شیخ نورالدین رشی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیخ نورالدین رشی
Sheikh Noor-ud-din Wali.jpg
 

معلومات شخصیت
پیدائش 9 اپریل 1378  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قایموہ،  ضلع کولگام  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 مارچ 1439 (61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چرار شریف،  ضلع بڈگام  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیخ نور الدین رشی یا نندہ رِشی یا شیخ نورالعالم (پیدائش: 1377ء— وفات: 1440ء) علوم باطنیہ روحانیہ میں جموں و کشمیر کی ممتاز ترین روحانی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ شیخ نور الدین چودہویں صدی اور پندرہویں صدی کے جموں کشمیر کی ممتاز ترین روحانی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ شیخ نور الدین جموں کشمیر کے روحانی رِشیوں کے سلسلہ میں سرفہرست ہیں۔جموں کشمیر میں تبلیغ اسلام کے لیے بے مثال خدمات سر انجام دیں۔ اِنہی خدمات کی نسبت سے آپ کو شیخ العالم کہا جاتا ہے۔

سوانح[ترمیم]

سال پیدائش[ترمیم]

شیخ نور الدین کی پیدائش غالباً 779ھ مطابق 1377ء میں قایموہ میں ہوئی۔ محمد یوسف ٹینگ نے ’’برجِ نور‘‘ میں سال پیدائش 757ھ مطابق 1355ء لکھا ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم یوسف بخاری نے ’’کشمیری زبان و اَدب کی مختصر تاریخ‘‘ میں سال پیدائش 779ھ مطابق 1377ء لکھا ہے جبکہ جیا لال کول نے اپنی تصنیف للہ عارفہ میں سال پیدائش یہی لکھا ہے۔

خاندان[ترمیم]

شیخ نور الدین علمدارِ کشمیر کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ شیخ نور الدین کا خاندان جموں کشمیر کے علاقہ کشتواڑ سے تعلق رکھتا تھا۔ اِن کا خاندان کشتواڑ سے ہجرت کرکے قایموہ نامی ایک گاؤں میں آباد ہو گیا تھا جہاں شیخ نور الدین کی پیدائش ہوئی۔ شیخ نور الدین کے والد سید حسین سمنانی کے ہاتھوں پر مشرف بہ اِسلام ہوئے تھے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام ’’شیخ سالار‘‘ رکھا۔ والدہ ماجدہ کا نام ’’سدرہ ماں جی‘‘ تھا۔

شخصیت[ترمیم]

شیخ نور الدین کا زمانہ جو سلطان قطب الدین کا عہد تھا،  اِس دَور میں کشمیر میں ہر میدان میں ترقی کی۔ اِسی دور میں کشمیر میں اِس عہد میں دین اشاعت کے لیے بھی خاصی خدمات سر انجام دی گئیں اور یہی دور ہر حوالے سے ایک بہترین دور تھا۔ اِس دور کے حالات کو ڈاکٹر سید محمد یوسف بخاری نے گلستان کاشر و نثرو منتخبات کاشر شاعری میں لکھا ہے کہ:

  • ’’جس دور میں نور الدین رِشی نے آنکھ کھولی، وہ دَور سرزمین کشمیر میں اسلام کی آمد کا دور تھا۔ آپ کی پیدائش سے قبل بلبل شاہ اور حضرت سید حسین سمنانی جیسی نابغہ ٔ روزگار ہستیاں مخلوقِ خدا کی توجہ خالق حقیقی کی طرف مبذول کراچکی تھیں۔ لوگ اِسلام کی اعلیٰ و اَرفع تعلیمات سے متاثر ہوکر اِسلام قبول کر رہے تھے۔‘‘

محمد یوسف ٹینگ نے اپنی تصنیف ’’برجِ نور‘‘ میں لکھا ہے کہ:

  • ’’حضرت شیخ کی ہمہ جہت شخصیت روشنی کا ایک ایسا مینار ہے۔ جس سے کشمیریوں نے صدیوں سے کسبِ فیض حاصل کیا۔ وہ بیک وقت ایک عظیم رِشی، بالغ النظر، مفکر، بلند مرتبہ مبلغ، بلند قامت اور اِنقلابی شاعر تھے۔ اُن کی شخصیت نے ہماری تہذیب و ثقافت کو زِندہ کیا۔ حضرت شیخ کشمیریت کے اَولین علمبردار ہونے کے ناطے ایک ایسی درخشندہ اور تابندہ علامت بن کر اُبھرے، جس نے ہماری تہذیب کو ایک منفرد مزاج عطاء کیا۔ ایک ایسا مزاج اور رنگ جس کی بدولت گزشتہ چھ سات سو سال کے دوران ہمارے یہاں انسان کی عظمت اور انسانی اِقدار کا بول بالا ہے۔‘‘
  • مصنف تذکرہ اولیائے کشمیر نے لکھا ہے کہ یہ صاحب کرامت بزرگ تھے۔[1]

شاعری[ترمیم]

نعت گوئی[ترمیم]

کشمیری زبان میں نعت گوئی کی ابتدائی شاعری بھی شیخ نور الدین کی طرف سے ہی منسوب کی گئی ہے۔ ڈاکٹر نصرت نثار نے تصنیف ’’کشمیری نعت گوئی کی تاریخ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ: ’’اُنہوں نے اپنی شاعری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی ہے۔ اُن کا اِخلاص اور اُن کے ساتھ بے پناہ عقیدت کا اِظہار کیا ہے۔ اُن کی یہ عقیدت کبھی فریاد، کبھی معرفت اور کبھی درود بن کر اُن کے منہ سے نکلتی ہے۔‘‘

شیخ نور الدین کے شروکھ[ترمیم]

شیخ نور الدین نے اپنی شاعری کے لیے سنسکرت زبان کے شروکھ کا انتخاب کیا ہے۔ شروکھ سنسکرت زبان کے اشلوکوں کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ شیخ نور الدین کی شاعری میں موضوعات میں خوف خدا، فکرعقبیٰ، تقویٰ، سچائی، قناعت، ترکِ دنیا، صبر و رَضا، اِخلاق، تصوف، فلسفہ اور پندوموعظت شامل ہیں۔شیخ نور الدین کے شروکھ صحیح طور پر عملی زِندگی کا بے مثال نمونہ ہیں۔ جیسے کہ:

کریہ مانتن چلہ درنکم درن نفس دورندے
زہر کھیتھ تِمے آدرنیم اَہر کرن ہاکس تہ ہندہ

ترجمہ: زاہد اور خلوت نشین لوگ نفس امارہ کے حملوں کا کب مقابلہ کرسکتے ہیں؟ وہی لوگ زہر کھائیں جو ساگ اور ہند کھا کر زِندہ رہنا سیکھیں۔

شیخ نور الدین کے متعلق تذکرہ[ترمیم]

شیخ نور الدین کے متعلق مکمل سوانح عمری یا تذکرہ ’’رِیشی نامہ‘‘ ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں شیخ نور الدین رِشی اور اُن کے خلفاء کے علاوہ کشمیر کی برگزیدہ شخصیات کے حالات درج ہیں۔ رِیشی نامہ نثر میں لکھی گئی ہے جس کے مصنف خلیل بابا مرحوم تھے اور منظوم رِیشی نامہ کے مصنف کمال بابا مرحوم تھے۔ یہ دونوں صاحبانِ اہل قلم چرار شریف کے باشندے تھے۔ نثر اور منظوم یعنی دونوں شاہکار فارسی زبان میں ہیں لیکن اِن قیمتی تذکروں کا ابھی تک کوئی حصہ شائع نہیں ہوا۔

عبدالاحد آزادؔ نے اپنی تصنیف ’’کشمیری زبان اور شاعری‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’رِیشی نامہ ابتدا سے انتہا تک سنسکرت زبان کی تاریخی تصانیف کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ ہر واقعہ پر ایک افسانوی رنگ چھایا ہوا ہے۔ شیخ کے حالات اِس طرح لکھے گئے ہیں کہ ہر واقعہ ایک معجزہ یا کرامت معلوم ہوتی ہے۔ واقعات کی اصل شکل مشکل سے ہی ہاتھ آتی ہے۔

وفات[ترمیم]

شیخ نور الدین کی وفات 842ھ مطابق 1440ء میں چرار شریف میں 62 یا 63 کی عمر میں ہوئی۔ ہر سال آپ کی یاد میں عرس منایا جاتا ہے اور اس سال یہ عرس 23 اکتوبر 2022 کو منایا جائے گا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے کشمیر: صفحہ 106۔مطبوعہ جنوری 1960ء، سرینگر