عبد الغنی مجددی دہلوی
حضرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(1235ھ-1296ھ) ہندوستان کے مشہور محدث و شیخ طریقت تھے
شاہ عبد الغنی مجددی، شاہ احمد سعید مجددی کے چھوٹے بھائی اور شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ممتاز ترین تلامذہ اور اساتذہ حدیث میں ہیں، آپ کے تلامذہ میں مولانا رشید احمد گنگوھی، مولانا محمد قاسم نانوتوی وغیرہ اور دوسرے نامور علماء وشیوخ حدیث ہیں
ولادت وتعلیم
شعبان 1235ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے, پہلے قرآن مجید حفظ کیا، پھر اپنے والد مولانا ابوسعید رامپوری اور مولانا مخصوص اللہ بن شاہ رفیع الدین دہلوی، شاہ اسحاق محدث دہلوی، شیخ عابد سندھی اور شیخ ابو زاہد رومی سے علوم حاصل کر کے درس حدیث میں مشغول ہو گئے، شاہ اسحاق محدث دہلوی جب ہجرت کر کے مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے تو آپ ان کے جانشین ہوئے، دہلی علم حدیث کا مرکز تھا، ہزاروں علماء آپ سے علوم حدیث حاصل کیا[1]
آپ کا سلسلہ نسب حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی سے جا ملتا ہے، سلسلہ نسب اس طرح ہے
"عبد الغنی بن مولانا ابوسعید رامپوری بن صفی القدر بن عزیز القدر بن محمد عیسی بن سیف الدین بن محمد معصوم بن شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی"[2]
بیعت وخلافت
آپ اپنے والد حضرت مولانا شاہ ابوسعید مجددی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور آپ ہی سے اجازت بیعت وخلافت حاصل ہوئی، آپ کا سلسلہ بیعت اس طرح ہے
- مولانا شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی(م1296ھ)
- مولانا شاہ ابو سعید مجددی رامپوری(م1250ھ)
- مولانا غلام علی دہلوی نقشبندی(م1240ھ)
- مرزا مظہر جان جاناں شہید(شہادت 1195ھ)
- حضرت سید نور محمد بدایونی(م1135ھ)
- حضرت سیف الدین فاروقی(م1098ھ)
- حضرت محمد معصوم(م1079ھ)
- شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی(م1034ھ)
حضرت مولانا شاہ عبد الغنی مجددی علمی وروحانی دونوں اعتبار سے مرجع ہیں، ایک صرف مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بانی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے علم حدیث حاصل کیں، دوسری طرف حضرت شاہ رفیع الدین دیوبند مہتمم دارالعلوم دیوبند آپ کے خلیفہ ہیں، دوسرے آپ کے خلیفہ حضرت شاہ ابو احمد مجددی بھوپالی مشہور ومعروف ہیں، جو حضرت مولانا یعقوب مجددی بھوپالی کے والد ہیں[3]
ہجرت
حضرت شاہ عبد الغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ حکومت انگریزی کے استقرار پر 1273ھ(1857ء) میں ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور مدینہ طیبہ میں قیام اختیار کیا، جہاں ساری عمر گزاری، اور درس و ارشاد اور تعلیم وتربیت میں مشغول رہ کر 6 محرم الحرام 1296ھ میں وفات پائی اور بقیع میں آسودہ خاک ہوئے[4]