماتے یہ اسبات کی علامت ہے کہ میں بھی خدا کو پاؤں گا۔ یہ تصور باندھ کر وجد میں آ جاتے۔ دوسرا طریق ان کے تفاول کا یہ تھاکہ زمین صاف کر کے اس پر اناج کے دانے بکھیر دیتے۔ خیال یہ تھا کہ اگر نر چڑیا اس کو کھا لے تومیں خداکو پا لوں گا اگر مادہ چڑیا نیچے اُتر کر اس دانے کو اُٹھانا چاہتی تو اس کو ہاتھ سے ہٹا دیتے تاکہ فال بد وقوع میں نہ آئے۔ ہندوستان کی عورتیں اسی طریقہ پر تفاول کیا کرتی ہیں۔ اگر کسی درخت یا دیوار پر کوے کو بیٹھا دیکھتے تو اس سے مخاطب ہو کر فرماتے۔ اگر میں نے خدا تک پہنچنا ہے تو تم پرواز کر جاؤ۔ اور اگر وہ کوّا اُڑ جاتا تو نہایت شوق سے وجد میں آ جاتے۔ یہ بھی ہندوستان کی عورتوں میں رائج ہے۔ خصوصاً جب ان کا شوہر غائب ہوتا ہے تو اس کے وصال کے لیے اسی طرح تفاول کیا کرتی ہیں۔ یہ سب غلبۂ محبت کے نتائج ہیں۔ آپ منجم اور کاہن کو بھی کچھ دے کر اس بارہ میں فال پوچھا کرتے۔ کچھ دینے کا یہ مطلب ہوتا کہ وہ خواہ مخواہ کامیابی کی شہادت دے۔ اور جب وہ بشارت دیتا تو آپ وجد اور رقص کرنے لگتے جس گھر کے مقابل پہنچتے دل میں خیال آتا کہ اسی گھر کے طفیل خدا کو طلب کروں تو شاید مقصود تک پہنچ جاؤں۔ اور یکایک چلا اُٹھتے۔ اوبار خدایا! میں تیری طلب میں ہوں۔ اگر کوئی شخص آپ کو سائل سمجھ کر کچھ دیتا تو وہ ہرگز قبول نہ کرتے۔ ایک دن کسی شخص کو دیوان حافظ کا یہ شعر کہتے سنا شنیدہ ام کہ سگانر اقلامے وہ بندی چرا بگردن حافظ نمے نہی رسنے (میں نے سنا ہے کہ (اے میرے محبوب) تم کُتّوں کے گلے میں قلاوہ ڈالتے ہو۔ حافظ کے گلے میں پٹہ کیوں نہیں ڈالتے ہو؟) آپ نے اپنا نام لے کر اس شعر کو اس طرح پڑھنا شروع کیا ’’چرا بگرون حسن نمے نہی رسنے‘‘۔ اس شعر کا آپ پر اس حد تک اثر ہوا کہ غلبۂ عشق سے اپنے گلے میں کتے کی طرح پٹہ ڈال دیا۔ اور کھانا پینا چھوڑ کر کتوں کی طرح آواز کرنا اختیار کیا۔ فرمایا کرتے کہ کہ محبوب کا کتا اس وقت حقیقتہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تمام شکل اور وضع اختیار کر لے۔ الغرض کتے کی شکل بنا کر دو دو تین تین میل تک چلے جاتے۔ ایک عاشق کا قول ہے سر پاشدوپائے سرمر ادر راہِ یار چوں بے سردپاشدم تو معذورم دار (محبوب کے راستہ میں میرا سر پاؤں ہو گیا اور پاؤں سر جب میں بے سروپا ہو گیا تو مجھے معذور سمجھو) ایک دوسرے شاعر نے یہ حالت دیکھ کر خوب کہا ہے بے تاب عشق ہر چہ کند حق بدست اوست، (عشق سے مغلوب ہو کر جو کچھ بھی کرے حق بجانب ہے)۔ مؤلف کہتا ہے اسی کے مطابق ایک حکایت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ نے بوستان میں نقل فرمائی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ایک عارف کو کوچہ میں گزرتے ہوئے ایک گھر کے اندر سے کُتّے کی آواز سنائی دی۔ دل میں خیال آیا کہ یہاں سے کتّے کی آواز سنائی دینا غیر معمولی بات ہے ذرہ چل کر تو دیکھیں۔ وہ گھر ایک صالح درویش کا تھا۔ گھر میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ کتے کا نام و نشان تک نہیں۔ صرف وہ مرد صالح ایک کونے میں بیٹھا ہے اس لیے وہ عارف لوٹنے لگا اور شرم کی وجہ سے یہ نہ کہہ سکا کہ میں اِس مطلب کے لیے گھر میں داخل ہوا تھا۔ اس مرد صالح نے کہا کہ کیوں کھسیانے سے ہو کر واپس لوٹنے لگے ہو۔ جو آواز تم نے سُنی وہ میری تھی۔ میں نے دیکھا کہ حق تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اور وہ اس کی قدر کرتا ہے تو میں نے کتے کی طرح آواز کرنی شروع کی۔ کیونکہ میرے خیال میں کُتّے سے بڑھ کر اَور کوئی چیز ذلیل اور حقیر نہیں۔ بارہ گاہِ رب العزت میں وہی سرفراز ہوتے ہیں جو اپنے تئیں ہیچ سمجھتے ہیں۔‘‘ بعض اوقات حضرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلال و جبروت شاہانہ کے ساتھ تصور میں لاتے اور پھر اس خیال کی تکمیل اس طرح کرتے کہ شکاری کُتے جو سلاطین کے جلو میں رہا کرتے ہیں مقرر فرما کر دل و جگر جو کتے کے لیے ایک نہایت مرغوب کھانا ہے زرّین دستر خوان پر چن کر صندل کے تخت پر ان فرضی کتوں کے سامنے رکھ دیتے اور تخت کے آگے دست بستہ کھڑے ہو کر بارہ گاہِ حق تعالیٰ میں عرض کرتے کہ بار خدایا! یہ کتے اس میری نیاز کو قبول کریں۔ اور جب انھیں یہ تصور بندھ جاتا کہ ان فرضی کتوں نے اس دل و جگر پر مُنہ ڈال دیا ہے تو اس پر وجد کرتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک کے خیال میں راتیں جاگا کرتے اور ادب سے پاؤں پھیلاتے۔ ذکرِ خدا کا شوق آپ پر اس قدر غالب آگیا تھا کہ جنگلوں اور باغوں میں گشت لگاتے ہوئے ہر وقت ذکرِ حق میں مشغول رہتے تھے۔ ایک پرندہ ہے جس کو عام طور پر حق گو کہتے ہیں اور جس کی آواز حق حق ‘‘ کے مشابہ ہوتی ہے۔ جب کبھی اس پرندے کی آواز سُنتے تو اس کے سامنے جا کر آپ بھی اسی طرح ’’حق حق‘‘ کہنا شروع کر دیتے اور اگر وہ پرندہ خاموش ہو جاتا تب بھی آپ کہے جاتے اور اس طرح مذکورہ بالا پرندے سے سبقت لے جانے اور اور ذکرِ خدا میں اس پر غالب آنے سے نہایت خوش ہوتے۔ الغرض آپ کا تھوڑا سا وقت تعلیم و تعلم میں صرف ہوتا۔ باقی اکثر وقت یادِ خدا۔ ریاضت و مجاہدہ اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے میں صرف ہوتا۔ آپ کا راہِ خدا میں خرچ کرنا کئی طرح پر ہوتا۔ مثلاً جو کپڑا میسر ہوتا وہ دے ڈالتے۔ گھٹنوں کے نیچے تک پاجامہ یا تہبند رکھتے۔ اور راستوں سے چیتھڑے اُٹھا لا کر گودوڑی بنالیتے جس سے گرمی اور سردی کی شدت سے بچے رہتے۔ حسین خوارزمی نے مثنوی مولانا روم کی شرح میں لکھا ہے کہ اس قسم کی گوڈری خواجہ اویس قرنی علیہ الرحمۃ بنایا کرتے تھے۔ خوراک کا یہ حال تھا کہ جو اچھا اور عمدہ کھانا ہوتا جو تین چار جگہ سے مقرر ہوکر آیا کرتا تھا وہ یتیموں اور مسکینوں کو دے کر خود روکھی سوکھی روٹی پر اکتفا کر لیتے۔ اس تمام کھانے کا ثواب کھانا دینے والے کو بخشتے۔ القصّہ ہر طرح سے مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول رہتے۔ چودہ سال تک تحصیل علم کرتے رہے۔ اس اثناء میں نذر اور کسب کے ذریعہ سے برابر دو روپیہ یومیہ کی آمدنی آپ کو ہوتی رہی۔ لیکن ڈہائی پیسے روزانہ سے زیادہ اپنے لیے کبھی خرچ نہیں فرمایا۔ باقی سب راہِ خدا میں صرف ہوا۔ طبیعت مبارک کی خواہش کے مطابق کبھی ایک کے بُھنے ہوئے چنے لے لیا کرتے اور بعض اوقات ایک دام کی شکر خرید لیتے اور پھر چند دنوں تک آپ کی یہ غذا رہتی۔ آپ کی آمدنی کی مختلف صورتیں تھیں۔ کچھ تو لوگ نذر نیاز دیتے کچھ کسب کے ذریعہ حاصل کرتے۔ بعض لوگ ان کے قصّہ کہانی کے مشتاق رہتے ان کو قصہ کہانی سُنا کر کچھ وصول کر لیا کرتے۔ بعض اوباش از راہِ تمسخر آپ سے رقص اور اوچھل کود کی استدعا کرتے تو آپ کی ان کی خواہش پوری کرنے سے بھی انکار نہیں ہوا کرتا تھا۔ اور جو کچھ ان سے اس کا معاوضہ لیتے اس کو راہِ خدا میں صرف کر کے اس کا ثواب اور نیز اپنی رنج و محنت کا ثواب ان لوگوں کو بخش دیا کرتے اس قسم کی وضع اختیار کرنے میں بڑے بڑے فائدے ہوتے ہیں جو صاحب طبع سلیم سے پوشیدہ نہیں۔ شیخ ابو بکر شبلی اور دوسرے اولیاء کرام کو کئی قسم کی سختیاں برداشت کرنی پڑی ہیں۔ اگر تفصیل چاہیں تو ان کے احوال میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا مطالعہ کریں۔ الغرض آپ کے یہ حالات آپ کی شہرت کا باعث ہوئے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ کے استاد محمد جمیل نے ازروئے عقید تمندی شیخ محب اور الہ آبادی کی خدمت میں جانے کا قصد کیا۔ اور اس لیے اپنے درس کی کتابیں اپنے شاگردوں کو سُپرد کرنے لگے۔ آپ کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مرید بننے کے لیے بھی لیاقت چاہیے۔ جب تک لیاقت مریدی کی نہ ہو اس کا قصد رکھنا غلط ہے۔ استاد نے کہا لیاقت کِس قسم کی ہو۔ اوروہ کِس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا تم مجھ سے تربیت چاہتے ہو۔ میں خود کسی دوسری جگہ تربیت حاصل کروں گا۔ مؤلف کہتا ہے ممکن ہے اس کے یہ معنی ہوں کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تو میرے پاس موجود ہے لیکن اس سے بڑھ کر جس چیز کا میں خواہاں ہوں اور جس کی مجھ کو ضرورت ہے ، وہ میں دوسری جگہ سے حاصل کروں گا دوسری جگہ سے مراد حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب والا ہے۔ آپ نے فرمایا سب سے پہلے قوّت غضبیّہ کی اصلاح کرنی چاہیے جس سے مختلف ضرر اور نقصان پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات انسان کو اپنے سے چھوٹے پر مثلاً بیوی۔ بچہ غلام۔ نوکر چاکر۔ شاگرد۔ مرید اور خدمتگار پر یکایک غصہ آ جاتا ہے اس کو دبانا چاہیے۔ چنانچہ میںآپ کا شاگرد ہوں۔ اگر کسی وقت سخت کلامی کر بیٹھوں یا ہاتھ پھیلا کر آپ کے سر سے دستار اُتار لوں تو آپ فوراً غصّہ سے بھڑک اُٹھیں گے۔لیکن آپ کو چاہیے کہ اس کے ضبط کرنے اور تحمل سے کام لینے میں سعی بلیغ کریں۔ چونکہ استاد ایک نیک باطن شخص تھا۔ اور اس کے لیے علمِ تصوف سے بہرہ ور ہونا مقدر تھا ان پاکیزہ پُر اسرار الفاظ نے اس کے دل پر بڑا اثرکیا۔ ایک دن درس دینے کی حالت میں آپ نے اس اُستاد سے سخت کلامی کی اور ہاتھ پھیلا کر اس کے سر سے دستار اُتار دی۔ اُستاد کو سخت غصّہ آیا اور اس حرکت کا انتقام لینے کا ارادہ کیا۔ لیکن آپ نے فوراً کہہ دیا کہ ’’خبر دار رہنا چاہیے فقیری جاتی رہے گی۔ اس فقرہ نے اُستاد کے دل پر ایک غیر معمولی اثر ڈالا اور اس کا غصّہ بالکل کا فور ہو گیا۔ چھ مہینہ تک یہی حالت رہی۔ آپ خواہ مخواہ اس کو جوش دلاتے لیکن وہ حسب تلقین ضبط اور تحمل سے کام لیتا بعض اوقات آپ اس کے کندے پر سوار ہو کر اس کو گھونسے لگایا کرتے تھے۔ ایک دن اُستاد نے پوچھا کہ اب تو غصّہ باقی نہیں رہا۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اُستاد نے کہا اب کیا کرنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا میں نے کسی پیرو مرشد سے مجاہدہ کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن بات یہ ہے کہ طالب صادق کی نظر میں تمام عالم ایک مرشد رہبر کا حکم رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک عقل مند کا قول ہے چشمے داری و عالمے در نظرات دیگرچہ معلم چہ کتابت باید (چشم بصیرت کھلی ہے اور صحیفہ کائنات پیش نظر ہے۔ دوسرے کونسے معلم یا کتاب کی ضرورت ہے) میں نے مجاہدہ کے بعض طریقے عورتوں سے اخذ کیے ہیں۔ مثلاً جس عورت کا چھوٹا سا بچہ ہو وہ غلبہ محبت کی وجہ سے لذیذ کھانا نہیں کھا سکتی۔ ہر چند وہ چاہتی ہے کہ میں کھاؤں لیکن وہ کھانا اس کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ اس کا باعث وہی بچے کی محبت ہوتی ہے۔ اس لیے تم طالبان حق کو چاہیے کہ محض اس کی خوشنودی کے لیے لذیذ کھانا ترک کردو۔ اگر حق تعالیٰ کی محبت بالفعل موجود نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ محبت حاصل ہو۔ ہمیشہ کی کوشش سے آخر کار کامیابی ہوگی۔ مؤلف کہتا ہے۔ اگرچہ اس طرح کا مجاہدہ کرنا (یعنی لذیذ کھانے کو ترک کردینا)اس شخص کے لے چنداں دشوار نہیں جس کا نفس مطمئنہ ہو چکا ہے لیکن جو لوگ ابھی مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول ہیں ان کے لیے یہ بات سخت دشوار ہے۔ اگر اس کا امتحان کرنا چاہتے ہو تو اس وقت جبکہ تم بھوکے ہو ایک لذیذ کھانا جو تمھارے سامنے دھرا ہو اٹھا کر کسی مسکین کو دیدو پھر دیکھو کہ نفس اور شیطان کیا اودہم مچاتے ہیں۔ اور کسقدر سنگ راہ ہوتے ہیں اس کی حقیقت وہی لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جن کی دیدہ بصیرت کو خدانے اس حدیث کے مضمون سے منور کیا ہو کہ اذا اراد اللہ بعبدٍ خیرًا بصرہ بعیوب نفسہ جب خدا کسی بندہ کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کو اپنے عیوب پر مطلع کردیتا ہے۔ استاد نے اسی طرح مجاہدہ کی مشق جاری رکھی اور نہایت عجز اور مسکنت سے زندگی بسر کرنی شروع کی۔ اتفاقاً اسی اثنا میں اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا اور اس نے دوسری شادی کرلی۔ ایک دن اس دوسری بیوی کے بھائی نے اپنی بہن سے خفا ہو کر اس کے شوہر کو بھی ناگفتنی سنائیں۔ استاد کو یہ باتیں سنکر ملال ہوا۔ لیکن بظاہر کچھ نہ کہا۔ حضرت مرشد کو صفائی باطن سے معلوم ہو گیا کہ اس کا نفس مجاہدہ کی ذلت سے گریز کرنا چاہتا ہے۔ اور اس لیے استاد کے لیے سخت تکلیف کا موجب ہو رہا ہے آپ نے ان کو از سر نو تاکید کی اور فرمایا کہ طلب مولی میں لوگوں کے طعن و تشنیع کا سہنا ضروری ہے۔ ایک دن استاد مذکور کی بیوی نے اپنی ساس سے تیل اور آئینہ طلب کیا۔ اس نے درشتی سے جواب دیا۔ اور کہا کہ تمھارے شوہر نے کونسی انوکھی قابلیت حاصل کر لی ہے کہ تم اس کی بیوی ہو کر ہم سے فرمائشیں منوانا چاہتی ہو۔ وہ تو ہمارے کام سے بیکار ہو گیا۔ اب تمھیں کیا حق حاصل ہے کہ ہم سے کبھی کچھ مانگتی ہو اور کبھی کچھ۔ استاد کی بیوی نے آب دیدہ ہو کر اپنے شوہر سے یہ ماجرا بیان کیا اور اس نے مرشد سے عرض کیا۔ اس حکیم معنوی نے ارادہ فرمایا کہ اسباب کی رعایت سے اس کی ملال اور اضطراب کو دفع کریں۔ یہ ایک کھلی بات ہے کہ اولیاء اللہ روحانی طبیب ہیں۔ طبیب ظاہری کی طرح وہ بھی ہر ایک شخص کے مزاج کے موافق اس کا علاج کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر کبھی کسی سے تنگ حوصلگی ظاہر ہو تو اس حدیث پر عمل کرتے ہیں کہ الدنیا جیفۃ و طالبھا کلاب (دنیا ایک مردار کی مانند ہے جس کی طلب کرنیوالے کتے ہیں) اور بعض اراد تمندوں کی عالی طرنی اور بلند حوصلگی ملاحظہ فرماکر اس حدیث کو اپنا دستور العمل ٹھہراتے ہیں کہ الدنیا مزرعتہ الاخرۃ (دنیا اخرت کے لیے بمنزلہ ایک کھیتی کے ہے) اس مقبول ضرب المثل کے مطابق کہ کل اناءٍ یتر شح بنا فیہ (ہر ایک برتن سے وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر ہے) ہر ایک شخص کی اپنی استعداد اس کی سعادت یا شقاوت کا باعث ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً شراب کو پی کر بے ہوش اور بھی بیہوش ہوجا تا ہے لیکن ہوشمند اور زیادہ با ہوش۔ اسی کے موافق کسی عقلمند کا قول ہے۔ دردل ماگم دنیا غم معشوق شود بادہ گرخام بود پختہ کند شیشہ ما (ہمارے دل میں دنیا کا غم معشوق کے غم سے مبدل ہوجاتا ہے۔ شراب اگر خام بھی ہے تو ہمارے شیشہ میں پڑ کر وہ پختہ ہوجاتی ہے)۔ آپ نے فرمایا آؤ بنارس کو چلیں اور تمھارے لیے پیری مریدی کی دکان کھول دیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات آپ کو کشف سے معلوم ہوئی ہو۔ اور ممکن ہے کہ اپنی عقل رسا سے انھوں نے یہ تجویز نکالی ہو۔ بہر کیف جب آپ نے بنارس جانے کا قصد فرمایا تو استاد کے بارہ شاگرد بھی آپ کے ساتھ چلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے ان سے صاف کہ دیا کہ ہم تو ریاضت اور مجاہدہ کے لیے جاتے ہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں تکلیف ہو انھوں نے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی اور روانہ ہوئے۔ بنارس میں پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ ہندوؤں کے مندر میں اترینگے۔ کیونکہ جب ہم اذان کہ کر نماز پڑھیں گے تو اس سے ہندو بگڑینگے اور یہی ہماری شہرت کا باعث ہوگا۔ جب اذان دی گئی تو وہاں کے پوجاریوں نے شہر کے حاکم سے جو ہندو تھا جاکر فریاد کی۔ حاکم نے ان کو گرفتار کرکے حاضر کیے جانے کا حکم دیا۔ سپاہیوں نے حسب دستور وہاں جاکر دور سے غصہ آمیز شور کیا۔ آپ نے جو حکیم باطن تھے آگے بڑھ کر روٹی اور کچھ مٹھائی جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں تھی ان کو دے کر بلند آواز سے فرمایا کہ مرد آدمی یہ لو کھاؤ۔ وہ لوگ فوراً واپس چلے گئے اور کہنے لگے کہ ان فریبی کافروں کو مارو۔ آپ خود جلدی سے واپس آگئے۔ یہ حالت دیکھ کر جماعت نے تعجب و تبسم کیا۔ اور اس جگہ کے لوگوں سے سلوک کرکے وہیں قیام کیا۔ ایک دن تنگی معاش کی وجہ سے استاد کا کمر بند بیچنے کے لیے بازار میں چلے جاتے تھے۔ راستہ میں شیخ حسن نامی وہاں کے ایک سجادہ نشین سے ملاقات ہوئی جس نے اسی دن عرس کا اہتمام کیا تھا۔ سواری پر جارہا تھا۔ جب شیخ مذکور کی نظر آپ کے چہرہ پر پڑی تو آپ کے کمال وجاہت سے متاثر ہوا اور حقیقت حال دریافت کی۔ آپ نے فرمایا خدا کا بندہ ہوں۔ تنگدست اور محتاج ہوں۔ تنگی معاش کی وجہ سے تکلیف میں ہوں۔ شیخ نے کہا آپ ہمارے ہاں عرس ہے قبول فرمائے آپ نے فرمایا میں اکیلا نہیں۔ ایک استاد اور بارہ شاگرد میرے ساتھ ہیں۔ شیخ نے کہا وہ بھی چلے آئیں۔ چنانچہ ان کو بھی طلب کر لیا گیا۔ دعوت میں استاد تشریف لے گئے۔ اسی اثناء میں سماع کی مجلس گرم ہوئی۔ آپ نے چپکے سے استاد سے فرمایا کہ میں جھوٹ موٹ متاثر ہونا اور رونا شروع کرتا ہوں شاید اس طرح کچھ مل جائے۔ استاد نے کہا آپ کا اختیار ہے۔ آپ نے کھڑے ہو کر اپنے سرپر ہاتھ رکھ لیا اور رونا شروع کیا لیکن جو فعل ایک شخص کامل سے صادر ہو وہ اگرچہ تکلف اور تصنع پر مبنی ہو تب بھی اس کا اثر دل تک پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس جھوٹ موٹ کے لفظ سی مجازی معنے مراد ہوں یا حقیقی۔ خواہ کچھ ہو بہر کیف ممکن ہے کہ یہ ملامت کے ارادہ سے کیا ہو۔ واللہ اعلم الغرض اس رونے کا حاضرین پر بہت اثر ہوا۔ اور تمام اہل مجلس رونے لگے۔ ہرچہ گیر د علتی علت شود کفر گیرد کاملے ملت شود (جس کے باطن میں خرابی ہے وہ جو فعل بھی کرے علت سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن ایک کامل شخص اگر کفر بھی اختیار کرے تو وہ مذہب کا ایک جزو ہوجاتا ہے۔) اس مجلس میں بادشاہ کا دیوان شیخ سلیم نام ایک شخص موجود تھا۔ اس نے یہ حالت دیکھ کر بیس روپے نذر کیے۔ آپ نے استاد کے حوالے کیے۔ استاد نے آپ کی طرف واپس کردئے۔ وہ شخص شرمندہ سا ہو گیا اور اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم نے بہت سے اس قسم کے مکار اور فریب کارد یکھے ہیں۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ دوسری مرتبہ مجلس گرم ہوئی تو آپ نے پھر اسی طرح رونا شروع کیا۔ جوفی الجملہ بظاہر تکلف سے خالی نہیں تھا اس سے بھی وہی اثر نمودار ہوا۔ اس شخص نے دس کا اضافہ کرکے تیس روپے نذر کیے جن کا وہی حشر ہوا۔ چونکہ اہل دنیا بوجہ اپنی شان کے اس طرح دی ہوئی چیز کے واپس کرنے کو برا مانتے ہیں اس لیے وہ شخس پھر شرمندہ سا ہو گیا اور خیال کیا کہ یہ ردو قبول صرف ایک دام فریب ہے، چنانچہ اس نے کہ دیا کہ اس طرح کے مکار اور فریب کار لوگ ہم نے بہت دیکھے ہیں۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ تیسری مرتبہ جب پھر اسی طرح کی حالت رونما ہوئی اور اہل مجلس میں ایک اثر پیدا ہو تو اس شخص نے اپنے اگلے قول کے خلاف دس کا اضافہ کرکے چالیس نذر کیے جن سے وہی پہلا سلوک کیا گیا۔ وہ شخص غصہ ہو گیا اور پالکی میں سوار ہو کر گھر کو چلا گیا۔ آپ نے استاد سے فرمایا۔ اگر آپ کی مرضی ہے تو یہ روپے واپس لاؤں۔ استاد نے کہا آپ کا اختیار ہے۔ آپ اس شخص کے پیچھے چلے گئے۔ وہ آپ کو دیکھ کر تعظیماً پالکی سے اتر پڑا۔ اور عرض کیا کہ ارشاد؟ آپ نے فرمایا جو روپے تم دینا چاہتے تھے وہ لاؤ۔ اس نے عرض کیا پہلے ان کے نامنظور کرنے کا کیا باعث تھا۔ آپ نے فرمایا ہم نے سمجھا کہ اس طرح دس دس کا اضافہ ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ تک نوبت پہنچے گی تو پھر ہم لے لیں گے۔اس نے مسکرا کر دس کا اضافہ کیا اور پچاس روپے خدمت میں نذر کیے۔ آپ نے بارہ روپے بارہ شاگردوں کو مرحمت فرمائے اور بقیہ روپے استاد کے حوالے کیے۔ اس طرح رفتہ رفتہ استاد کی مشخیت کا آوازہ تمام اطراف و جوانب میں پھیل گیا۔ وہاں کے حاکم نے ایک گانوں بطور جاگیر یش کیا جس کی آمدنی نو ہزار چار سو روپے سالانہ کے قریب تھی انھوں نے فرمایا ہم جاگیریں حاصل کرنیکے لیے نہیں آئے اور اس بنا پر اس گاؤں کو منظور نہ کیا۔ جب استاد کے رشتہ داروں اور ان کی قوم کو معلوم ہوا کہ استاد کی بڑی شہرت ہو گئی ہے اور نذر و نیاز خوب آتے ہیں تو انھوں نے استاد کو فرحت آمیز خطوط لکھ کر خوشامد شروع کی وہی لوگ جو ان کو افلاس اور تنگدستی کے باعث طعن تشنیع کرتے تھے۔ طویل و عریض مدح و ستائش کرنے لگے۔ والدہ اور دیگر اعزہ و اقارب نے خط لکھا کہ اگر تم بادشاہ بن جاتے تو ہم اس قدر خوش نہ ہوتے جس قدر کہ ہم تمھارے فقیر بننے سے خوش ہوئے ہیں۔ ہم تمھاری جدائی کا صدمہ برداشت نہیں کرسکتے۔ یا آپ چلے اائے یا ہمیں وہاں طلب کیجئے جب یہ خط پہنچا تو پیر و مرشد نے فرمایا۔ دیکھا اب جبکہ تمھاری دنیا وی وقعت قائم ہو گئی ہے تو یہ لوگ کس طرح تم پر مائل ہوئے ایک وہ بھی وقت تھا کہ تمھارے افلاس اور مسکنت کیوجہ سے تمھارے جانی دشمن بنے ہوئے تھے۔ لیکن اب انھوں نے اپنے اگلے قول و فعل کو یکدم فراموش کر دیا ہے تعلقات دنیا میں گرفتار اور مرہون رسم و عار لوگوں کی یہ کیفیت ہے، خود غرضی اور خود کامی اس کا نام ہے۔ سالک کو چاہیے کہ راہ خدا میں دوسروں کے طعن و تشنیع پر ہر گز کان نہ دہرے۔ تین سو روپے جو نذر و نیاز سے آپ کے پاس جمع ہو گئے تھے وہ بھی استاد کے حوالے کیے اور ان کو الہ آباد کی طرف روانہ کیا۔ حضرت خود ڈیڑھ فلوس لے کر جو نپور کو تشریف لے گئے۔ کچھ عرصہ تک قصبہ بہلول میں سکونت پزیر ہوئے۔ وہاں کا ایک چودہری جلال الدین نام آپ کا مخلص ہو گیا۔ ایک روز آپ کو تکلیف دی کہ اس کے ساتھ چل کر باغ خربوزہ کی سیر کریں۔ آپ نے دریافت فرمایا اس کا رقبہ کس قدر ہے۔ اس نے کہا بارہ بیگہ۔ آ پ نے فرمایا اگر تین بیگہ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کی نیاز کروتو میں اس شرط پر تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ اس نے کہا میری اتنی توفیق نہیں یہ کہ کر وہ چلا گیا۔ رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوا۔ بحالت خواب ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جو کچھ تمھیں وہ شخص کہتا ہے وہ کیوں نہیں کرتے اس کی تعمیل کرو۔ چنانچہ وہ شخص علی الصباح آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مقررہ نیاز پیش کی۔ آپ نے استفسار فرمایا کہ کل تو انکار کیا تھا آج کیسے راضی ہو گیا۔ اس نے کہا انکار تو میری پست ہمتی اور تقصیر نفس کا نتیجہ تھا اور آج جو کچھ میں نے کیا وہ محبوب خدا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان واجب الاذعان کی تعمیل ہے۔ اس کے بعد تمام کیفیت بیان کی۔ آپ نے غربا اور مساکین کو صلائے عام دی جس شخص کا جی چاہے فلاں باغ میں جاکر خربوزے کھالے۔ لیکن کوئی شخص اس چودھری کی ہیبت اور خوشی سے وہاں نہیں جاتا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ تم خود آواز دو تاکہ لوگ بے خوف ہو کر آئیں جب اس نے خود آواز دی تو ہر ایک طرف سے غریب اور مسکین جوق در جوق ہو کر آنے لگے۔ آپ نے ان سے فرمایا اس باغ کو لوٹ لو جب خربوزے لوٹ لیے تو فرمایا زمیں بھی کھود ڈالو۔ زمین کھودی تو کئی اشرفیاں گڑی ہوئی ملیں۔ جنکو آپ نے اس شہر کے مشائخ اور اعیان کے پاس بھیج دیا۔ اس واقعہ کے ظہور میں آنے پر اس شخص کی آپ سے محبت اس قدر بڑھ گئی کہ بسا اوقات کہا کرتا تھا کہ میں اپنے فرزند عزیز کی جدائی گوارا کر سکتا ہوں لیکن آپ کی مہاجرت کی تاب نہیں لا سکتا۔ اس طرح اکثر لوگوں کو آپ سے نہایت عقیدت اور اخلاص تھا۔ آپ وہاں سید حسن رسول نما کے نام سے مشہور تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ جلال الدین مذکور اس شہر کے حاکم اعلیٰ کو بھی آپ کی زیارت کے لیے ساتھ لیتے آیا۔ باوجود یہ کہ آپ اس وقت گودڑی پہنے ہوئے تھے۔ لیکن حاکم پر آپ کے دیکھتے ہی اس قدر ہیبت طاری ہوئی کہ ہکا بکا رہ گیا اور کچھ دیر تک کھڑ ا رہا۔ جلال الدین نے عرض کی کہ اگر ارشاد ہوتو بیٹھ جائیں آپ نے فرمایا کھڑا رہنے دو۔ بادشاہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کتنی دیر کھڑا رہتا ہے۔یہاں آکر اگر تھوڑی دیر کھڑا رہا تو کیا ہوا۔ حاکم مذکور نے جلال الدین کو منع کیا کہ کیوں ایسی گستاخی کی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو کچھ تمھارے پاس ہو دیدو۔ اس وقت اس کے پاس پچاس روپے تھے وہ نذر کر دیے۔ جلال الدین نے شاید اس خیال سے کہ آپ طمع سے مبرا ہیں کہا کہ یہ نذر قبول نہ فرمائیں گے۔ لیکن آپ نے اس کو بے جا دخل دینے سے منع فرمایا۔ مؤلف کہتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اولیاء اللہ کی مراد و مقصود کی نوعیت سے بے خبر تھا وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ان بزرگواروں کا ہر ایک فعل خالصا اللہ ہوا کرتا ہے۔ نفسانی خواہشیں اور شیطانی کدورتیں ان کے دل میں نفوذ نہیں کر سکتیں لَابَخَافُوْنَ لَوْمَتَ لَاءِمٍ(وہ کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتے) ان کے حال کی ترجمان ہے۔ وہ کسی کی طعن و تشنیع کی ذرہ پروا نہیں کرتے اس لیے جس شخص کے صاحب کمال ہونے کا یقین ہو جائے اگر اس سے کوئی ایسا فعل صادر ہو جو بظاہر اچھا معلوم نہیں ہوتا تب بھی انکار سے نہیں پیش آنا چاہیے۔ لیکن اس فعل کو ایک حجت قرار دے کر اس کی تقلید بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اولیاء کرام روحانی طبیب ہیں۔ اگر کسی وقت بحکمِ ضرورت تریاق کی جگہ زہر بھی استعمال کر لیں تو ان کو گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن اگر کوئی دوسرا خام کار ان کی تقلید کر کے زہر کھانے کا ارتکاب کر بیٹھے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے تئیں ہلاک کرنے کا باعث ہو گا۔ اسی بنا پر شرح گلشن راز میں مجذوب فقراء کے حق میں لکھا ہے کہ لا ینکر علیھم ولا یقتدی بھم (نہ تو ان کے افعال پر اعتراض کرنا چاہیے اور نہ ان کے فعل کو حجت ٹھہرا کر ان کی اس قسم کے افعال میں اقتدا کرنی چاہیے۔) الغرض آپ نے کچھ دیر بعد اس حاکم کو رخصت کیا۔ جلال الدین نے اس حاکم کی طرف سے سوال عرض کیا کہ اس میں کیا بھید ہے کہ خواب کی حالت میں باوجود آنکھوں کے بند رہنے اور حواس کے معطل ہونے کے بہت سے عجائبات نظر آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ ایک دقیق اور مشکل مسئلہ ہے۔ کشف کے بغیر انسان اس کی حقیقت پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ اس سے کہہ دو کہ اس جاہ و منصب کو خیر باد کہہ دے اپنا مال و دولت غریبوں مسکینوں میں لُٹا دے۔ چھ ماہ تک تنور گرم کرنے کا مزدور بنے اور اس کے لیے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کی ذلت گوارا کرے۔ اس کے بعد اس کی چشمِ حقیقت بین کُھل کر سارا راز طشت ازبام ہو جائے گا۔ امیر نے کہا یہ تو نہایت مشکل ریاضت ہے کوئی سہل ترکیب بتائیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک مرض کے لیے ایک مخصوص علاج مقرر ہے۔ دنیاوی تعلقات نے آئینہ دل پر زنگ کی ایک موتی تہ چڑہا دی ہے۔ جب تک تذلیل نفس اور ترک تعلقات کے صیقل سے اس زنگ کو دور نہ کیا جائے حقائق غیبیہ کی صورت اس میں جلوہ گر نہیں ہو سکتی تم نے اپنے اعزّہ و اقارب سے کسی شخص کو حالتِ نزع میں دیکھا ہو گا کہ جب اس کی آنکھیں اس عالم کے دیکھنے سے بند ہو جاتی ہیں اور اس پر ایک غشی کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے تو اس حالت میں اس کو عالم آخرت کے عجیب و غریب احوال دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جو لوگ اس سے پہلے مر چکے ہیں ان کا حال حاضرین مجلس کو سناتا ہے۔ کسی کو بلاتا ہے کسی کو کوئی چیز دیتا ہے۔ و علیٰ ہذا القیاس۔ اس کشفِ غیوب کا تمام تر باعث یہ ہے کہ اس حالت میں دنیا سے اس کا تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ اور جو اوہام و خیالات اس عالم میں اس کے دا منگیر رہتے ہیں وہ فائل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ قریب مرگ ہوتا ہے تو ہو جانتا ہے کہ مجھ کو تھوڑی دیر میں اس عالم کو خیر باد کہنا ہے اور حواس کا تعلق بھی اپنے محسوسات سے منقطع ہونے لگتا ہے مثلاً آنکھ کی بینائی۔ کان کا سُننا وغیرہ مفقود ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس انقطاعِ تعلق اور انقطاع حواس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ عالم غیب کے حقائق اس کے آئینہ روح میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ مؤلّف کہتا ہے کیمیائے سعادت میں لکھا ہے کہ روح انسان کی مثال ایک آئینہ کے ہے جس میں ہر وقت عالم غیب کے حقائق کو مشاہدہ کیاجا سکتا ہے۔ لیکن تعلقات دنیا اس آئینہ کو زنگ آلود بنا دیتے ہیں اور اس لیے وہ اندھا ہو جاتا ہے۔ اگر تعلقات منقطع ہوں تو فوراً صُور غیبیّہ نظر آنے لگیں۔ امیر مذکور نے کہا ممکن ہے کہ باوجود اس تمام ذلّت برداشت کرنے اور تعلق قطع کرنے کے بھی مقصود حاصل نہ ہو تو دین و دُنیا کو کھو بیٹھیں گے۔ آپ نے فرمایا۔ میں اس بات کا ضامن ہوں اگر کامیابی نہ ہو تو جو تمھارا جی چاہے مجھ کہہ لو۔ اس نے کہا اگر کامیابی نہ ہو تو تم کو کچھ کہنے سُنانے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ الغرض چونکہ توفیق ازلی اس کی مؤید نہیں تھی محروم رہا۔ مولانا عبد الرشید جونپوری۔ جو علوم ظاہر و باطن میں یکتائے روزگار اور بڑے باکمال بزرگوار تھے۔ آپ کے اُستاد تھے۔ ایک دن اپنے مریدوں کو ایک ذکر کی تلقین کر کے فرما رہے تھے کہ اس فکر میں یہ خاصیت ہے کہ اس سے وہ چربی زائل ہو جاتی ہے جو دل کے اطراف میں جمع ہو گئی ہو۔ اور جس سے دل پر کدورت چھا گئی ہو۔ آپ نے فرمایا مجھ کو ایک ترکیب یاد ہے اگر کوئی شخص چالیس دن تک اس پر عمل درآمد کرے تو کامل صفائی ضمیر کی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ سالک کو چاہیے کہ شہر میں کوئی ایسا گھر ڈھونڈے جہاں کوئی نوجوان مرا ہو اور اس کے اعزّہ و اقارب اس کی موت پر روتے پیٹتے ہوں۔ اس گھر کے قریب رات بھر رہے۔ تھوڑی دیر میں موت کی ہبیت اس کے دل پر چھا جائے گی اور غفلت کا فور ہو جائے گی۔ مولاناموصوف اگرچہ بظاہر آپ کے اُستاد تھے لیکن در حقیقت علم طریقت میں آپ کے شاگرد تھے۔ اس طبیب ارواح کی یہ نرالی ترکیب سُن کر متعجب ہوئے اور اس کی تعریف کی۔ سوچنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑی ریاضت ہے۔ ایک دن کسی نے آپ کے ایک اُستاد کو جس کی طبیعت علمِ تصوف کی طرف مائل تھی یہ کہا کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کے ناک کو کاٹ ڈالا۔ اُستاد نے کہا ایک خدا نے دوسرے خدا کا ناک کاٹ ڈالا۔ آپ نے یہ کلمہ سُن کر استغفار کیا اور فرمایا جو علم ہم نے یہاں آکر حاصل کیا اس نے ہمارے اگلے علم کو بھی برباد کر دیا۔ اگر علم کھانے کی طرح کوئی چیز ہوتی تو میں قے کر کے اس کو باہر پھینک دیتا۔ خدائے پاک سے شرم کرنا چاہیے۔ اور ایسی فضول باتیں نہیں کرنا چاہئیں جو شرع کی حدود سے خارج ہوں۔ اس قسم کے کلمات کو زبان پر لانے سے سخت ضرر پیدا ہوتا ہے۔ اُستاد نے کہا مَیں حق بات کونہیں چھپا سکتا۔ آپ نے فرمایا بعض باتیں اگرچہ سچی اور مطابق حقیقت ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ان کو زبان پر نہیں لا سکتے۔ مثلاً ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے کو بیاہ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص اس سے ہم بستر ہوتا ہے لیکن یہ کس قدر بے حیائی ہو گی کہ کوئی شخص اس سے اس کے داماد کے ہمبستر ہونے کی کیفیت دریافت کرے۔ یقیناًوہ اس سائل کے در پے ایذا ہو گا۔ اسی طرح ان باتوں کو بھی زبان پر نہیں لانا چاہیے اور حدودِ شرع کی دل و جاں سے رعایت کرنی چاہیے۔ کلّموالناس علی قد و عقو لھم (لوگوں سے ان کی عقل کے موافق گفتگو کرو)پر عمل کرنا لاز م ہے۔ استاد نے پھر کہاکہ ہم تو کلمۂ حق کے کہنے سے اپنے تئیں نہیں روک سکتے۔ آپ نے فرمایا تمھارا چہرہ حق گو یوں کی طرح نہیں۔ بعض طالب علموں نے جو اس مجلس میں موجود تھے اُستاد کی خاطر داری کے لیے کہنا شروع کیا کہ بے شک مولانا صاحب کا طریقہ نہیں ہے کہ حق بات کو چھپایا جائے خواہ کچھ ہو۔ جو کچھ ہو گا سب حق حق ظاہر کر دیں گے۔ آپ نے فرمایا تم میں اور اُستاد میں حق بات کہنے کا ہرگز حوصلہ نہیں۔ اسی وقت میں اگر تم سے ایک سچی بات پوچھوں تو تم لوگ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاؤ۔ استاد نے کہا جو سچ بات ہو گی اس کے کہنے میں ہمیں ہرگز تامّل نہیں ہو گا۔ جب انھوں نے بہت تاکید کی تو آپ نے فرمایا تم لوگ مجھ کو مجبور کرتے ہو ورنہ میں تو نہیں کہنا چاہتا۔ اب فرمائیے کہ آپ اپنی بیوی کا حال بتلائے کہ کیا ہے اس کی شرم گاہ پر کتنے خال ہیں۔ اس کے سُنتے ہی ان کا رنگ سُرخ ہو گیا اور گالی گلوچ پر اُتر آئے آپ نے فرمایا اپنے حق میں تم ایک کلمہ سُننا نہیں چاہتے لیکن ایسی باتوں میں جن کی حقیقت کا تمھیں علم بھی نہیں خواہ مخواہ کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ کلمات زبان پر لاتے ہو۔ اُستاد اپنی حرکت پر نادم ہوا اور آپ کے اس کہنے سے متأثر ہو گیا۔ چونکہ علم باطن کو علم ظاہر پر افضلیت ہے، اس لیے شاید ترکِ ادب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور اُستاد مذکور کی ناشائستہ حرکت پر فوراً اعتراض فرمایا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو نصیحت فرمائی جو مبتلائے حسن پرستی ہیں اور بیگانہ نا محرم عورتوں کو دیکھتے پھرتے ہیں۔ انھوں نے عذر کیا کہ ہم ازراہِ حقیقت و معرفت یہ نظر بازی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا عجیب حقیقت اور معرفت ہے کہ اپنی بیویوں کو گھر میں بٹھا کر لوگوں کو تو حصولِ معرفت سے محروم کر رکھا ہے لیکن خود حصول معرفت میں سرگرم ہیں۔ اگر کوئی شخص تمھاری بیوی یا لڑکی یا بیٹے یا بھائی کو تاڑ کر دیکھے تو شدّت غضب سے آگ بگولا ہو جاؤ لیکن اَوروں کو دیکھتے پھرنے سے شرم نہیں آتی۔ اور اس پر طُرّہ یہ کہ حصول معرفت کا بہانہ! اس جماعت میں سے کسی نے یہ شعر پڑھ دیا نظر کردن بخو باں گر حرام است بگو اے مدعی طاعت کدام است (اگر خوبصورتوں کے چہرہ زیبا پر نظر کرنا حرام ہے تو پھر اے جھوٹا دعویٰ باندھنے والے تم خود کہہ دو کہ عبادت کس جانور کا نام ہے؟) آپ نے فرمایا تم نے اس شعر کا مطلب نہیں سمجھا۔ نظر کے معنی امید کے ہیں اور خوباں سے مراد خدا اور رسول ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ خدا و رسول سے امید رکھنا عبادت ہے۔ ایک دوسرے کٹھ حجت نے کہا۔ ایک عورت ہے جس کو شوہر نہیں ملتا جماع کے لیے ہمیشہ اس کا دل پریشان رہتا ہے وہ عورت ایک شخص سے اپنا دردِ دل ظاہر کر کے رفع تکلیف کی خواستگار ہوتی ہے۔ اب اگر یہ شخص اس کی آرزو کو پورا نہیں کرے گا تو وہ شکستہ دل ہو گی اور یہ گناہ ہے۔ آپ نے کلموا الناس علی قدر عقولھم کے زرین اصول پر عمل کر کے اس کے مذاق کے مطابق یہ جواب دیا کہ اگر کوئی شخص اس مرتبہ تک پہنچا ہے کہ وہ کسی کا دل شکستہ ہونا گوارا نہیں کر سکتا تو یہ صورت بالکل ممکن ہے کہ جب کوئی عورت آ کر اس سے اپنی خواہش کرنے کے لیے التماس کرے اور وہ اس کی آرزو پوری کرنے میں ساعی ہو کہ عین اسی حالت میں ایک خراسانی مغل تشنۂ لواطت آ حاضر ہوا اور پیچھے سے اس کے ساتھ لواطت کرنا شروع کر دیا اور چونکہ وہ کسی کی دل شکستگی روا نہیں رکھتا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس کو اس فعل سے منع نہیں کرے گا۔ یہ جواب سن کر وہ سخت نادم ہوا۔ ایک شخص نے حسب اقتضاء مثل مشہور کل انا ء یترشح بما فیہ‘‘ ایک لونڈے کو آپ پر مسلط کر دیا کہ ہر وقت آپ کے پاس جا کر ان سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ آپ نے اس کا مطلب سمجھ لیا کہ یہ بدنام کرنا اور الزام دینا چاہتا ہے۔ آپ نے اس لونڈے سے کہہ دیا کہ مَیں تم پر عاشق ہوں۔ جب وہ ملتا تو اس کو سلام کرتے اور رومال سے اس کا چہرہ پونچھتے۔ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہو گیا کہ فلاں شخص فلاں پر عاشق ہے۔ تمام بد خواہ خوش ہو کر بغلیں بجانے لگے۔ اور اتفاق کیا کہ فلاں دن مُلا شمس کی خانقاہ میں مجلسِ رقص و سردو ہے وہاں جمع ہو کر اس کو خواب الزام دیں گے۔ روز مقررہ پر تمام لوگ جمع ہو گئے۔ دوسری منزل میں مجلس قرار پائی اور بھری مجلس میں ان بد خواہوں نے اس لونڈے کو سمجھا بجھا کر آپ کے پاس بھیجا اور اس نے حاضر ہو کر کہا کہ کیا تم مجھ پر عاشق ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں میں عاشق ہوں۔ اس نے کہا۔ پس جو کچھ میں کہوں تم کرو گے؟ ااپ نے فرمایا۔ یہ ممکن ہے کہ عاشق اپنے معشوق کا فرمودہ بجا نہ لائے۔ اس نے کہا میں کہتا ہوں کہ تم اپنے تئیں اس چھت سے گرا دو۔ آپ نے فرمایا اگر معشوق حکم کرے تو میں فوراً اس کی تعمیل کروں اس نے کہا تم عاشق ہو یا نہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا سچا یا جھوٹا۔ آپ نے فرمایا۔ سچا۔ اس نے کہا جو کچھ میں کہوں تم کرو گے؟ آپ نے فرمایا یہ ممکن ہے کہ عاشق اپنے معشوق کا فرمودہ بجا نہ لائے؟ اس نے کہا میں کہتا ہوں کہ تم اپنے تئیں اس چھت سے گرادو آپ نے فرمایا اگر معشوق کہہ دے تو میں فوراً تعمیل کروں۔ تمام بد خواہوں نے جو طالب علم تھے عناد کے طور پر آپ سے جھڑک کر کہا کہ تم عقل رکھتے ہو کہ نہیں۔ تم خود کہتے ہو کہ میں اس پر عاشق ہوں۔ یہ درست ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا درست ہے، ان طالب علموں نے کہا تو جو کچھ وہ کہے کرو گے کہ نہیں؟ پھر آپ نے فرمایا۔ یہ ممکن ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے فرمودہ کی تعمیل نہ کرے۔ سب نے متفق الکلمہ ہو کر بطور الزام کہا تو پھر اس لونڈے کے حکم کی تعمیل کرو۔ پھر آپ نے فرمایا۔اگر معشوق کہہ دے تو میں فوراً اپنے تئیں اس چھت سے گرا دوں۔ انھوں نے غل مچا دیا کہ عجب طرح کا بیوقوف آدمی ہے۔ محض چرب زبانی اور چالاکی سے کام لے رہا ہے۔ تم خود کہتے ہو کہ میں اس لونڈے پر عاشق ہوں۔ تم سچے عاشق ہو یا جھوٹے؟ آپ نے فرمایا۔ سچا۔ انھوں نے کہا تو پھر اس کا کہنا کیوں نہیں مانتا؟ آپ نے نہایت حیرت اور استعجاب کا اظہار کر کے فرمایا میں اس کی زبان پر عاشق نہیں ہوں۔ میں اس کے رنگ و رخسار پر عاشق ہوں۔ ہر ایک شخص جو عشق مجازی میں مبتلا ہو وہ رنگ و رخسار کا عاشق ہوتا ہے۔ اگر اس کا رنگ و رخسار مجھ سے کہہ دے کہ اپنے تئیں چھت سے گرا دو تو میں فوراً تعمیل کروں۔ تمام اہل علم آپ کی حاضر جوابی اور فراست دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بے شک اہلِ باطن سے مقابلہ کر کے کون غالب آ سکتا ہے جن کی پرورش نفوس قدسیہ سے ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت شاہ صاحب کے متعلقین سے ایک شخص نے ایک لونڈے پر جو اُستاد کا کا منظورِ نظر تھا عاشقانہ نظر ڈالی۔ مولانا کو خبر ہوئی تو انھوں نے سب شاگردوں کو منع کر دیا کہ اس شخص کو سبق نہ پڑھاؤ۔ اس منع کی اطلاع آپ تک پہنچ گئی۔ لیکن آپ نے تغافل اور چشم پوشی سے کام لیا۔ جب اُستاد نے اپنے شاگردوں کو مکرر تاکید کی تو آپ نے فرمایا پہلے ہم آپ سے تعلم کرنا چھوڑ دیتے ہیں پھر اُس کو تعلیم دینا بھی چھوڑ دیں گے۔ مولانا پوچھنے لگے تعلم چھوڑنے کا کیا باعث ہوا۔ آپ نے فرمایا جو بات اس شخص سے سرزد ہوئی ہے جس کے باعث آپ نے اس کا سبق پڑھانا بند کر دیا ہے۔ یہی حرکت ہم سے بھی صادر ہوتی ہے۔ اُستاد نے کہا ہم اور وہ برابر ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ آپ اس سے بد تر ہو۔ کیونکہ آپ کا فعل دوسروں کے لیے سند ہے۔ لیکن اس کا فعل ایک ایسا فعل ے جو دوسروں کے لیے سند نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آپ کے فعل کو لوگ اچھا سمجھ کر معمول بنائیں گے۔ اِس گفت و گو سے اُستاد کو حقیقتِ حال سمجھ میں آ گئی اور آپ کی حُسن نصیحت کا اعتراف کیا۔ آپ چودہ سال تک اس طرف مقیم رہے اور اس عرصہ میں ان سے بہت عجائبات احوال اور نصائح ظہور میں آئے۔ لیکن ہم نے اسی قدر مختصراً بیان کرنے پر اکتفا کی۔

اُن فوائد کا بیان جو اِن ایام میں آپ سے ظاہر ہوئے آپ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو تربیت کے لیے حضرت ابو کر صدیقؓ کے سپرد کر کے فرمایا۔ ایک عرصہ تک اس کی تربیت کیجیو۔اس کے بعد میں خود ا س کی تربیت کروں گا۔ پچیس سال تک حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ کی تربیت کی۔ جس کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مرید بنا کر زیر سایہ عاطفت لے لیا۔ اسی طرح ذات کبریائے حق تعالیٰ و تقدس نے حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ کچھ عرصہ تک اس کی تربیت اور خبر گیری کی جؤ۔ اس کے بعد میں خود اس کی تربیت کا متکفل ہوں گا۔ آپ کا قول ہے کہ ایک دن میں اپنے حُجرے میں بیٹھا تھا کہ یکا یک غیب سے ایک شخص پیدا ہوا۔ اور میرے کان کو پکڑ کر مجھ سے کہا کہ خبر دار ہو جاؤ۔ آج شب قدر کی رات ہے۔ میں اس کہنے سے چوکنّا ہو گیا۔ لیکن وہ مرد غیبی اانکھوں سے بہت جلد غائب ہو گیا۔ میں شب قدر کے ظہور کے انتظار میں بیٹھ گیا اور اپنے تئیں مضبوط رکھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر فی الواقع شب قدر ہو گی تو میں اور تمام دیگر اشیاء خود بخود سجدے میں چلے جائیں گے۔ اسی اثناء میں یکدم میری ریڑھ کی ہڈی خشک لکڑی کی طرح ٹوٹ کر میرا جسم سر بسجود ہوا۔ اور اُس کے ٹوٹنے کی آواز میں نے اپنے کانوں سے سُنی اور اللہ اکبر کی آواز بھی مسموع ہوئی۔ میرا سر خود بخود سجدہ میں چلا گیا۔ اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور التحیات پڑھنے لگا۔ کلمۂ شہادت پر پہنچ کر میں نے اپنی سبابہ اُنگلی کو مضبوط پکڑے رکھا کہ دیکھیے خود بخود اُٹھتی ہے یا نہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ خود بخود اُٹھ گئی۔ اور اُس دن کے بعد میں نے کبھی رفع سبابہ کو ترک نہیں کیا۔ یہ بھی میں نے دیکھا کہ ہمارے کوٹھے کی چھت اوپر کی طرف اُٹھ گئی۔ آسمان نیچے اُتر کر زمین پر فرش ہو گیا۔ اور اسی اثناء میں نور کا ایک شعلہ اوپر کی طرف سے نازل ہونے لگا۔ ہوا میں ایک شخص کی صورت نمودار ہوئی اور اس نے نور کے شعلہ کر پکڑنا چاہا لیکن نہ پکڑ سکا۔ اسی اثناء میں اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمیں پہلے سے علم ہوتا تو ہم اس کے نازل ہونے سے پہلے اس کے پکڑنے کا بندوبست کر لیتے۔ ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشٓاء (یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہے عنایت کرتا ہے۔) کے مطابق بڑے بڑے مراتب حاصل ہوئے۔ شب قدر کی تاثیر سے میرے ہر ایک عضو بلکہ ہر ایک بال سے اللہ کا لفظ سنائی دیتا تھا۔ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ میرا ہاتھ اللہ کا لفظ کہ کر مجھ سے جدا ہو جاتا تھا۔ اور اپنے تئیں زمین پر دے مارتا اسی طرح پاؤں بھی اُچھلے پڑتے تھے اور اس کشمکش سے مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑتی تھی۔ آنکھ بھی اللہ کے ذکر میں مشغول تھی اور اپنے خانے سے باہر نکلی پڑتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ ایک گزیا اس سے بھی کچھ زیادہ دور باہر نکلی ہوئی ہے لیکن جب ہاتھ سے ٹٹولنا چاہتا تو کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی تھی۔ علی ہذا القیاس دانت اللہ اللہ کہتے ہوئے منہ سے باہر نکلے نظر آتے تھے لیکن ہاتھ پھیلانے سے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جب میں چارپائی پر سوتا تو ٹھوکریں لگنے اور متالم ہونے کے خوف سے اپنے پاؤں کو پچھاڑی کی رسی سے باندھ دیتا تھا۔ اور اپنے ہاتھوں کو سوراخوں سے نیچے لٹکا کر مضبوط کر لیتا۔ تھوڑی دیر میں میرے ہاتھ پاؤں اللہ کا نعرہ لگا کر یکایک باہر نکل پڑتے اور اُچھلنے لگتے۔ اس سے مجھے سخت چوٹیں آتیں اور کچھ دیر کے بعد پھر سکون ہو جاتا یہ حالت چھ ماہ تک غالب رہی۔ تعلیم و تعلم کا شغل جاتا رہا۔ اُستاد اور تمام طالب علم میری حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ۔ اس کے بعد حق تعالی نے مجھ کو اس قدر طاقتِ ضبط عنایت فرمائی کہ در س اور تکرار سبق کے وقت یہ حالت پیش نہیں آتی تھی ۔ لیکن جب میں ذرا غافل ہو جاتا تو پھر یہ حالت ظہور میں آتی ۔ الغرض چودہ سال تک برابر یہ کیفیت رونما رہی۔ ( شبِ قدر کی تحقیقی فوائد علمیہ کے فائحہ میں درج ہو گی۔ انشاء اللہ ) دوسری حالت جو اس اثناء میں فائض ہوئی اس کی تفصیل بھی دوسرے فوائح میں لکھی جائے گی۔ یہاں صرف ایک شہ لکھا جاتا ہے بعون اللہ تعالی حسنِ توفیقہ۔ اسی زمانہ میں آپ کو صداع اور نزلہ کی نو سال تک شکایت رہی۔ جب آپ کو چھنکیں آنے لگتیں تو باوجود یہ کہ یہ مسئلہ ہے کہ تین بار سے زیادہ چھینکنے پر الحمد اللہ کا پڑہنا لازم نہیں ۔ لیکن آپ اپنی محبت قلبی اور شوق دل سے جتنی چھینکیں آتیں اتنی دفعہ الحمد اللہ کہتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے جس قدر کوئی شخص حق تعالی کا پیارا ہو اتنا ہی ہدفِ مصائب بنتا ہے۔ یہی وجہ تھی جس بھی صحابی نے محبت الہٰی کے غالب آنے کا حصل حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا استعد للبلاء ( نزولِ آفت و مصائب کے لیے تیار رہو) مجھ کو ایک ایسی بیماری عارض ہوئی ہے جس کی بدولت ہر وقت میری زبان حمد و ثنائے الٰہی میں رطب اللساں رہتی ہے۔ اس لذت کا تصور کر کے آپ وجد میں آ جایا کرتے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ نے ایک خواب دیکھا اور جب اس زمانہ کے ایک پیر طریقت سے اس کی تعبیر دریافت کی تو اس نے کہا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ ’’سوائے زُہد خشک کے تمھیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور خدائے عزوجل تک تمھارا پہنچنا مشکل ہے‘‘ ۔ یہ منحوس تعبیر سُنکر آپ کے پیٹ میں درد پیدا ہوا۔ ایک جشمہ کیطرف ابھی دو چار قدم اُٹھائے تھے کہ دست نکل گیا اور تمام کپڑے آلودہ ہو گئے۔ آپ نے اس چشمہ میں کپڑے دھو کر اور غسل کر کے مراجعت فرمائی ۔ اپنے میں پھر وہ تعبیر یاد آئی۔ ایک دردناک آہ سرد پھر کر کہا۔ ’’افسوس! میں خدائے عزوجل کو نہیں پا سکوں گا‘‘۔ اس تصور سے پھر دست نکل گیا۔ آپ نے غسل فرمایا۔ اور ابھی چند قدم چلے تھے کہ پھر وہی خیال آیا اور اس کا وہی نتیجہ ظہور میں آیا ۔ ستائیس مرتبہ اسی طرح اتفاق ہوا۔ اور آخر آپ پر غشی کی حالت طاری ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علی و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ ایک منبر پر تشریف رکھتے ہیں۔ منبر کے قریب ایک کھجور کا نہایت اونچا درخت ہے اس درخت کو سہارا دینے کے لیے اس کے درمیانی حصے تک ایک دمدمہ بنایا گیا ہے۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک سے اس درخت کی طرف اشارہ کر کے زبان معجز بیان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا کہ یہ درخت اس قدر بلند ی تک اس دمدمہ کی مدد سے پہنچا ہے۔ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ ارشاد نبوی سے کیا مراد ہے۔ آپ نے فرمایا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے تسلی کرنا مقصود تھا یعنی جسطرح اس درخت کو اس دمدمہ سے مدد ملی ہے۔ اس طرح تم کو میری تربیت اور نظر رحمت سے علو مراتب نصیب ہو گا۔ اور جیسے کہ بیاغت دمدمہ کے یہ درخت ہر طرح کے آسیب اور آفت سے محفوظ ہے اسی طرح جس کے ہم مدد گار ہوں اس کو ہر گز کسی قسم کا خوف نہیں چہ غم دیوارِ امت را کہ داردچوں تو پشتیباں آپ نے خواب سے بیدا ہو کر اس بشارت کی وجہ سے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی ۔ انہی ایام میں ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ ایک کرسی پر رونق افروز ہیں۔ دست مبارک میں ایک انگوٹھی ہے جس کے نگین پر اللہ کا اسم پاک لکھا ہوا ہے اور اسی میں آفتا ب جیسی چمک دمک ہے ۔ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے مجھ کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا۔ اللہ پاک کے نام کی اس طرح نگہداشت کرنی چاہیے۔ یہ الفاظ فرما کر انگوٹھی کو میری داہنی آنکھ پر اس طرح رکھ دیا جسطرح موم پر مُہر لگاتے ہیں۔ اس کے نور نے میری آنکھ میں اس طرح سرایت کی جس طرح آگ کا شعلہ موم میں نفوذ کر جاتا ہے۔ میری آنکھ سے دھواں نکلا اور اللہ کا اسم پاک اس میں منقوش ہو گیا۔ بائیں آنکھ سے بھی یہی سلوک کیا گیا اور اسی سے بھی دھواں خارج ہو کر اللہ کا اسم مبارک منقوش ہو گیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلا للہ علی و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے دل پر رکھا۔ دل سے بھی ظلمت اور تاریکی دور ہو کر حق سبحانہ تعیل کا اسم معظم و مکرم منقوش ہو گیا۔ جب میں بیدا ہوا تو فی الواقع اِن تینوں مقامات پر اللہ کا اسم لکھا ہوا پایا۔ اس کا نقش ایک لمحہ مجھ سے غائب نہیں ہوتا تھا۔ اور اسبات کی لذت سے میں دمبدم اِس شعر کا تکرار کرتا تھا ؂ دردیدہ توئی وگرنہ جیحوں کنمش در سینہ توئی وگرنہ خنجر زنش ( میری آنکھوں میں تو جلوہ گر ہو نہیں تو میں اس کو دریائے اشک بنا دیتا۔ میرے سینے میں تمھارا نام منقوش ہے ورنہ میں اس میں خنجر گھونپ دیتا)۔ اسی اثناء میں ایک دن آپ کو ایک لکھا ہوا نقش ملا بایں ہیئت۔آپ اس کو تین دن تک لکھ کر اور پانی میں گھول کر پیتے رہے۔ ابھی تیسرا روز نہیں گزرنے پایا تھا کہ بیشمارے پُرزے جن یہی تقش لکھا ہوا تھا اور جن کی تعداد کا سوائے خدائے پاک علام الغیوب کے اور کوئی احاطہ نہیں کر سکتا تھا آسمان سے بارش کی طرح برسنے لگے اور آپ کے منہ کان ، ناک اور آنکھ میں داخلہ ہوتے گئے۔ اس سے اک عجیب تاثیر پیدا ہوئی۔ آپ کا قول ہے کہ اس شکل کا مربع لکھ کر اپنے پاس رکھنا یا گھول کر پینا وسواسِ نفس اور خطرہ شیطان کا مانع ہے۔ مؤلف کہتا ہے کہ اللہ کا اسم پاک تمام صفات کا جامع ہے ۔ چنانچہ عام اہل علم نے اس کی یہی تعریف لکھی ہے کہ اللہ اسم لذات المستجمع لجمیع صفات الکمال یعنی اللہ کا اسم پاک اس ذات مقدس و برتر کا نام ہے جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔ بنا برآں اللہ کا مفہوم عام اور مطلق ہے جسطرح اس سے صفات جمالی کا اثر پیدا ہواتا ہے اسی طرح اس سے صفات جلالی کا بھی اثر پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اس میں خوف بہر حال طاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اولیاء اللہ مریدوں کو نفی و اثبات کی ابتدا میں تلقین کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسم ذات کا ذکر بتاتے ہیں۔ کیونکہ جب تک مرید میں نفس اور شیطان کا شائبہ باقی ہے اس وقت تک خوف قائم رہنے کی ضرورت باقی ہے اور اس لیے اس کو اسم ذات مطلق کی تلقین کی جاتی ہے کہ بسبب جامع صفات جمال و جلال ہونے کے ہر وقت خوف کا سماں مرید کے پیشِ نظر رہے۔ اسی نکتہ کی بنا پر شارح منیر الکلام نے فرمایا ہے کہ بسم اللہ میں اللہ کے نام پاک کے بعد الرحمن الرحیم کے اسماء حسنےٰ ذِکر کرنے میں یہ نکتہء غامضہ مستتر ہے کہ اللہ کا اسم پاک با عتبار اپنے اطلاق کے قہر اور جبروت یعنی صفات جلالی پر بھی مشتمل ہے اس لیے اس کے مفہوم کا ہر ایک پہلو سے تصور کرناقاری کے دل پر خوف اور ہیبت طاری ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی خوف کو زائل کرنے اور اس کو مانوس بنانے کے لیے ان اسماء جمالی کا حو خالص رحمت کا پہلو لیے ہوئے ہیں ذکر فرمایا تا کہ قاری کو معلوم ہو کہ اگرچہ اللہ کے اسم پاک کا مفہوم دلالت تضمنی کے طور پر جباریت اور قہاریت کے مفہوم پر مشتمل ہے لیکن وہ رحمان اور رحیم ہے جن کا صریح مفہوم اور مدلول مطابقی یہی ہے کہ اس کی رحمت کا پہلو غالب ہے۔ شاید اسم محمد صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی اس عجیب و غریب تاثیر کا باعث یہی ہو کہ اس میں صفات جمالی کا پہلو جلالیت کی نسبت زیادہ نمایاں ہے۔ اگر بصیرت ہے تو سمجھ لو۔ آپ کا قول ہے کہ انہی دنوں میں ایک غریب آدمی مرا تھا۔ میں اور کئی دوسرے طالب علم اُسے غسل دینے کے لیے چلے گئے ، وہ لوگ پانی ڈالتے تھے۔ اور میں اُسکو غسل دیتا تھا۔ جب میں نے اِسکے پیٹ کی مالش کی تو اس کی نجاست خارج ہو گئی جس کو میری طبیعت نے مکروہ اور ناگوار سمجھا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر میں غسّال ہوتا اور کسی دولت مند کو غسل دینے کی حالت میں یہ حالت پیش آتی تو میری طبیعت میں ہر گز یہ کراہیت ظاہر نہ ہوتی میں اس کے غسل میں ایسی سرگرمی دکھاتا کہ اس کے اعزء و اقارب میری تحسین کرتے۔ اب چونکہ یہ ایک للٰہی کام ہے اس لیے میری طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے۔ کچھ تو خدائے پاک سے شرم کرنا چاہیے۔ الغرض میں نے قصد کر لیا کہ تن تنہا اس کی تجہیز و تکفین کروں ۔ کہ یکایک ایک ہاتھ نجاست آلودہ اُن لوگوں کی طرف جو میرے ساتھ شریک تھے نکلا ہے۔ میرے ساتھی تو سب رفو چکر ہو گئے لیکن میں نے تنہا اس کو غسل دیا۔ اس کے بعد خواب میں حضرت رب العزت تعالیٰ و تقدس کو بصورت انسان جلوہ گر دیکھا جو میرے پشت پر سوار ہوا اور اپنا دستِ قدرت میرے سر پر رکھا۔ اس رؤیت کی تحقیق آگے آتی ے انشاء اللہ تعالےٰ۔ چونکہ آپ کے زمانہ کے تمام حالات و واقعا ت کا لکھنا مشکل ہے اس لیے نارنول کے واقعات لکھے جاتے ہیں۔ چودہ سال کے بعد آپ کا ارادہ نارنول کو چلے جانے کا مصمم ہوا ۔ جب نواح شہر کے قریب پہنچے تو ایک موضع میں دوگانہ ادا کر کے جناب الہٰی سے دعا کی کہ بار خدایا! جو شخص ایسی جگہ میں غرق ہوا وہ ہر گز ساحل نجات پر نہیں پہنچا۔ اس لیے میرا سوال ہے جس بات میں تیری خوشنودی ہو اس پر مجھ کو ثابت قدم رکھیو ۔ آپ نے اپنے دل میں چند باتوں کی پابندی کا التزام کیا۔ مثلاً (1) شہر میں خویش و اقربا وعظ اور نصحیت سے پیش آئیں گے اور چونکہ وہ نفس اور شیطان کی خواہش کے مطابق ہو گا اس لیے تمھاری طبیعت اس پر مائل ہو گی۔ اس سے احتراز کرنا اور اپنے پہلے دستور امعمل کو کسی طرح نہ بدلنا۔ (2) اپنے چہرہ کو سیاہ کر کے کوچوں اور بازاروں میں پھرو۔ (3) ایک ایک سے بھیک مانک کر کھایا کرو۔ (4) کسی شخص سے ملاقات اور راہ و رسم نہ رکھنا۔ (5) اگر لوگ مائل ہونے لگیں تو اپنے تئیں دیوانہ بنادو تا کہ ان لوگوں کے شر اور فتنہ سے محفوظ رہو۔ اسی اثناء میں آپ کو اس شہر کا ایک حجام مل گیا جس نے آپ کو پہچان لیا اور شہر میں جاکر آپ کے گھر والوں اور خویش و اقارب کو خبر کر دی۔ وہ سب اکھٹے ہو گئے۔ جب آپ اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچے تو زن مرید لوگوں کو موردِ طعن و الزم بنانے کی غرض سے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بھائی ! ذرا میری بیوی سے پوچھ لو۔ اگر وہ اجازت دے تو میں گھر میں داخل ہوں۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی لڑکی جس کی عمر اس وقت تیرہ سال کی ہو گئی تھی دوڑ کر اندر چلی گئی اور چلائی کہ یہ تو میرا باپ نہیں کوئی دیوانہ آ گیاہے۔ لوگوں میں بھی اختلاف پڑ گیا۔ کوئی کہتا تھا وہی ہیں۔ کوئی کہتا تھا نہیں صاحب کوئی اور شخص ہے الغرض یقین حاصل کرنے کے لیے انھوں نے آپ سے کہا کہ اس بالا خانہ پر تشریف لے جائیے اس میں یہ حکمت تھی کہ اس بالا خانہ پر چڑہنے کا راستہ سوائے واقفِ حال کے کسی دوسرے کو معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔ چونکہ آپ واقف تھے بے تکلف اوپر تشریف لے گئے۔ بیوی نے کہا کہ تمھارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ۔ تم دیوانوں جیسے کام اور باتیں کرتے ہو۔ شاید تمھارے میل جول سے مجھے حمل ہو جائے اور تم یہاں سے چلے جاؤ۔ لوگ مجھ کو فل بد سے متہم کرینگے ۔ اپنی بیوی کی عصمت کو ملحوظ رکھو۔ نانے کا انتقال ہو جانکے باعث اٹھارہ ہزار روپے میراث میں ملے تھے۔ اہلیہ نے ایک پوشاک تیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر کی چونکہ آپ کی طبیعت مذاق اُڑانے پر مائل تھی۔ آپ نے فرمایا میں یہ پوشاک نہیں پہنتا گھر والوں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا میں نے ایک خواب دیکھا ہے ۔ انھوں نے کہا کیسا خواب ۔ آپ نے فرمایا یہ کہ اگر پوشاک کو پہن لوں تو مر جاؤں۔ چونکہ یہ جواب ان کی طبیعت کے مخالف تھا انھوں نے کہا اس جیسے سے تو مرنا بہتر ہے۔ یعنی یہ ذلت اور خواری جو تم اس دنیا میں برداشت کر رہے ہو اس سے مرنا بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا مجھ کو اپنی جان خود عزیز ہے۔ اس تمہید کی غرض یہ تھی کہ اپنے طریقہ مجاہدہ کو ترک کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اکثر اوقات آپ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنے گھر والوں سے ایسی حکمت عملی سے پیچھا چھوڑانا چاہیے کہ حق تعالیٰ کی خوشنودی کے خلاف اگر کچھ کرانا چاہیں تو ایسا جواب دیا جائے کہ وہ خود تسلیم کر لیں اور ناخوشی بھی درمیان میں نہ آئے ۔ مثلاً بعض اوقات اپنی گھر والی سے اس طرح کہ دینا کہ اس قدر روپیہ جو میری جیب میں تھا وہ گرِ پڑا یا فلاں کپڑا چور لے گیا۔ کیا کریں خدا کی مرضی اسی طرح ہو گی۔ ورنہ میں نے تو یہ روپے تمھارے ہی لیے محفوظ رکھے تھے ۔ اچھا اب جو کچھ ہوا سو ہوا ۔ خدائے پاک اور دیگا۔ میرے جان و مال تمھارے لیے ہے۔ الغرض اس قسم کی باتیں کر کے اس کے شر سے اپنے تئیں بچائے رکھے اور سوائے اس نفقہ کے جس کا بیوی کو دینا فرص ہے ایک دمڑی اس کو نہ دے ۔ لیکن اس کو خوش رکھنے کے لیے سبز باغ دکھانے سے دریغ نہ کرے۔ خدائے پاک کی خوشنودی کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے غریبوں اور یتیموں پر صرف کرے۔ لیکن دل میں یہ سمجھے کہ میں نے ایک پھوٹی کوڑی نہیں دی۔ اور اپنی ذات پر اگر ایک کوڑی بھی خرچ کرے تو اس کو لاکھوں اور ہزاروں کے برابر سمجھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ایک رات میں نے اپنی گھر والی سے سکوت اختیار کیا۔ ہر چند اس نے کوشش کی کہ میں بولوں لیکن میں بالکل خاموش رہا۔ اس نے کہا تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ بولتے بھی نہیں۔ میں نے کہا پانچ باتیں منوانا چاہتا ہوں تب بولوں گا۔ اس نے دریافت کیا۔ تو میں نے جواب دیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ مجھے اپنا حق مہر بخش دو ۔ اس نے کہا نا مرد!تمھارے پاس کیا ہے جس کا میں مطالبہ کرونگی۔ یقیناًمیں نے بخشا ہے۔ میں نے کہا دوسری بات یہ ہے کہ اگر مجھ سے کوئی تقصیر واقع ہوئی ہے تو وہ معاف کر دو۔ اس نے کہا تم جیسے مفلس کو قصور وار ٹھرا کر کوئی کیا وصول کرے گا۔ تیسری بات میں نے یہ بیا کی کہ جو کچھ تمھیں اپنے باپ سے میراث ملی ہے اس کی مجھے اطلاع نہ دو۔ اس نے کہا تم کون ہو کہ میں تمھیں ایسے راز بتاؤں ۔ تم نے اپنے تئیں کیا سمجھ رکھا ہے۔ چونکہ میں نہایت خستہ حالت میں رہا کرتا تھا اس لیے کسی کی نظر میں میری وقعت نہیں تھی۔ چوتھی بات میں نے یہ بتائی کہ اگر میں تم سے کچھ طلب کروں تو دب کر یا ڈر کر ہر گز نہ دینا۔ اپنی مرصی اور خواہش سے کوئی چیز دیں تو دیں نہیں تو خیر ۔ اس نے پھر چیں بچیں ہو کر کچھ کا کچھ سنایا ۔ اور کہا تمھاری کیا قدر ہے کہ میں تم سے ڈروں۔ تم نے اپنی حقیقت کو اچھی طرح نہیں سمجھا۔ پانچویں بات یہ ہے کہ میرے اور میرے پروردگار کے درمیان میں دخل نہیں دو گی۔ یہ سنکر وہ خاموش ہو گئی اور کچھ نہ کہا۔ ایک دن آپ نے ایک غریب مستحق کی خیرات کے لیے کچھ طلب کیا۔ چونکہ وعدہ ہو چکا تھا کہ اپنی خواہش سے دیں تو دیں نہیں تو خیر ۔ اس لیے بیوی نے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں دو گی تو ابھی رونے لگتا ہوں ۔ اس نے کہا میں ہر گز نہیں دوں گی۔ آپ نے کہا میں ابھی رونا شروع کرتا ہوں۔ اس نے کہا زبردستی چاہو تو لے لو۔ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا خیر تو مین نہیں دیتی ۔ آپ نے فرمایا۔ میں لے کر چھوڑوں گا ۔ آپ نے ذرہ ڈانٹ کر فرمایا۔ جلدی دو نہیں تو اس کا انجام تمھیں معلوم ہو جائے گا۔ اس نے کہا لینے والے کا منہ تو دیکھو۔ کس طرح لیتے ہو میں ذرہ دیکھوں تو ۔ آپ نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کیا اور بام پر چڑھنے کے لیے آمادہ ہو کر فرمایا کہ میں ابھی بام پر جا کر چلا کر کہدوں گا۔ کہ لوگو دیکھو۔ میں نے ساری رات فاقہ سے کاٹی اس وقت روٹی کا ایک ٹکڑا مانگتا ہوں۔ لیکن مجھے مسکین سمجھ کر میری بیوی اس کے دینے سے انکار کرتی ہے۔ تو کیا تمھیں اس سے شرم نہیں آئیگی۔ یہ سنکر اس نے ایک روپیہ زمین پر پھینک دیا ۔ آپ نے اس کو غربا اور فقراء پر تصدق فرمایا۔ ایک دن آپ کی بیوی نے آپ سے التماس کی کہ مجھ کو بھی درویشی کی تعلیم دو۔ آپ نے فرمایا تم تاب نہیں لا سکو گی۔ اس نے کہا لا سکوں گی۔ آپ نے فرمایا یہ مشکل ہے۔ جب خویش و اقارب ملاقات کے لیے آئے تو آپ نے ان لوگون کے سامنے اپنی بیوی کی شکایت شروع کر دی اس نے سنکر رونا شروع کر دیا۔ اور دوسرے لوگوں نے بھی اس کی حمایت کی کہ کوئی شخص اپنے گھر والوں کا بھی اجنبی لوگوں کے سامنے گلہ کرتا ہے؟الغرض آپ کی بیوی اس رنج و غم کے باعث دن بھر روتی دھوتی رہی۔ رات کو جمال با کمال حضرت رسالت پنا ہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں نظر آئے۔ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے اس کو تسلی آمیزکلمات فرمائے ۔ بیدار ہو کراس نے آپ کی خدمت میں معذرت کی۔ اور پاؤں پر گر پڑی۔ آپ نے فرمایا ۔ اگر میں تمھارا گلہ نہ کرتا تو تمھیں یہ غم و اندوہ دامن گیر نہ ہوتا۔ اور پھر یہ نعمت عظمے جو اسی رنج و غم کا نتیجہ تھا کیونکر حاصل ہوتی۔ جب تک انسان کو اس دنیا میں کوئی ایسا غم پیش نہ آہے جس کا اثر اس کے دل پر ہو تب تک کشائش کا ر متصور نہیں۔ مؤلف کہتا ہے۔ انبیا کرام اور اولیاء عظام پر بلیات اور مصائب کا نازل ہونا ممکن ہے کہ اسی حکمت پر مبنی ہو۔ جب ان کو ہر ایک طرف سے تکلیفیں لاحق ہوتی ہیں۔ تو ان کا دل اس سے متاثر ہو کر دنیا و مافہیا سے برداشتہ ہو جاتا ہے۔ یہی خیال ان کے ضمیر منیر پر غالب آ جاتا ہے۔ کہ یہ عالم غم و اندوہ کا مقام ہے۔ اس سے دل لگانا قرینِ مصلحت نہیں۔ الغرض اس طرح وہ تمام تعلقات سے الگ تھلگ ہو کر اور ماسوٰی اللہ سے کلی انقطاع کر کے علم اور معرفت کے مراتب جلیلہ پر فائز ہوتے ہیں۔ جب آپ کی بیوی نے یہ بیان زبان حقیقت ترجمان سے سنا تو عرض کیا کہ پہلے یہ ارشاد کیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ تا کہ میرے دل کا اس قدر صدمہ نہ پہنچتا ۔ آپ نے فرمایا اس میں پوشیدہ حکمت مضمر ہے جس کو تم نہیں سمجھ سکتی ہو۔ کئی دن گذرنے کے بعد اتفاق ایسا ہوا کہ آپ کے حقہ کا چلم آپ کی بیوی کے پاؤں تلے آ کر ٹوٹ گیا۔ آپ چلا اُٹھے کہ فلانی نے میرا چلم توڑ دیا۔ اس نے عرض کیا کہ میں ابھی دوسرا چلم حاضر کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا بعینہ وہی چلم حاضر کر دو تو بہتر ۔ نہیں تو تمھیں قاضی صاحب کے حضور لے جا کر طلاق دے دوں گا۔ یہ سنکر اکثر عزیز رشتہ دار بھی جمع ہو گئے اور سمجھانے لگے کہ چلم کا ٹوٹ جانا کونسی بڑی بات ہے جس کے لیے اس قدر شور و غل مچایا جائے۔ آپ نے ایک نہ مانی اور بار بار اپنی بات پر اصرار کیے جاتے تھے۔ بیوی بیچاری گریہ ذاری کرنے لگی۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی ۔ رات کو پھر خواب میں حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پُر انور سے مشرف ہوئی ۔ بیدار ہو کر آگے کی طرح آپ کے پاؤں پر گر پڑی اور عرض کیا کہ میں اس نعمت عظمیٰ کا جو آپ کی بدولت مجھ کو حاصل ہوئی کیا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے فرمایا جو کچھ تمھیں میراث ملی ہے اس کو خیرات کر دو۔ اس نے مان لیا اور اٹھارہ ہزار روپے جو اس کے پاس موجود تھے راہِ خدا میں صرف کر دیے ۔ آپ نے فرمایا اپنی لڑکی کا جہیز اور اپنے پہننے کے کپڑے حاضر کرو۔ جب حاضر کیے تو فرمایا کہ زیورات اور جو کپڑے پہنے ہو۔ وہ بھی ان کے ساتھ شامل کر کے راہِ خدا میں دے ڈالو تو میرے محبت اور اخلاص تم سے اور زیادہ ہو گی۔ اس نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی۔ صرف ایک پھٹی پررانی چا در بدن ڈہانکنے کے لیے اپنے پاس رکھ لی اور مجاہدہ و ریاضت کے میدان میں قدم رکھا۔ اس واقعہ کے بعد اس نے کبھی لذیذ کھانا نہیں کھایا۔ صرف تھوڑی سی میٹھی کھلی یہ نیک بخت عورت کھا لیا کرتی اور طعام لذیذ کو راہ خدا میں فقراء اور مساکین پر تصدق کرتی۔ مذکورہ بالا دو مرتبہ کے علاوہ اس نے حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ نے اس سے ارشاد فرمایا۔ شکر کرو کہ ایک ایسے مرد صالح کے عقد نکاح میں آئی ہو۔ شیخ نظام نارنولی کی اولاد سے ایک شخص نے آپ کے بعض مخالف عقل اقوال و افعال سن کر اس پر حمل کیا کہ خدانخواستہ آپ مجنون ہو گئے ہیں اور دماغ میں خلل آ گیا ہے۔ آپ سے کہلا بھیجا کہ کثرت مجاہدہ و ریاضت سے آپ کو خلل دماغ عارض ہو گیا ہے اس کا علاج کراؤ اور مقوی دماغ ادویات استعمال کرو۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو تو سہی کہ اس نصیحت سے اس کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے آپ کو ملاقات کے لیے تکلیف دی۔ تو معلوم ہوا کہ یگانگت اور اخلاص کی وجہ ہے۔ فرمایا کہ گھر والی سے پوچھوں گا اگر اس نے اجازت دی تو آؤں گا۔ لوگوں نے زبانِ طعن و تشنیع دراز کی کہ بیوی سے پوچھنے اور اجازت لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن آپ کی غرض ملاقات سے بچنے کی تھی۔ دوسرے یہ کہ لوگ بُرا کہیں گے۔ اس سے بھی ایک عجیب اثر پیدا ہوتا ہے۔ الغرض عزیز نے اصرار کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر تشریف لاؤ گے تو بہت کچھ محفوظ ہو گے۔ چونکہ اولیاء روحانی طبیب ہوتے ہیں اور اہل زمان کے اقوال و افعال کی حقیقت سے بخوبی شناسا ہوتے ہیں اور ان کو ملحوظ اور مدِّنظر رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اب تو ہم بے مزہ ہیں ۔ شاید اس سے مراد وہ غم ہو جو قبضِ حال سے عارض ہو گیاہو۔ یاوہ غم و اند وہ جو دوسرے حوادث کی وجہ سے دامن گیر ہوا ہو۔ بہر کیف اس نے بار بار آپ کو طلب کر نے کے لیے پیغام بھیجے اور آخری مرتبہ یہ بھی کہلا بھیجا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب ایک مومن دوسرے مومن کی ملاقات کے لیے جاتا ہے تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہ حدیث اب سنی ۔ لیکن تم ای مدت سے اس کو جانتے ہو تو خود کیوں اس پر عمل نہیں کرتے ہو۔ اس نے کہا مجھے اپنے پیرِ طریقت نے اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا جو پیرِ شریعت کے خلاف شرع حکم دے وہ پیر نہیں بلکہ شیطان ہے۔ مؤلف کہتا ہے چونکہ اس نے حدیث شریف کے مقابلے میں پیر کا قول نقل کیا اس لیے آپ نے سخت الفاظ میں جواب دیا۔ اور ممکن ہے کہ چونکہ اس کے پیر نے ایسی بات سے اس کو مکلف کیا جو عادات نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام والتحیہ سے خارج تھی اس لیے اس کو شیطان سے تعبیر فرمایا۔ اگرچہ بعض اولیا ء اللہ سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے مریدوں کو دوسری جگہ جانے سے منع کیا۔ لیکن یہ منع مطلق نہیں بلکہ خاص خاص جگہ پر جانے سے منع کیا ہو گا۔ مثلاً یہ کہ دوسرے ولی اللہ سے استفادہ کرنے کے لیے نہ جائیں یا بعض خاص حوائج کے پورا کرنے کے لیے نہ جائیں۔ اور اگر بالفرض مطلق باہر جانے سے منع کیا ہو تو اس کو ہم حالتِ سکر و استغراق پر ]حمل کریں گے۔ نہیں تو انسان کے لیے عادۃً یہ محال اور ناممکن ہے کہ منع مطلق پر عمل کرے۔ کھانا پینا ، پاخانہ پھرنا وغیرہ لوازم بشریت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کے لیے آدمی کو خواہ مخواہ حرکت کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے یہ جو فرمایا کہ تم خود کیوں اس پر عمل نہیں کرتے ہو۔ اس میں اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ تھا کہ اُتامرون الناس بالبر تنسون انفسکم ( کیا تم لوگوں کو تو نیکیاں بتاتے پھرتے ہو۔ لیکن اپنے نفوس کی اصلاح کو فراموش کر دیا ہے) ۔ حدیث شریف میں ہے عظ نفسک فان اتعظت فعظ الناس ’’پہلے اپنے نفس کو نصیحت دو۔ اگر اس نے تمھارا کہنا مان لیا تو پھر دوسروں کو نصیحت دو‘‘۔ جب تک انسان خود عامل نہ بنے دوسروں کے لیے صرف زبانی نصیحت مؤثر نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں آپ کو ہر طرح سے اس پر فضیلت تھی ۔ کیونکہ آپ سادا ت سے تھے۔ فاضل بھی تھے اور مسکین بھی۔ دوسرے صاحب میں اگرچہ بعض صفات موجود تھے لیکن پھر بھی آپ کو اس پر فضیلت حاصل تھی۔ چنانچہ یہ بات اس سوال و جواب سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے جو ایک نکتہ چین اور آپ کے درمیان میں وقوع میں آیا ۔ نکتہ چین کا سوال یہ تھا کہ باوجود یہ کہ اس شہر کے ایک بہترین فرد نے تمھیں طلب کیا ہے اس کی خدمت میں جانے سے کیوں پہلو تہی کرتے ہو۔ ہر آں مہتر کہ بامتر سیتزد چنا افتد کہ ہر گز بر نخیزد ( جو شخص کمتر درجہ کا ہو کر بزرگوں سے جھگڑتا اور ان کے منہ آتا ہے وہ ایسی منہ کی کھائے گا کہ پھر اُسکا اُٹھنا اور کھڑا ہونا محال ہو گا)۔ آپ نے فرمایا میں ایسے لوگوں کا کہنا ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہوں جو دین میں سست ہیں۔ اس نے کہا ہم کس طرح دین میں سست ہیں۔ آپ نے فرمایا جس کو تم شہر کا بہترین فرد کہتے ہو وہ کس قوم سے ہے ۔ اس نے کہا شیخ ۔ آپ نے فرمایا مجھ کو کس قوم سے سمجھتے ہو۔ اس نے کہا سادات سے ۔ آپ نے فرمایا وہ مسکین ہے یہ میں۔ اس نے کہا تم مسکین ہو۔ آپ نے فرمایا با یعنی اس کو بہتر سمجھتے ہو۔ اور مجھ کو کمتر خیال کرتے ہو۔ اس سے بڑھ کر دین میں سستی اور کیا ہو گی۔ یہ ایک کھُلی ہوئی بات ہے کہ حق کو چھپانا اور باطل کو ظاہر کرنا دین میں سست ہونے کی بنیاد ہے۔ اس اثنا میں جب آپ کی لڑکی بالغ ہوئی تو گھر والی نے عرض کیا کہ طریق مسنون بجا لانا چاہیے آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ خویش اور اقربا اسی انتظار میں تھے کہ دھوم دہام کی ضیافت ہو گی۔ لیکن آپ نے کسی کو اطلاع تک نہ کی۔ اور چپکے سے مظہر فیوضیات و مورد عطیات شیخ محمد فیاض سے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے اس کو عقد نکاح میں قبول کی جیو ۔ اس نے ممنونیت کے ساتھ اسبات کو قبول کیا اور شکریہ ادا کیا۔ ایک دن آپ نے لڑکی کے پرانے کپڑے اور ایک دہیلہ اُنکو دیا کہ دھو کر لے آئیں ۔ جب وہ لے آئے تو چند طلبہ کو بلا کر دوسرے دہیلے کا تیل لے کر کئی چراغ روشن کیے اور لڑکی کا پھٹے پرانے کپڑوں میں بیاہ کر دیا۔ آپ کی اہل خانہ نے آپ کی اطلاغ بغیر شیرینی شادی کے موقع پر تقسیم کرنے کے واسطے پابندی رسم کے طور پر تیار کر رکھی تھی لیکن آپ کی نظر سے اس کو چھپا ئے رکھتی تھی۔ کہ عین شادی کے موقع پر حسبِ رواج استعمال کی جائے گی۔ آپ کو کسی طرح خبر ہو گئی اور شیرینی کے بے بھرے ہوئے مٹکے نکلوا کر اُن غریبوں اور مسکینوں کو پیٹ بھر کر کھلائی جو ایک لقمہ کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شادی پر خواہ کتنا ہی خرچ کیون نہ کیا جائے نہ اس سے پہلے کسی نے شادی پر خرچ کرنے سے نام پیدا کیا ہے اور نہ اب کرے گا تو پھر خوشنودی حق سبحانہ و تعالیٰ کے لیے کیوں خرچ نہ کریں۔ یہ زندہ جاوید نما مردے اہل دنیا ہزاروں عیب نکالتے اور طعن و تشنیح کی زبان دراز کرتے ہیں ( ان کو تو راضی کرنا کران مشکل ہے اس لیے رضامندی خدا کو کیوں ہاتھ سے جانے دیں ۔ عورتوں نے دُھائی مچا دی کہ یہ کیا کرتے ہو۔ یہ شیرینی قوم اور قبیلے میں تقسیم ہو تو بہتر ہے ورنہ اس سے تو ہمارا ناک کٹ جائیگا۔ آپ نے ان کی بکواس سے ذرا توجہ نہ فرمائی۔ اور قوم کے جو بڑے بڑے ممتاز آدمی تھے ان کو ایک جلیبی تک نہ دی۔ سب شیرینی محتاجیوں اور خریبوں میں لُٹا دی۔ صبح کے وقت آپ اپنے داماد کے گھر تشریف لے گئے اور کھانا طلب کر کے تناول فرمایا۔ ظاہراً حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جب بی بی فاطمہ زہرہ کا عقد نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا تو صبح کے وقت ان کے گھر میں بھی تشریف لے گئے جا کر کھانا تناول فرمایا تھا ۔ جن لوگوں نے آپ پر لعن طعن کیا تھا آپ ان کے گرھر میں تشریف لے گئے اور ایک ایک کو اپنا ناک دکھاتے پھرتے کہ دیکھو میرا ناک تو اس طرح صحیح و سلامت ہے جو لوگ پابندی رسوم میں مبتلا تھے انھوں نے ہر چند آپ کی بد گوئی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ۔ لیکن آپ ان کی طعن و تشنیع سے کچھ بھی آرزدہ خاطر نہ ہوئے ۔ عارفوں کا یہی شیوہ ہے ۔ ان کو کسی ملامت یا خوردہ گیری کی ذرہ بھی پروا نہیں ہوتی۔ کسی دانشمند (سعدی)ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے ؂ دریائے فراواں نشو وتیرہ بہ سنگ عارف کہ برنجد تنک آب است ہنوز (بڑا دریا پتھر پھینکنے سے گدلا نہیں ہوتا۔ جو عارف لوگوں کی زبان سے متاثر ہو کر خفا ہو جائے۔ سمجھ لو کہ ابھی وہ تنگ حوصلہ ہے اور تھوڑے پانی کی مانندہے جو ایک کفِ خاک سے میلا ہو جاتا ہے)۔ مؤلف کے دل میں ایک نہایت عمدہ شعر آیاہے ؂ نزاعِ کفر و دیں در خاطر عارف نمیگیخد برنگِ آب باشد صاف دل با جملہ شربتہا (کفر اور دین کا جھگڑا عارف کے دل میں جاگزیں نہیں ہو سکتا ۔ وہ تمام مشربوں سے اس طرح صاف دل رہتا ہے جس طرح پانی جملہ شربتوں سے)۔ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا کفار سے جہاد کرنا۔ حدود شریعت کو قائم کرنا اور ڈاکوؤں ، چوروں وغیرہ مجرموں کو سزادینا چونکہ خدا کے احکام کی تعمیل ہے اس لیے انکا ذکر اس بحث سے خارج ہے۔ انہی دنوں میں آپ کے دل میں مبارک میں یہ خیال پیدا ہوا کہ طالبعلموں کے لیے ایک مکان تعمیر کریں۔ آپ کے مسکن کے قریب ایک پرانی مسجد ویران پڑی ہوئی تھی۔ اس مسجد کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ لیکن تنگی معاش کے باعث اس کے بنانے کے لیے سامان مہیا کرنا مشکل تھا۔ اس کے لیے ایک نرالی ترکیب ایجاد کی۔ شہر کے لڑکوں سے اُنس پیدا کیا اور چند روز تک ان سے کھیل کود میں مشغول ہوتے رہے۔ جب رابطہ بڑھ گیا تو ایک دن چار پانچ سیر بُہنے ہوئے چنے لے کر لڑکوں کو آواز دی کہ اگر کھیلنے کا شوق ہے تو چلے آؤ۔ شہر کے لڑکے اُمنڈ کر چلے آئے۔ آپ نے لڑکوں کا بادشاہ بنکر بعض لڑکوں کو امیری کا منصب دیا۔ کسی کو وزیر اور کوتوال بنایا۔ الغرض مفروضہ مراتب سے سرفراز کر کے ایک ایسی جگہ پر لے گئے جہاں چونے کے پتھر کثرت سے ملتے تھے۔ آپ نے لڑکوں سے ارشاد کیا کہ اِن پتھر وں کو جمع کرو۔ اور ہر ایک لڑکے کے لیے اس کی محنت اور کارگذاری کے مطابق اُن بُہنے ہوئے چنوں کا انعام مقرر کیا۔ دوپہر سے پہلے پہلے دو ہزار پتھر اکھٹے ہوئے گئے۔ کسی جگہ سے چھکڑا بھی مانگ لیا اور وہ پتھر ایک مناسب مقام پر پہنچا دیے گئے ،۔ اس کے بعد ایک اُستاد تلاش کیا جو پتھروں کو بھٹی میں رکھ کر چونہ تیار کر ے۔لیکن جب اس نے کچھ شرارت کی تو آپ نے اس کو رخصت کر کے فرمایا ہماری عقل اس شخص کی عقل سے کم نہیں ہے اور خود بھٹی کے کام پر متوجہ ہوئے لوگوں نے منع کیا کہ بغیر استاد کے کامیابی نہ ہو گی۔ لیکن آپ نے توکل بخدا بھٹی کو آگ لگا دی۔ اپنے وقت مقررہ پر آگ بجھائی تو خاطر خواہ چونہ تیار ہو گیا تھا جسقدر چونہ تیا رہوا آدھا فروخت کر کے نقد کر لیا جو بعد میں معماروں کی اُجرت اُس سے دی گئی۔ اور آدھا چونہ مسجد میں مصالحہ کے طور پر کامآیا۔ الغرض مسجد کو مرمت کرا کے نمازیوں اور طالب علموں کے لیے وقف فرمایا۔ چونکہ بہت مدت سے یہ مسجد غیر آباد تھی اس لیے چراغ روشن ہونے پر بہت سے بچھو، سانپ وغیرہ جمع ہو گئے۔ آپ نے ان کو دفع فرمایا۔ اسی مسجد کے قریب ایک شہید کی قبر تھی جس کو یہ تصرف حاصل تھا کہ جو شخص نماز مغرب کے بعد اس کی قبر کے پاس سے گذرتا اسپر جوتے پڑنے لگتے۔ آپ نے اس قبر کو از سرِ نو مرمت کرنے کا ارادہ فرمایا۔ معماروں کے دل میں اس کا اس قدر رعب بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے کھودنے پر جرات نہیں کر سکتے تھے۔ آپ نے اپنے ہاتھ مبارک میں بیلچہ لے کر ٹوٹی پھوٹی جگہوں کو گرا دیا آپ نے فرمایا اگر یہ شخص فی الواقع کوئی بزرگ ہے تو مرمت کے لیے کھودنے اور بنانے سے کیوں بُرا مانے گا۔ الغرض اس قبر کی تجدید کی گئی۔ راج جب تیشہ لگاتے تھے یا دوسرے آلات استعمال کرتے تھے تو حق حق کی آواز مسموع ہوتی تھی۔ لوگوں نے یہ خبر سنکر تعجب کیا اور اکثر لوگ اس تقریب سے معتقد ہو گئے۔ درس کی شہرت ہوئی اور سو کے قریب طالب عالم جمع ہو گئے ۔ چار آدمیوں کے مطالعہ کے لیے ایک چراغ روشن ہوتا تھا۔ شیخ محمد فیاض نے ایک عجیب بات نقل کی ہے کہ ایک ایک طالب علم جو مطالعہ کرنے سے پہلے سو جایا کرتا تھا وہ مرد شہید اس کو جگا دیتے اور کہتے کہ اُٹھو مطالعہ کرو نہیں تو میراں جیو ناراض ہوں گے۔ نابالغ لڑکوں کو اس بزرگ کی صورت نظر آتی اور اس کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص کے گھر کوئی جن آگ لگا دیا کرتا تھا جس کا بجھانا دشوار ہوتا ۔ اس کا سارے کا سارا دن اسی آگ بجھانے میں صرف ہو جاتا وار بسا اوقات خود اس کی دستار اور اس کے کپڑوں میں آگ لگ جایا کرتی تھی۔ کوئی تعویذ یا دعوت تاثیر نہیں کرتی تھی ۔ ایک مرتبہ اس جن نے بآواز بلند کہا کہ اگر میراں جیو کے طالب علموں کی ضیافت کرو تو میں ابھی جاتا ہوں ۔ اس شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر طالب علموں کی ضیافت کے لیے عرض کیا۔ آپ نے قبول فرمایا۔ اور اس کے بعد چھ ماہ تک کوئی حادثہ نہ ہوا۔ لیکن چھ ماہ کے بعد اس جن نے پھر وہی سلوک شروع کیا۔ اس شخص نے جن سے کہا کہ تم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں طالب علموں کو کھانا کھِلا دوں تو تم یہ ایذا دینا چھوڑ دو گے۔ اب پھر کیوں ایذا دینا شروع کیا ہے۔ اس نے کہا تو اس بات کو غنیمت نہیں جانتے کہ ایک دفعہ ضیافت کرنے کی وجہ سے چھ ماہ تک میں نے تم کو نہیں چھیڑا۔ اس شخص نے پھر ضیافت کی تب وہ جن بالکل غائب ہوا۔ اور پھر کبھی ایذا نہ دی ۔ یہ واقعہ بھی لوگوں کے لیے عبرت کا باعث ہوا۔ ایک دن آپ ایک تالاب پر معہ طالب علموں کے تشریف لے گئے جو شہر سے دو کوس دور تھا۔ کچھ گوشت اور چاول اور ایک دو دیگیں بھی ساتھ لیتے گئے۔ جو پلاؤ تیار ہوئے تو برتن موجود نہ ہونے کے باعث چوڑے چوڑے پتھروں اور سلوں کو دھو کر ان پر پلاؤ کو پھیلا دیا۔ شیخ محمد فیاض جو ایک صادق اور امین شخص ہیں روایت کرتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا۔ پہلی مرتبہ نوے آدمیوں نے کھایا ۔ جب وہ اُٹھ کھڑے ہوئے تو ایک اور جماعت چلی آئی۔ اس طرح یکے بعد دیگرے کئی جماعتوں نے وہ کھانا کھایا جب کوئی شخص باقی نہ رہا تو پ نے ایک اونچے درخت پر چڑھ کر آواز دی کہ کسی کو کھانے کی حاجت ہو تو چلا آئے لیکن کوئی شخص کھانے کے لیے نہ آیا۔ آپ نے کھانا اُٹھا لینے کا حکم دیا۔ تین چار سیر چاول ابھی باقی رہ گئے تھے۔ حالانکہ تمام چاول جو پکائے گئے 34سیر اور گوشت 30 سیر سے زائد نہ تھا۔ رات کو آپ نے وہیں اقامت فرمائی۔ اسی جگہ کے قریب ایک جوگی رہا کرتا تھا۔ صبح کے وقت آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم لوگ اس قدر ریاضت کرتے ہو۔ کبھی تم کو بھی وہ مشاہدہ حاصل ہوتا ہے جو اہل تصوف کو حاصل ہے۔ اس نے کہا اگر ہم اپنے رب تعالیٰ و تقدس کو نہ دیکھیں تو اس کے غم سے ہلاک ہو جائیں۔ اسی رات کئی مرتبہ مشاہدہ حاصل ہوا ہے اور تمھیں بھی دو تین مرتبہ حاصل ہوا ہے۔ آپ نے اس کے اس استدراج سے تعجب فرمایا۔ آپ نے مشاہدات کی تفتیش فرمائی تو معلوم ہوا کہ دو مرتبہ فی الواقع مشاہدہ ہوا تھا۔ لیکن تیسری مرتبہ اس نے غلط کہا ۔ اس لیے اس کہ یہ کہنا از قسم استدراج تھا۔ لیکن یہ سنکر کہ اس جوگی کو یہ کمال حاصل ہے مشاہدہ الٰہی اور تجلیات کا شوق آپ کے دامن گیر ہوا اور آپ نے یہ ارادہ فرمایا جس جگہ پر محبوب حقیقی کی تجلی ظہور میں آئے اور جس مظہر میں وہ جلوہ گر ہو محب صادق کو چاہیے کہ اسی مظہر کا رنگ قبول کر لے اور چونکہ میرا محبوب اس جوگی کی شکل میں جلوہ گر ہوا ہے اس لیے مجھ کو اس کا ہمرنگ بننا چاہیے اور اسی کی طرح ڈاڑھی مونچھوں کا صفایا کرنا ضروری ہے ۔ آپ نے شیخ محمد فیاض اور دیگر طالب عالموں سے فرمایا کہ اگر کوئی خلاف شرع کام کروں تو کیا تم مجھ کو ایسا نہیں کرنے دو گے۔ آپ نے چند مرتبہ ارادہ کیا کہ اُٹھ کھڑے ہوں اور ڈاڑھی کا صفایا کر کے دوسرے افعال بھی اسی قسم کے عمل میں لائیں ۔ لیکن آپ کے رفیق ایسا کرنے سے آپ کو روک دیتے تھے۔ تین دن تک یہی کش مکش کی حالت رہی۔ آپ کا قول ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علی و آلہ و سلم کی ہدایت میری دستگیری نہ فرماتی تو اس وادی حیرت اور گردابِ ابتلا سے نجات مشکل تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کی بدولت میں اس ورطہ سے خلاصی پائی۔ اکثر اہل اللہ پر غلبۂ عشق و محبت سے اس قسم کی حالت طاری ہو جایا کرتی ہے۔ جس شخص نے ان کے حالات کا غوور سے مطالعہ کیا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔ فخر الدین عراقیؒ نے ایسی ہی حالت میں یہ اشعار کہے تھے ؂۔ بطوافِ کعبہ ر فتم بحرم رہم نہ دا دند کہ برونِ درچہ کر دی کہ درونِ خانہ آئی درِ دیر یزم من زور دل ندا بر آمد کہ بیا بیا عراقی ؔ توز خاصگانِ مائی (جب میں کعبہ کے طواف کے لیے گیا تو مجھے اندر جانے کی اجازت نہ ملی اور کہا گیا کہ باہر تم نے کیا نیکی کی کہ اندر آنے کا ارادہ ہے۔ میں نے بُت خانے کا دروازہ کھٹکھٹایا ا تو اندر سے آواز آئی کہ عراقیؔ کیوں کھڑے ہو اندر آؤ تم تو ہمارے خاص دوستوں سے ہو۔ ) جب آپ طلبہ کو درس دینے سے فارغ ہو جایا کرتے تو ان کے لیے شہر میں جا کر بھیک مانگتے پھرتے۔ اس شہر کے ایک فاضل مولوی نے آپ کی اس وضع پر طغہ زنی کی اور کہا کہ ایک مجذوب کو درس و تدریس سے کیا مناسبت ہے۔ ایک دن لڑکوں کی ایک جماعت سبق سے فارغ ہو کر اس فاضل کے سامنے سے گذرے جاتے تھے۔ اس نے ایک لڑکے سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ ارے میاں کیا پڑھتے ہو۔؟ اس نے کہا کافیہ پڑھتا ہوں۔ سبق پوچھا تو اس نے سُنا دیا۔ فاظضل مذکور نے چاہا کہ اس پر کچھ اعتراض کرے۔ لڑکے نے فراست سے معلوم کر کے خود وہ اعتراض بیان کر دیا اور اس کا جواب بھی بتا دیا اور اپنی طرف سے ایک اور اعتراض اس فاضل پر جڑ دیا جس کا جواب اس سے کچھ نہ بن سکا۔ سب لڑکوں نے ایک فرمائشی قہقہہ لگا یا کہ خوب علم و فضل ہے کہ ایک لڑکے کے اعتراض کا جواب دینے سے عاجز آ گیا۔ دوسرے لوگوں کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو گئی اور تمام شہر میں چرچا ہونے لگا کہ فلاں مولوی صاحب کو ایک لڑکے نے ساکت اور لا جواب کر دیا۔ الغرض اس کی سخت بد نامی ہوئی ۔ کسی نے خوب کہا ہے ۔’’با درد کشاپ ہر کہ در افتاد برافتاد‘‘۔ (اِن مجذوبوں سے جس کی ہڑپ ہو گئی یقیناًوہ بچھڑ گیا)۔ اس کے بعد کسی نے آپ کے درس و تدریس پر نکتہ چینی کی جرات نہیں کی ۔ آپ کے بعض خویش و اقارب بھی اس بلا میں گرفتار تھے۔ لیکن چونکہ ہدایت و توفیق ازلی ہمراہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض کو خواب میں اور بعض کو بحالت بیداری مکاشفہ کے طور پر اپنا جمال مبارک دکھا کر فرمایا کہ خبر دار اس شخص کے حق میں زبان طعن و تشنیع دراز نہ کرو نہیں تو خراب ہو جاؤ گے۔ آپ کی کرامات بیشمار ہیں کہاں تک لکھی جائیں۔ انہی باتوں سے آپ کی شہرت ہو گئی۔ اور خلیلؔ خاں تک جو اس زمانہ میں فوجدار کے عہدہ پر سرفراز تھا یہ خبر پہنچ گئی۔ اس نے آپ کیدعوت کی ۔ لیکن چونکہ آپ کی طبیعت اہل دنیا سے نہایت متنفر تھی۔ اس لیے آپ نے ایک ظرافت آمیز پیرائے میں یہ جواب دیا کہ میں اپنی بیوی سے پوچھوں گا اگر اس نے اجازت دی تو قبول کروں گا۔ قاصد نے کہا بیوی سے پوچھ کر بھی مرد کام کیا کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو اسی طرح کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈیوڑی میں داخل ہو کر واپس آئے اور فرمایا کہ میری بیوی نے منع کیا ہے کہ میں فوجدار کی ملاقات کے لیے نہ جاؤں ۔ خان مذکور نے مکرر آدمی بھیجا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم ۔۔۔۔ عورتوں کو بھیج کر منت سماجت کر کے آپ کی بی بی کو رضا مند کر لیں۔ آپ نے کہلا بھیجا کہ پہلے مجھ پر جو جوتے پڑے ہیں ان سے تو ابھی میری طبیعت بحال نہیں ہوئی۔ اب تم ایسا کرو تو معمول سے دس جوتے زیادہ پڑیں کہ دیکھو اس نے ہمارے کہنے سے خلاف اپنے حمایتی پیدا کر لیے ہیں۔ اس وقت تم میری کس طرح مدد کر سکو گے۔ فی الواقع یہ بات تو نہ تھی مگر آپ کا مدعا یہ کہنے سے ظرافت کا اظہار تھا۔ خان مذکور اس جواب کو سُنکر مسکرایا اور ایک ہزار دینا کی تھیلی نیاز کے طور پر خدمت شریف میں بھیج کر بارہ روپیہ آپ کا روزینہ مقرر کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ میں یہ مبالغ اپنے دشمن کے حوالے کروں کہ جو اس کو کھا پیکر تنو مند ہو اور مجھ کو جوتے لگایا کرے۔ یہ کہ کر تھیلی واپس کر دی ۔ لوگوں نے آپ کے اس فعل کو نادانی پر حمل کیا اور کہنے لگے۔ حق تعالےٰ نے غیب سے دولت عنایت کی تھی اس کو قبول نہ کیا۔ اگر عالم و فاضل ہوا تو کیا ہوا عقل تو رکھتا نہیں۔ دیوانہ و سودائی ہے ۔ حق تعالیٰ نے جو نعمت بھیجی تھی اس کو قبول کر کے آپ کھاتا۔ دوسرے کو کھلاتا۔ ارے یہ شخص تو پاگل ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تم تو عاقل اور دانا ہو لیکن خدا کی قدرت دیکھو کہ خان ایک پاگل شخص پر فریضہ اور مفتون ہے لیکن تم کو پوچھتا تک نہیں۔ انھوں نے سوچا تو بات پتے کی تھی۔ معترف بقصور ہوئے اور اقرار کیا کہ واقعی اس میں ایک پوشیدہ حکمت تھی۔ اس اثنا میں خان مذکور تجارت کے لیے روانہ ہوا اور شیخ یعقوب نام ایک شخص کو اپنی جگہ پر شہر کا حاکم مقرر کیا۔ آپ اس کے طلب کیے بغیر اس کے گھر میں تشریف لے گئے۔ پیشکاروں نے خبر کر دی کہ یہ وہ شخص ہے جس کو نواب نے طلب کیا تھا لیکن وہ اس کے پاس نہ گئے اب آپ کی ملاقات کے لیے آئے ہیں ۔ شیخ مذکور اس وقت شراب کباب اور شاہد ۔۔میں مشغول تھا۔ لیکن یہ خبر سن کر اٹھ کھڑا ہوا اور آپ کا استقبال کیا۔ آپ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے گئے۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس سے پیشتر کہ خان باوجود کہ اس قسم کی حرکات شیعہ کا ارتکاب نہیں کرتے تھے آپ نے اس کی ملاقات گوارا نہ کی اور ہر چند اس نے طلب کیا لیکن آپ نے گئے پر نہ گئے اور اس شخص کی ملاقات کے لیے خود بخود چلے آئے۔ اسی طرح دوسری مرتبہ پھرآپ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ چونکہ آپ کے جانے سے اس کی عیش و عشرت میں خلل آتا تھا اس لیے اس نے چیں بچیں ہو کر کر چوبداروں کو کہ دیا کہ آپ سے سختی کریں۔ جب آپ کو اس طرح درشتی سے نکالاگیا تو جاہل لوگوں نے جواولیاء اللہ کے کاموں کی حکمت معلوم نہیں کر سکتے پھر زبان طعن دراز کی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس شہر کے حاکموں یعنی صدر وغیرہ نے غریبوں کو ستانا شروع کیا اور رشوت خوری کا بازار گرم ہوا۔ یتیم اور مسکین اس ظلم سے چلا اٹھے۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں فریادی ہوا۔ آپ صدر کے پاس تشریف لے گئے لیکن آپ کی سفارش کا کچھ اثر نہ ہوا۔ مفسدوں کی ایک جماعت نے آپ کو ایذا اور تکلیف دینے کا ارادہ کیا۔ آپ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا اور اکیس روز تک آپ محصور ہے ۔ آپ کا قول ہے کہ میں نے دروازے کو اس لیے بند کیا تھا کہ جو شخص دروازہ کو توڑ کر اندر گھس آئے گا اس سے اچھی طرح سمجھ لوں گا۔ آپ کا ایک دوست خلیل خاں کے پاس جاتا تھا آپ نے اس کو رخصت کرتے وقت فرمایا کہ خلیل خاں کو میرا سلام نہ دو۔ لیکن یو نہی کہ دو کہ اگر احسان مانو تو تمھیں ایک بات بتاتا اور صلاح دیتا ہوں جس کو اگر قبول کرو گے تو اس پر خیر کثیر مرتب ہو نے کے علاوہ تمھیں ثواب کثیر نصیب ہو گا ۔ وہ یہ ہے کہ صدر اور دوسرے حکام لوگوں پر سخت ظلم کرتے ہیں اگر اس جانب اپنی توجہ مبذول کر کے ان غربیوں اور بیچاروں کو نتیجہ ظلم سے نجات دو تو تمھیں بے حد ثواب حاصل ہو گا جب اس شخص نے خان مذکور کر یہ پیغام پہنچا یا تواس نے نہایت ممنونی کے ساتھ بدل و جان منّت کش ہو کر قبول کیا اور فورا منشی کو حکمد یا کہ شیخ یعقوب کے نام پر وانہ لکھو کہ اس ظالم جماعت کو میری طرف سے تخویف و تہدید کرے۔ جب منشی نے پروانہ لکھا تو اس کی عبارت درست نہیں تھی اس لیے خان مذکور نے اس کو پھاڑ کر اپنے ہاتھ سے پروانہ لکھا۔ جس کا ماحصل یہ تھا:۔ ’’سنا گیا ہو کہ صدر حق صدارت کا مطالبہ کرتا ہے ۔ جو لوگ صاحب توفیق تھے انھوں نے تو جو کچھ وہ مانگتا تھا دے دیا لیکن اس نے ناداروں پر بھی دباؤ ڈالا۔ اولاً تو یہ بات خلاف ضابطہ مستمرہ ہے دوسرے اگر وہ (معاذاللہ ) حضرت سلیمان کے مرتبہ تک بھی پہنچ جائے تو اس کا انجام کیا ہو گا بہر حال وہ ہم کو دوسرے حکام کی طرح خیال نہ کریں۔ جو کچھ اس نے لیا ہے واپس کر دے۔ اور جو واقعی پرچہ تصحیح ہے اس کے مطابق وصول کرے۔ ہم نے اطلاع کر دی ہے آیندہ اس کا اختیار ہے۔ اخوندزادہ فیاض اور لا لہ متولی وغیرہ کو پابہ زنجیر کر کے ہمارے پاس بھیج دو کہ ان سے کچھ کہنا سنتا ہے‘‘۔ شیخ مذکور کو یہ بھی لکھا کہ بذات خود حضرت شاہ صاحب کے دولت خانہ پر حاضر ہو کر ان سے عرض کرو جس کو آپ حکم دیں ہم اس کو یہاں تک سزا دیں کہ اس کے منہ سے عالم شیر خوارگی کا پیا ہو ا دودھ باہر نکل آئے۔ شیخ یعقوب نے اس کی تعلیم کی۔ اس جماعت کو جب خبر ہوئی تو انھوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کی کہ نواب کے پاس بالاتفاق جا کر کوئی ایسی حکمت عملی کر یں کہ نواب صاحب کا غصہ سرد ہو جائے ۔ راتوں رات روانہ ہو گئے ۔ جب وہاں پہنچے تو ایک شخص نے ان کو خبر کر دی کہ تمھارے ہاتھ کاٹے جانے حکم صادر ہو چکے ہیں یہ سنکر وہ ایسے خوف زدہ ہوئے کہ فورا الٹے پاؤں بھاگ کر چلے آئے۔ صدر وہاں رہ گئے اورمعافی کا خواستگار ہو کر مچلکا لکھ دیا کہ اگر اس کے بعد میں نے کوئی ناجائز رقم وصول کی تو میں شریعت کا سخت مجرم ہوں گا۔ نواب نے یہ دیکھ کر کہا۔ اس شخص نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا ہے کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ اس کے بعد نہیں لوں گا اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ آپ کا کے پیسے لے چکا ہے۔ الغرض جب وہ واپس نانول میں آیا تو ایک جماعت کے ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں معذرت کر نے کے لیے حاضر ہوا اور عرض کیا جس کے حق میں آپ ارشاد فرمائیں اس کو تصحیح نامہ دے دیا جائے۔ آپ نے دو روپے کے سادہ کاغذ منگا کر تصیح نامے لکھوا دیے ۔ اور اس پر صدر کے دستخط کرا دیے۔ اس طرح پر ستر ہزار بیگہ کے تصحیح نامے لکھ کر مستحققین کو دیے گئے اور کسی مستحق کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہوا۔ اس واقعہ سے آپ کے معاندین کو حقیقت حال معلوم ہوئی اور یہ کمت بھی واقع ہو گئی کہ آپ نے کیوں نواب سے استغنافرمایا اور شیخ کے پاس از خود گئے۔ القصہ مخالفین بھی آپ کے مداح اور ثنا خواں ہوئے۔ شاہ بیگ خان نے جو وہاں کا حاکم تھا باریاب ہونے کی التماس کی لیکن آپ نے منظور نہ فرمائی۔ اس کا بیٹا خدمت میں حاضرہوا تو آپ نے اس کو باریاب فرمایا۔ اس نے کچھ روپے بطور نیاز خدمت میں پیش کیے۔ آپ نے فرمایا جس قدربھی روپے تمھارے پاس ہیں سب حاضر ہو کرو۔ پچاس ہزار روپے حاضر کیے۔ آپ نے فرمایا مسجد کے صحن کے قریب ڈھیر کر دو۔ تعمیل ہوئی۔ آپ اٹھ کھڑے ہو کر اس روپوں کے ڈھیر پر بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے۔ تھوڑی دی تک لیٹے رہے۔ پھر اس کی پالکی طلب فر ما کر اس میں سوار ہوئے ۔ تھوڑی دور جا کر واپس آئے اور پانچ روپے کہاروں کو اجرت دے کر باقی روپے اس کے مالک کو واپس کر دئے۔ بار ہ سال تک آپ نارنول میں تشریف فرما رہے۔ چونکہ آپ کو خواب کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ جہاں آبادمیں شہرت ہو گی اس لیے شہرت اورنمود کے خوف سے آپ نے یہ مصمم اراد کیا تھا کہ وہاں نہیں جائیں گے ۔ ایک رات آدھی رات کے وقت حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ بسم اللہ اللہ اکبر کہ کر جہان آباد (دھلی) کو چلے جاؤ۔ فی الفور اسی وقت شیخ محمد فیاض کو اس سے مطلع کر کے جہاں آباد روانہ ہو گئے۔ جب یہاں تشریف لائے تو صرف ایک تہبند باندھے ہوئے۔ گودڑی زیب دوش۔ کیے ہوئے اور سر پر ایک چیتھڑا لپیٹے ہوئے تھے۔ ایک رات یہاں کہ کاٹتے تو دوسری وہاں گزارتے۔ ایک شخص نے جس کا نام محمد یوسف تھا شاہی ناظر کو خبر دی اور آپ کی علامتیں اس سے بیا ن کیں۔ جمعرات کے دن جب کہ قدم رسول ﷺ کی زیارت کو تشریف لے گئے ناظر مذکور آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا اور آپ کی محبت سے اس قدر متاثر ہو ا کہ واپس چلے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ ہر چند آپ نے اس کو رخصت کرنا چاہا لیکن وہ بیٹھا رہا۔ جب رات ہوئی تو خدمت والا میں عرض کیا کہ نیا زمند کے غریب خانے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف اندوز فرمائیں۔ آپ نے پہلو تہی فرمائی۔ لیکن جب اس کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو بالآخر قبول کیا۔ رات تاریک تھی۔ خادموں کو رخصت کر کے مشعل اپنے ہاتھ میں لے کر روانہ ہوئے۔ رات کو وہاں قیام فرمایا۔ صبح کے وقت مرزا بیگ گھکھڑ، مرزا بیرم۔ محمد صالح۔ خواجہ عنایت گھکھٹرناظر اور دوسرے بڑے بڑے عہدہدار اور نیز عام لوگ آپ کے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لیے خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے۔ روزانہ دو تین سو آدمیوں کا مجمع ہونے لگا جن کے کھانا کھلانے پر پچاس روپیہ یومیہ خرچ آتا تھا۔ آپ نے ایک دن فرمایا کہ چونکہ ایک آدمی کے لیے ان تمام لوگوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کرنا دشوار ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ تم میں سے ہر ایک شخص ہفتے میں ایک بار ان کی ضیافت کرنے کا ذمہ اٹھائے اس طرح آسانی ہو گی۔ ارادت مندوں نے تعیل کی۔ آپ کی شہرت اس حد تک بڑھ گئی کہ دارا شکوہ اور سعد اللہ خان تک خبر جا پہنچی۔ شاہزادہ دار اشکوہ نے اپنے خاص کوبا ہمراہی سعد اللہ خان وعبدالحکیم جو اس کے مصاحب تھے آپ کی خدمت میں بھیج کر اپنی ملاقات سے مشرف کرنے کی درخواست کی لیکن منظور نہ ہوئی۔ کچھ عرصہ تک آپ پرانی دہلی کے محلہ پھلواری میں بخانہ شیخ عبد الغفور وشیخ نور الدین ساکنان محلہ مذکور اقامت فرما رہے۔ شیخ مذکور کی والدہ جو آپ کو پسر پکارتی تھی اور شیخ اور دوسرے کئی اشخاص آپ کی نظر عنایت سے خواب میں حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار مبارک جیسی نعمت عظمے سے مشرف ہوئے۔ شیخ مذکور اور ا سکے بھائی نے تین بیگہ زمین نیاز خدمت میں پیش کی اور اس کی سند لکھ کر حوالہ کی۔ آپ نے وہ سند شیخ عبد الغفور کو دے کر فرمایا میں مناسب خیال نہیں کرتا کہ یہ سند ہمارے پاس رہے۔ ممکن ہے میرا انتقال تم سے پہلے ہو جائے اورمیری اولاد تم سے جھگڑا پید اکریں۔ چونکہ اس وقت جہان آباد کا شہربھی ابھی نیا آباد ہوا تھا اس لیے زمین کی قیمت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ایک بیگہ تین سو روپے پر فروخت ہوتا تھا۔ چند سال گزرنے پر شرح قیمت بہت بڑھ گئی اور ایک بیگہ تین ہزار روپے کو کو فروخت ہونے لگا۔ شیخ مذکور تو اپنے وعدہ پر قائم تھا لیکن ایک دوسرے دنی الطیع شخص نے ازراہ شرارت گستاخی کر کے کہا کہ اگر اب لے لو تو ہم جانیں گے کہ بے شک ۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو تمھیں راست باز سمجھ کر اسی وقت سند واپس کردی تھی۔ ان ایام میں اپنا حال چھپانے کے لیے آپ اکثر کپڑے کی خرید و فروخت کی دلالی کیا کرتے تھے۔ اور اس لیے آپ یہاں سید حسن دلال مشہور ہو گئے تھے۔ چونکہ ایسی حالت میں بھی اعتقاد خان وغیرہ آپ کی تلاش میں رہا کرتے تھے اس لیے آپ نے اس شغل کو چھوڑ دیا اور ایک دوسری جگہ پر تشریف لے گئے جو شکار گاہ بادشاہ کے قریب گنج اور باغ گلالی کے متصل تھی۔ یہاں افغانوں کی ایک جماعت رہتی تھی۔ ابھی چند روز گذرے تھے کہ ان لوگوں کو اپنی صحبت کی برکت سے حضرت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار مبارک کا شرف حاصل ہوا۔ جب انھوں نے اس بات کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا جس شخص کو یہ سعادت حاصل ہو وہ دو روپے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیاز پیش کرے۔ بیس دن کے عرصے میں سو آدمی اس سعادت سے شرف اندوز ہوئے اور اس تقریب سے دو سو روپے جمع ہوئے۔ اسی جماعت میں چند ایک نقشبندی افغان بھی تھے۔ انھوں نے جب آپ کا یہ تصرف مشاہد کیا تو ان کو نہایت ذوق و شوق دا منگیر ہواا یہاں تک کہ جب خدمت میں حاضر ہوتے تو پہلے آپ کی چارپائی کے اردگرد جان نثاری کر کے اس کے بعد کئی قسم کی تواضع اور تعظیم بجا لاتے۔ پابندی تقویٰ میں اس قدر سر گرمی کااظہار کرتے کہ چونے اور پان کے استعمال کو مکروہ اور حرام سمجھتے تھے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں جتنے ملکوں پھرا ہوں تم جیسے لوگ میں نے نہیں دیکھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کبھی میں نے دھوکا کھایا تو وہ تمھارے ہاتھ سے ہو گا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب آمدنی سے ایک معقول رقم جمع ہو گئی تو ان افغانوں کی جماعت نے عرض کیا کہ اگر اس کو خرچ فرمائیں تو تھوڑی مدت میں یہ سرمایہ ختم ہو جائے گا۔ بہتر ہو گا کہ اگر اس سرمایہ کہ مضاربت کے طور پر کسی شخص کے حوالے کیا جائے۔ آپ نے فرمایا جو کچھ مناسب سمجھو عمل میں لاؤ ۔ نقشبندی افغانوں کی جماعت نے عرض کیا کہ اگر یہ روپیہ ہمارے حوالے ہو تو یقیناًہم اس کو اچھی طرح سے بڑھانے میں کوشش کریں۔ آپ نے فرمایا انہی کو دے دو۔ تھوڑی مدت میں تجارت کی وجہ سے وہ سرمایہ بڑھ کر کر اصل معہ نفع چودہ ہزار تک پہنچ گیا۔ اس زمانہ میں بادشاہ اورنگزیب اکبر آباد کو چلا اور غلہ کا نرخ نہایت گراں ہو گیا۔ ایک روپے کا دس سیر غلہ بکنے لگا۔ پورب کے لوگ قحط سے تنگ جہاں آباد میں آگئے اور اکثروں نے دولت خانہ کے قریب سکونت اختیار کی ان کی تنگی اور فاقہ کشی کا حال سن کر آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو بھی کچھ دیا کرو۔ چنانچہ ایک ایک دو دوٹکے فی کس ان کو دے دیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ ان میں بعض کافر تھے اس لیے آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ جو توحیدی اور رسالت کے قائل نہیں ان سے کیوں مراعات کی جائے اس کے بعد آپ نے خادموں سے ذکر کیا کہ میں نے حق سبحانہ وتعالیٰ کے دیکھااور جناب خداوندی سے تین مرتبہ ارشاد ہوا کہ اگرچہ منع کا حکم ہے لیکن تم دیا کرو۔ چونکہ اب خدائے پا ک نے خود ارشاد فرمایا ہے اس لیے اب جی کھول کر دو۔مضاربت کا چودہ ہزار روپیہ جو حاصل ہوا تھا اس کو لے کر منا دی کراد ی کہ سب محتاج چلے آئیں ۔ نو ہزار کے قریب لوگ جمع ہو گئے۔چار چار پانچ پانچ ٹکے آپ ہر ایک شخص کو دیتے اور اس طرح روزانہ دو سو ساٹھ روپے ہو جایا کرتے۔ سردی سے بچنے کے لیے دو ہزار کمل خرید فرمائے۔ بازار میں لوگوں کو کمبل نہیں ملتے تھے۔ جس دکان پر جا کر دریافت کرتے یہی جواب ملتا کہ میرا نجیو کے گھر میں لے گئے ہیں میاں علی خان نے آپ سے عرض کیا کہ کمبل تھوڑے ہیں اور لوگ بہت ہیں کس طرح تقسیم کے جائیں۔ آپ نے فرمایا بسم اللہ کر کے دینا شروع کر و۔ جب دینے لگے تو سب محتاجوں کو ایک ایک کمل مل گیا اور چھ کمل باقی رہے اور انہی سے کمبل خریدے۔ اگر حساب کیا جائے توکئی ہزار روپے زائد خرچ ہوتے ہیں۔ ان دونوں واقعات کی اصل حقیقت کچھ بھی معلو م نہیں ہو سکی۔ بجز اس کے کہ ان باتوں کو خارق عادت تسلیم کیا جائے ۔ چھ سات ماہ تک اسی طرح آپ خیرات فرماتے رہے۔ اس کے بعد ارزانی ہو گئی اور لوگ اپنے کاروبار پر چلے گئے۔ طالب علموں کا خرچ اور دیگر متفرق مصارف اس کے علاوہ تھے۔ جب آپ نے ان لوگوں سے جن کو مضاربت کے طور پر روپیہ دیا گیا تھا حساب کیا گیا توکچھ رقم کم ہوئی اور انھوں نے دعوے کیا کہ ہم نے پہنچا دی ہے ۔ آٹھ ماہ تک یہ مناقشہ رہا۔ بعض افغانوں کو ان لوگوں پر بڑا اعتماد تھا اور وہ ان کے تقوے کے بہت معتقد تھے۔ وہ اس کمی کو آپ کے سہو اور نسیان پر حمل کرتے تھے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب کچھ جواب نہیں دیتے تھے۔ آٹھ ماہ کے بعد آپ نے و ہ سندیں میاں علی خان کے حوالہ کیں جو ان لوگوں نے لکھ کر دی تھیں۔ جب وہ سندیں دکھائی گئیں اور حساب کیا گیا تو فی الواقع وہ رقم ان کے ذمے عائد ہوتی تھی۔ ان لوگوں نے چپکے سے میاں علی خان سے کہا کہ ان سندوں کو گم کر دو۔ کیونکہ اس میں ہماری شرمندگی متصور ہے لیکن میاں علی خان چونکہ دیانتدار آدمی تھا اس لیے اس نے ان کی بات پر عمل نہ کیا۔ آخر ان کو اقرار کرنا پڑا لیکن پھر بھی معذرت کر کے ادا کرنے سے پہلو تہی کی۔ مولف نے بھی دو شخصوں کو ان میں سے دیکھاہے کہ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ان سے فرماتے کہ میرے روپے لادو۔ آخر مرنا تو ہے تب وہ عذر کر دیتے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپ فرمایا کرتے کہ میر ی مدعا یہ نہیں کہ ان سے روپے لوں کیوں کہ حق تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص تمھارا حق غصب کرے اس سے مطالبہ نہ کرو۔ میرے غرض اس سے یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ اور لینے کا دعوے نہ کریں۔ جماعت نقشبند یہ کو زجرو تو بیخ کرنے کا یہی باعث تھا اور چونکہ آپ کا ایک عارف کامل ہونے کی حیثیت سے یہ منصب تھا کہ لوگوں کو اپنے وعظ اور نصیحت سے مستفید فرمائیں اس لیے جب کسی شخص کی نسبت آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ نقشبندی ہے تو ا س جماعت کی بد دیانتی آپ کو یاد آتی۔ کسی عارف نے (شیخ سعد علیہ الرحمۃ) خوب فرمایا ہے؂ نمے بینی کو گاوے ور علف زار بیالا ید ہمہ گاوان دہ را چو از قومے یکے بے دانشی کرو نہ کہ را منزلت ماند نہر مہ را (تم نے نہیں دیکھا کہ ایک گائے چراگاہ میں داخل ہو کر تمام گایوں کو بد نام کر دیتی ہے ۔ جب قوم کا ایک فرد بیوقوفی کر بیٹھتا ہے تو چھوٹے بڑے سب بے وقعت ہو جاتے ہیں )۔ آپ اس نقشبندی سے فرماتے ہیں کہ میں ایک نقشبندی جماعت سے بہت تکلیف دیکھی ہے ۔ تم تو اس قسم کے نقشبندی نہیں ہو ؟ یعنی اگر اسی قسم کے نقشبندی ہو تو توبہ کرو۔ اس سے بعض جاہل یہ خیال کرتے کہ خدا نخواستہ آپ حضرت خواجہ نقشبندؓ سے دل میں بغض رکھتے ہیں حاشاد وکلا۔ عارف کو کسی سے بھی عداوت نہیں ہوتی۔ مولف کا ایک مرتبہ سید جعفر نامی ایک شخص سے اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور میں نے یہی وجہ ظاہر کی ۔ لیکن اس نے میرے کہنے پر اعتبار نہ کیا۔ جب آپ گھر سے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ اکثر اوقات آپ نقشبندیوں سے سختی کے ساتھ پیش آتے ہیں حالانکہ حضرت خواجہ نقشبندؓ کو لوگ بہت بڑا بزرگ سمجھتے تھے۔ میں تو اس جماعت کو برا سمجھتا ہوں جو اس زمانہ میں پیدا ہو گئی ہے اور چونے اور پان کے استعمال کو حرام کہتی ہے ۔ حالانکہ مسلمانوں کا مال غصب کرنا اور ان کو فریب دینا یا ایذا پہنچانا ان کے نزدیک جائز ہے انھوں نے اس بات کو اتباع سنت خیال کیا ہے کہ کھائیں پئیں اور مال و دولت جمع کریں۔ خواب غفلت میں عمر بسر کیں۔ ظاہر آراستہ اور باطن خراب ۔ میں یہ تمھیں نصیحت کے طور پر کہتا ہوں۔ پیر انصاری کا قول ہے ؂ ہریکے را ظاہرش معمو رلیک باطنش ویران دلے سنگے شدہ خواب و خور را کر د عادت ہمچو گاؤ وزرہ طاعت خرے لنگے شدہ (ہر ایک کی یہ حالت ہے کہ ظاہر ا سکا آراستہ ہے لیکن باطن خراب اور اس کا دل پتھر کی ماندن ہے چل کی طرح کھانا اور سو جانا اپنی عادت بنا رکھا ہے لیکن عبادت کے لیے وہ ایسا سست ہونا ہے جیسے لنگڑا تا گدھا)‘‘ یہ سن کر سید موصوف کی تسلی ہوئی۔ نیز اس رسالہ کے تصنیف ہونے کے قریب زمانے میں بادشاہ کے دکھن میں جانے کی وجہ سے لوگوں کو تنگی معاش عائد ہوئی ۔ آپ نے حکم دیا کہ کسی قدر یومیہ مستحقین کو پہنچایا جائے ۔ پہلے دوروپیہ روزانہ خرچ تھا۔ رفتہ رفتہ ہفتے میں پانچسو روپے خرچ ہونے لگے۔ تقسیم کے لیے دور وز مقرر تھے۔ منگل اور جمعہ۔ ان دونوں دنوں میں ڈھائی ڈھائی سو روپے غرباء اور فقراء میں تقسیم ہوتے ۔ جمعہ کے دن پانچ چھ ہزار کا مجمع ہو جاتا۔ جس میں سخت بے اعتدالی رونما ہوتی۔ اور ہرایک شخص یہی چاہتا کہ میں پیش دستی کر کے سب سے پہلے اور زیادہ حصہ حاصل کروں۔ ایک مرتبہ بڑا اژدھام ہوا۔ اور سب لوگ یک بارگی ٹوٹ پڑے تو آپ نے ہر چند منع فرمایا لیکن انھوں نے ایک نہ مانی۔ آپ کوچہ میں نکل آئے۔ لیکن بھیڑ بھاڑ کم نہ ہوئی اور اسی ازدحام میں تین آدمی کچل کر مر گئے۔ آپ نے اس روز سے اس طرح تقسیم کرنا بند کر دیا اور ان آدمیوں کے ہلاک ہونے سے آپ کو سخت رنج ہوا۔ آپ نے فرمایا میں نے دیکھا تھا کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں مبارک ہاتھوں سے یہ روپے غربا اور محتاجوں کو تقسیم فرماتے ہیں اس لیے میں نے اس کو لازم کر لیا تھا۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس سلسلہ میں ایسا نا گوار حادثہ پیش آئے گا۔ مولف کہتا ہے ۔ یہ ضڑوری نہیں کہ عارف کو تمام حوادث اور جزی واقعات معلوم ہو جایا کریں۔ چنانچہ کتب معرفت کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔