عبد الغنی مجددی دہلوی
عبد الغنی مجددی دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1235ھ / 1820ء دہلی، ہندوستان |
وفات | 1296ھ / 1879ء مدینہ منورہ، سعودی عرب |
فقہی مسلک | حنفی |
والد | ابوسعید رامپوری |
عملی زندگی | |
پیشہ | فقیہ |
تحریک | نقشبندی مجددیہ |
درستی - ترمیم |
عبد الغنی مجددی دہلوی (1235ھ - 1296ھ / 1820ء - 1879ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور حنفی عالم، محدث اور شیخ طریقت تھے۔ وہ شاہ احمد سعید مجددی کے چھوٹے بھائی اور محمد اسحاق دہلوی کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ ان کے معروف تلامذہ میں رشید احمد گنگوہی، محمد قاسم نانوتوی اور دیگر نامور علماء و مشائخ شامل ہیں۔[1]
ولادت اور تعلیم
[ترمیم]عبد الغنی مجددی کی ولادت شعبان 1235ھ کو دہلی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم میں قرآن مجید حفظ کیا اور پھر اپنے والد مولانا ابوسعید رامپوری، مولانا مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین دہلوی، شاہ اسحاق محدث دہلوی، شیخ عابد سندھی اور شیخ ابو زاہد رومی سے مختلف علوم حاصل کیے۔ ان کی تعلیم کا مرکز دہلی تھا، جہاں ہزاروں طلباء نے ان سے علم حدیث حاصل کیا۔ جب شاہ اسحاق محدث دہلوی نے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی تو عبد الغنی مجددی ان کے جانشین مقرر ہوئے اور درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔[حوالہ درکار]
نسب
[ترمیم]ان کا نسب شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے جا ملتا ہے، جس کا سلسلہ نسب یوں ہے: "عبد الغنی بن ابوسعید رامپوری بن صفی القدر بن عزیز القدر بن محمد عیسی بن سیف الدین بن محمد معصوم بن شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی"۔[حوالہ درکار]
بیعت و خلافت
[ترمیم]عبد الغنی مجددی اپنے والد مولانا ابوسعید رامپوری سے بیعت ہوئے اور انہی سے خلافت حاصل کی۔ ان کا روحانی سلسلہ اس طرح ہے:
- عبد الغنی مجددی دہلوی (م: 1296ھ)
- ابو سعید رامپوری (م: 1250ھ)
- غلام علی دہلوی نقشبندی (م: 1240ھ)
- مرزا مظہر جان جاناں (م: 1195ھ)
- سید نور محمد بدایونی (م: 1135ھ)
- سیف الدین فاروقی (م: 1098ھ)
- محمد معصوم (م: 1079ھ)
- احمد سرہندی مجدد الف ثانی (م: 1034ھ)
عبد الغنی مجددی علمی اور روحانی حیثیت سے اپنے وقت کے اہم شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے مشہور تلامذہ میں محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور رفیع الدین دیوبندی شامل ہیں۔[2]
ہجرت اور وفات
[ترمیم]1857ء میں برطانوی حکومت کے استقرار پر عبد الغنی مجددی نے ہندوستان چھوڑ دیا اور 1273ھ میں مدینہ منورہ ہجرت کر لی۔ وہاں انہوں نے بقیہ زندگی درس و تدریس اور ارشاد و تربیت میں گزاری اور 6 محرم الحرام 1296ھ کو وفات پائی۔ انھیں جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا۔[3]
تصانیف
[ترمیم]عبد الغنی مجددی کی علمی خدمات میں مختلف تصانیف شامل ہیں، جن میں سے «إنجاح الحاجة» اور سنن ابن ماجہ کا حاشیہ خاص طور پر معروف ہیں۔[4]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ رحمن علی (1961ء)۔ "مولوی عبد الغنی دہلوی"۔ تذکرہ علمائے ہند۔ ترجمہ بقلم محمد ایوب قادری۔ کراچی: پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی۔ صفحہ: 310
- ↑ امام اہل السنت حضرت علامہ عبد الشکور فاروقی لکھنوی، از پروفیسر محمد عبد الحی فاروقی، صفحہ 175
- ↑ صحبتے با اہل دل، سید ابو الحسن علی ندوی، صفحہ 29
- ↑ خير الدين زرکلی (مئی 2002ء)۔ "المجددي"۔ كتاب الأعلام (بزبان عربی)۔ 4 (پندرھواں ایڈیشن)۔ دار العلم للملائين۔ صفحہ: 33