مندرجات کا رخ کریں

عبدالغفور سیالکوٹی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محققِ اہلسنت

مولانا عبد الغفور سیالکوٹی

معلومات شخصیت
پیدائشی نام عبد الغفور
پیدائش 1365ھ، بمطابق 1946ء
صادق آباد رحیم یار خان
وفات 2010ء
لاہور
قومیت پاکستانی
عرفیت ابو ریحان مولانا عبد الغفور سیالکوٹی
مذہب اسلام
رشتے دار حافظ عبیداللّٰه (بیٹا)
عملی زندگی
مادر علمی
پیشہ شیخ الحدیث، مدرس، محقق، مصنف، خطیب
کارہائے نمایاں
  • تصانیف: سبائی فتنہ، دفاع سیدنا معاویہ
باب ادب

مولانا عبد الغفور سیالکوٹی ایک پاکستانی سنی عالم دین، خطیب، محقق، مصنف اور شیخ الحدیث تھے۔ آپ نے چوالیس سال علمی، دینی، تدریسی، تقریری، تصنیفی اور تحقیقی خدمات سر انجام دیں۔

نام

[ترمیم]

آپ کا نام عبد الغفور، کنیت ابو ریحان اور لقب محققِ اہلسنت تھا۔ آپ کے والد کا نام عبد الواحد تھا۔

ولادت

[ترمیم]

آپ کی ولادت سنہ 1365ھ بمطابق 1946ء میں بمقام صادق آباد ضلع رحیم یار خان ہوئی، اس زمانہ میں آپ کے والد گرامی بسلسلہ روزگار صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں مقیم تھے۔[1]

وطن

[ترمیم]

آپ کا آبائی علاقہ موضع لوہار کے، تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ تھا۔[2]

تعلیم

[ترمیم]

آپ نے اپنی ابتدائی دینی تعلیم اور حفظ قرآن صادق آباد شہر کے مضافات میں واقع مدرسہ خدام القرآن موضع میرے شاہ میں حاصل کی۔ یہ مدرسہ شہری آبادی سے کئی میل دور خالص دیہاتی آبادی میں تھا۔ مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد عثمان (فاضل دارالعلوم دیوبند وتلمیذ مولانا سید حسین احمد مدنی) کے اخلاص اور انتھک شبانہ روز محنت اور طلبہ خصوصاً چھوٹی عمر کے طلبہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق ان کی خاص مجتہدانہ مہارت ومساعی کی وجہ سے اس کی شہرت کراچی تا پشاور صرف اندرون ملک ہی نہیں، بلکہ بیرون ملک تک پہنچی ہوئی تھی۔ مکہ ومدینہ کے دو طالب علم بھی آپ کے ہم درس تھے۔ آپ کے دور میں مہتم صاحب کی دعوت پر اور کچھ مدرسہ کی شہرت کے پیش نظر آئے دن عالم اسلام کی مایہ ناز اور عظیم شخصیات اس مدرسہ میں تشریف لاتی رہتی تھیں۔

درس نظامی کی تکمیل

[ترمیم]

آپ کی دینی تعلیم کی تکمیل سنہ 1386ھ بمطابق 1966ء میں جامعہ علوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے ہوئی۔

تخصص فی الحدیث

[ترمیم]

درس نظامی کی تکمیل کے بعد کراچی میں علامہ سید محمد یوسف بنوری کی زیر نگرانی تخصص فی الحدیث مکمل کیا۔

اساتذہ

[ترمیم]

اساتذہ کرام جن سے پڑھا:

امامت وخطابت

[ترمیم]

آپ اپریل 1969ء میں اسلام آباد تشریف لے آئے۔ کچھ عرصہ وہاں ایک مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد ستمبر 1972ء میں تقدیر آپ کو پھر کراچی لے گئی۔ وہاں حاجی کیمپ کی مسجد میں آپ امام وخطیب مقرر ہوئے۔ کچھ ماہ بعد جولائی 1973ء میں اپنے آبائی وطن سیالکوٹ تشریف لے گئے اور سیالکوٹ شہر کے محلہ نیکا پورہ کی ایک مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔

فریضہ حج کی ادائیگی

[ترمیم]

1974ء میں آپ بذریعہ بحری جہاز حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے شیخ مولانا محمد یوسف بنوری کی معیت میں حج ادا کیا۔ آپ اپنے شیخ کے ساتھ تقریبا ساڑھے تین ماہ حرمین شریفین میں رہے اسی دوران وہیں آپ نے نماز تراویح میں قرآن کریم سنایا۔

تدریس

[ترمیم]

مولانا محمد عبداللّٰه (خطیب مرکزی جامع مسجد اسلام آباد) کی دعوت پر دوبارہ اسلام آباد لوٹ آئے اور نیول کالونی اسلام آباد کی مسجد امیر حمزہ میں (جو اس وقت صرف ایک خالی پلاٹ کی شکل میں تھی) امام وخطیب کے فرائض سنبھالے۔ ساتھ ہی مدرسہ عربیہ اسلامیہ (جو اُس وقت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس فور کے ایک سرکاری کوارٹر میں قائم تھا اور بعد میں جامعہ العلوم الاسلامیۃ الفریدیہ کے نام سے اپنی حالیہ جگہ پر واقع ہے) جو اس زمانے میں اسلام آباد کی واحد دینی درسگاہ تھی، میں تدریس بھی شروع کی۔ (2005/2004ء) میں ایک بار پھر سیالکوٹ کے پرانے ساتھیوں کے اصرار پر آپ مولانا محمد علی کاندھلوی کی معروف دینی درسگاہ جامعہ شہابیہ سیالکوٹ میں بطور صدر مدرس، شیخ الحدیث اور خطیب تشریف لے گئے۔ چونکہ آپ کے اہل خانہ اور اہل و عیال اسلام آباد میں ہی مقیم تھے اور آپ کی صحت میں بھی کچھ اونچ نیچ رہنے لگی تھی، اس لیے اہل خانہ کے اصرار پر تقریباً تین سال سیالکوٹ میں گزارنے کے بعد ایک بار پھر واپس اسلام آباد آگئے اور راولپنڈی کی معروف درسگاہ جامعہ فاروقیہ، قائد اعظم کالونی دھمیال کیمپ میں بطور شیخ الحدیث آپ کا تقرر ہوا۔[4]

بیعت

[ترمیم]

آپ کا بیعت کا تعلق بشیر احمد پسروری (خلیفہ مجاز مولانا احمد علی لاہوری) سے تھا۔

تصانیف

[ترمیم]

سفر آخرت

[ترمیم]

آپ وفاق المدارس العربیہ کی نصابی کمیٹی کے رکن تھے۔ اگست 2010ء میں وفاق المدارس کے تحت ہونے والے درجہ عالمیہ کے امتحانی پیپر چیک کرنے کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپس اسلام آباد آتے ہوئے جہاز موسم کی خرابی کے سبب لاہور اترا۔ وہیں لاؤنج میں اچانک طبیعت ناساز ہوئی اور بے ہوش ہو گئے، ہوائی اڈا انتظامیہ نے قریبی ہسپتال پہنچایا۔ تقریباً چوبیس گھنٹے اسی حالت میں رہنے کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب مورخہ 22 شعبان 1431ھ بمطابق 3 اگست 2010ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔[5]

نماز جنازہ

[ترمیم]

آپ کی نماز جنازه بروز بدھ 22 شعبان بمطابق 4 اگست آپ کی وصیت کے مطابق قاضی عبد الرشید (ناظم وفاق المدارس العربیہ صوبہ پنجاب) کی زیر امامت ادا کی گئی۔

تدفین

[ترمیم]

دار العلوم فاروقیہ، قائد اعظم کالونی دھمیال کیمپ راولپنڈی کے قریب واقع قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. دفاع سیدنا معاویہ، از عبدالغفور سیالکوٹی، صفحہ 25، ناشر ابو ریحان اکیڈمی اسلام آباد 2018ء
  2. دفاع سیدنا معاویہ، از عبدالغفور سیالکوٹی، صفحہ 25، ناشر ابو ریحان اکیڈمی اسلام آباد 2018ء
  3. دفاع سیدنا معاویہ، از عبدالغفور سیالکوٹی، صفحہ 25، ناشر ابو ریحان اکیڈمی اسلام آباد 2018ء
  4. دفاع سیدنا معاویہ، از عبدالغفور سیالکوٹی، صفحہ 26 ،ناشر ابو ریحان اکیڈمی اسلام آباد 2018ء
  5. دفاع سیدنا معاویہ، از عبدالغفور سیالکوٹی، صفحہ 27، ناشر ابو ریحان اکیڈمی اسلام آباد 2018ء