عبداللہ بن یحییٰ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

[1]عبد اللہ بن یحییٰ (پیدائش 116 ہجری - وفات 205 ہجری ) عبد اللہ بن یحییٰ جو طالب الحق کے نام سے مشہور ہوئے ، یہ یحییٰ بن زید شہید کے اکلوتے بیٹے تھے، جنہیں قبیلہ بنو امیہ کے حواریوں نے شامی افواج کے ساتھ مل کر شہید کیا تھا ۔

عبد اللہ طالب الحق خانوادہ رسول کریم ہونے کے ناطے زھد و تقویٰ میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ آپ ایک خوبصورت جوان تھے، جبکہ آپ کی سیرت کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ آپ نے تمام زندگی بنو امیہ کے خوف سے منتشر ہو نے والے سادات آل رسول کریم کے افراد کے حقوق اور تحفظ کی ذمہ داری لی اور تمام زندگی آل رسول سادات کے حق کے لیے آواز اٹھا ئی ، آپ قرآن کی دلیل سے بات کر تے ۔[2]

قرآن مجید میں سورہ انفال کی آیت نمبر 41 میں خداوند عالم نے خمس کی ادائگی کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقان ترجمہ= اور یہ جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لیے ہے اگر تمھارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔

آپ نے باقاعدہ اس معاملے کو اٹھا نے کے لیے ایک گروہ تشکیل دیا اور عوام الناس اور بنو امیہ کے حکمرانوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کے رسول کے قرابتداروں کا جو حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، وہ اداکیا جائے ، آپ کی امداد کے لیے افغانستان ، ایران سے بہت سے قبیلوں کے سرداروں نے آپ کوسادات کی خدمت کے لیے امداد بھیجی ۔[3]

شجرہ مبارک

خروج اور شہادت

آپ نے مہدی عباسی کے دور میں خلافت کے لیے آواز اٹھائی ، 183 ہجری میں امام موسیٰ کاظم کو زہر دے کر شہید کیا گیا تو آپ نے افغانستان کے 2000 سے زائد افراد سے بیت لی اور خروج کر نا چاہا لیکن آپ کے اکابرین کی وقت کی نزاکت کی بدولت آپ کو خروج سے روک دیا [5]بعد ازاں 203 ہجری میں مامون الرشید عباسی کی حکومت آئی اور اس نے امام علیؑ بن موسیؑ کاظم کو شہر طوس میں شہید کیا تو آپ سے رہا نہ گیا اس وقت آپ کی عمر 87 سال تھی ،[6] لیکن جرات اور بہادری کی آپ نے ایک الگ مثال قائم کی اور پھر ایک بار خروج کے لیے کوشش شروع کر دی، اس وقت کے بہت سے اکابرین نے آپ کی مالی طور پر امداد کی اور ہزاروں مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیت کی ، اس بات کا علم جب معتصم بلا عباسی کو ہوا تو اس نے سن 205 ہجری ماہ رجب میں 500 کے قریب بغدادی فوج کو ابو حاثمی بن قیس کی کمانڈ میں قندھار بھیج دیا جہاں پر سرتوڑ لڑائی ہوئی ، آپ کی عمر اس وقت 87 سال تھی، لیکن آپ اہل بیت کے دشمنوں پر تلوار لے کر لپکے اور بے شمار غالیوں کو جہنم واصل کیا ، ابو حاثمی بن قیس نے چونکہ اچانک حملہ کیا تھا اور اس کی خبر قندھار میں کسی کو نہیں تھی،اور جنگ کی باقاعدہ تیاری مکمل نہیں تھی، عبد اللہ بن یحییٰ بن زید کو ایک لشکر نے گھیر لیا اور ایک نیزہ آپ کے سینہ میں اتار دیا ، جس سے آپ شہید ہو گئے ۔ بعد ازاں قندھار کے پٹھانوں نے لشکر میں ایسا کہرام مچایا کہ عباسی لشکر قندھار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا ۔[7]

  1. ابن الاثیر الکامل فی التاریخ۔ اصول کافی 
  2. ابن جریر طبری۔ أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری 
  3. ابن قتیبہ دینوری۔ بو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ الکوفی دینور 
  4. ابن عساکر۔ ابوالقاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ بن عساکر الدمشقی 
  5. ابو فرحی فروحی خیری۔ خروج الدولۃ اقوام العالم 
  6. موقوف الشہادت۔ خضری البانی 
  7. ابوبکر الجانی مخنی۔ التاریخ فی القندھار