صدی کا معاہدہ
صدی کا معاہدہ یا ڈونالڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ (عربی:صفقة القرن) یہ ایک تجویز اور منصوبہ ہے۔[1] جس کا مقصد اسرائیلی فلسطینی تنازع کو حل کرنا ہے۔ اس کو ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تیار کیا ہے۔[2] اس منصوبے میں فلسطین اور ہمسایہ عرب ممالک کے معاشی اور اقتصادی تعاون کے لیے عالمی سرمایہ کاری فنڈ کی تشکیل بھی شامل ہے۔ اس معاہدہ کے اعلان کی صبح سے ہی فلسطینیوں نے اپنے شدید غم وغصہ کے ساتھ صدی کے اس معاہدہ کے تمام شرائط وضوابط کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہوئے، احتجاج و مظاہرہ کرتے ہوئے سخت مذمت کی ہے۔
منصوبہ بندی
[ترمیم]امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ 2017ء ہی سے عرب اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مشرق وسطی میں امن منصوبہ بنا رہی تھے۔ جس منصوبہ کو باضابطہ سرکاری طور پر 2018ء کے اوائل میں پیش کیا گیا۔ متعدد بار اس کو مؤخر اور ملتوی کیا جا چکا ہے۔
فاکس نیوز کے مطابق امریکی امن منصوبہ کا دستاویز 175 سے 200 صفحہ پر مشتمل ہے۔ اس کے مضامین اکثر میڈیا اور متعلق فریقوں کی جانب سے عام ہوکر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔[3]
18 ماہ کی منصوبہ بندی کے بعد امریکی عہدے داروں نے چار عرب دار الحکومتوں کا دورہ کرنے کے بعد اس "امن کا معاہدہ" کو تیار کیا تھا۔ تاہم اس کو باضابطہ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔ ہاریتز اخبار کی پول سروے کے مطابق، 44 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے حق میں ہے، جب کہ 7 فیصد لوگ اس کو فلسطینیوں کے حق میں بھی مانتے ہیں۔[4]
تفصیلات
[ترمیم]اس معاہدہ کا پہلے باضابطہ سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا تھا، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ "اس معاہدہ میں اہم پیشرفت ہوئی ہے"۔[5] اسی طرح اردن کے وزیر خارجہ نے اس معاہدہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: «جب امریکی اس معاہدہ کو پیش کریں گے تو ہم اپنی رائے دیں گے»۔[6]
ان سب کے باوجود بہت سی اخباری رپورٹس ہیں جو اس معاہدہ سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس معاہدہ میں مغربی کنارہ اور غزہ پٹی میں فوج کے بغیر فلسطینی ریاست قائم کر کے اور ایک ہوائی اڈے اور فیکٹریوں کو بنانے کے لیے اسی طرح تجارتی اور زراعتی تبادلے کے لیے اضافی زمین دیکر جس میں فلسطینیوں کو رہنے کی اجازت نہ ہوگی، قضیہ فلسطین کو حل کرنا ہے۔ نیز زمین کے حجم اور قیمت پر اتفاق کیا جائے گا، اسی طرح مغربی کنارہ اور غزہ پٹی کے درمیان میں نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے ایک پل بھی تعمیر کیا جائے گا۔
اس معاہدہ کے اتفاق کے ایک سال بعد فلسطین میں جمہوری انتخابات ہوں گے اور ہر فلسطینی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا مجاز ہوگا۔ اور اسرائیل سمیت تمام فریقوں پر اس معاہدہ کو مسترد کرنے کی پابندی عائد ہوگی۔[7][8][9][10]
اب تک اسرائیل نے دو ملکی حل اور پناہ گزینوں کی واپسی پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ مغربی کنارہ پر آباد لوگوں کو وہاں سے نکالنا مشکل ہے۔
بحرین کانفرنس
[ترمیم]25 جون 2019ء کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن اور مراکش ممالک کے ایک گروپ نے منامہ میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور اسرائیل کے زیر اہتمام "امن برائے خوش حالی" کے عنوان سے "بحرین کانفرنس" میں شرکت کی تھی۔[11] اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے سنیئر مشیر جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ "امریکا، اسرائیلیوں فلسطینیوں اور تمام لوگوں کے لیے امن، خوش حالی اور ترقی دیکھنا چاہتا ہے"۔ مزید کہا کہ اس معاہدہ کے سیاسی پہلوؤں کا انکشاف وقت آنے پر کیا جائے گا۔[12]
معاہدہ کا اعلان
[ترمیم]28 جنوری بروز منگل 2020ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے دونوں وزراء بنیامین نیتن یاہو اور اس کے حریف بینی گانٹس کو دہائیوں پرانے تنازع کے حل اور پرامن معاہدہ کے لیے واشنگٹن آنے کی دعوت دی اور اس میں کسی فلسطینی ذمہ دار کو نہیں بلایا۔ جہاں انھوں نے "صدی کے معاہدہ" سے متعلق علاحدہ بات چیت کی۔ بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان میں امن کا منصوبہ جو صدی کا معاہدہ نام سے مشہور ہے، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی موجودگی میں اعلان کیا۔ جس میں اس بات کی تاکید کی کہ یہ منصوبہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے "حقیقت پسندانہ راستہ" پیش کرتا ہے۔[13]
اس منصوبہ کو اسرائیل کے سامنے پیش کی جانے والی انتہائی فراخ تجویز سمجھا جا رہا ہے اور اس میں محض علامتی فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہے جس کو کوئی بھی فلسطینی رہنما تسلیم نہیں کر سکتا۔[14]
اہم تصورات
[ترمیم]ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدہ کے اقتصادی حصہ کو 22 جون 2019ء میں شائع کیا تھا، جس میں 40 سے 96 صفحہ تک مالی نقشے اور معاشی تخمینوں سے بھرا ہوا ہے۔ جس کے معاشی حصے کو جیرڈ کشنر نے 25-26 جون کو بحرین کانفرنس میں پیش کیا تھا اور اس معاہدہ کا معاشی حصہ 28 جنوری 2020ء کو پیش کیا گیا ہے۔[15]
اقتصاد
[ترمیم]اس منصوبے میں 179 کاروباری اور بنیادی تعمیراتی منصوبوں کے لیے 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی ہے، جس کا انتظام کثیر الجہتی ترقیاتی مصرف سے کیا جائے گا، جس میں سرمایہ کارانہ شفافیت، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور حالات کو یقینی بنانے کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی مالی اعانت زیادہ تر عرب ممالک اور مالدار نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے ذریعہ کی جائے گی۔ فنڈنگ کو 26 بلین ڈالر قرض میں، 13.5 بلین گرانٹ میں اور 11 بلین ڈالر نجی سرمایہ کاری میں تقسیم کیا گیا ہے۔[15][16]
50 بلین ڈالر کا زیادہ تر حصہ مغربی کنارہ اور غزہ میں خرچ ہوگا، اس کے علاوہ مصر میں 9 بلین ڈالر، اردن میں 7 بلین ڈالر اور لبنان میں 6.3 بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔[17] اس پیشکش میں متعدد مخصوص منصوبے بھی شامل ہیں، جن میں مغربی کنارہ اور غزہ کو ایک شاہراہ اور ممکنہ طور پر ایک ریلوے سے ملانے والی ٹریول کراسنگ کی تعمیر، سرحدی گذرگاہوں کی بے حد توسیع، پاور اسٹیشنوں کی ترقی، سیاحت میں اضافے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور فلسطینی اسپتالوں اور کلینکوں کی تعمیر نو اور ترقی شامل ہیں۔ زمین کی ملکیت کو رجسٹر کرنے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی صفائی میں بہتری لانے کے لیے ایک ڈیٹا بیس کا قیام اور دنیا بھر کی پہلی 150 یونیورسٹیوں میں ایک فلسطینی یونیورسٹی قائم کرنا بھی شامل ہے۔[18][19]
فلسطین کی ریاست
[ترمیم]ٹرمپ کے اس منصوبے نے یروشلم کے مشرقی مضافاتی علاقوں میں دار الحکومت کے ساتھ ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے میں مشرقی یروشلم کے ساتھ مل کر ایک ریاست فلسطین کو اپنا دار الحکومت تشکیل دینا شامل ہوگا، جو فلسطینیوں پر منحصر ہوگا کہ وہ خود مختار ریاست بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے میں فلسطینیوں کو ایک فلسطینی ریاست کی پیش کش ہوگی، جو اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے سے چار سال قبل تک قائم نہیں ہوگی۔
ریاست فلسطین، بغیر کسی مسلح افواج کے (غیر مسلح افواج کے) کے بنے گی اور اسی طرح قائم رہے گی۔[20]
یروشلم اور مقدس مقامات کی حیثیت
[ترمیم]اس منصوبے میں اسرائیل کے تمام "غیر منقسم یروشلم" کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور یروشلم (قدس) کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کیا گیا ہے۔[21] فلسطینیوں کے لیے مغربی کنارہ میں اسرائیلی دیوار کے پیچھے مشرقی یروشلم کے بیرونی حصوں میں محلے ہوں گے، جن میں "کفر عقب" اور "شعفاظ خیمے" کا علاقہ بھی شامل ہوگا۔[22] مارٹن انڈک نے یروشلم کے فلسطینی حصے کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ یہ " صرف مشرقی یروشلم کا کچھ حصہ ہے"۔
اس منصوبے میں مصلی قبلہ سمیت مسجد اقصی کو بھی اسرائیلی حکومت کے تحت رکھا گیا ہے۔ اس منصوبے نے حرم قدس سے فلسطینیوں کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے اور اس کی جگہ اردن کی نگرانی میں رکھا ہے۔[23] اس منصوبے کے تحت اسرائیل کو مقدس مقامات کی حفاظت اور عبادت کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔[24]
فلسطینیوں کا موقف
[ترمیم]اس معاہدہ کے اعلان کی صبح سے ہی فلسطینیوں نے اپنے شدید غم وغصہ کے ساتھ صدی کے اس معاہدہ کے تمام شرائط وضوابط کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہوئے، احتجاج و مظاہرہ کرتے ہوئے سخت مذمت کی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ "قدس خرید وفروخت کے لیے نہیں ہے، ہمارے حقوق خرید وفروخت اور بھاؤ تاؤ کے لیے نہیں ہیں، سازش کا یہ معاہدہ ہرگز کامیاب نہیں ہوگا، ہماری قوم اسے کبھی قبول نہیں کرے گی"۔[25]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Writer staff۔ "'Deal of the Century': 10 Things You Need to Know"۔ palestinechronicle۔ 08 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 يوليو 2018
- ↑ writer staff۔ "Poll: 44% of Israelis believe 'Deal of the Century' is biased toward Israel"۔ Middle East Monitor۔ 27 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 يوليو 2018
- ↑ "خطة السلام الأميركية"۔ www.aljazeera.net۔ 20 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جون 2019
- ↑ Chemi Shalev۔ "Israelis Support Equal Rights for Reform and Conservative Jews – but Want U.S. Jews to Keep Their Mouths Shut"۔ haaretz۔ 27 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی 2018
- ↑ ترامب يتحدث عن تقدم في «صفقة القرن»، المصري اليوم، نشر في 27 يونيو 2018، دخل في 7 يوليو 2018. آرکائیو شدہ 2018-09-19 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أول تعليق من وزير الخارجية الأردني حول "صفقة القرن"، سبوتنك عربي، نشر في 4 يوليو 208، دخل في 7 يوليو 2018. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ arabic.sputniknews.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ "صحيفة إسرائيلية تنشر بنودا مسربة من صفقة القرن"۔ RT Arabic۔ 08 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2020
- ↑ غزة_تحت_القصف ومغردون يتحدثون عن "صفقة القرن"، بي بي سي العربية، نشر في 18 فبراير 2018، دخل في 7 يوليو 2018. آرکائیو شدہ 2018-02-21 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ صفقة القرن۔۔ حرب أعصاب!، الأهرام، نشر في 5 يوليو 2018، دخل في 7 يوليو 2018. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ahram.org.eg (Error: unknown archive URL)
- ↑ هذہ هي تفاصيل صفقة القرن التي كثر الحديث عنها مؤخرًا۔۔ إعادة تقسيم للمنطقة ! آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mini-facts.com (Error: unknown archive URL)، المختصر المفيد، نشر في 27 نوفمبر 2017، دخل في 7 يوليو 2018.
- ↑ "إسرائيل تعلن مشاركتها في مؤتمر البحرين وسط مقاطعة فلسطينية"۔ فرانس 24 / France 24 (بزبان عربی)۔ 2019-06-17۔ 18 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2019
- ↑ "أبرز ما جاء في كلمة كوشنر في أول أيام "ورشة البحرين""۔ CNN Arabic (بزبان عربی)۔ 2019-06-25۔ 25 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جون 2019
- ↑ عرب 48 (2020-01-28)۔ "دونالد ترامب يعلن بنود "صفقة القرن""۔ موقع عرب 48 (بزبان عربی)۔ 28 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جنوری 2020 النص "-نتنياهو--يوم-تاريخي-لإسرائيلي-" تم تجاهله (معاونت)
- ↑ "صفقة القرن۔۔ ما يقترحہ المصطلح وما يخفيہ الواقع | متراس" (بزبان عربی)۔ 2018-07-29۔ 28 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جنوری 2020
- ^ ا ب "Trump releases long-awaited Mid-East peace plan"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ جنوری 28, 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 28, 2020
- ↑ "Exclusive: White House's Kushner unveils economic portion of Middle.۔۔"۔ Reuters۔ جون 23, 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 23, 2019
- ↑ "White House unveils economic portion of Middle East peace plan"۔ Jewish Telegraphic Agency۔ جون 22, 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 24, 2019
- ↑ AFP and TOI staff۔ "A look at some of the details of the economic aspect of the Trump peace plan"۔ The Times of Israel۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 24, 2019
- ↑ Omri Nahmias (جون 23, 2019)۔ "White House releases detailed economic plan for Palestinian people"۔ The Jerusalem Post۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 24, 2019
- ↑ WhiteHouse 2020, p. 22
- ↑ "Trump peace plan: Palestinian state, Israeli control of settlements"۔ The Jerusalem Post | JPost.com۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 28, 2020
- ↑ "Trump Outlines Mideast Peace Plan That Strongly Favors Israel"۔ نیو یارک ٹائمز
- ↑ "How Trump's Peace Plan Will Change the Middle East"۔ Time
- ↑ "President Donald J. Trump's Vision for Peace, Prosperity, and a Brighter Future for Israel and the Palestinian People"۔ The White House۔ 28 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2020
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 02 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2020